أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰهِ الَّذِىۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوۡرَ ؕ ثُمَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بِرَبِّهِمۡ يَعۡدِلُوۡنَ ۞

ترجمہ:

تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا فرمایا اور تاریکیوں اور نور کو پیدا فرمایا : پھر (بھی) کفار اپنے رب کے ساتھ (دوسروں کو) برابر قرار دیتے ہیں۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا فرمایا اور تاریکیوں اور نور کو پیدا فرمایا : پھر (بھی) کفار اپنے رب کے ساتھ (دوسروں کو) برابر قرار دیتے ہیں۔ (الانعام : ١) 

حمد ‘ مدح اور شکر کا فرق : 

حمد ‘ مدح اور شکر میں فرق ہے مدح ‘ حمد سے عام ہے۔ حمد ‘ کسی شخص کی اختیاری خوبی اور کمال پر تعریف اور توصیف کو کہتے ہیں خواہ وہ نعمت ملنے کی وجہ سے کی جائے یا بغیر نعمت کے۔ اور مدح کسی چیز کے حسن اور خوبی پر کی جانے والی تعریف کو کہتے ہیں۔ خواہ وہ اس کی اختیاری خوبی ہو یا غیر اختیاری۔ اگر آپ کسی عالم کے علم وفضل کی تعریف کریں گے تو یہ حمد بھی ہے اور مدح بھی ہے اور اگر آپ کسی پھول کی خوشبو کی تعریف کریں گے تو یہ مدح ہے ‘ حمد نہیں ہے۔ حمد اور شکر میں بھی فرق ہے۔ حمد عام ہے خواہ نعمت کی وجہ سے تعریف کی جائے یا بغیر نعمت کے۔ اگر آپ کسی ایسے شخص کے علم کی تعریف کریں جو آپ کو جانتا نہیں ہے اور آپ کا اس سے کوئی تعلق بھی نہیں ہے تو یہ حمد ہے ‘ شکر نہیں ہے۔ اور اگر کسی شخص نے آپ کو کچھ مال دیا ہو اور آپ اس کی سخاوت کی تعریف کریں تو یہ شکر بھی ہے اور حمد بھی ہے۔ 

تمام تعریفوں کا اللہ کے ساتھ مختص ہونا : 

ہم نے الحمد للہ کا ترجمہ کیا ہے تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں کیونکہ الحمد میں الف لام جنس کا ہے اور للہ میں لام اختصاص کا ہے یا استحقاق کا ہے اور اس کا معنی ہے حمد کی ماہیت اور حقیقت اللہ عزوجل کے ساتھ مختص ہے اور اس کا خلاصہ یہ ہے تمام تعریفوں کا مستحق اللہ تعالیٰ ہے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ منعم کا شکر واجب ہے مثلا تعلیم کی وجہ سے استاذ کا شکر واجب ہے۔ عدل کی وجہ سے منصف کا شکر واجب ہے ‘ احسان کی وجہ سے محسن کا شکر واجب ہے اور پالنے پوسنے کی وجہ سے ماں باپ کا شکر واجب ہے۔ قرآن مجید میں ہے : 

(آیت) ” ان اشکرلی ولوالدیک “۔ (لقمان : ١٤) 

ترجمہ : میرا شکر ادا کر اور اپنے ماں باپ کا۔ 

(آیت) ” ھل جزآء الاحسان الا الاحسان “۔ (الرحمن : ٦٠) 

ترجمہ : نیکی کا صلہ نیکی کے سوا اور کیا ہے ؟ 

اور امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث متوفی ٢٧٥ ھ روایت کرتے ہیں :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا ‘ وہ اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا (امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے) (سنن ابو داؤد ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٤٨١١‘ سنن ترمذی ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ١٩٦١ ء مسند احمد ‘ ج ٢‘ ص ٢٥٨‘ ج ٣‘ ص ٣٢‘ ج ٤ ص ٢٧٨‘ طبع قدیم) 

