’’ نماز عصر‘‘

نماز عصر کی فضیلت :-

۱) حضرت عبدللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ فرماتے ہیں ’’ اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جس نے عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھیں۔( ابوداؤد ، ترمذی)

۲) طبرانی نے حضرت ام المؤمنین ام سلمہ سے روایت کیاکہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں ’’ جو عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھے اللہ تعالیٰ اس کے بدن کو آگ پر حرام فرمادے گا۔‘‘

نمازعصرکی رکعتیں

سنت غیرمؤکدہ

۴

فرض

۴

 

عصر کی نماز کاو قت ظہر کا وقت ختم ہونے پر شروع ہوتا ہے اور آفتاب کے غروب ہونے تک رہتا ہے ۔ ( بہار شریعت )

حدیث :- امام ابن ابان حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی ٰ عنہ سے راوی کہ حضور اقدس ﷺ ارشاد فرماتے ہیں ’’ ظہر کا وقت عصر تک ہے اور عصر کا وقت مغرب تک اور مغب کا عشاء تک اور عشاء کا فجر تک ‘‘ ( بحوالہ فتاوٰی رضویہ ،جلد ۲ ، ص۳۲۰)

حضرت سیدنا امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک جب تک سایہ ظلّ ِ اصلی کے علاوہ دو مثل نہ ہوجائے وقت ہوتا نہیں ۔ ( فتاوٰی رضویہ ، جلد ۲ ، ص ۲۱۰)

عصر کی نماز کاوقت کم از کم :- ۱ گھنٹہ اور ۳۵ منٹ

زیادہ سے زیادہ :- ۲ گھنٹہ اور ۶ منٹ رہتا ہے ۔ ( بہار شریعت )

عصرکی نماز کا وقت سال بھر میں مندرجہ ذیل نقشہ کے مطابق گھٹتا بڑھتا رہتا ہے :-

پھر کیا ہوتا ہے منٹ گھنٹہ کب نمبر
پھر بڑھتا ہے ۳۵ ۱ ۲۱؍جنوری ۱
پھر بڑھتا ہے ۵۰ ۱ ۲۰؍اپریل ۲
؍؍ ؍؍ ؍؍ ۰۱ ۲ ۲۲؍مئی ۳
؍؍ ؍؍ ؍؍ ۰۶ ۲ ۲۳؍ جون ۴
پھر گھٹتا ہے ۰۱ ۲ ۲۳؍ جولائی ۵
؍؍ ؍؍ ؍؍ ۵۰ ۱ ۲۳؍اگست ۶
؍؍ ؍؍ ؍؍ ۴۱ ۱ ۲۳؍ستمبر ۷
؍؍ ؍؍ ؍؍ ۳۶ ۱ ۲۴؍اکتوبر ۸
رہ جاتا ہے ۳۵ ۱ ۱؍نومبر ۹

( بحوالہ بہار شریعت ، فتاوٰی رضویہ ، جلد ۲ ، ص ۲۱۶)

نوٹ: عصر کا یہ وقت بھی ان شہروں کیلئے ہے جو بریلی شریف کے طول البلد اور عرض البلد پر واقع ہیںدیگر بلاد میںکچھ منٹ کے فرق کا امکان ہے۔

غروب آفتاب ہونے کے بیس منٹ پہلے مکروہ وقت شروع ہوجاتا ہے ۔ اس وقت کوئی نماز جائز نہیں ۔ نہ فرض ،نہ واجب ، نہ سنت ، نہ قضا ، نہ نفل بلکہ غروب آفتاب کے وقت سجدہ ٔتلاوت و سجدہ ٔ سہو بھی ناجائز ہے ۔ ( بہار شریعت، در مختار)

عصر کی نماز کے متعلق اہم مسائل :-

مسئلہ:عصر کی نماز میں تاخیر مستحب ہے مگرا تنی تاخیر نہ کرنی چاہئے کہ آفتاب میں زردی آجائے اور آفتاب پر بے تکلف نگاہ جم سکے ۔ ( عالمگیری، در مختار)

