أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

لٰـكِنِ الرّٰسِخُوۡنَ فِى الۡعِلۡمِ مِنۡهُمۡ وَالۡمُؤۡمِنُوۡنَ يُـؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡكَ وَمَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِكَ‌ وَالۡمُقِيۡمِيۡنَ الصَّلٰوةَ‌ وَالۡمُؤۡتُوۡنَ الزَّكٰوةَ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ اُولٰٓئِكَ سَنُؤۡتِيۡهِمۡ اَجۡرًا عَظِيۡمًا  ۞

ترجمہ:

لیکن ان میں سے جو پختہ علم والے ہیں اور ایمان والے ہیں ‘ وہ اس (وحی) پر ایمان لاتے ہیں جو آپ پر نازل کی گئی ہے اور اس پر جو آپ سے پہلے نازل کی گئی ہے اور نماز قائم کرنے والے اور زکوۃ ادا کرنے والے اور اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لانے والے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کو ہم عنقریب اجر عظیم عطا فرمائیں گے ؏

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لیکن ان میں سے جو پختہ علم والے ہیں اور ایمان والے ہیں ‘ وہ اس (وحی) پر ایمان لاتے ہیں جو آپ پر نازل کی گئی ہے اور اس پر جو آپ سے پہلے نازل کی گئی ہے اور نماز قائم کرنے والے اور زکوۃ ادا کرنے والے اور اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لانے والے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کو ہم عنقریب اجر عظیم عطا فرمائیں گے۔ (النساء : ١٦٢) 

اس آیت کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے جن یہودیوں کا ذکر فرمایا تھا کہ وہ آپ سے کہتے ہیں کہ آسمان سے کتاب نازل کی جائے اور ان کی دیگر مذموم صفات بیان فرمائی تھیں ‘ ان یہودیوں سے اللہ تعالیٰ نے ان علماء یہود کا استثناء فرمایا جو علم میں راسخ ہیں اور جو آپ پر نازل کی ہوئی وحی پر ایمان لاتے ہیں اور آپ سے پہلے نازل کی ہوئی کتابوں پر بھی ایمان لاتے ہیں انہوں نے سابقہ آسمانی کتابوں میں آپ کے متعلق جو بشارات پڑھی ہیں ان کے اطمینان کے لیے وہ کافی ہیں اور وہ آپ کی تصدیق کے لیے آپ سے کوئی اور معجزہ طلب نہیں کرتے ‘ اور یہ لوگ اسلام کے تمام احکام پر عمل کرتے ہیں، نماز اور زکوۃ کا خصوصیت کے ساتھ ذکر فرمایا کیونکہ جسمانی عبادت میں پانچ وقت کی نماز میں مشقت ہوتی ہے اور مالی عبادت میں زکوۃ کا ادا کرنا دشوار ہوتا ہے اور نماز اور زکوۃ ایسی بدنی اور مالی عبادتیں ہیں کہ ان کے ادا کرنے سے انسان باقی مدنی اور مالی عبادات بھی کرنے لگتا ہے نیز تمام عبادتوں کا خلاصہ خالق کی تعظیم اور مخلوق پر شفقت ہے اور نماز سے خالق کی تعظیم ہوتی ہے اور زکوۃ ادا کرنے سے مخلوق خدا پر شفقت ہوتی ہے ‘ اس کے بعد قیامت پر ایمان کا تذکرہ فرمایا کیونکہ تمام نیک اعمال کی تحریک اور گناہوں سے اجتناب کی توفیق قیامت پر ایمان رکھنے کی وجہ سے ہوتی ہے ‘ نیز قرآن مجید کا اسلوب ہے کہ برے لوگوں کے بعد اچھے لوگوں کا اور عذاب کے بعد ثواب کا ذکر فرماتا ہے کیونکہ ہر شے کی معرفت اس کی ضد سے ہوتی ہے۔ اس لیے پہلی آیتوں میں یہودی کافروں اور ان کے عذاب کا ذکر فرمایا تھا اور اس آیت میں یہودی مومنوں اور انکے ثواب کا ذکر فرمایا ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء آیت نمبر 162