أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَعِنۡدَهٗ مَفَاتِحُ الۡغَيۡبِ لَا يَعۡلَمُهَاۤ اِلَّا هُوَ‌ؕ وَيَعۡلَمُ مَا فِى الۡبَرِّ وَالۡبَحۡرِ‌ؕ وَمَا تَسۡقُطُ مِنۡ وَّرَقَةٍ اِلَّا يَعۡلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِىۡ ظُلُمٰتِ الۡاَرۡضِ وَلَا رَطۡبٍ وَّلَا يَابِسٍ اِلَّا فِىۡ كِتٰبٍ مُّبِيۡنٍ ۞

ترجمہ:

اور اسی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں ‘ اس کے سوا (ازخود) ان کو کوئی نہیں جانتا، وہ ہر اس چیز کو جانتا ہے جو خشکی اور سمندروں میں ہے ‘ وہ ہر اس پتے کو جانتا ہے جو درخت سے گرتا ہے ‘ اور زمین کی تاریکیوں میں ہر دانہ اور ہر تر اور ہر خشک چیز لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور اسی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں ‘ اس کے سوا (ازخود) ان کو کوئی نہیں جانتا، وہ ہر اس چیز کو جانتا ہے جو خشکی اور سمندروں میں ہے ‘ وہ ہر اس پتے کو جانتا ہے جو درخت سے گرتا ہے ‘ اور زمین کی تاریکیوں میں ہر دانہ اور ہر تر اور ہر خشک چیز لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے۔ (الانعام : ٥٩) 

مفاتح الغیب کی تفسیر میں بعض علماء کی لغزش : 

علامہ محمود بن عمر زمخشری متوفی ٥٢٨ ھ لکھتے ہیں : 

اس آیت میں مفاتح الغیب کا ذکر ہے۔ مفاتح ‘ مفتح کی جمع ہے۔ مفتح کا معنی چابی ہے اور یہ کلام بہ طور استعارہ ہے کیونکہ چابی سے خزانہ تک پہنچا جاتا ہے۔ پس جس کے پاس چابی ہو اور اس کو کھولنے کا طریقہ معلوم ہو ‘ وہ خزانہ کو پالیتا ہے۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے یہ ارادہ کیا کہ فقط وہی غیب تک واصل ہونے والا ہے۔ جس طرح جس شخص کے پاس خزانے کے قفلوں کی چابیاں ہوں اور اس کو کھولنے کا طریقہ معلوم ہو تو وہی خزانہ تک واصل ہوسکتا ہے۔ (الکشاف ‘ ج ٢‘ ص ٣١‘ نشرالبلاغہ ‘ قم ‘ ایران ‘ ١٤١٣ ھ) 

علامہ زمخشری کا یہ لکھنا صحیح نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ چابی کے ذریعہ غیب تک واصل ہونے والا ہے ‘ کیونکہ اس سے یہ وہم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بالفعل علم حاصل نہیں ہے ‘ بلکہ تدریجا علم حاصل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے منزہ اور پاک ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں غائب حاضر کی مانند ہے ‘ ماضی اور مستقبل کا علم اس کے سامنے یکساں ہے ‘ ہر چیز کا علم اس کے سامنے ہر وقت حاضر ہے۔ اسی طرح شیخ اسماعیل دہلوی متوفی ١٢٤٦ ھ کا یہ لکھنا بھی صحیح نہیں ہے۔ 

جس کے ہاتھ کنجی ہوتی ہے ‘ قفل اسی کے اختیار میں ہوتا ہے۔ جب چاہے کھولے ‘ جب چاہے نہ کھولے۔ اسی طرح ظاہر کی چیزوں کو دریافت کرنا لوگوں کے اختیار میں ہے۔ جب چاہیں کریں ‘ جب چاہیں نہ کریں۔ سو اسی طرح غیب کا دریافت کرنا اپنے اختیار میں ہو ‘ جب چاہے کرلیجئے۔ یہ اللہ صاحب ہی کی شان ہے۔ (تقویت الایمان ‘ ص ٤١‘ (کلاں) مطبوعہ مطبع علیمی لاہور) 

اس عبارت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس بالفعل غیب کا علم نہیں ہے۔ وہ جب چاہے ‘ غیب کو دریافت کرسکتا ہے اور یہ بداہتا باطل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے ہر وقت تمام مغیبات اور شہادات کا علم حاضر ہے ‘ اور اسے کبھی بھی دریافت کرنے کی حاجت نہیں ہوتی۔ 

