قُلْ لَّاۤ اَقُوۡلُ لَـكُمۡ عِنۡدِىۡ خَزَآئِنُ اللّٰهِ وَلَاۤ اَعۡلَمُ الۡغَيۡبَ وَلَاۤ اَقُوۡلُ لَـكُمۡ اِنِّىۡ مَلَكٌ ۚ اِنۡ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يُوۡحٰٓى اِلَىَّ ؕ قُلۡ هَلۡ يَسۡتَوِى الۡاَعۡمٰى وَالۡبَصِيۡرُ ؕ اَفَلَا تَتَفَكَّرُوۡنَ۞- سورۃ نمبر 6 الأنعام آیت نمبر 50
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قُلْ لَّاۤ اَقُوۡلُ لَـكُمۡ عِنۡدِىۡ خَزَآئِنُ اللّٰهِ وَلَاۤ اَعۡلَمُ الۡغَيۡبَ وَلَاۤ اَقُوۡلُ لَـكُمۡ اِنِّىۡ مَلَكٌ ۚ اِنۡ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يُوۡحٰٓى اِلَىَّ ؕ قُلۡ هَلۡ يَسۡتَوِى الۡاَعۡمٰى وَالۡبَصِيۡرُ ؕ اَفَلَا تَتَفَكَّرُوۡنَ۞
ترجمہ:
آپ کہیے کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں ازخود غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں ‘ میں صرف اسی چیز کی پیروی کرتا ہوں جس کی میری طرف وحی کی جاتی ہے ‘ آپ کہیے کیا اندھا اور دیکھنے والا برابر ہے، کیا تم غور نہیں کرتے۔ ؏
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آپ کہیے کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں ازخود غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں ‘ میں صرف اسی چیز کی پیروی کرتا ہوں جس کی میری طرف وحی کی جاتی ہے ‘ آپ کہیے کیا اندھا اور دیکھنے والا برابر ہے، کیا تم غور نہیں کرتے۔ (الانعام : ٥٠)
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قدرت ‘ علم غیب اور فرشتہ ہونے کی نفی
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ آپ اپنی نبوت کے منکروں سے کہئے کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میں خدا ہوں جس کی ملک میں آسمانوں اور زمینوں کے خزانے ہیں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں از خود ایسے غیب کو جانتا ہوں جن غیوبات کو اللہ تعالیٰ کے سوا از خود کوئی نہیں جانتا حتی کہ تم میرے دعوی نبوت کی تکذیب کرو ‘ کیونکہ خدا وہی ہوسکتا ہے جس کی ملکیت میں کائنات کی ہر چیز ہو اور جس کے علم سے کوئی چیز مخفی نہ ہو ‘ یعنی جس کا علم اور اس کی قدرت کامل ہو خدا وہی ہوسکتا ہے اور نہ میں نے تم سے یہ کہا ہے کہ میں فرشتہ ہوں ‘ کیونکہ میں تم کو دکھائی دیتا ہوں اور فرشتہ عام انسانوں کو دکھائی نہیں دیتا۔ میں نے تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو پیغام سنایا ہے یہ وہی ہے جس کی میری طرف وحی کی گئی تھی۔ میں صرف وحی الہی کی پیروی کرتا ہوں ‘ میں نے جو دعوی نبوت کیا ہے ‘ اس پر میں نے اللہ کی طرف سے قوی اور مستحکم دلیلیں پیش کی ہیں۔ یہ کوئی نیا دعوی نہیں ہے نہ عقل کے خلاف ہے۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کہئے کیا وہ لوگ جو حق کو اور دلائل کو دیکھنے سے اندھے ہیں ‘ وہ اور وہ لوگ جو دلائل کو دیکھ کر حق کو اعتراف کرلیتے ہیں ‘ دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟ کیا تم لوگ میرے دعوی کی سچائی اور اپنی تکذیب کے فساد پر غور نہیں کرتے ؟
امام فخرالدین محمد بن ضیاء الدین عمر رازی متوفی ٦٠٦ لکھتے ہیں :
اس آیت کے تین جملے دراصل مشرکین کے تین سوالوں کے جواب ہیں :
(١) مشرکین یہ کہتے تھے کہ اگر آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں تو آپ اللہ سے ہمارے لیے دنیا کے منافع اور اچھائیاں طلب کریں اور یہ کہ اللہ ہمارے لیے سعادتوں کے دروازے کھول دے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا آپ ان سے کہئے کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے ‘ ملک عطا کرتا ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے ‘ اور جس کو چاہتا ہے ذلت دیتا ہے۔ خیر اسی کے ہاتھ میں ہے ‘ میرے ہاتھ میں نہیں ہے۔ (خزانہ کا معنی ہے ایسی حفاظت کی جگہ جہاں لوگوں کے ہاتھ نہ پہنچ سکیں)
(٢) مشرکین یہ کہتے تھے کہ اگر آپ درحقیقت رسول ہیں تو آپ ہمیں یہ بتائیں کہ مستقبل میں کیا فائدے ہوں گے اور کیا نقصانات ہوں گے ؟ تاکہ ہم فوائد حاصل کرنے کی تیاری کریں اور نقصانات سے محفوظ رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا آپ ان سے کہئے کہ میں (ازخود) غیب کو نہیں جانتا تو تم مجھ سے ان امور کا کیسے مطالبہ کرتے ہو ؟
(٣) مشرکین یہ کہتے تھے کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا بھی کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا ہے اور شادی کرتا ہے اور لوگوں کے ساتھ رہتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا آپ ان سے کہئے کہ میں فرشتوں میں سے نہیں ہوں۔
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قدرت اور علم غیب کی نفی کا محمل :
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان تین امور کی نفی کرائی۔ اس نفی کرانے میں کیا حکمت ہے ؟ اس کے متعلق حسب ذیل اقوال ہیں :
(الف) اس سے مراد یہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی طرف سے اللہ کے سامنے تواضع اور خضوع کا اظہار کریں ‘ تاکہ لوگ آپ کے متعلق وہ اعتقاد نہ کرلیں جو حضرت مسیح (علیہ السلام) کے متعلق کیا گیا تھا۔