مسئلہ:آفتاب میں زردی اس وقت آتی ہے جب غروب میں بیس ۲۰؎ منٹ باقی رہتے ہیں۔ (فتاوٰی رضویہ ، جلد ۲ ، ص ۲۲۲)

مسئلہ:نماز عصر میں ابر یعنی بادل کے دن جلدی کرنی چاہئے لیکن اتنی جلدی نہ کرنی چاہئے کہ وقت سے پہلے پڑھ لیں ۔ ابر (بادل) کے دن کے علاوہ باقی دنو ںمیں ہمیشہ تاخیر کرنا مستحب ہے ۔ ( فتاوٰی رصویہ ، جلد ۲ ، ص ۲۱۳)

مسئلہ:عصر کا وقتِ مستحب ہمیشہ اس کے و قت کا نصف اخیر ہے مگر روز ابر تعجیل چاہئے یعنی بادل کے دن جلدی پڑھنا چاہئے ۔ ( فتاوٰی رضویہ ، جلد ۲ ، ص ۳۵۲)

مسئلہ:عصر کا مستحب وقت نصف اخیر سے مراد یہ ہے کہ عصر کی نماز کے کل وقت میں سے مکروہ وقت کے بیس منٹ نکل کر باقی وقت کے دو حصّے کریں اور حصّہ اوّل کو چھوڑ کر حصّہ دوم سے وقت مستحب ہے ۔ حالانکہ حصّہ اوّل میں بھی اصلاً کراہت نہیں۔(فتاوٰی رضویہ ، جلد ۲ ، ص ۲۱۶)

یعنی فرض کرو کہ عصر کا وقت ۵؍ بجکر ۲۰؍منٹ پر شروع ہوتاہے اور آفتاب ۷ ؍بجکر ۱۰ ؍منٹ پر غروب ہوتا ہے ۔ غروب آفتاب کے پہلے کے بیس منٹ نکال دو تو ۶ ؍بجکر ۵۰؍ منٹ کا وقت ہوا ۔ یعنی ۵؍ بجکر ۲۰؍ منٹ سے لے کر ۶؍ بجکر ۵۰؍ منٹ کا وقت وہ ہے جس میں اصلاً کوئی کراہت نہیں ۔اور وہ وقت ۱؍ گھنٹہ ۳۰؍ منٹ یعنی کل ۹۰؍ منٹ کا وقت ہوا ۔ اب اس کے دو حصے کرو ۔ ایک حصہ ۴۵؍ منٹ کا ہوا ۔ تو یہ نتیجہ آیا کہ :-

(۱) نصف اوّل :- ۵؍ بجکر ۲۰ ؍منٹ میں ۴۵ ؍منٹ ملائے یعنی ۶ ؍بجکر ۵؍ منٹ تک

(۲) نصف آخر :- ۶ ؍بجکر ۵ ؍منٹ سے ۶ ؍بجکر ۵۰ ؍منٹ تک ۔

مسئلہ:غروب آفتاب کے بیس منٹ پہلے کا وقت ایسا مکروہ وقت ہے کہ اس میں کوئی بھی نماز پڑھنی جائز نہیں ۔ لیکن اگر اس دن کی عصر کی نماز نہیں پڑھی تو اس وقت بھی پڑھ لے اگرچہ آفتاب غروب ہورہا ہو تب بھی پڑھ لے لیکن بلا عذر شرعی اتنی تاخیر حرام ہے ۔ حدیث میں ا سکو منافق کی نماز فرمایا گیا ہے ۔ ( عالمگیری ، بہار شریعت جلد ۳ ، ص ۲۱)

مسئلہ:جب غروب کو بیس (۲۰) منٹ باقی رہیں تب وقت کراہت آجائے گا ۔ اس وقت آج کی عصر کے سوا ہر نماز منع ہوجائے گی ۔ ( فتاوٰی رضویہ ، جلد ۲ ، ص ۲۱۵) یعنی صرف عصر کی فرض نماز پڑھ سکتا ہے ۔اس کی سنت نہیں پڑھ سکتا ۔

