أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قُلۡ اِنَّنِىۡ هَدٰٮنِىۡ رَبِّىۡۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍۚ دِيۡنًا قِيَمًا مِّلَّةَ اِبۡرٰهِيۡمَ حَنِيۡفًا‌ ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَ ۞

ترجمہ:

آپ کہیے بیشک میرے رب نے مجھے صراط مستقیم کی ہدایت فرمائی ہے، مستحکم دین، ملت ابراہیم ہر باطل سے ممتاز، اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آپ کہیے بیشک میرے رب نے مجھے صراط مستقیم کی ہدایت فرمائی ہے، مستحکم دین، ملت ابراہیم ہر باطل سے ممتاز، اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔ (الانعام : ١٦١) 

اس سورت میں پہلے اللہ تعالیٰ نے توحید کے دلائل بیان فرمائے۔ پھر مشرکین اور منکرین تقدیر کا رد فرمایا ‘ اب اس کلام کو اس پر ختم فرمایا کہ مستحکم دین اور صراط مستقیم ‘ تو ملت ابراھیم ہے جو اللہ کی توحید اور اس کی عبادت پر مبنی ہے اور ہدایت صرف اللہ کی عطا سے حاصل ہوتی ہے ‘ اور ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے اور ہر شخص کو اس کے عمل کی جزا ملے گی۔ 

اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ فرماتا ہے کہ اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان بت پرستوں اور مشرکوں سے کہئے کہ مجھے میرے رب نے صراط مستقیم کی ہدایت دی ہے اور یہی ملت حنفیہ مستقیمہ ہے۔ اللہ نے مجھے دین مستقیم کی ہدایت دی ہے جو حضرت ابرہیم کی ملت ہے ‘ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تمام باطل ادیان سے اعراض کرنے والے تھے اور وہ مشرکین اور بت پرستوں میں سے نہیں تھے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 6 الأنعام آیت نمبر 161