(ب) کفار مکہ آپ سے بہت زبردست معجزوں کے اظہار کا مطالبہ کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے ہم آپ پر ہرگز ایمان نہیں لائیں گے حتی کہ آپ ہمارے لیے زمین سے کوئی چشمہ جاری کردیں یا آپ کے لیے کھجوروں اور انگوروں کا کوئی باغ ہو ‘ پھر آپ اس کے درمیان سے کوئی دریا جاری کردیں یا جیسا کہ آپ کہتے ہیں آپ آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہمارے اوپر گرا دیں یا آپ اللہ اور فرشتوں کو ہمارے سامنے بےحجاب لے آئیں یا آپ کا سونے کا گھر ہو یا آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور ہم آپ کے چڑھنے پر بھی ایمان نہیں لائیں گے ‘ حتی کہ آپ ہم پر ایک کتاب نازل کریں جسے ہم پڑھیں۔ آپ کہئے میرا رب سبحان ہے۔ میں تو صرف بشر رسول ہوں (بنی اسرائیل : ٩٣۔ ٩٠) یعنی صرف رسالت اور نبوت کا دعوی دار ہوں اور جن امور کو تم طلب کر رہے ہو ‘ ان کو اللہ کی قدرت کے بغیر حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ سو اس کلام سے مقصود یہ ہے کہ جن معجزات کا تم مطالبہ کر رہے ہو ان کو حاصل کرنے کے لیے میرے پاس مستقل قدرت نہیں ہے۔
(ج) میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اس کا معنی یہ ہے کہ میں یہ دعوی نہیں کرتا کہ میرے پاس ایسی قدرت ہے جو اللہ تعالیٰ کے شایان شان ہے اور نہ میں غیب جانتا ہوں اس کا معنی یہ ہے کہ میں یہ دعوی نہیں کرتا کہ میں اللہ کے علم سے متصف ہوں اور ان دونوں جملوں کا حاصل یہ ہے کہ میں الوہیت کا مدعی نہیں ہوں (تفسیر کبیر ‘ ج ٤‘ ص ٤٨۔ ٤٧‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ ‘ طبع قدیم)
قاضی بیضاوی متوفی ٦٨٥ ھ لکھتے ہیں
میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اس کا معنی یہ ہے کہ میں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے مقدورات اور اس کے خزانے ہیں۔ اور میں غیب نہیں جانتا اس سے مراد یہ ہے کہ جس غیب کی میری طرف وحی نہ کی جائے ‘ یا جس غیب پر دلیل (عقلی یاسمعی) قائم نہ ہو ‘ اس کو میں نہیں جانتا ‘ یا میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میں فرشتوں کی جنس سے ہوں یا جن کاموں پر فرشتے قادر ہیں ان پر میں قادر ہوں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خدا ہونے اور فرشتہ ہونے کے دعوی سے برات کا اظہار کیا اور نبوت کا دعوی کیا جو بشر کے کمالات سے ہے۔ (انوار التنزیل مع الکازرنی ‘ ج ٢‘ ص ٤١١۔ ٤١٠‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٤١٦ ھ)
علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :
مولانا شیخ الاسلام کا مختار یہ ہے کہ معنی یہ ہے کہ میں یہ دعوی نہیں کرتا کہ میں اللہ عزوجل کے افعال سے متعلق علم غیب کو جانتا ہوں ‘ حتی کہ تم مجھ سے یہ سوال کرو کہ قیامت کس وقت واقع ہوگی یا عذاب کس وقت نازل ہوگا ؟ اور حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا ہے کہ یہ غیب کفار کے انجام کے ساتھ مخصوص ہے ‘ یعنی میں اس کا دعوی نہیں کرتا اور نہ میں فرشتہ ہونے کا دعوی کرتا ہوں حتی کہ تم مجھے خلاف عادت افعال کا مکلف کرو ‘ مثلا آسمان پر چڑھنے کا ‘ اس سے یہ وہم نہ ہو کہ فرشتہ نبی سے افضل ہوتا ہے کیونکہ شیر ‘ بھیڑیا ‘ سانپ اور پرندے ایسے کام کرلیتے ہیں جو انسان نہیں کرسکتا ‘ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ انسان سے افضل ہوں۔ (روح المعانی ج ٧ ص ١٥٦۔ ١٥٥‘ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی ‘ بیروت)
علماء دیوبند کے نزدیک علم غیب کی نفی کا محمل :
اس آیت کو علماء دیوبند نے بھی اس پر محمول کیا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مطلقا علم غیب کی نفی نہیں کی گئی ‘ بلکہ مستقل اور بالذات علم کی نفی کی گئی ہے یا آپ سے تمام معلومات الہیہ کی نفی کی گئی ہے۔ :
شیخ اشرف علی تھانوی متوفی ١٣٦٢ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں
اور نہ میں یہ کہتا ہوں کہ میں تمام غیبوں کو (جو کہ معلومات الہیہ ہیں) جانتا ہوں (جیسا کہ کبھی کبھی بطور عناد اس قسم کی باتیں پوچھتے ہو کہ قیامت کب آئے گی ؟ ) (بیان القرآن ‘ ج ١‘ ص ٢٧٨‘ مطبوعہ تاج کمپنی لمیٹڈ ‘ کراچی)
شیخ شبیر احمد عثمانی متوفی ١٣٦٩ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
یعنی کوئی شخص جو مدعی نبوت ہو اس کا یہ دعوی نہیں ہوتا کہ تمام مقدورات الہیہ کے خزانہ اور اس کے قبضہ میں ہیں کہ جب اس سے کسی امر کی فرمائش کی جائے ‘ وہ ضرور ہی کر دکھلائے یا تمام معلومات غیبیہ وشہادیہ پر خواہ ان کا تعلق فرائض رسالت سے ہو یا نہ ہو ‘ اس کو مطلع کردیا گیا ہے کہ جو کچھ تم پوچھو وہ فورا بتلا دیا کرے۔ (تفسیر عثمانی برترجمہ محمودالحسن ‘ ص ١٧٧)
مفتی محمد شفیع دیوبندی متوفی ١٣٩٦ ھ اس آیت کے تحت خلاصہ تفسیر میں لکھتے ہیں :
اور نہ میں تمام غیب کی چیزوں کو جانتا ہوں (جو اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے) (معارف القرآن ج ٣ ص ٣٢٤‘ مطبوعہ ادارۃ المعارف کراچی ‘ ١٤١٣ ھ)
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے علم غیب کا ثبوت :
مفسرین کرام نے اس آیت میں علم غیب کی نفی کو مطلقا علم غیب کی نفی پر محمول نہیں کیا ‘ بلکہ اس علم غیب کی نفی پر محمول کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید کی دیگر آیات سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خصوصا اور دیگر (علیہم السلام) کو عموما علم غیب عطا فرمایا ہے۔ ان میں سے بعض آیات حسب ذیل ہیں :
(آیت) ” ذلک من انبیاء الغیب نوحیہ الیک “۔ (آل عمران : ٤٤ )
ترجمہ : یہ غیب کی بعض خبریں ہیں جس غیب کی ہم آپ کی طرف وحی فرماتے ہیں۔
انبیاء (علیہم السلام) کے علم کا ایک ذریعہ وحی ہے ‘ سو جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف غیب کی وحی کی گئی تو آپ کو غیب کا علم ہوگیا۔ چونکہ شرح عقائد میں لکھا ہوا ہے کہ علم کے تین اسباب ہیں۔ حواس سلیمہ ‘ خبر صادق اور عقل (شرح عقائد ‘ ص ١٠) اور جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غیب کی خبریں دی گئیں تو آپ کو غیب کا علم حاصل ہوگیا۔ قرآن مجید میں ہے :
