أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰمَعۡشَرَ الۡجِنِّ وَالۡاِنۡسِ اَلَمۡ يَاۡتِكُمۡ رُسُلٌ مِّنۡكُمۡ يَقُصُّوۡنَ عَلَيۡكُمۡ اٰيٰتِىۡ وَيُنۡذِرُوۡنَكُمۡ لِقَآءَ يَوۡمِكُمۡ هٰذَا‌ ؕ قَالُوۡا شَهِدۡنَا عَلٰٓى اَنۡفُسِنَا‌ ۖ وَغَرَّتۡهُمُ الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَا وَشَهِدُوۡا عَلٰٓى اَنۡفُسِهِمۡ اَنَّهُمۡ كَانُوۡا كٰفِرِيۡنَ ۞

ترجمہ:

اے جنات اور انسانوں کے گروہ ! کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے تھے جو تم پر میری آیات بیان کرتے تھے اور تمہیں اس دن کی ملاقات سے ڈراتے تھے ؟ وہ کہیں گے ہاں ہم خود اپنے خلاف گواہی دیتے ہیں اور (اب) انہیں دنیا کی زندگی نے دھوکے میں رکھا ہوا ہے اور انھوں نے خود اپنے خلاف گواہی دی کہ وہ کافر تھے۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے جنات اور انسانوں کے گروہ ! کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے تھے جو تم پر میری آیات بیان کرتے تھے اور تمہیں اس دن کی ملاقات سے ڈراتے تھے ؟ وہ کہیں گے ہاں ہم خود اپنے خلاف گواہی دیتے ہیں اور (اب) انہیں دنیا کی زندگی نے دھوکے میں رکھا ہوا ہے اور انھوں نے خود اپنے خلاف گواہی دی کہ وہ کافر تھے۔ (الانعام : ١٣٠) 

جنات کے لیے رسولوں کے ذکر کی توجیہات : 

اس آیت میں بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنات سے بھی رسول مبعوث ہوتے رہے ہیں ‘ حالانکہ اس پر اتفاق ہے کہ رسول صرف انسانوں سے مبعوث کیے گئے ہیں۔ اس اعتراض کے حسب ذیل جوابات ہیں : 

(١) جنات کے رسول سے رسول کا اصطلاحی اور معروف معنی مراد نہیں ہے ‘ یعنی وہ انسان جس کو اللہ تعالیٰ نے احکام تبلیغ کے لیے لوگوں کے پاس بھیجا ہو اور اس پر وحی اور کتاب کا نزول ہو ‘ بلکہ یہاں رسول سے لغوی معنی مراد ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا جنات کے رسول وہ ہیں جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وحی سن کر اپنی قوم کو پہنچائی یعنی مبلغ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے : 

(آیت) ” واذ صرفنا الیک نفر من الجن یستمعون القران فلما حضروہ قالوا انصتوا فلما قضی ولوا الی قومھم منذرین “۔ (الاحقاف : ٢٩) 

ترجمہ : اور یاد کیجئے جب ہم آپ کی طرف جنات کی ایک جماعت کو لائے ‘ سو جب وہ آپ کے پاس حاضر ہوئے تو انہوں نے (آپس میں) کہا خاموش رہو ‘ پھر جب (قرآن کی تلاوت) ہوچکی تو وہ اپنی قوم کو ڈراتے ہوئے لوٹے۔ 

(آیت) ” قل اوحی الی انہ استمع نفر من الجن فقالوا انا سمعنا قرانا عجبا، یھدی الی الرشد فامنا بہ ولن نشرک بربنا احدا “۔ (الجن : ١٠٢) 

ترجمہ : آپ کہئے کہ میری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ جنات کی ایک جماعت نے میری تلاوت کو غور سے سنا ‘ تو انہوں نے (اپنی قوم سے) کہا بیشک ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے جو صراط مستقیم کی طرف ہدایت کرتا ہے ‘ ہم اس پر ایمان لائے اور ہم اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔ 

(٢) مجاہد نے کہا انسانوں کی طرف رسولوں کو مبعوث کیا گیا ہے اور جنات کی طرف منذرین کو اور اس آیت میں جنات کے رسول سے مراد منذرین ہیں ‘ یعنی ڈرانے والے۔ 

(٣) کلبی نے کہا کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے انسانوں اور جنات دونوں کی طرف رسول بھیجے جاتے تھے ‘ لیکن یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ آپ سے پہلے ہر رسول صرف اپنی قوم کی طرف مبعوث کیا جاتا تھا اور آپ کو تمام انسانوں کی طرف مبعوث کیا گیا۔ امام بخاری روایت کرتے ہیں : 

حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے پانچ ایسی چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئی۔ ایک ماہ کی مسافت سے میرا رعب طاری کردیا گیا ‘ تمام روئے زمین میرے لیے مسجد اور طہارت کا آلہ بنادی گئی۔ پس میرا امتی جس جگہ بھی نماز کا وقت پائے ‘ وہیں نماز پڑھ لے اور میرے لیے غنیمتوں کو حلال کردیا گیا جو مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں گئیں اور مجھے شفاعت دی گئی اور پہلے ہر نبی صرف اپنی قوم کی طرف مبعوث کیا جاتا تھا اور میں تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں۔ 

(صحیح البخاری ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٣٣٥‘ ٤٣٨‘ ٣١٣٢‘ صحیح مسلم المساجد ‘ ٣‘ (٥٢١) ١١٤٣‘ سنن النسائی ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٤٣٢‘ ج ٢‘ رقم الحدیث :‘ ٧٣٦) 

(٤) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا پہلے صرف انسانوں کی طرف رسول مبعوث ہوتے تھے اور ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انسانوں کے بھی رسول ہیں اور جنات کے بھی رسول ہیں اور اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تمام مخلوق کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ امام مسلم روایت کرتے ہیں : 

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے (سابق) انبیاء (علیہم السلام) پر چھ وجوہ سے فضیلت دی گئی ہے۔ مجھے جوامع الکلم (جس کلام میں الفاظ کم ہوں اور معنی زیادہ) عطا کیے گئے ہیں۔ رعب سے میری مدد کی گئی ہے اور میرے لیے غنیمتوں کو حلال کردیا گیا اور تمام روئے زمین کو میرے لیے آلہ طہارت اور مسجد بنادیا اور مجھے تمام مخلوق کی طرف رسول بنایا گیا اور انبیاء کی بعثت مجھ پر ختم ہوگئی۔ 

(صحیح مسلم ‘ المساجد ‘ ٥‘ (٥٢٣) ١١٤٧‘ سنن الترمذی ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ١٥٥٨‘ سنن ابن ماجہ ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٥٦٧‘ مسند احمد ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٩٣٤٨‘ طبع جدید دارالفکر) 

(٥) اس آیت میں تغلیبا جنات کے مبلغین پر رسولوں کا اطلاق کیا گیا ہے ‘ جیسے مذکر کو مونث پر غلبہ دیا گیا ہے اور قرآن مجید کی آیات میں صرف مذکر کو خطاب کیا جاتا ہے اور مونث پر بھی مذکر کے صیغہ کا اطلاق کیا جاتا ہے ‘ حالانکہ وہ مذکر نہیں ہوتیں۔ 

جنات کے مبلغین پر تغلیبا رسول کا اطلاق اس لیے فرمایا ہے کہ میدان قیامت میں صرف انسانوں اور جنات سے حساب لیاجائے گا اور باقی مخلوق سے حساب نہیں لیا جائے گا اور جب ان دونوں گروہوں سے ثواب اور عذاب کے ترتب کے لیے ایک طرح کا حساب لیا جائے گا ‘ تو گویا یہ دونوں ایک جماعت ہیں اور ان سے ایک خطاب کیا گیا۔ 

جنات کو شعلوں والی آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور انسان کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے ‘ دونوں کی خلقت الگ الگ ہے۔ ان میں بھی مومن اور کافر ہوتے ہیں اور ابلیس دونوں کو دشمن ہے ‘ وہ ان کے کافروں سے دوستی رکھتا ہے اور ان مومنوں سے عداوت رکھتا ہے۔ ان میں بھی شیعہ ‘ قدریہ اور مرجہ وغیرہا فرقے ہیں۔ وہ ہماری کتاب کی تلاوت کرتے ہیں ‘ اللہ تعالیٰ نے جنات کا یہ قول نقل کیا ہے : 

(آیت) ” وانا منا الصالحوں ومنادون ذلک کنا طرآئق قددا “۔ (الجن : ١١) 

ترجمہ : اور ہم میں سے کچھ نیک ہیں اور کچھ اس کے خلاف ‘ ہم کئی مسلکوں میں متفرق ہیں۔ 

(آیت) ” وانا منا المسلمون ومنا القاسطون “۔ (الجن : ١٤) 

ترجمہ : اور ہم میں کچھ اللہ کے فرمانبردار ہیں اور ہم میں کچھ نافرمان ہیں۔ 

پھر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے خطاب کرکے فرمایا : ان کو دنیا کی زندگی نے دھوکے میں رکھا ہوا ہے ‘ اور قیامت کے دن جب ان کے عضاء خود ان کے خلاف گواہی دیں گے تو وہ اپنے شرک کا اعتراف کرلیں گے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 6 الأنعام آیت نمبر 130