مفاتح الغیب کی تفسیر میں احادیث اور آثار : 

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا غیب کی چابیاں پانچ ہیں۔ جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ کوئی شخص نہیں جانتا کہ کل کیا ہوگا ‘ اور نہ کوئی شخص یہ جانتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے اور نہ کوئی شخص یہ جانتا ہے کہ کل کیا کرے گا اور نہ کوئی شخص یہ جانتا ہے کہ وہ کس جگہ مرے گا ‘ اور نہ کوئی شخص یہ جانتا ہے کہ بارش کب آئے گی ؟ 

(صحیح البخاری ‘ ج ٢‘ رقم الحدیث :‘ ١٠٣٩‘ مسند احمد ‘ ج ٢‘ رقم الحدیث :‘ ٤٧٦٦‘ مطبوعہ بیروت ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٤٧٦٦‘ دارالحدیث قاہرہ ‘ المعجم الکبیر ‘ ج ٩‘ رقم الحدیث :‘ ١٣٣٤٤) 

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ تمہارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر چیز کی مفاتیح دی گئی ہیں۔ سوا پانچ چیزوں کے۔ بیشک اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے ‘ وہی بارش نازل فرماتا ہے ‘ وہی جانتا ہے کہ رحموں میں کیا ہے ‘ اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کہاں مرے گا۔ بیشک اللہ بہت جاننے والا ‘ بہت خبر رکھنے والا ہے۔ 

(لقمان : ٣٤) (مسند احمد ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٣٦٥٩‘ علامہ محمد احمد شاکر متوفی ١٣٧٦ ھ نے کہا یہ حدیث صحیح ہے ‘ مسند ابو یعلی ‘ ج ٥‘ رقم الحدیث :‘ ٥١٥٣‘ مسند حمیدی ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ١٢٤‘ جامع البیان ‘ جز ٧‘ ص ٢٧٨‘ مجمع الزوائد ‘ ج ٨‘ ص ٢٦٣) 

امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے ایک طویل حدیث روایت کی ہے۔ اس کے آخر میں ہے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا ‘ قیامت کب ہوگی ؟ آپ نے فرمایا جس سے سوال کیا گیا ہے ‘ وہ سائل سے زیادہ نہیں جانتا۔ میں عنقریب تمہیں اس کی علامتیں بیان کروں گا ‘ جب تم دیکھو کہ عورت سے اس کا مالک پیدا ہوا ‘ تو یہ قیامت کی علامتوں میں سے ہے ‘ اور جب تم ننگے پیر ‘ ننگے بدن ‘ بہرے ‘ گونگے لوگوں کو زمین کا مالک دیکھو تو یہ قیامت کی علامتوں میں سے ہے اور جب تم مویشیوں کے چرانے والوں کو بڑے بڑے مکان بناتے دیکھو تو یہ قیامت کی علامتوں میں سے ہے۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی بیشک اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے۔ وہی بارش نازل فرماتا ہے ‘ وہی جانتا ہے کہ رحموں میں کیا ہے اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کہاں مرے گا ‘ بیشک اللہ بہت جاننے والا بہت خبر رکھنے والا ہے۔ (لقمان : ٣٤) (صحیح مسلم ‘ ایمان ‘ ٧‘ (١٠) ٩٩) 

مفاتح الغیب کی تفسیر میں علماء کے نظریات : 

علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں : 

مفاتح الغیب کی تفسیر میں جن پانچ چیزوں کا حدیث میں ذکر کیا گیا ہے ‘ اس سے مراد اہم چیزیں ہیں۔ ورنہ ظاہر ہے کہ ان پانچ چیزوں کے علاوہ جو باقی مغیبات ہیں ‘ ان کو بھی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (روح المعانی جز ٧ ص ١٧١‘ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی ‘ بیروت) 

یہ پانچ چیزیں ہوں یا باقی غیوب از خود انکو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ‘ لیکن اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو غیب کا علم عطا فرماتا ہے ‘ اور اس نے ان پانچ چیزوں کا علم بھی ہمارے نبی سیدنا کا علم بھی ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمایا ہے۔ 

ملاعلی قاری متوفی ١٠١٤ ھ لکھتے ہیں : 