(آیت) ” تلک من انبیاء الغیب نوحیھا الیک “۔ (ھود : ٤٩)
ترجمہ : یہ غیب کی بعض خبریں ہیں جن خبروں کی ہم آپ کی طرف وحی فرماتے ہیں۔
عمومی طور پر انبیاء (علیہم السلام) کو غیب پر مطلع کرنے کا ذکر ان آیات میں ہے :
(آیت) ” وما کان اللہ لیطلعکم علی الغیب ولکن اللہ یجتبی من رسلہ من یشاء “۔ (ال عمران : ١٧٩)
ترجمہ : اللہ کی یہ شان نہیں کہ وہ تمہیں غیب پر مطلع کرے ہاں (غیب پر مطلع کرنے کے لیے) وہ چن لیتا ہے جسے چاہے اور وہ اللہ کے رسول ہیں۔
(آیت) ” علم الغیب فلا یظھر علی غیبہ احدا، الا من ارتضی من رسول “۔ (الجن : ٢٦۔ ٢٥)
ترجمہ : (اللہ) غیب کا جاننے والا ہے ‘ وہ اپنے غیب کا کسی پر اظہار نہیں فرماتا ‘ سو ان کے جن کو اس نے پسند فرما لیا ‘ جو اس کے رسول ہیں۔
بعض علماء کی یہ تحقیق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) کی طرف صراحتا علم غیب کی نسبت نہیں کی ‘ بلکہ اظہار غیب اور اطلاع علی الغیب کی نسبت کی ہے۔ اس لیے یوں کہنا چاہیے کہ انبیاء (علیہم السلام) پر غیب ظاہر کیا گیا ‘ یا ان کو غیب پر مطلع کیا گیا اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے غیر سے علم غیب کی بلا استثناء نفی فرمائی ہے ‘ اس لیے یوں نہیں کہنا چاہیے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علم غیب ہے ‘ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علم غیب دیا گیا ‘ یعنی عبارت میں کوئی ایسا قرینہ ہو جس سے معلوم ہو کہ اس علم سے مراد عطائی ہے ‘ ذاتی ہیں ہے۔
امام احمد رضا قادری متوفی ١٣٤٠ ھ لکھتے ہیں :
علم جب کہ مطلق بولا جائے خصوصا جب کہ طرف مضاف ہو تو اس سے مراد علم ذاتی ہوتا ہے۔ اس کی تصریح حاشیہ کشاف پر میر سید شریف رحمۃ اللہ عنہ نے کردی ہے اور یہ یقینا حق ہے۔ کوئی شخص کسی مخلوق کے لیے ایک ذرہ کا بھی علم ذاتی مانے یقینا کافر ہے۔ (الملفوظ ‘ ج ٣‘ ص ٤٧‘ مطبوعہ نوری کتب خانہ لاہور)
امام احمد رضا قادری کی اس عبارت سے مذکور الصدر تحقیق کی تائید ہوتی ہے۔
مفتی محمد شفیع دیوبندی متوفی ١٣٩٦ ھ لکھتے ہیں :
اس معاملہ میں کسی مسلمان کو کلام نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غیب کی ہزاروں لاکھوں چیزوں کا علم عطا فرمایا تھا ‘ بلکہ تمام فرشتوں اور اولین وآخرین کو جتنا علم دیا گیا ہے ‘ ان سب سے زیادہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علم عطا فرمایا گیا ہے۔ یہی پوری امت کا عقیدہ ہے۔ ہاں اس کے ساتھ ہی قرآن وسنت کی بیشمار تصریحات کے مطابق تمام ائمہ سلف وخلف کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ تمام کائنات کا علم محیط صرف اللہ تعالیٰ شانہ کی مخصوص صفت ہے۔ جس طرح اس کے خالق ورزاق قادر مطلق ہونے میں کوئی فرشتہ یا رسول اس کے برا بر نہیں ہوسکتا ‘ اسی طرح اس کے علم محیط میں بھی کوئی اس کے برابر نہیں ہوسکتا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی فرشتہ یا پیغمبر کو لاکھوں چیزیں معلوم ہونے کے باوجود عالم الغیب نہیں کہا جاسکتا۔ (معارف القرآن ج ٣ ص ٣٢٨‘ مطبوعہ ادارۃ المعارف کراچی ١٤١٣ ھ)
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر عالم الغیب کے اطلاق کا عدم جواز :
ہمارے نزدیک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے علم غیب ثابت ہے۔ اس کے باوجود ہمارے نزدیک آپ پر عالم الغیب کا اطلاق جائز نہیں ہے ‘ کیونکہ عالم الغیب کا لفظ عرف اور شرع میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص ہوچکا ہے۔ اس کی نظیر یہ ہے کہ محمد عزوجل کہنا جائز نہیں ہے ‘ حالانکہ عزیز وجلیل ہیں۔ اسی طرح محمد تبارک وتعالیٰ کہناجائز نہیں ہے ‘ حالانکہ آپ بابرکت اور بلند ہیں ‘ کیونکہ عرف اور شرع میں عزوجل اور تبارک وتعالیٰ کے الفاظ اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص ہیں۔
امام احمد رضا متوفی ١٣٤٠ ھ لکھتے ہیں :
مخلوق کو عالم الغیب کہنا مکروہ اور یوں کوئی حرج نہیں کہ اللہ کے بتائے سے امور غیب پر انہیں اطلاع ہے۔ (الامن والعلی ‘ ص ٢٠٣‘ مطبوعہ نوری کتب خانہ لاہور)
مولانا سردار احمد متوفی ١٣٨٢ ھ لکھتے ہیں :
لفظ عالم الغیب کا اطلاق ہم بھی عرفا غیر خدا اعزوجل پر نہیں کرتے۔ (مناظرہ بریلی ‘ ص ١٠٦‘ مطبوعہ المکتبہ الحامدیہ ‘ لاہور)
ہم نے اپنی کتاب مقام ولایت ونبوت میں علماء اہل سنت اور خصوصا علماء دیوبند کی بکثرت عبارات پیش کی ہیں۔ جن میں مخلوق کی طرف علم غیب کی نسبت کی گئی ہے۔
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم غیب کے متعلق اہل سنت کا مسلک :
امام احمد رضا قادری متوفی ١٣٤٠ ھ لکھتے ہیں :
(١) بلاشبہ غیر خدا کے لیے ایک ذرہ کا علم ذاتی نہیں ‘ اس قدر کود ضروریات دین سے ہے اور منکر کافر۔
(٢) بلاشبہ غیر خدا کا علم معلومات الہیہ کو حاوی نہیں ہوسکتا۔ مساوی تو درکنار تمام اولین وآخرین وانبیاء ومرسلین وملائ کہ مقربین سب کے علوم مل کر علوم الہیہ سے وہ نسبت نہیں رکھ سکتے جو کروڑہاکروڑ سمندروں سے ایک ذرہ سی بوند کے کروڑویں حصہ کو کہ وہ تمام سمندر اور یہ بوند کا کروڑواں حصہ ‘ دونوں متناہی ہیں ‘ اور متناہی کو متناہی سے نسبت ضرور ہے۔ بخلاف علوم الہیہ کے غیر متناہی در غیر متناہی در غیر متناہی ہیں اور مخلوق کے علوم اگرچہ عرش وفرش ‘ وشرق وغرب وجملہ کائنات از روز اول تاروز آخر کو محیط ہوجائیں یہ آخر متناہی ہیں کہ عرش وفرش دو حدیں ہیں ‘ شرق وغرب دو حدیں ہیں ‘ روز اول وروز آخر دو حدیں ہیں اور جو کچھ دو حدوں کے اندر ہے ‘ سب متناہی ہے بالفعل غیر متناہی کا علم تفصیلی مخلوق کو مل ہی نہیں سکتا ‘ تو جملہ علوم خلق کو علم الہی سے اصلا نسبت ہوتی ہی محال قطعی ہے ‘ نہ کہ معاذ اللہ تو ہم مساوات۔
