اِنَّاۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ كَمَاۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى نُوْحٍ وَّ النَّبِیّٖنَ مِنْۢ بَعْدِهٖۚ-وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ عِیْسٰى وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْنُسَ وَ هٰرُوْنَ وَ سُلَیْمٰنَۚ-وَ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًاۚ(۱۶۳)

بے شک اے محبوب ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی جیسے وحی نوح اور اس کے بعد پیغمبروں کو بھیجی (ف۴۰۹) اور ہم نے ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحق اور یعقوب اور ان کے بیٹوں اور عیسٰی اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کو وحی کی اور ہم نے داود کو زبور عطا فرمائی

(ف409)

شانِ نزول: یہود و نصارٰی نے سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو یہ سوال کیا تھا کہ اُن کے لئے آسمان سے یکبارگی کتاب نازل کی جائے تو وہ آپ کی نبوّت پر ایمان لائیں اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور ان پر حجت قائم کی گئی کہ حضرت موسٰی علیہ الصلوۃ والسلام کے سوا بکثرت انبیاء ہیں جن میں سے گیارہ کے اسماء شریفہ یہاں آیت میں بیان فرمائے گئے ہیں اہلِ کتاب اُن سب کی نبوّت کو مانتے ہیں ان سب حضرات میں سے کسی پر یکبارگی کتاب نازل نہ ہوئی توجب اس وجہ سے ان کی نبوّت تسلیم کرنے میں اہلِ کتاب کو کچھ پس و پیش نہ ہوا تو سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت تسلیم کرنے میں کیا عذر ہے اور مقصود رسولوں کے بھیجنے سے خَلق کی ہدایت اور ان کو اللہ تعالٰی کی توحید و معرفت کا درس دینا اور ایمان کی تکمیل اور طریقِ عبادت کی تعلیم ہے کتاب کے متفرق طور پر نازل ہونے سے یہ مقصد بروجہِ اَتم حاصل ہوتا ہے کہ تھوڑا تھوڑا بہ آسانی دل نشین ہوتا چلا جاتا ہے اس حکمت کو نہ سمجھنا اور اعتراض کرنا کمال حماقت ہے ۔

وَ رُسُلًا قَدْ قَصَصْنٰهُمْ عَلَیْكَ مِنْ قَبْلُ وَ رُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَیْكَؕ-وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴)

اور اوررسولوں کو جن کا ذکر آگے ہم تم سے (ف۴۱۰)فرما چکے اور ان کو جن کا ذکر تم سے نہ فرمایا(ف۴۱۱) اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا(ف۴۱۲)

(ف410)

قرآن شریف میں نام بنام فرماچکے ہیں ۔

(ف411)

اور اب تک ان کے اسماء کی تفصیل قرآن پاک میں ذکر نہیں فرمائی گئی ۔

(ف412)

تو جس طرح حضرت موسٰی علیہ السلام سے بے واسطہ کلام فرمانا دوسرے انبیاء علیہم السلام کی نبوت میں قادح نہیں جن سے اس طرح کلام نہیں فرمایا گیا ایسے ہی حضرت موسٰی علیہ السلام پر کتاب کا یکبارگی نازل ہونا دوسرے انبیاء کی نبوت میں کچھ بھی قادح نہیں ہوسکتا۔

رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّٰهِ حُجَّةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَكِیْمًا(۱۶۵)

رسول خوشخبری دیتے (ف۴۱۳)اور ڈر سناتے (ف۴۱۴) کہ رسولوں کے بعد اللہ کے یہاں لوگوں کو کوئی عذر نہ رہے (ف۴۱۵) اور اللہ غالب حکمت والا ہے

(ف413)

ثواب کی ایمان لانے والوں کو۔

(ف414)

عذاب کا کفر کرنے والوں کو۔

(ف415)