علامہ قرطبی نے کہا جو شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے توسل کے بغیر ان پانچ چیزوں کے جاننے کا دعوی کرے ‘ وہ اپنے دعوی میں جھوٹا ہے۔ (مرقات المفاتیح ‘ ج ١‘ ص ٦٥‘ مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ‘ ملتان ‘ ١٣٩٠ ھ) 

علامہ بدرالدین عینی حنفی متوفی ٨٥٥ ھ اور علامہ شہاب الدین ابن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ نے بھی اس عبارت کو نقل کیا ہے۔ 

عمدۃ القاری ‘ ج ١‘ ص ٢٩٠‘ مطبوعہ مصر ‘ ١٣٤٨ ھ ‘ فتح الباری ج ١ ص ١٢٤‘ مطبوعہ ‘ لاہور ١٤٠١ ھ) 

حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ لکھتے ہیں : 

بعض علماء نے بیان کیا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان پانچ چیزوں کا علم بھی دیا گیا ہے اور وقت قیامت اور روح کا علم بھی دیا گیا ہے ‘ اور آپ کو ان کیچ چھپانے کا حک دیا گیا ہے۔ (شرح الصدور ‘ ص ٣١٩‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ‘ ١٤٠٤ ھ) 

شیخ شبیر احمد عثمانی متوفی ١٣٦٩ ھ لکھتے ہیں : 

مطلب یہ ہے کہ غیب کے خزانے اور ان کی کنجیاں صرف خدا کے ہاتھ میں ہیں ‘ وہی ان میں سے جس خزانے کو جس وقت اور جس قدر چاہے ‘ کسی پر کھول سکتا ہے۔ کسی کو یہ قدرت نہیں کہ اپنے حواس وعقل وغیرہ آلات ادراک کے ذریعہ سے علوم غیبیہ تک رسائی پاسکے ‘ یا جتنے غیوب اس پر منکشف کردیئے گئے ہیں ان میں از خود اضافہ کرے۔ کیونکہ علوم غیبیہ کی کنجیاں اس کے ہاتھ میں نہیں دی گئیں۔ خواہ لاکھوں کروڑوں جزئیات و واقعات غیبیہ پر کسی بندے کو مطلع کردیا گیا ہو ‘ تاہم غیب کے اصول وکلیات کا علم جن کو مفاتیح غیب کہنا چاہیے ‘ حق تعالیٰ نے اپنے لیے ہی مخصوص رکھا ہے۔ 

(تفسیر شیخ عثمانی ‘ ص ١٧٩‘ مطبوعہ شاہ فہد قرآن کریم پر نٹنگ کمپلیکس) 

علامہ ابو الحیان عبداللہ بن یوسف اندلسی متوفی ٧٥٤ ھ لکھتے ہیں : 

حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ مفاتح الغیب سے مراد آسمانوں اور زمینوں میں غیب کے خزانے ہیں۔ مثلا رزق اور قدرت کے۔ عطاء نے کہا اس سے مراد ثواب ‘ عذاب اور مستقبل کی غائب کی چیزیں ہیں۔ زجاج نے کہا اس سے مراد وہ چیزیں ہیں جو علم غیب کے حصول کا وسیلہ ہوں۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد عمروں کے انجام اور خواتیم اعمال ہیں۔ (البحر المحیط ج ٤ ص ٥٣٤‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٤١٢ ھ) 

اس آیت میں مفاتح کا لفظ ہے۔ عربی قواعد کی رو سے یہ مفتح (میم کی زیر کے ساتھ) کی جمع بھی ہوسکتا ہے۔ اور مفتح (میم کی زبر کے ساتھ) کی جمع بھی ہوسکتا ہے۔ اگر مفتح (میم کی زیر) کی جمع ہو تو اس کا معنی چابیاں ہیں اور اگر مفتح (میم کی زبر) کی جمع ہو تو اس کا معنی خزانہ ہے۔ 

آیا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صرف غیب کی خبریں دی گئی ہیں یا غیب کا علم بھی دیا گیا ہے ؟ 