(٣) یونہی اس پر اجماع ہے کہ اللہ عزوجل کے دیئے سے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو کثیر واوافر غیبوں کا علم ہے۔ یہ بھی ضروریات دین سے ہے ‘ جو اس کا منکر ہو کافر ہے کہ سرے سے نبوت ہی کا منکر ہے۔
(٤) اس پر بھی اجماع ہے کہ اس فضل جلیل میں محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حصہ تمام انبیاء ‘ تمام جہاں سے اتم و اعظم ہے۔ اللہ عزوجل کی عطا سے حبیب اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اتنے غیبوں کا علم ہے جن کا شمار اللہ عزوجل ہی جانتا ہے ‘ مسلمانوں کا یہاں ایک اجماع تھا۔ (خالص الاعتقاد ‘ ص ٣٩۔ ٣٨‘ مطبوعہ مطبع اہل سنت ‘ بریلی ‘ ١٣٢٨ ھ)
کیا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اتباع وحی کرنا آپ کے اجتہاد کے منافی ہے ؟
اس آیت کے آخر میں ہے (آپ کہئے کہ) میں صرف اسی چیز کی پیروی کرتا ہوں جس کی میری طرف وحی کی جاتی ہے ‘ آپ کہئے : کیا اندھا اور دیکھنے والا برابر ہیں کیا تم غور نہیں کرتے۔ (الانعام : ٥٠)
امام فخرالدین عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں :
اس آیت میں یہ تصریح ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی طرف سے کوئی حکم نہیں دیتے تھے اور آپ اجتہاد نہیں کرتے تھے بلکہ آپ کے تمام احکام وحی سے صادر ہوتے تھے۔ اس کی تائید قرآن مجید کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے :
(آیت) ” وما ینطق عن الھوی۔ ان ھو الا وحی یوحی “۔ (النجم : ٤۔ ٣)
ترجمہ : اور وہ اپنی خواہش سے کلام نہیں کرتے ‘ ان کا کلام کرنا صرف وہ وحی ہے جو ان کی طرف کی جاتی ہے۔
اور جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اجتہاد نہیں کرتے تو امت کے لیے بھی اجتہاد جائز نہیں ہے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اتباع کرنے کا حکم دیا ہے ‘ بلکہ ان پر لازم ہے کہ صرف وحی الہی کی اتباع کریں ‘ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی تاکید فرمائی ‘ کیا اندھا اور دیکھنے والا برابر ہیں ؟ کیونکہ بغیر وحی کے عمل کرنا اندھے کے عمل کے قائم مقام ہے اور وحی کے مطابق عمل کرنا دیکھنے والے کے عمل کے قائم مقام ہے۔ پھر فرمایا کیا تم غور وفکر نہیں کرتے۔ اس سے صاحب عقل کو متنبہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان دونوں امور کا فرق سمجھے اور غافل نہ ہو۔ (تفسیر کبیر ج ٤‘ ص ٤٨‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ)
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد پر دلائل :
امام رازی کی یہ تقریر صحیح نہیں ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دیگر انبیاء (علیہم السلام) کا اجتہاد کرنا جائز ہے اور نصوص پر قیاس کرنا بھی جائز ہے۔ سورة انبیاء ٧٩۔ ٧٨‘ میں حضرت داؤد اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) کے اجتہاد کا ذکر ہے اور امام بخاری نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ ایک عورت نے حج کی نذر مانی ‘ پھر وہ فوت ہوگئی ‘ اس کا بھائی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گیا اور اس کے متعلق سوال کیا ؟ آپ نے فرمایا یہ بتاؤ اگر تمہاری بہن پر قرض ہوتا تو کیا تم اس کو ادا کرتے ؟ اس نے کہا ہاں ! آپ نے فرمایا پھر اللہ کا حق ادا کرو ‘ وہ ادائیگی کے زیادہ حقدار ہے۔ (صحیح البخاری ‘ ج ٢‘ رقم الحدیث :‘ ١٨٥٢‘ ج ٧‘ رقم الحدیث :‘ ٦٦٩٩‘ ج ٨‘ رقم الحدیث :‘ ٧٣١٥‘ سنن النسائی ‘ ج ٥‘ رقم الحدیث :‘ ٢٦٣١)
اس حدیث میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کے حق کو بندے کے حق پر قیاس کیا ہے اور یہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد اور قیاس کی دلیل ہے۔
قرآن مجید میں ہے :
(آیت) ” فاعتبروا یاولی الابصار “۔ (الحشر : ٢)
ترجمہ : اے صاحبان بصیرت اعتبار کرو۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اعتبار کرنے کا حکم دیا ہے اور اعتبار کا معنی ہے ایک چیز سے دوسری چیز کی طرف منتقل ہونا اور یہی معنی قیاس میں بھی متحقق ہوتا ہے ‘ کیونکہ قیاس میں اصل کے حکم کو فرع کی طرف منتقل کرتے ہیں۔
قاضی ابوالخیر عبداللہ بن عمر بیضاوی متوفی ٦٨٥ ھ لکھتے ہیں :
اس آیت سے قیاس کی حجیت پر استدلال کیا گیا ہے کیونکہ اس آیت میں ایک حال سے دوسرے حال کی طرف تجاوز کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور دو چیزوں میں مشارکت کی وجہ سے ایک کا حکم دوسرے پر لاگو کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہی قیاس ہے۔ (انوار التنزیل علی ھامش عنایۃ القاضی ‘ ج ٨‘ ص ١٧٧۔ ١٧٦‘ مطبوعہ دار صادر ‘ بیروت)
علامہ شہاب الدین خفاجی متوفی ١٠٦٩ ھ لکھتے ہیں :
اس آیت میں ہمیں اعتبار کرنے کا حکم دیا ہے اور اعتبار کا معنی ہے کسی چیز کو اس کی نظیر کی طرف لوٹانا ‘ بایں طور کہ اس شے پر اس کی نظیر کا حکم عائد کیا جائے اور یہ اعتبار نصیحت حاصل کرنے ‘ قیاس شرعی اور قیاس لغوی کو شامل ہے اور یہ آیت نصیحت حاصل کرنے پر عبارۃ اور قیاس پر اشارۃ دلالت کرتی ہے۔ (عنایۃ القاضی ‘ ج ٨‘ ص ١٧٦‘ مطبوعہ دارصادر ‘ بیروت)
صحابہ کرام کے اجتہاد پر دلائل :
بکثرت احادیث میں صحابہ کرام (رض) کے اجتہاد کا ذکر ہے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ایک سرد رات میں جنبی ہوگئے۔ انہوں نے اجتہاد کر کے غسل کی بجائے تیمم کرلیا ‘ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے ان کو ملامت نہیں کی۔ (صحیح البخاری ‘ کتاب التیمم ‘ باب ٧)
امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت معاذ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت معاذ کو یمن کا قاضی بنا کر بھیجا پوچھا تم کس طرح فیصلہ کرو گے ؟ انہوں نے کہا میں کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ آپ نے فرمایا اگر کتاب اللہ میں تصریح نہ ہو ؟ انہوں نے کہا پھر سنت رسول اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا آپ نے فرمایا اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت میں تصریح نہ ہو ؟ انہوں نے کہا میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا۔ آپ نے فرمایا اللہ کی حمد ہے جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول کو توفیق عطا فرمائی۔ (سنن الترمذی ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ١٣٣٢‘ سنن ابو داؤد ‘ ج ٢‘ رقم الحدیث :‘ ٣٥٩٢‘ مسند احمد ‘ ج ٥‘ ص ٢٣٦‘ ٢٣٠)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب حاکم اجتہاد سے حکم کرے اور صحیح حکم دے تو اس کے لیے دو اجر ہیں اور جب وہ حکم میں خطا کرے تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔ (سنن ترمذی ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ١٣٣١‘ صحیح البخاری ‘ ج ٨‘ رقم الحدیث : ٧٣٥٢‘ صحیح مسلم اقضیہ ‘ ١٥ (١٧١٦) ٤٤٠٧‘ سنن ابو داؤد ‘ ج ٢‘ رقم الحدیث :‘ ٣٥٧٤‘ سنن ابن ماجہ ‘ ج ٢‘ رقم الحدیث : ٢٣١٤‘ سنن کبری للنسائی ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث : ٥٩١٨)
آپ کا وحی کی اتباع کرنا اجتہاد کے منافی نہیں ہے :
قرآن مجید اور احادیث صحیحہ سے یہ ثابت ہوگیا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اجتہاد کیا ہے اور آپ کے صحابہ کرام کو اجتہاد کرنے کہ ہدایت بھی کی ہے۔ اب رہا یہ امر کہ اس آیت میں ہے ” میں صرف اسی چیز کی پیروی کرتا ہوں جس کی میری طرف وحی کی جاتی ہے “ اس کی کیا توجیہ ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ میں قرآن مجید میں اپنی مرضی کچھ نہیں کہتا ‘ میں اس میں صرف اللہ تعالیٰ کی وحی کی اتباع کرتا ہوں۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اجتہاد سے جو احکام دیئے ان کی تائید اللہ کی وحی سے ہوگئی ‘ کیونکہ جب آپ احکام دے رہے تھے ‘ اس وقت نزول وحی کا زمانہ تھا۔ اگر آپ کے احکام میں خطا ہوتی تو اللہ تعالیٰ بذریعہ وحی آپ کی اصلاح فرما دیتا اور جب اللہ تعالیٰ نے آپ کے احکام کو برقرار رکھا تو معلوم ہوا کہ آپ کے احکام صحیح تھے اور چونکہ آپ کے احکام کو وحی کی تائید حاصل تھی ‘ تو گویا آپ مال کے اعتبار سے اتباع وحی کررہے تھے۔
خلاصہ یہ ہے کہ منصوص احکام میں آپ صراحۃ ‘ اتباع وحی کرتے ہیں اور غیر منصوص احکام اور اجتہادی مسائل میں آپ مال کے اعتبار سے اتباع وحی کرتے تھے۔ اس لیے آپ کا یہ فرمانا صحیح ہے کہ میں صرف اسی چیز کی پیروی کرتا ہوں جس کی میری طرف وحی کی جاتی ہے۔ اس کی تیسری توجیہ یہ ہے کہ کفار آپ سے مال طلب کرتے تھے۔ غیب کی باتیں پوچھتے تھے اور غیر معمولی کام کرنے کے لیے کہتے تھے۔ تو آپ سے فرمایا کہ آپ کہئے کہ میں صرف وحی کی اتباع کرتا ہوں ‘ میں وہی چیزیں دوں گا اور وہی چیزیں بتاؤں گا اور وہی کام کروں گا جس کی اللہ مجھے اجازت دے گا۔ اس لیے یہ آیت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد کے خلاف نہیں ہے۔ یہاں چونکہ اجتہاد کی بحث آگئی ہے ‘ اس لیے ہم اجتہاد کی تعریف اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اجتہاد میں مذاہب علماء بیان کریں گے۔ فنقول وباللہ التوفیق۔
اجتہاد کی تعریف :
امام غزالی نے اجتہاد کی یہ تعریف کی ہے احکام شرعیہ کا علم حاصل کرنے کے لیے مجتہد کا اپنی طاقت کو خرچ کرنا۔ (المستغی ‘ ج ٢‘ ص ٣٥٠)
علامہ آمدی نے کہا احکام شرعیہ میں سے کسی حکم شرعی کا ظن غالب حاصل کرنے کے لیے اتنی کوشش کرنا کہ اس سے زیادہ کوشش سے نفس عاجز ہو۔ (الاحکام ‘ ج ٤‘ ص ٦٩)
قاضی بیضاوی نے کہا احکام شرعیہ حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنا۔ (نہایۃ السؤل ‘ ج ٤‘ ص ٥٢٤‘ الابہاج ‘ ج ٣‘ ص ٢٤٦‘ الابہتاج ‘ ص ٢٦٧)
علامہ ابن ھمام نے کہا حکم شرعی ظنی کو حاصل کرنے کے لیے فقیہ کا اپنی طاقت کو خرچ کرنا۔ (تیسیر التحریر ‘ ج ٤‘ ص ١٧٩)
ان تعریفات میں طاقت خرچ کرنے ‘ جدوجہد کرنے اور کوشش کرنے سے مراد یہ ہے کہ مجتہد علمی اور ذہنی کوشش کرے میں علت مشترکہ نکالے اور اس میں غور کرے کہ جس مسئلہ کو وہ قیاس سے معلوم کر رہا ہے ‘ کہیں وہ صراحتا کتاب وسنت میں منصوص تو نہیں ہے۔
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد کے متعلق علماء اسلام کے مذاہب :
علماء اسلام کا اس پر اجماع ہے کہ دنیاوی مصلحتوں اور جنگ کی تدبیروں اور ان جیسے امور میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جتہاد کرنا جائز ہے اور آپ نے ان امور میں جتہاد کیا بھی ہے۔ ابن حزم نے اس کی یہ مثال دی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ کے تہائی پھل دے کر غطفان سے صلح کا ارادہ کیا اور یہ مباح ہے ‘ کیونکہ آپ کے لیے جائز ہے کہ آپ اپنے مال سے جس کو چاہیں ‘ ہبہ، کردیں۔ اسی طرح جب مسلمانوں نے کھجوروں میں پیداوار کی کمی کی شکایت کی تو آپ نے کھجوروں میں پیوند لگانے کا حکم دیا ‘ کیونکہ ہر شخص کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی کھجور میں پیوند لگائے یا نہ لگائے اور احکام شرعیہ میں آپ کے اجتہاد کے متعلق اختلاف ہے کہ جن چیزوں میں نصوص وارد نہیں ہیں ‘ ان میں اجتہاد کرنا جائز ہے یا نہیں۔ بعض علماء کے نزدیک آپ کے لیے اجتہاد کرنا جائز نہیں ہے ‘ بعض کے نزدیک آپ کے لیے اجتہاد کرنا جائز ہے اور بعض نے اس مسئلہ میں توقف کیا ہے۔