یہ برحق ہے کہ جب کوئی انسان کے ساتھ کوئی نیکی کرے یا اس کو کوئی نعمت پہنچائے تو اس کا شکر ادا کرنا واجب ہے ‘ لیکن درحقیقت تمام نعمتیں اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے اور تمام احسانات اسی کے ہیں۔ اسی لیے حقیقت میں صرف وہی مشکور ہے اور باقی سب مجازا مشکور ہیں۔ کیا آپ یہ نہیں دیکھتے کہ ایک انسان دوسرے انسان پر اس وقت احسان کرتا ہے جب اس کے دل میں اس احسان کا محرک اور داعیہ پیدا ہوتا ہے اور یہ محرک اور داعیہ اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے تو اصل احسان اسی کا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان پر بلاغرض احسان کرتا ہے اور بندہ کسی غرض سے احسان کرتا ہے اور یہ غرض یا حصول نفع ہوتی ہے یا دفع ضرر۔ کسی ضرورت مند پر احسان کرکے محسن کا دل خوش اور مطمئن ہوتا ہے یا وہ اس پر احسان کرکے اس کے کسی سابقہ احسان کا بدلہ چکاتا ہے یا اخروی ثواب کے لیے احسان کرتا ہے اور یہ حصول نفع ہے یا اس ضرورت مند کی ضرورت کو دیکھ کر اس کے دل میں رقت پیدا ہوتی ہے اور وہ اس رقت کے ازالہ کے لیے اس پر احسان کرتا ہے اور یہ دفع ضرر ہے تو انسان انسان پر کسی نہ کسی غرض سے احسان کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ بلا غرض احسان کرتا ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ بلاواسطہ احسان کرتا اور انسان بالواسطہ احسان کرتا ہے۔ 

مثلا ایک انسان کسی بھوکے شخص کو کھانا کھلا کر احسان کرتا ہے۔ اگر اس انسان کے پاس طعام خریدنے کے لیے پیسے نہ ہوتے یا پیسے تو ہوتے لیکن بازار میں طعام دستیاب نہ ہوتا تو وہ اس کو طعام کیسے کھلاتا ؟ پھر یہ بھی سوچئے کہ یہ طعام کس کا پیدا کیا ہوا ہے ! پھر اگر وہ انسان طعام فراہم کرلیتا لیکن وہ بھوکا شخص کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہوتا جس کی وجہ سے وہ کھانا نہ کھا سکتا تو وہ اس کو کیسے کھانا کھلاتا ؟ غرض انسان جب کسی انسان پر احسان کرتا ہے اور اس کو فیض پہنچاتا ہے تو اس تک اس احسان اور فیض پہنچنے میں بیسیوں واسطے ہوتے ہیں اور ہر واسطہ اللہ کے فیض اور اس کے احسان پر ختم ہوتا ہے۔ نتیجہ یہی نکلا کہ جو شخص کسی پر انعام اور احسان کرتا ہے وہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہی کا انعام ہے اور اسی کا احسان ہے۔ لہذا تمام احسانات پر شکر اور تمام کمالات اور محاسن پر ستائش اور تعریف اللہ ہی کے لیے ہے اور وہی اس کا مستحق ہے اور مخلوق میں جس کی خوبی پر حمد کی جائے اور جس کے احسان کا شکر ادا کیا جائے ‘ وہ سب مجاز ہے۔ حقیقت میں وہی مشکور ہے اور وہی محمود ہے۔ 

عالم کبیر کی تخلیق سے اللہ کے وجود اور اس کی وحدانیت پر استدلال : 