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے غیر سے علم غیب کی نفی بھی کی گئی ہے اور انبیاء (علیہم السلام) کے لیے علم غیب کا اثبات بھی کیا گیا ہے ‘ علماء اسلام نے اس کی متعدد توجیہات کی ہیں ‘ ایک یہ کہ بلاواسطہ ‘ بلاتعلیم اور ذاتی علم غیب کی غیر اللہ سے نفی کی گئی ہے۔ اور بالواسطہ ‘ بذریعہ وحی والہام اور عطائی علم غیب کا غیر اللہ کے لیے ثبوت ہے۔ دوسری توجیہ یہ ہے کہ علم غیب کی نفی ہے اور اطلاع علی الغیب اور اظہار غیب کا ثبوت ہے ‘ یہ دونوں توجیہات صحیح ہیں۔ بعض متاخرین علماء دیوبند نے یہ کہا ہے کہ علم غیب کی نفی ہے اور غیب کی خبروں کا ثبوت ہے۔ اس توجیہ میں ہمیں کلام ہے ‘ کیونکہ خبر بھی علم کا ایک ذریعہ ہے اور کسی چیز کی خبر کا ثبوت اس کے علم کے ثبوت کو مستلزم ہے ‘ نیز متقدمین علماء دیوبند نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم پر علم غیب کا اطلاق کیا ہے ‘ پہلے ہم بعض متاخرین علماء دیوبند کی عبارت نقل کریں گے ‘ پھر اس پر جرح کریں گے۔ 

مفتی محمد شفیع دیوبندی متوفی ١٣٩٦ ھ لکھتے ہیں : 

اسی طرح کسی رسول ونبی کو بذریعہ وحی یا کسی ولی کو بذریعہ کشف والہام کچھ چیزوں کا علم دے دیا گیا ‘ اس کو قرآن میں غیب کی بجائے انباء الغیب کہا گیا ہے ‘ جیسا کہ متعدد آیات میں مذکور ہے۔ (آیت) ” تلک من انباء الغیب نوحیھا الیک “ اس لیے آیت مذکورہ میں (آیت) ” لایعلمھا الا ھو “ یعنی غیب کے خزانوں کو بجز اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا ‘ اس میں کسی شبہ یا استثناء کی گنجائش نہیں۔ (معارف القرآن ج ٣ ص ٣٤٨‘ مطبوعہ ادارۃ المعارف کراچی ‘ ١٣٩٧ ھ) 

نیز مفتی شفیع دیوبندی لکھتے ہیں : 

حق تعالیٰ خود بذریعہ وحی اپنے انبیاء کو جو امور غیبیہ بتلاتے ہیں ‘ وہ حقیقتا علم غیب نہیں ہے ‘ بلکہ غیب کی خبریں ہیں۔ جو انبیاء کو دی گئی ہیں جن کو خود قرآن کریم نے کئی جگہ انباء الغیب کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ (آیت) ” من انباء الغیب نوحیھا الیک “۔ (معارف القرآن ج ٣ ص ٣٤٨‘ مطبوعہ ادارۃ المعارف کراچی ‘ ١٣٩٧ ھ) 

لیکن متقدمین علماء دیوبند نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دیگر مخلوق کے علم پر علم غیب کا اطلاق کیا ہے۔ 

شیخ اشرف علی تھانوی متوفی ١٣٦٢ ھ لکھتے ہیں 

اگر بعض علوم غیبیہ مراد ہیں تو اس میں حضور ہی کی کیا تخصیص ہے ؟ ایسا علم غیب تو زید وعمرو بلکہ ہر صبی ومجنون بلکہ جمیع حیوانات وبہائم کے لیے بھی حاصل ہے کیونکہ ہر شخص کو کسی نہ کسی ایسی بات کا علم ہوتا ہے جو دوسرے شخص سے مخفی ہوتی ہے۔ (حفظ الایمان ‘ ص ١١‘ مطبوعہ مکتبہ نعمانیہ دیوبندیوپی) 

اس عبارت میں شیخ تھانوی نے نہ صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم پر علم غیب کا اطلاق کیا ہے ‘ بلکہ ہر آدمی ‘ بچوں ‘ پاگلوں ‘ حیوانات اور بہائم کے علم پر بھی علم غیب کا اطلاق کیا ہے۔ شیخ تھانوی کے خلیفہ مجاز شیخ مرتضی حسین چاند پوری متوفی ١٣٧١ ھ اس عبارت کی تشریح میں لکھتے ہیں : 

حفظ الایمان میں اس امر کو تسلیم کیا گیا ہے کہ سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علم غیب باعطاء الہی حاصل ہے۔ (توضیح البیان فی حفظ الایما ‘ ص ٥‘ مطبوعہ لاہور) 

نیز لکھتے ہیں : 

سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو بعض علوم غیبیہ حاصل ہیں ‘ اس سے تو یہاں بحث ہی نہیں۔ (توضیح البیان فی حفظ الایما ‘ ص ١٠‘ مطبوعہ لاہور) 