مسئلہ:جب آفتاب قریب غروب پہنچے اور وقت کراہت آئے اس وقت قرآن مجید کی تلاوت ملتوی کردی جائے اور اذکار الٰہیہ کئے جائیں ۔ اس وقت تلاوت مکروہ ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ ، جلد ۲ ، ص ۳۵۹ ، احکام شریعت ، حصہ ۲ ، مسئلہ ۵۲ ص ۳۱)

مسئلہ:عصر کی نماز کے بعدنفل نماز پڑھنا منع ہے ۔ اگر اس وقت میں نفل نماز شروع کرکے توڑ دی تھی ، اس کی قضا بھی اس وقت میں منع ہے ۔ اور اگر اس وقت اس کی قضا پڑھ لی تو ناکافی ہے ۔ قضا اس کے ذمہ سے ساقط نہ ہوئی ۔ ( درمختار، عالمگیری)

مسئلہ:عصر کی نماز کے بعد آفتاب غروب ہونے کے بیس ۲۰؎ منٹ پہلے تک قصا نماز پڑھ سکتا ہے۔ ( بہار شریعت ، فتاوٰی رضویہ ، جلد ۲ ، ص ۳۵۹)

مسئلہ:عصر کی سنتیں شروع کیں تھیں اور جماعت قائم ہوگئی تو دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دے اور جماعت میں شریک ہوجائے ۔ سنتوں کے اعادہ کی ضرورت نہیں ۔ ( فتاوٰی رضویہ ، جلد۳، ص ۶۱۱)

مسئلہ:ایک شخص عصر کی جماعت کی چوتھی رکعت میں شامل ہوا ۔ امام کے سلام پھیرنے کے بعد وہ تین رکعت اس طرح پڑھے کہ امام کے سلام کے بعد کھڑا ہوکر ثنا (سبحنک اللہم ) اگر پہلے نہ پڑھا تھا تو اب پڑھ لے ورنہ ’’ اعوذ ‘‘ سے شروع کرے اور الحمد و سورت پڑھ کر رکوع وسجود کرکے قعدہ میں بیٹھے اور قعدہ میں صرف التحیات پڑھ کر کھڑا ہو جائے پھردوسری رکعت میں الحمد و سورت پڑھے اور رکوع و سجود کے بعد بغیر قعدہ کئے کھڑا ہوجائے اور تیسری رکعت میں صرف الحمدللہ شریف پڑھ کر رکوع و سجود کرے قعدہ ٔ اخیرہ کرکے نماز تمام کرے ۔ ( فتاوٰی رضویہ ، جلد ۳ ، ص ۳۹۳) ……… یعنی

پہلی رکعت میں الحمد اور سورت پڑھے اور رکعت پوری کرکے قعدہ کرے ۔ دوسری رکعت میں بھی الحمد اور سورت پڑھے اور قعدہ نہ کرے اور کھڑا ہوجائے تیسری رکعت میں صر ف الحمد شریف پڑھے اور قعدہ ٔ اخیرہ کرکے نماز پوری کرے ۔

مسئلہ:عصر کی نماز کے فرض کے پہلے جو چار رکعت ہیں وہ سنت غیر مؤکدہ ہیں ۔ان چاروں رکعت کو ایک سلام سے پڑھنا چاہئے ۔ اور دو رکعت کے بعد قعدہ ٔ اولیٰ کرنا چاہئے اور قعدہ ٔ اولیٰ میں التحیات کے بعد درود شریف پڑھنا چاہئے اور تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو توثنا یعنی سبحانک پوری اور تعوذ یعنی اعوذ پورا پڑھے ۔ کیونکہ سنت غیر مؤکدہ مثل نفل ہے اور نفل نماز کاہر قعدہ مثل قعدہ ٔ اخیرہ ہے لہٰذاہر قعدہ میں التحیات و درود شریف پڑھنا چاہئے اور پہلے قعدہ کے بعد والی تیسری رکعت کے شروع میں ثنا اور تعوذ بھی پڑھنا چاہئے ۔ اور ہر رکعت میں سورہ ٔ فاتحہ کے بعد سورت بھی ملانا چاہئے ۔ ( در مختار ، بہار شریعت جلد ۴ ، ص ۱۵ اور فتاوٰی رضویہ جلد ۳ ، ص۴۶۹)