أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا كُوۡنُوۡا قَوَّامِيۡنَ بِالۡقِسۡطِ شُهَدَآءَ لِلّٰهِ وَلَوۡ عَلٰٓى اَنۡفُسِكُمۡ اَوِ الۡوَالِدَيۡنِ وَالۡاَقۡرَبِيۡنَ‌ ؕ اِنۡ يَّكُنۡ غَنِيًّا اَوۡ فَقِيۡرًا فَاللّٰهُ اَوۡلٰى بِهِمَا‌ فَلَا تَتَّبِعُوا الۡهَوٰٓى اَنۡ تَعۡدِلُوۡا ‌ۚ وَاِنۡ تَلۡوٗۤا اَوۡ تُعۡرِضُوۡا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرًا‏ ۞

ترجمہ:

اے ایمان والو ! انصاف پر مضبوطی سے قائم رہنے والے اور اللہ کی لیے گواہی دینے والے بن جاؤ خواہ (یہ گواہی) تمہارے خلاف ہو یا تمہارے ماں باپ اور قرابت داروں کے ‘ (فریق معاملہ) خواہ امیر ہو یا غریب ‘ اللہ ان کا (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے، لہذا تم خواہش کی پیروی کرکے عدل سے روگردانی نہ کرو ‘ اگر تم نے گواہی میں ہیر پھیر کیا یا اعراض کیا تو اللہ تمہارے سب کاموں کی خبر رکھنے والا ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے ایمان والو ! انصاف پر مضبوطی سے قائم رہنے والے اور اللہ کی لیے گواہی دینے والے بن جاؤ خواہ (یہ گواہی) تمہارے خلاف ہو یا تمہارے ماں باپ اور قرابت داروں کے ‘۔ (النساء : ١٣٥) 

ربط آیات : 

اس سے پہلی آیتوں میں عورتوں ‘ یتیم لڑکیوں اور کمزور بچوں کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا تھا ‘ اور عورتوں کو یہ ہدایت دی تھی کہ اگر انہیں اپنے شوہروں سے بےرغبتی اور علیحدگی کا خطرہ ہو تو وہ اپنے بعض حقوق ترک کرکے صلح کرلیں ‘ اور شوہروں کو حکم دیا تھا کہ وہ بیویوں کے ساتھ عدل اور انصاف کریں ‘ غرض یہ کہ اس پورے رکوع میں عائلی اور خانگی معاملات میں عدل و انصاف کرنے کا حکم دیا تھا اور اس آیت میں عمومی طور پر عدل اور انصاف کرنے کا حکم دیا ہے۔ 

دوسری وجہ یہ ہے کہ گذشتہ آیات میں حقوق العباد کو ادا کرنے کا حکم دیا تھا اور اس آیت میں اللہ کے لیے گواہی دینے کا حکم فرما کر حقوق اللہ کو ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ 

تیسری وجہ یہ ہے کہ اس سے متصل پہلی آیت میں محض دنیا کو طلب کرنے کی مذمت کی تھی اور دنیا اور آخرت دونوں کو طلب کرنے کی ترغیب دی تھی۔ اس آیت میں بھی اسی نہج پر فرمایا ہے کہ تم اللہ کے لیے انصاف پر قائم رہو اور اللہ کے لیے گواہی دو ‘ خلاصہ یہ ہے کہ تمہارا ہر عمل اللہ کے لیے ہو حتی کہ ہر حرکت اور ہر سکون ‘ ہر قول اور ہر فعل اللہ کے لیے ہو ‘ اور یہی انسانیت کی معراج ہے ‘ ورنہ محض پیٹ بھرنے کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقہ سے کھا لینا اور جس سے چاہے قضاء شہوت کرلینا ہی مقصود ہو تو پھر انسان میں اور جانوروں اور درندوں میں کیا فرق رہے گا ! 

اپنے خلاف گواہی دینے کا معنی : 

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام مکلفین کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ عدل اور انصاف کو قائم کرنے میں اور جو روظلم سے احتراز کرنے میں بہت مضبوطی اور بہت مستعدی سے قائم رہیں ‘ خواہ یہ شہادت خود انکے اپنے خلاف ہو یا ان کے آباء کے خلاف ہو یا ان کے قرابت داروں کے اپنے خلاف شہادت دینے کی دو تفسیریں ہیں ‘ ایک یہ ہے کہ وہ اپنے خلاف کسی کے حق کا اقرار کرلیں ‘ اور دوسری تفسیر یہ ہے کہ حق کو ثابت کرنیکے لیے اگر انہیں کسی طاقت ور ظالم یا کسی مقتدر شخصیت کے خلاف بھی گواہی دینی پڑے تو اس سے دریغ نہ کریں خواہ اس کے نتیجے میں انہیں اپنے ‘ اپنے والدین یا اپنے اقرباء پر مظالم اور اذیتیں برداشت کرنی پڑیں اور کئی متوقع فوائد کو ہاتھ سے کھو کر نقصان اٹھانا پڑے ‘ واضح رہے کہ والدین کے خلاف شہادت دینا ان کے ساتھ نیکی کرنیکے منافی نہیں ہے بلکہ یہ بھی ان کے ساتھ نیکی ہے۔ اس کی تفصیل ہم انشاء اللہ پھر کریں گے۔ 