نیز شیخ چاند پوری لکھتے ہیں : 

صاحب حفظ الایمان کا مدعی تو یہ ہے کہ سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو باوجود علم غیب عطائی ہونے کے عالم الغیب کہنا جائز نہیں۔ (توضیح البیان فی حفظ الایما ‘ ص ١٣‘ مطبوعہ لاہور) 

واضح رہے کہ ہمارے نزدیک بھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علم غیب حاصل ہے۔ لیکن آپ کو عالم الغیب کہنا صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ عرف اور شرع میں عالم الغیب اللہ تعالیٰ کی صفت مختصہ ہے ‘ جیسے باوجود عزیز اور جلیل ہونے کے محمد عزوجل کہنا جائز ہیں ہے۔ اعلی حضرت نے آپ کے لیے عالم الغیب کہنا مکروہ قرار دیا ہے۔ 

نیز شیخ اشرف علی تھانوی متوفی ١٣٦٢ ھ لکھتے ہیں 

اول : میں نے دعوی کیا ہے کہ علم غیب جو بلاواسطہ ہو وہ تو خاص ہے حق تعالیٰ کے ساتھ اور جو بواسطہ ہو ‘ وہ مخلوق کے لیے ہوسکتا ہے ‘ مگر اس سے مخلوق کو عالم الغیب کہناجائز نہیں ہے۔ (حفظ الایمان ‘ ص ١٤‘ مطبوعہ مکتبہ نعمانیہ دیوبند) 

اس قسم کی عبارات بہت ہیں۔ ہم نے بہ غرض اختصار چند عبارات نقل کی ہیں۔ اس کی تفصیل ہماری کتاب مقام والیت ونبوت میں ہے۔ بہرحال ان عبارات سے یہ ثابت ہوگیا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطاء الہی سے علم غیب حاصل ہے، جیسا کہ شیخ چاند پوری نے اس کی تصریح کی ہے ‘ اور آپ کی طرف غیب کی نسبت درست ہے ‘ اور یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ آپ کو صرف غیب کی خبریں دی گئی ہیں ‘ غیب کا علم نہیں ہے۔ 

اللہ تعالیٰ کے علم اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم میں فرق : 

مفتی محمد شفیع دیوبندی متوفی ١٣٩٦ ھ لکھتے ہیں : 

خلاصہ یہ ہے کہ علم کے متعلق دو چیزیں حق تعالیٰ کی خصوصیت میں سے ہیں جن میں کوئی فرشتہ یارسول یا کوئی دوسری مخلوق شریک نہیں۔ ایک علم غیب ‘ دوسرے موجودات کا علم محیط جس سے کوئی ذرہ مخفی نہیں۔ (معارف القرآن ج ٣ ص ٣٤٨‘ مطبوعہ ادارۃ المعارف کراچی ‘ ١٣٩٧ ھ) 

نیز مفتی محمد شفیع لکھتے ہیں : 

بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء (علیہم السلام) کو اور بالخصوص حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غیب کی ہزاروں لاکھوں چیزوں کا علم عطا فرمایا ہے اور سب فرشتوں اور انبیاء علیہم سے زیادہ عطا فرمایا ہے ‘ لیکن یہ ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کے برابر کسی کا علم نہیں ‘ نہ ہوسکتا ہے۔ ورنہ پھر یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم کا وہ غلو ہوگا جو عیسائیوں نے اختیار کی کہ رسول کو خدا کے برابر ٹھہرا دیا۔ اسی کا نام شرک ہے۔ نعوذ باللہ منہ۔ (معارف القرآن ج ٣ ص ٣٥٠‘ مطبوعہ ادارۃ المعارف کراچی ‘ ١٣٩٧ ھ) 

ہمارے نزدیک بھی اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم میں مساوات کا قول کرنا شرک ہے۔ اللہ تعالیٰ کا علم قدیم اور غیر متناہی ہے ‘ اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا علم حادث اور متناہی ہے ‘ اللہ تعالیٰ کا علم از خود اور بےتعلیم ہے ‘ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا علم اللہ تعالیٰ کی عطا اور اس کی تعلیم سے ہے۔ ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں کہ ایک قطرہ کو جو نسبت سمندر سے ہے ‘ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم کو اللہ کے علم سے وہ نسبت بھی نہیں ہے ‘ کیونکہ قطرہ اور سمندر میں متناہی کی نسبت متناہی کی طرف ہے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم اور اللہ کے علم میں متناہی کی غیر متناہی کی طرف نسبت ہے ‘ بلکہ ایک ذرہ کے متعلق بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا علم ‘ اللہ کے علم کی مثل نہیں ہے ‘ کیونکہ آپ کو ایک ذرہ کا علم متناہی وجوہ سے ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو ایک ذرہ کا علم بھی غیر متناہی وجوہ سے ہوتا ہے۔ 