اللہ تعالیٰ نے فرمایا جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا فرمایا اور تاریکیوں اور نور کو پیدا فرمایا اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی ستون کے اور بغیر کسی کجی کے آسمان کو بنایا اور آسمانوں میں سورج اور چاند کو رکھا اور اس کو ستاروں سے مزین کیا اور ہوا کے دوش پر بادلوں کو رکھا ‘ زمین کا فرش بچھایا ‘ اس میں پہاڑوں کو نصب کیا اور ان میں کشادہ راستے رکھے اور اس میں سمندروں اور دریاؤں کو رواں دواں کیا اور پتھروں سے چشمے نکالے۔ ان تمام چیزوں میں اس کی وحدانیت اور اس کی عظیم قدرت پر دلالت ہے ‘ کیونکہ اس کائنات کا پورا نظام طرز واحد پر چل رہا ہے اور اس نظام کی وحدت یہ بتاتی ہے کہ اس کا ناظم بھی واحد ہے اور وہی اللہ واحد قہار ہے جو ہر چیز کا خالق ہے اور وہی عبادت کا مستحق ہے ‘ اس نے تاریکیوں اور نور کو پیدا کیا۔ آسمان اور زمین کے پیدا کرنے کے بعد تاریکی اور نور کے پیدا کرنے کا ذکر کیا ‘ کیونکہ آسمان اور زمین جواہر اور اعیان ہیں اور تاریکی اور نور معانی اور اعراض ہیں۔ 

امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا اللہ نے مٹی (زمین) کو ہفتہ کے دن پیدا کیا اور اتوار کے دن اس میں پہاڑ پیدا کیے اور پیر کے دن درخت پیدا کیے اور منگل کے دن مکروہ چیزوں کو پیدا کیا۔ (مسلم کے علاوہ دوسری روایات میں التقن کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں معدنیات) اور بدھ کے دن نور کو پیدا کیا اور جمعرات کے دن اس میں مویشیوں اور جانوروں کو پھیلا دیا اور مخلوق کے آخر میں جمعہ کے دن عصر کے بعد جمعہ کی آخری ساعت میں آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا۔ (صحیح مسلم ‘ المنافقین ‘ ٢٧‘ (٢٧٨٩) ٦٩٢٠‘ مسند احمد ‘ ج ٣ رقم الحدیث : ٨٣٤٩‘ طبع دارالفکر ‘ مسند احمد ‘ ج ٢‘ ص ٣٢٧‘ طبع قدیم) 

کفار کی احسان فراموشی : 

یہ آیت کفار کی شقاوت اور قباحت پر دلالت کرتی ہے ‘ کیونکہ اس آیت کا اس آیت کا معنی یہ ہے کہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ آسمانوں اور زمینوں کو اللہ نے پیدا کیا ہے اور اس کے پیدا کرنے کے دلائل اور نشانیاں سب پر ظاہر اور واضح ہیں اور اس کی عطاؤں اور انعامات سے کائنات کا ہر فرد فیض پا رہا ہے اور فائدہ اٹھارہا ہے اور کوئی شخص بھی اس کے کرم سے محروم نہیں ہے۔ پھر ان تمام احسانات کے باوجود یہ کفار یہ کفار بےجان بتوں کو اپنے رب کے برابر قرار دیتے ہیں۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی شخص کسی کو ملامت کرتے ہوئے کہے میں نے تم کو اتنا مال دیا ‘ اتنی عزت دی ‘ تم پر اتنے احسان کیے ‘ پھر بھی تم مجھے گالیاں دیتے ہو اور برا کہتے ہو اللہ تعالیٰ کا شریک بنانے سے، اس کو ایسی ہی اذیت ہوتی ہے۔ 

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے ابن آدم نے میری تکذیب کی اور اس کے لیے یہ جائز نہ تھا اور اس نے مجھے گالی دی اور اس کے لیے یہ جائز نہ تھا۔ اس نے جو میری تکذیب کی وہ اس کا یہ فاسد گمان ہے کہ میں اس کو دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں ہوں اور اس نے جو مجھے گالی دی ‘ وہ اس کا یہ قول ہے کہ میرا بیٹا ہے ‘ سو میں اس سے پاک ہوں کہ میں کسی کو بیوی یا بیٹا بناؤں۔ (صحیح البخاری ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث ٤٤٨٢‘ سنن النسائی ج ٤‘ رقم الحدیث : ٢٠٧٧‘ مسند احمد ‘ ج ٢‘ ص ٣٥١‘ طبع قدیم)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 6 الأنعام آیت نمبر 1