اور یہ کہنے کا موقع نہ ہو کہ اگر ہمارے پاس رسول آتے تو ہم ضرور ان کا حکم مانتے اور اللہ کے مطیع و فرماں بردار ہوتے اس آیت سے یہ مسئلہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی رسولوں کی بعثت سے قبل خَلق پر عذاب نہیں فرماتا جیسا دوسری جگہ ارشاد فرمایا ” وَمَاکُنَّامُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا” اور یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ معرفت الٰہی بیانِ شرع و زبانِ اَنبیاء ہی سے حاصل ہوتی ہے عقلِ محض سے اس منزل تک پہنچنا میسّر نہیں ہوتا۔

لٰكِنِ اللّٰهُ یَشْهَدُ بِمَاۤ اَنْزَلَ اِلَیْكَ اَنْزَلَهٗ بِعِلْمِهٖۚ-وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ یَشْهَدُوْنَؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًاؕ(۱۶۶)

لیکن اے محبوب اللہ اس کا گواہ ہے جو اس نے تمہاری طرف اتارا وہ اس نے اپنے علم سے اتارا ہے اور فرشتے گواہ ہیں اور اللہ کی گواہی کافی

اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ صَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ قَدْ ضَلُّوْا ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا(۱۶۷)

وہ جنہوںنے کفر کیا (ف۴۱۶) اور اللہ کی راہ سے روکا (ف۴۱۷) بے شک وہ دور کی گمراہی میں پڑے

(ف416)

سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا انکار کرتے۔

(ف417)

حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت وصفت چُھپاکر اور لوگوں کے دلوں میں شبہ ڈال کر ( یہ حال یہود کا ہے)

اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ ظَلَمُوْا لَمْ یَكُنِ اللّٰهُ لِیَغْفِرَ لَهُمْ وَ لَا لِیَهْدِیَهُمْ طَرِیْقًاۙ(۱۶۸)

بے شک جنہوں نے کفر کیا (ف۳۱۸)اور حد سے بڑھے (ف۴۱۹) اللہ ہر گز انہیں نہ بخشے گا (ف۴۲۰) نہ انہیں کوئی راہ دکھائے

(ف418)

اللہ کے ساتھ۔

(ف419)

کتاب الٰہی میں حضور کے اوصاف بدل کر اور آپ کی نبوّت کا انکار کرکے۔

(ف420)

جب تک وہ کفر پر قائم رہیں یا کفر پر مریں۔

اِلَّا طَرِیْقَ جَهَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-وَ كَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرًا(۱۶۹)

مگر جہنم کا راستہ کہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ اللہ کو آسان ہے

یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمُ الرَّسُوْلُ بِالْحَقِّ مِنْ رَّبِّكُمْ فَاٰمِنُوْا خَیْرًا لَّكُمْؕ-وَ اِنْ تَكْفُرُوْا فَاِنَّ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا(۱۷۰)

اے لوگو تمہارے پاس یہ رسول (ف۴۲۱) حق کے ساتھ تمہارے رب کی طرف سے تشریف لائے تو ایمان لاؤ اپنے بھلے کو اور اگر تم کفر کرو (ف۴۲۲) تو بے شک اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور اللہ علم و حکمت والا ہے

(ف421)

سید انبیاء محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔

(ف422)

اور سید انبیاء محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا انکار کرو تو اس میں ان کا کچھ ضرر نہیں اور اللہ تمہارے ایمان سے بے نیاز ہے۔

یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ وَ لَا تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّؕ-اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَ كَلِمَتُهٗۚ-اَلْقٰىهَاۤ اِلٰى مَرْیَمَ وَ رُوْحٌ مِّنْهُ٘-فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ ۚ۫-وَ لَا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَةٌؕ-اِنْتَهُوْا خَیْرًا لَّكُمْؕ-اِنَّمَا اللّٰهُ اِلٰهٌ وَّاحِدٌؕ-سُبْحٰنَهٗۤ اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗ وَلَدٌۘ-لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِیْلًا۠(۱۷۱)