عدل کو گواہی پر مقدم کرنے کی وجوہ :

اس آیت میں عدل و انصاف کے قائم کرنے کو ادائے شہادت پر مقدم فرمایا ہے ‘ کیونکہ شہادت کے ذریعہ دوسرے شخص سے فیصلہ کرایا جاتا ہے ‘ اور عدل و انصاف اسے خود کرنے کا حکم دیا ہے ‘ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ پہلے انسان اپنے نفس کے ساتھ عدل و انصاف کرے اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ تمام برائیاں اور برے کام چھوڑ دے اور نیکیوں کو اختیار کرے اور جب تک کوئی انساں خود نیک نہیں ہوجاتا ‘ اس کی کسی کے حق میں شہادت قبول نہیں ہوسکتی کیونکہ فرائض کے تارک اور مرتکب کبیرہ کی شہادت شرعا مقبول نہیں ہے ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے عدل اور انصاف قائم کرنے کا حکم دیا پھر شہادت دینے کا حکم دیا ‘ تیسری وجہ یہ ہے کہ عدل و انصاف کرکے انسان اپنے نفس سے ضرر کو دور کرتا ہے اور شہادت کے ذریعہ دوسروں سے ضرر کو دور کرتا ہے اور اپنے نفس سے ضرر کو دور کرنا دوسروں سے ضرر کو دور کرنے پر مقدم ہے اور چوتھی وجہ یہ ہے کہ عدل کرنا فعل ہے اور شہادت دینا قول ہے اور فعل قول سے قوی ہے ‘ اور اللہ تعالیٰ نے اقوی کو مقدم فرمایا ہے۔ 

کسی فریق کی رعایت کی وجہ سے گواہی نہ دینے کی ممانعت : 

پھر فرمایا (فریق معاملہ) خواہ امیر ہو یا غریب ‘ اس کا معنی یہ ہے کہ کسی امیر کی امارت کی وجہ سے رعایت کرکے اس کے خلاف شہادت دینے کو ترک نہ کرو ‘ اور نہ کسی غریب کی غربت کی وجہ سے اس کے خلاف شہادت کو ترک کرو بلکہ انکے معاملہ کو اللہ پر چھوڑ دو ‘ تمہاری بہ نسبت اللہ ان کا زیادہ خیر خواہ ہے اور اس کو علم ہے کہ ان کی اچھائی اور بھلائی کس چیز میں ہے۔ 

اس کے بعد فرمایا لہذا تم خواہش کی پیروی کرکے حق سے روگردانی نہ کرو ‘ انسان عصبیت کی وجہ سے یا عداوت کی وجہ سے خواہش کی پیروی کرتا ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : 

(آیت) ” ولا ایجرمنکم شنان قوم علی ان لا تعدلوا اعدلوا ھو اقرب للتقوی “۔ (المائدہ : ٨) 

ترجمہ : کسی قوم کی عداوت تمہیں عدل نہ کرنے پر برانگیختہ نہ کرے ‘ تم عدل کرتے رہو وہ تقوی کے زیادہ قریب ہے۔ 

پھر فرمایا اگر تم نے (گواہی میں) ہیر پھیر کیا یا اعراض کیا تو اللہ تمہارے سب کاموں کی خبر رکھنے والا ہے۔ 

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” ولا تلوا “ اس کا مادہ ” لی “ ہے اس کا معنی ہے کلام میں تحریف کرنا اور عمدا “ جھوٹ بولنا اور اعراض کا معنی ہے شہادت کو چھپانا اور اس کو ترک کرنا ‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ 

(آیت) ” ولا تکتموا الشہادۃ ومن یکتمھا فانہ اثم قلبہ “۔ (البقرہ : ٢٨٣) 

ترجمہ : اور شہادت کو نہ چھپاؤ اور جو شہادت کو چھپائے اس کا دل گنہ گار ہے۔ 

امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت زید بن خالد جہنی بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا میں تم کو بہترین گواہوں کی خبر نہ دوں ! بہترین گواہ وہ ہے جو گواہی کو طلب کرنے سے پہلے گواہی کو پیش کر دے۔ (صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : ١٧١٩) 

اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ ایک انسان کا کسی شخص پر کوئی حق نکلتاہو اور اس کو اپنے حق کا علم نہ ہو اور کسی دوسرے شخص کو اس کے اس حق کا علم ہو تو وہ آکر اس کے پاس اس کے حق میں شہادت دے ‘ اور اس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ یہاں مجازا سرعت مراد ہے یعنی جو شخص سوال کرنے کے فورا بعد بغیر کسی توقف کے شہادت دے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء آیت نمبر 135