أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

سَتَجِدُوۡنَ اٰخَرِيۡنَ يُرِيۡدُوۡنَ اَنۡ يَّاۡمَنُوۡكُمۡ وَيَاۡمَنُوۡا قَوۡمَهُمۡ ؕ كُلَّمَا رُدُّوۡۤا اِلَى الۡفِتۡنَةِ اُرۡكِسُوۡا فِيۡهَا‌‌ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ يَعۡتَزِلُوۡكُمۡ وَيُلۡقُوۡۤا اِلَيۡكُمُ السَّلَمَ وَيَكُفُّوۡۤا اَيۡدِيَهُمۡ فَخُذُوۡهُمۡ وَاقۡتُلُوۡهُمۡ حَيۡثُ ثَقِفۡتُمُوۡهُمۡ‌ ؕ وَاُولٰٓئِكُمۡ جَعَلۡنَا لَـكُمۡ عَلَيۡهِمۡ سُلۡطٰنًا مُّبِيۡنًا  ۞

ترجمہ:

عنقریب تم ایک اور قسم کے منافقوں کو پاؤ گے جو یہ چاہتے ہیں کہ تمہارے ساتھ بھی امن سے رہیں اور اپنی قوم سے بھی مامون رہیں اور جب بھی (ان کی قوم کی طرف سے) فتنہ کی آگ بھڑکائی جائے تو وہ اس میں کود پڑیں ‘ پس اگر وہ تم سے الگ نہ ہوں اور تمہیں صلح کا پیغام نہ بھجیں اور (لڑائی سے) اپنے ہاتھ نہ روکیں تو تم ان کو پکڑ لو اور ان کو جہاں پاؤ قتل کردو ‘ یہ وہ لوگ ہیں جن پر (ہاتھ اٹھانے کے لیے) ہم نے تمہیں کھلا اختیار دیا ہے ؏

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد : عنقریب تم ایک اور قسم کے منافقوں کو پاؤ گے جو یہ چاہتے ہیں کہ تمہارے ساتھ بھی امن سے رہیں اور اپنی قوم سے بھی مامون رہیں اور جب بھی (ان کی قوم کی طرف سے) فتنہ کی آگ بھڑکائی جائے تو وہ اس میں کود پڑیں ‘۔ (النساء : ٩١) 

اس آیت میں منافقین کی ایک اور قسم بیان کی گئی ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب کے سامنے اسلام کو ظاہر کرتے تھے تاکہ وہ قتل کیے جانے ‘ گرفتار ہونے اور اموال کے چھن جانے سے محفوظ رہیں اور درحقیقت وہ کافر تھے اور کافروں کے ساتھ تھے اور جب بھی کافر ان کو شرک اور بت پرستی کی پرستی کی طرف بلاتے تو یہ غیر اللہ کی عبادت کرتے تھے ‘ ان کے مصداق میں اختلاف ہے ‘ ایک قول یہ ہے کہ وہ مکہ میں رہتے تھے اور بطور تقیہ اسلام لے آئے تھے ‘ تاکہ اپنے آپ کو اور اپنے رشتہ داروں کو قتل کیے جانے سے محفوظ رکھیں اور جب کفار ان کو بت پرستی کی طرف بلاتے تو وہ چلے جاتے تھے ‘ اس تقدیر پر فتنہ سے مراد شرک اور بت پرستی ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ تہامہ کا ایک قبیلہ تھا ‘ انہوں نے کہا تھا اے اللہ کے نبی ہم آپ سے قتال کریں گے نہ ہماری قوم آپ سے قتال کرے گی اور ان کا ارادہ یہ تھا کہ وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی امان میں رہیں اور اپنی قوم سے بھی ‘ اس کے باوجود جب بھی مشرکین فتنہ اور فساد کی آگ بھڑکاتے تو وہ اس میں کود پڑتے تھے۔ 

اللہ تعالیٰ کا ارشاد : پس اگر وہ تم سے الگ نہ ہوں اور تمہیں صلح کا پیغام نہ بھجیں اور (لڑائی سے) اپنے ہاتھ نہ روکیں تو تم ان کو پکڑ لو اور ان کو جہاں پاؤ قتل کردو ‘ یہ وہ لوگ ہیں جن پر (ہاتھ اٹھانے کے لیے) ہم نے تمہیں کھلا اختیار دیا ہے۔ (النساء : ٩١) 

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ اگر یہ منافق اپنی روش پر قائم رہیں تو ان سے کھلا جہاد کرو۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء آیت نمبر 91