اے کتاب والو اپنے دین میں زیادتی نہ کرو (ف۴۲۳) اور اللہ پر نہ کہو مگر سچ (ف۴۲۴) مسیح عیسٰی مریم کا بیٹا (ف۴۲۵) اللہ کا رسول ہی ہے اور اس کا ایک کلمہ (ف۴۲۶) کہ مریم کی طرف بھیجا اور اس کے یہاں کی ایک روح تو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ (ف۴۲۷) اور تین نہ کہو (ف۴۲۸) باز رہو اپنے بھلے کو اللہ تو ایک ہی خدا ہے (ف۴۲۹) پاکی اُسے اس سے کہ اس کے کوئی بچہ ہو اُسی کا مال ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں (ف۴۳۰) اور اللہ کافی کارساز(کام بنانے والا) ہے

(ف423)

شانِ نزول: یہ آیت نصارٰی کے حق میں نازل ہوئی جن کے کئی فرقے ہوگئے تھی اور ہر ایک حضرت عیسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام کی نسبت جُداگانہ کُفری عقیدہ رکھتا تھا۔ نسطوری آپ کو خدا کا بیٹا کہتے تھے مرقوسی کہتے کہ وہ تین میں کے تیسرے ہیں اور اس کلمہ کی توجیہات میں بھی اختلاف تھا، بعض تین اقنوم مانتے تھے اور کہتے تھے کہ باپ بیٹا روح القدس باپ سے ذات بیٹے سے عیسٰی روح القدس سے ان میں حُلول کرنے والی حیات مراد لیتے تھے تواُن کے نزدیک الٰہ تین تھے اور اس تین کو ایک بتاتے تھے” توحید فی التثلیث ” اور ”تثلیث فی التوحید” کے چکر میں گرفتار تھے بعض کہتے تھے کہ عیسٰی ناسوتیت اور الوہیت کے جامع ہیں ماں کی طرف سے اُن میں ناسوتیت آئی اور باپ کی طرف سے الوہیت آئی ”تَعَالٰی اللّٰہُ عَمَّا یَقُوْلُوْنَ عُلُوًّا کَبِیْرًا ” یہ فرقہ بندی نصارٰی میں ایک یہودی نے پیدا کی جس کا نام بولص تھا اور اُس نے اُنہیں گمراہ کرنے کے لئے اس قسم کے عقیدوں کی تعلیم کی اس آیت میں اہلِ کتاب کو ہدایت کی گئی کہ وہ حضرت عیسٰی علیہ الصلوۃ والسلام کے باب میں افراط و تفریط سے باز رہیں خدا اور خدا کا بیٹا بھی نہ کہیں اور ان کی تنقیص بھی نہ کریں ۔

(ف424)

اللہ کا شریک اور بیٹا بھی کسی کو نہ بناؤ اور حلول و اتحاد کے عیب بھی مت لگاؤ اور اس اعتقادِ حق پر رہو کہ۔

(ف425)

ہے اور اس محترم کے لئے اس کے سوا کوئی نسب نہیں۔

(ف426)

کہ کُن فرمایا اور وہ بغیر باپ اور بغیر نطفہ کے محض امرِ الہٰی سے پیدا ہوگئے

(ف427)

اور تصدیق کرو کہ اللہ واحدہے بیٹے اور اولاد سے پاک ہے اور اس کے رسولوں کی تصدیق کرو اور اس کی کہ حضرت عیسٰی علیہ الصلٰوۃوالسلام اللہ کے رسولوں میں سے ہیں۔

(ف428)

جیسا کہ نصارٰی کا عقیدہ ہے کہ وہ کفرِ محض ہے۔

(ف429)

کوئی اس کا شریک نہیں۔

430)

اور وہ سب کا مالک ہے اور جو مالک ہو وہ باپ نہیں ہوسکتا۔