أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّ الَّذِيۡنَ يَكۡفُرُوۡنَ بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ وَيُرِيۡدُوۡنَ اَنۡ يُّفَرِّقُوۡا بَيۡنَ اللّٰهِ وَرُسُلِهٖ وَيَقُوۡلُوۡنَ نُؤۡمِنُ بِبَعۡضٍ وَّنَكۡفُرُ بِبَعۡضٍۙ وَّيُرِيۡدُوۡنَ اَنۡ يَّتَّخِذُوۡا بَيۡنَ ذٰ لِكَ سَبِيۡلًا ۞

ترجمہ:

بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان فرق کرنا چاہتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ہم بعض پر ایمان لاتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں ‘ اور وہ چاہتے ہیں کہ ایمان اور کفر کے درمیان کوئی راستہ بنالیں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان فرق کرنا چاہتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ہم بعض پر ایمان لاتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں ‘ اور وہ چاہتے ہیں کہ ایمان اور کفر کے درمیان کوئی راستہ بنالیں۔ (النساء : ١٥٠) 

اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے منافقوں کا رد فرمایا تھا ‘ اس آیت میں یہود و نصاری کا رد فرما رہا ہے ‘ یہود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر اور تورات پر ایمان لائے تھے اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کرتے تھے اور قرآن مجید کے کلام اللہ اور آسمانی کتاب ہونے کا انکار کرتے تھے ‘ اسی طرح عیسائی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور انجیل پر ایمان لائے اور آپ کی نبوت اور قرآن مجید کا انکار کیا ‘ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کا رد فرمایا کیونکہ کسی بھی نبی کو نبی ماننے کی دلیل معجزہ ہے اور جب معجزہ کی دلالت کی وجہ سے یہودیوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو نبی مان لیا ‘ اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو نبی مان لیا تو سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی تو معجزات پیش کیے اگر معجزہ کی دلالت مقبول نہیں ہے تو پھر ہر نبی کا انکار کرو اور اگر معجزہ کی دلالت مسلم ہے تو سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی مانو ‘ غرض یہ کہ بعض نبیوں اور انکی کتابوں کو ماننا اور بعض کا انکار کرنا اس کی کوئی معقول وجہ اور صحیح دلیل نہیں ہے ‘ یہود و نصاری کی ہٹ دھرمی کا رد کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی سزا کا بیان فرمایا :

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء آیت نمبر 150