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد کے عدم جواز کے قائلین :
استاذ ابو منصور کا مذہب یہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اجتہاد کرنا جائز نہیں ہے ‘ کیونکہ آپ کو نص کے حصول پر قدرت ہے۔ قرآن مجید میں ہے (آیت) ” ان ھو الا وحی یوحی “ (النجم : ٤) ان کا کلام کرنا صرف وہ وحی ہے جو انکی طرف کی جاتی ہے ‘ ابن حزم کا بھی یہی مختار ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گدھوں کی زکوۃ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا مجھ پر ان کے متعلق کوئی حکم نازل نہیں ہوا۔ (صحیح البخاری ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٢٨٦٠‘ صحیح مسلم ‘ زکوۃ ‘ ٢٤‘ (٩٨٧) ٢٢٥٤‘ سنن نسائی ‘ ج ٢‘ رقم الحدیث :‘ ٣٥٦٣)
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جب کسی کام کے متعلق سوال کیا جاتا تو آپ وحی کا انتظار فرماتے تھے ‘ اس سے معلوم ہوا کہ آپ کے لیے اجتہاد کرنا جائز نہیں تھا پھر ایک قول یہ ہے کہ آپ کے لیے اجتہاد کرنا عقلا ممتنع ہے۔ یہ امام الحرمین کا قول ہے جس کو انہوں نے تلخیص میں لکھا ہے اور ابو علی اور ابو ہاشم کا مذہب یہ ہے کہ اجتہاد سے عبادت نہیں کرتے تھے۔
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد کے جواز کے قائلین :
امام شافعی ‘ امام احمد ‘ اکثر مالکیہ ‘ قاضی ابو یوسف اور جمہور کا مذہب یہ ہے کہ ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دیگر انبیاء (علیہم السلام) کے لیے اجتہاد کرنا جائز ہے۔ امام شافعی نے ” الرسالہ “ میں اس پر یہ دلیل قائم کی ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے اور بندوں کو تدبر اور اعتبار کرنے کا حکم دیا ہے اور ان کے لیے مثالیں بیان فرمائی ہیں ‘ اسی طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی تدبر اور تفکر کرنے، کا حکم دیا ہے ‘ بلکہ آپ اللہ تعالیٰ کی آیات میں سب سے زیادہ غور وفکر کرنے والے ہیں اور سب سے زیادہ اعتبار کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا جو یہ ارشاد ہے (آیت) ” ان ھو الا وحی یوحی “ (النجم : ٤) ان کا کلام کرنا صرف وہ وحی ہے جو ان کی طرف کی جاتی ہے اس سے مراد قرآن کریم ہے اور اجتہاد شرعی کی اجازت دی گئی ہے۔ جنگی واقعات میں اس کی بہت مثالیں ہیں۔ مثلا نضر کو قتل کرنا اور بہت سے امور ہیں۔ آپ نے غور وفکر کرکے دو جائز کاموں میں سے کسی ایک کو اختیار کیا ہے اور احکام شرعیہ میں آپ کے لیے اجتہاد کرنا اس لیے جائز ہے کہ جب امت کے لیے احکام شرعیہ میں اجتہاد کرنا جائز ہے تو آپ کے لیے بہ طریق اولی جائز ہونا چاہیے۔ کیونکہ آپ خطاء سے معصوم ہیں اور امت خطاء سے معصوم نہیں ہے اور اس لیے بھی کہ اجتہاد سے کسی حکم کو معلوم کرنے میں منصوص حکم کو معلوم کرنے کی بہ نسبت زیادہ دشواری ہے اور جس عمل میں زیادہ مشقت ہو ‘ اس میں زیادہ ثواب ہوتا ہے۔
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد کے متعلق توقف کے قائلین :
علامہ الصیرنی نے ” شرح الرسالہ “ میں لکھا ہے کہ یہ امام شافعی کا مذہب ہے ‘ کیونکہ امام شافعی نے اس مسئلہ میں کئی اقوال نقل کیے ہیں اور کسی قول کو مختار قرار نہیں دیا اور یہ کہا کہ جس چیز میں نص کتاب نہ ہو اور اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی طریقہ کو بیان نہیں کیا ‘ اس میں اختلاف ہے۔ بعض علماء نے کہا اللہ تعالیٰ نے اپنی توفیق سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کا علم عطا فرمایا ہے اور بعض علماء نے، کہا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی کام کے طریقہ کو بیان کیا ہے جس کی اصل کتاب میں ہے۔ اور بعض علماء نے کہا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اللہ کا پیغام آتا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس پیغام سے اللہ تعالیٰ کے فرض ادا کرنے کا طریقہ (سنت) بیان فرماتے، بعض نے کہا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سنت سے جتنے احکام بیان کیے ہیں ‘ وہ سب آپ کے دل میں القا کیے گئے تھے۔ پھر امام شافعی نے الناسخ والمنسوخ کے باب میں بیان کیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
(آیت) ” مایکون لی ان ابدلہ من تلقاء نفسی “۔ (یونس : ١٥)
ترجمہ : مجھے یہ حق نہیں کہ اس قرآن کو اپنی طرف سے تبدیل کر دوں۔
یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو یہ حق دیا ہے کہ جس مسئلہ میں کتاب کا حکم نازل نہیں ہوا ہے ‘ اس میں اللہ کی توفیق سے اپنی طرف سے بیان فرمائیں۔ پھر کہا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
(آیت) ” یمحوا اللہ مایشآء ویثبت “۔ (الرعد : ٣٩)
ترجمہ : اللہ مٹاتا ہے جو چاہے اور ثابت کرتا ہے جو چاہے۔
اللہ جس فرض کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس فرض کو چاہتا ہے ثابت کردیتا ہے۔
آپ کے اجتہاد کرنے کے متعلق امام شافعی نے یہ متعارض دلائل نقل کیے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ ان کا رجحان توقف کی طرف ہے۔
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد کے وقوع کے متعلق مذاہب علماء :