اعلی حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی متوفی ١٣٤٠ ھ لکھتے ہیں : 

کسی علم کی حضرت عزوجل سے تخصیص اور اس کی ذات پاک میں حصر اور اس کے غیر سے مطلقا نفی چند وجہ پر ہے : 

اول : علم کا ذاتی ہونا کہ بذات خود بےعطاء غیر ہو۔ 

دوم : علم کا غنا کہ کسی آلہ جارحہ و تدبیر ونظر والتفات وانفعال کا اصلا محتاج نہ ہو۔ 

سوم : علم کا سرمدی ہونا کہ ازلا ابداہو۔ 

چہارم : علم کا وجوب کہ کسی طرح اس کا سلب ممکن نہ ہو۔ 

پنجم : علم کا اقصی غایت کمال پر ہونا کہ معلوم کی ذات ‘ ذاتیات ‘ اعراض ‘ احوال لازمہ ‘ مفارقہ ‘ ذاتیہ ‘ اضافیہ ‘ ماضیہ ‘ آتیہ (مستقبلہ) موجودہ ‘ ممکنہ سے کوئی ذرہ کسی وجہ سے مخفی نہ ہوسکے۔ 

ان پانچ وجہ پر مطلق علم حضرت احدیت جل وعلا سے خاص اور اس کے غیر سے مطلقا منفی ‘ یعنی کسی کو کسی ذرہ کا ایسا علم جو ان پانچ وجوہ سے ایک وجہ بھی رکھتا ہو ‘ حاصل ہونا ممکن نہیں ہے جو کسی غیر الہی کے لیے عقول مفارقہ ہوں خواہ نفوس ناطقہ ایک ذرہ کا ایسا علم ثابت کرے ‘ یقینا اجماعا کافر مشرک ہے۔ (الصمصام ‘ ص ٧۔ ٦‘ مطبوعہ الایمان پریس لاہور ‘ ١٤١٢ ھ) 

نیز امام احمد رضا قادری لکھتے ہیں : 

میں نے اپنی کتابوں میں تصریح کردی ہے کہ اگر تمام اولین وآخرین کا علم جمع کیا جائے تو اس علم کو علم الہی سے وہ نسبت ہرگز نہیں ہوسکتی جو ایک قطرہ کے کروڑویں حصہ کو سمندر سے ہے ‘ کیونکہ یہ نسبت متناہی کی متناہی کے ساتھ ہے اور وہ غیر متناہی کی متناہی ہے۔ (الملفوظ ‘ ج ١ ص ٤٦‘ مطبوعہ نوری کتب خانہ ‘ لاہور) 

لوح محفوظ کا بیان : 

اسی آیت کے پہلے حصہ میں اللہ تعالیٰ نے اجمالی طور پر اپنے علم کی وسعت بیان فرمائی تھی کہ اسی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں اور اس کے سوا ان کو کوئی نہیں جانتا ‘ اور آیت کے دوسرے حصہ میں اللہ تعالیٰ نے تفصیلی طور پر اپنے علم کی وسعت بیان فرمائی۔ وہ ہر اس چیز کو جانتا ہے جو خشکی اور سمندروں میں ہے ‘ وہ ہر اس پتے کو جانتا ہے جو درخت سے گرتا ہے ‘ اور زمین کی تاریکیوں میں ہر دانہ اور ہر تر اور خشک چیز لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے۔ 

یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ تمام مغیبات کو جانتا ہے ‘ اسی طرح خشکی اور سمندر کی ہر چیز کو جانتا ہے اور اس کا علم تمام موجودات کو محیط ہے ‘ زمین و آسمان میں سے کوئی ذرہ اس سے پوشیدہ نہیں۔ وہ غیب اور شہادت کی ہر چیز کو جاننے والا ہے ‘ درخت کے پتوں میں سے کب اور کس جگہ کوئی پتہ گرتا ہے ؟ نباتات ‘ جمادات اور حیوانات کی تمام حرکات اور ان کے تمام احوال اس کے علم میں ہیں ‘ اور مکلفین میں سے جن اور انس کے ہر فعل سے وہ واقف ہے۔ زمین کے اندھیروں میں بوئے ہوئے بیج اور زمین کے اندر رہنے والے کیڑوں مکوڑوں اور زمین کے اوپر جانداروں اور بےجانوں کے تمام احوال ‘ کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں۔ جو تر اور خشک ‘ زندہ یامردہ ‘ پھل یا کوئی دانہ زمین پر گرتا ہے ‘ وہ سب سے واقف ہے اور ان میں سے ہر چیز کو اس نے لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے۔ ہر چیز کی پیدائش اور اس کی موت اور حیات ‘ موت اور مابد الموت کے تمام کوائف اس میں لکھے ہوئے ہیں اور ہر چیز کو پیدا کرنے سے پہلے بلکہ آسمانوں اور زمینوں کے پیدا کرنے سے بھی پہلے اس نے تمام مخلوق کے احوال میں اس میں لکھ دیئے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے : 

(آیت) ” ما اصاب من مصیبۃ فی الارض والا فی انفسکم الا فی کتب من قبل ان نبراھا ان ذالک علی اللہ یسیرا، لکیلا تاسوا علی مافاتکم ولا تفرحوا بما اتکم واللہ لا یحب کل مختال فخور “۔ (الحدید : ٢٣۔ ٢٢) 

ترجمہ : زمین میں کوئی مصیبت نہیں پہنچتی اور نہ تمہاری جانوں میں لیکن مصیبت ہمارے پیدا کرنے سے پہلے ایک کتاب میں لکھی ہوئی ہے۔ یہ بیشک اللہ پر بہت آسان ہے ‘ تاکہ اگر کوئی چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے تو تم اس پر رنج نہ کرو اور جو کچھ اللہ نے تمہیں دیا ہے ‘ تم اس پر اترایا نہ کرو ‘ اور اللہ کسی اترانے والے متکبر کو پسند نہیں کرتا۔ 

حضرت عبداللہ بن عمر بن العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ‘ کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے مخلوقات کی تقدیریں لکھی تھیں اور اس کا عرش پانی پر تھا۔ 

(صحیح مسلم قدر ‘ ١٦‘ (٢٦٥٣) ٦٦٢٤‘ سنن الترمذی ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٢١٦٣‘ صحیح ابن حبان ‘ ج ١٤‘ رقم الحدیث :‘ ٦١٣٨‘ مسند احمد ج ٢‘ رقم الحدیث :‘ ٦٥٩٠‘ سنن کبری للبیہیقی ‘ ص ٣٧٤) 

کائنات کے وجود سے پہلے ازل میں اللہ تعالیٰ کو جو اس کائنات کا علم تھا ‘ اس کا نام تقدیر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علم اور ارادہ کے مطابق اس کائنات میں جو کچھ ہونا تھا ‘ اس کو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے لوح محفوظ میں لکھ دیا۔ افلاک کی حرکت اور سورج کی گردش سے دن رات ‘ اور ماہ وسال کا تعین ہوتا ہے ‘ اس لیے افلاک کے پیدا کرنے سے پہلے زمانہ اور سالوں کا کوئی وجود نہ تھا۔ اس لیے اس حدیث میں پچاس ہزار سال کا حقیقی معنی مراد نہیں ہے ‘ بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ آسمانوں اور زمینوں کے پیدا کرنے سے اتنی مدت پہلے لوح محفوظ میں لکھا کہ اگر آسمان وغیرہ ہوتے تو اتنی مدت میں پچاس ہزار سال گزر جاتے اور یا پچاس ہزار سال مدت کے طویل ہونے سے کنایہ ہے۔ 

اس کتاب کو لوح محفوظ اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ کتاب تحریف اور شیطان کی رسائی سے محفوظ ہے ‘ یا یہ محو اور اثبات سے محفوظ ہے ‘ کیونکہ محو اور اثبات فقط فرشتوں کے صحیفوں میں ہوتا ہے ‘ یا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ محفوظ ہے۔ بھلائی نہیں گئی۔ امام رازی کی تحقیق یہ ہے کہ کتاب مبین سے مراد اللہ تعالیٰ کا علم ازلی ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 6 الأنعام آیت نمبر 59