حدیث نمبر :499

روایت ہے حضرت جابر سے فرماتے ہیں کہ ہم ایک سفرمیں گئے تو ہم میں سے ایک شخص کو پتھر لگ گیا جس نے اس کے سرمیں زخم کردیا پھر اسے احتلام ہوگیا تو اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ کیا تم میرے لیئے تیمم کی اجازت پاتے ہو وہ بولے تیرے لیئے تیمم کی اجازت نہیں پاتے ۱؎ تو تَو پانی پر قادر ہے اس نے غسل کرلیا پس مر گیا۲؎ جب ہم حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ کو اس کی خبر دی گئی فرمایا انہیں خداغارت کرے اسے انہوں نے ماردیا۳؎ جب جانتے نہ تھے پوچھ کیوں نہ لیا بے علمی کا علاج پوچھ لینا ہے۴؎ اسے یہ کافی تھا کہ تیمم کرلیتا اوراپنے زخم پرکپڑا لپیٹ لیتاپھر اس پر ہاتھ پھیرلیتا اورباقی جسم دھو ڈالتا۵؎ (ابوداؤد)اور ابن ماجہ نے حضرت عطاء ابن رباح سے انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا۔

شرح

۱؎ مگر وہ سمجھے کہ تیمم بیمار کے لئے نہیں صرف پانی نہ ملنے کی حالت میں ہے کیونکہ رب فرماتا ہے:”فَلَمْ تَجِدُوۡا مَآءً فَتَیَمَّمُوۡا”یہ ہے اجتہاد کی غلطی اورخطاء۔

۲؎ یہ ہے صحابہ کا تقویٰ اورخوف خدا کہ جان دیدی مگر نماز چھوڑنا گوارا نہ کیا۔

۳؎ یعنی یہ لوگ اس کی موت کا سبب بن گئے نہ ایسا فتویٰ دیتے نہ وہ غسل کرکے وفات پاتا اور یہ بددعا اظہار ناراضی کے لئے ہے۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر خطا اجتہادی کی بنا پر قتل بھی واقع ہوجائے تب بھی مجتہدپرقصاص،یادیت،بلکہ گناہ بھی نہیں۔لہذا حضرت علی و امیرمعاویہ وعائشہ صدیقہ کی جنگوں میں جو مسلمانوں کا کشت وخون ہوا اس کی پکڑ کسی پر نہیں۔

۴؎ یعنی انہیں چاہیئے تھا کہ اسے خود حکم نہ دیتے بلکہ میرے پاس آنے تک صبر کرتے مجھ سے مسئلہ پوچھتے۔

۵؎ امام اعظم کے نزدیک وَیُعَصِّبُ کا واؤ بمعنی اَوہے۔مطلب یہ ہے کہ اگر وہ غسل بالکل نہ کرسکتا تھاتب تو تیمم کرلیتا اوراگرصرف سر پر پانی ڈالنامضرتھا تو زخم پر پٹی باندھ کرمسح کرلیتا باقی جسم دھولیتا۔امام شافعی اس واؤ کو جمع کے لئے مانتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ایسی حالت میں تیمم بھی کرلے اورغیرمجروح حصے کا غسل بھی،لیکن امام اعظم کا قول بہت قوی ہے کیونکہ تیمم غسل کا نائب ہے اور نائب و اصل کبھی جمع نہیں ہوسکتے۔نیزمحدثین کے نزدیک یہ حدیث ضعیف بھی ہے،دیکھومرقاۃ۔خیال رہے کہ مشکوک پانی کی صورت میں غسل وتیمم دونوں کرتے ہیں اس کی وجہ ہماری اپنی بے علمی ہے کہ یہ پانی مطہرہے یا نہیں،وہاں اصل ونائب کا اجتماع نہیں،وہاں یا غسل ہی طہارت ہے یاتیمم ہی۔