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجتہاد کے وقوع کے متعلق چار مذاہب ہیں۔ بعض علماء نے وقوع کا مطلقا انکار کا ‘ بعض علماء نے اصول اور قواعد میں آپ کے اجتہاد کرنے کا انکار کیا اور یہ کہا کہ آپ فروع اور مسائل میں اجتہاد کرتے تھے اور بعض نے اس میں توقف کیا۔ جنہوں نے اجتہاد کے وقوع کا انکار کیا ‘ انہوں نے کہا تمام سنت وحی ہے ‘ لیکن یہ وحی غیرمتلو ہے اور قرآن مجید وحی متلو ہے اور سنن کے متعلق نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سنو : مجھے قرآن دیا گیا ہے اور اس کی مثل اس کے ساتھ ہے۔ امام مسلم نے حضرت یعلی بن امیہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص کے جبہ پر خوشبو کے لیپ کے آثار تھے ‘ اس نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا آپ مجھے عمرہ میں کیا کرنے کا حکم دیتے ہیں ؟ اس وقت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل ہوئی ‘ آپ کے اوپر کپڑا ڈال دیا گیا۔ حضرت یعلی کی یہ خواہش تھی کہ وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نزول وحی کی کیفیت دیکھیں۔ حضرت عمر (رض) نے کپڑے کی چادر ایک طرف ہٹائی تو حضرت یعلی نے دیکھا کہ ان کو اونٹ کے بڑبڑانے کی آواز آرہی تھی ‘ جب آپ سے یہ کیفیت دور ہوئی تو آپ نے فرمایا اس خوشبو کے اثر کو دھو ڈالو اور جبہ اتار دو اور جو کچھ حج میں کرتے ہو ‘ وہی عمر میں بھی کرو۔ (صحیح مسلم ‘ حج ٦‘ (١١٨٠) ٢٧٥٢‘ صحیح بخاری ‘ ج ٢‘ رقم الحدیث :‘ ١٨٤٧‘ سنن ابوداؤد ‘ ج ٢‘ رقم الحدیث :‘ ١٨٤٧)
یہ حدیث صحیح ہے اور اس میں یہ قطعی دلیل ہے کہ جس طرح آپ پر قرآن نازل ہوتا تھا ‘ اسی طرح سنت بھی نازل ہوتی تھی۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غیر منصوص احکام میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اجتہاد نہیں کرتے تھے ‘ بلکہ وحی سے احکام حاصل کرکے بیان کرتے تھے۔
علامہ یحییٰ بن شرف نووی شافعی متوفی ٦٧٦ ھ لکھتے ہیں :
اکثر علماء نے کہا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اجتہاد کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ واقع ہے۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ آیا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد میں خطا جائز ہے یا نہیں۔ محققین کا مذہب یہ ہے کہ آپ کے اجتہاد میں خطا جائز نہیں ہے اور اکثر علماء جواز کے قائل ہیں ‘ لیکن آپ کو خطا پر برقرار نہیں رکھا جاتا۔ (شرح صحیح مسلم للنووی ‘ ج ١‘ ص ٥٨٦‘ مطبوعہ مکتہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٧ ھ)
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد کے وقوع کے ثبوت میں احادیث :
جن لوگوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد کے وقوع کا انکار کیا ہے ‘ انہوں نے حضرت یعلی کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ جب آپ سے عمرہ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے اس وقت تک جواب نہیں دیا جب تک آپ پر وحی نازل نہیں ہوئی۔ لیکن بکثرت ایسی احادیث ہیں کہ نبی کریم نے نزول وحی کے بغیر فی الفور سائل کے جواب دیئے اور یہ جوابات آپ کے اجتہاد پر قوی دلیل ہیں اور حضرت یعلی کی حدیث کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ وحی سے احکام حاصل کرتے تھے ‘ لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ ہر حکم وحی سے حاصل کرتے تھے اور اجتہاد بالکل نہیں کرتے تھے ‘ جبکہ آپ نے بکثرت سوالات کے جوابات میں فی الفور احکام شرعیہ بیان فرمائے۔
امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فتح مکہ کے دن یہ خبر دی گئی کہ خزاعہ نے بنو لیث کے ایک شخص کو اپنے مقتول کے بدلہ میں قتل کردیا ہے ‘ جس کو بنو لیث نے قتل کیا تھا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اونٹنی پر سوار ہو کر خطبہ دیا اور فرمایا بیشک اللہ نے مکہ میں قتل کو بند کردیا ہے اور ان پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنوں کو مسلط کردیا ہے۔ سنو ! مکہ نہ مجھ سے پہلے کسی شخص کے لیے حلال تھا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہوگا۔ سنو ! وہ میرے لیے دن کی صرف ایک ساعت کے لیے حلال ہوا ہے اور سنو ! یہ وہی ساعت ہے ‘ نہ اس کے کانٹوں کو اکھاڑا جائے گا ‘ نہ اس کے درختوں کو کاٹا جائے گا اور نہ اس کی گری ہوئی چیز اٹھائی جائے گی ‘ ماسوا اعلان کرنے والے کے ‘ اور جن لوگوں کا کوئی شخص قتل کیا گیا ہو ‘ اس کودو اختیار ہیں ‘ یا تو وہ دیت لے لے یا قصاص لے لے۔ یمن کے ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ ! مجھے یہ لکھ کردیں ‘ آپ نے فرمایا ابو فلاں کے لیے یہ لکھ دو ۔ قریش کے ایک شخص نے کہا یارسول اللہ ! اذخر (ایک قسم کی گھاس) کا استثناء فرما لیجئے ‘ کیونکہ ہم اس کو اپنے گھروں میں اور قبروں میں رکھتے ہیں تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ماسوا اذکر کے۔ (صحیح البخاری ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ١١٢‘ صحیح مسلم ‘ حج ‘ ٤٤٥‘ (١٣٥٣) ٣٢٤٤‘ سنن ابوداؤد ‘ ج ٢‘ رقم الحدیث :‘ ٢٠١٨‘ سنن نسائی ‘ ج ٥‘ رقم الحدیث :‘ ٢٨٧٥‘ سنن کبری للنسائی ‘ ج ٢‘ رقم الحدیث :‘ ٣٨٥٧)
اس حدیث میں یہ تصریح ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اذخر کے استثناء کا سوال کیا گیا اور آپ نے وحی کی طرف مراجعت کے بغیر فی الفور اپنے اجتہاد سے اس کا استثناء کردیا۔
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک شخص نے سوال کیا کہ محرم کیا پہنے ؟ آپ نے فرمایا محرم قمیص پہنے ‘ نہ عمامہ ‘ نہ شلوار ‘ نہ ٹوپی ‘ نہ زعفرانی یاسرخ رنگ سے رنگا ہوا کپڑا۔ اگر اس کو نعلین نہ ملیں تو وہ موزے پہن لے اور ان کو (اوپر سے) کاٹ لے حتی کہ وہ ٹخنوں کے نیچے ہوجائیں۔ (صحیح البخاری ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ١٣٤‘ صحیح مسلم ‘ حج ٣‘ (١١٧٧) ٢٧٤٧‘ سنن النسائی ‘ ج ٥‘ رقم الحدیث :‘ ٢٦٦٧‘ سنن ابن ماجہ ‘ ج ٢‘ رقم الحدیث :‘ ٢٩٣٢)
اس حدیث میں یہ تصریح ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سائل کے جواب میں وحی کی طرف مراجعت کیے بغیر فی الفور اپنے اجتہاد سے محرم کے لباس کے متعلق حکم شرعی بیان فرمایا :
حضرت ام عطیہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی اے نبی ! جب آپ کے پاس ایمان والی عورتیں حاضر ہوں اور وہ آپ سے اس پر بیعت کریں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنائیں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ بدکاری کریں گی اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ اپنے ہاتھ پاؤں کے آگے کوئی بہتان گھڑ کر لائیں گی اور نہ کسی نیکی کے کام میں آپ کی نافرمانی کریں گی تو آپ ان کو بیعت کرلیا کریں۔ (الممتحنہ : ١٢) اور نیکی کے کاموں میں سے نوحہ کی ممانعت بھی تھی۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آل فلاں کا استثناء کر دیجئے ‘ کیونکہ انہوں نے زمانہ جاہلیت میں (نوحہ کرنے میں) میری مدد کی تھی ‘ تو میرے لیے بھی ان کی مدد کرنا ضروری ہے۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ماسوا آل فلاں کے۔ (صحیح مسلم ‘ جنائز ‘ ٣٣‘ (٩٣٧) ٢١٣٠‘ السنن الکبری للنسائی ‘ ج ٦‘ رقم الحدیث : ١١٥٨٧)
حضرت براء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں کہ میرے ماموں حضرت ابو بردہ بن نیار نے نماز عید سے پہلے قربانی کرلی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ بکری کا گوشت ہے (یعنی قربانی نہیں ہے ‘ کیونکہ وہ نماز عید کے بعد ہے) انہوں نے کہا یارسول اللہ ! میرے پاس چھ ماہ کا بکرا ہے ‘ آپ نے فرمایا تم اس کی قربانی کرلو تمہارے علاوہ اور کسی کے لیے یہ جائز نہیں ہے۔ (صحیح مسلم ‘ الاضاحی ‘ ٤ (١٩٦١) ٤٩٧٩‘ صحیح البخاری ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٩٦٥‘ سنن ابو داؤد ‘ ج ٢‘ رقم الحدیث :‘ ٢٨٠١‘ ٢٨٠٠‘ سنن ترمذی ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ١٥١٣‘ سنن النسائی ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ١٥٦٣‘ سنن کبری للنسائی ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٤٤٨٧‘ سنن کبری ‘ للبیہقی ‘ ج ٩‘ ص ٢٦٢‘ مسند احمد ‘ ج ٦‘ رقم الحدیث :‘ ١٨٥٠٧‘ طبع جدید)
ان دونوں حدیثوں میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وحی کی طرف مراجعت کے بغیر استثناء بیان فرمایا ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب (رض) نے کہا میں خوشی سے سرشار تھا تو میں نے روزے کے باوجود بوسہ لے لیا ‘ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آج میں نے بہت سنگین کام کیا ہے۔ میں نے روزے کی حالت میں بوسہ لے لیا ‘ آپ نے فرمایا یہ بتاؤ ! اگر تم روزے کی حالت میں پانی سے کلی کرلو تو (دارمی میں ہے) میں نے تو اس سے کچھ نقصان نہیں ہوگا۔ آپ نے فرمایا تو اس سے کیسے ہوگا۔ (سنن ابو داؤد ج ٢‘ رقم الحدیث :‘ ٣٣٨٥‘ سنن دارمی ‘ ج ٢‘ رقم الحدیث :‘ ١٧٢٤‘ مسند احمد ‘ ج ١‘ ص ٢١)
اس حدیث میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صراحتا قیاس سے حکم شرعی بیان فرمایا ہے اور روزے میں بوسہ لینے کو کلی کرنے پر قیاس فرمایا ہے اور یہ آپ کے اجتہاد پر واضح دلیل ہے۔
حضرت ابو ذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا ‘ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مالدار لوگ تو اجر وثواب لے گئے ‘ وہ ہماری طرح نماز پڑھتے ہیں اور ہماری طرح روزے رکھتے ہیں اور اپنے مال سے صدقہ دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کیا اللہ نے تمہارے لیے صدقہ کا سبب مہیا نہیں کیا ؟ ہر بار ” سبحان اللہ “ کہنا صدقہ ہے ‘ ہر بار ” الحمد للہ “ کہنا صدقہ ہے اور ہر بار ” لا الہ الا اللہ “ کہنا صدقہ ہے ‘ اور نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے اور برائی سے روکنا صدقہ ہے اور تم میں سے ہر شخص کا جماع کرنا صدقہ ہے۔ صحابہ نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر ہم میں سے کوئی شخص محض شہوت سے جماع کرے ‘ پھر بھی اس کا یہ عمل صدقہ ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ بتاؤ اگر تم میں سے کوئی شخص حرام محل میں شہوت پوری کرتا تو کیا اس کو گناہ ہوتا ؟ سو اسی طرح جب وہ حلال محل میں شہوت پوری کرے گا ‘ تو اس کو اجر ملے گا۔ (صحیح مسلم ‘ زکوۃ ‘ ٥٣‘ (١٠٠٦) ٢٢٩٢‘ سنن ابوداؤد ‘ ج ٣ رقم الحدیث : ٤٩٤٧‘ مسند احمد ‘ ج ٥‘ ص ١٦٨، ١٦٧)
اس حدیث میں بھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قیاس اور اجتہاد پر واضح دلیل ہے۔
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نے حج کی نذر مانی ‘ پھر وہ فوت ہوگئی۔ اس کا بھائی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گیا اور اس کے متعلق سوال کیا۔ آپ نے فرمایا یہ بتاؤ اگر تمہاری بہن پر قرض ہوتا تو کیا تم اس کو ادا کرتے ؟ اس نے کہا ہاں ! آپ نے فرمایا پھر اللہ کا حق ادا کرو وہ ادائیگی کے زیادہ حقدار ہے۔ (صحیح البخاری ‘ ج ٢‘ رقم الحدیث :‘ : ١٨٥٢‘ سنن النسائی ‘ ج ٥‘ رقم الحدیث :‘ ٢٦٣٤١)
اس حدیث میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کے حق کو بندے کے حق پر قیاس کیا ہے اور یہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد کی قوی دلیل ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 6 الأنعام آیت نمبر 50
[…] کر رہی ہو اللہ تعالیٰ اس کو ہلاک نہیں کرتا۔ بحث ہم الانعام : ٥٠ اور الاعراف : ٢٠٣ میں کرچکے ہیں۔ اس آیت میں آپ کو صبر […]