أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

كِتٰبٌ اُنۡزِلَ اِلَيۡكَ فَلَا يَكُنۡ فِىۡ صَدۡرِكَ حَرَجٌ مِّنۡهُ لِتُنۡذِرَ بِهٖ وَذِكۡرٰى لِلۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏ ۞

ترجمہ:

یہ عظیم کتاب آپ کی طرف نازل کی گئی ہے، سو آپ کے دل میں اس (کی تبلیغ) سے تنگی نہ ہو تاکہ آپ اس کے ساتھ ڈائیں اور یہ ایمان والوں کے لیے نصیحت ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یہ عظیم کتاب آپ کی طرف نازل کی گئی ہے۔ سو آپ کے دل میں اس (کی تبلیغ) سے تنگی نہ ہو تاکہ آپ اس کے ساتھ ڈرائیں اور یہ ایمان والوں کے لیے نصیحت ہے :

قرآن مجید کی تبلیغ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حرج یا شک کی تحقیق : حرج کا معنی ہے تنگی (المفردات، ص 123) ۔ حدیث میں ہے بنو اسرائیل سے احادیث بیان کرو اس میں حرج نہیں ہے، یعنی اس میں کوئی گناہ نہیں ہے یا اس پر پابندی نہیں ہے۔ (النہایہ، ج 1 ص 361، الفائق ج 1 ص 238، مجمع بحار الانوار، ج 1 ص 467) ۔

اس آیت کا معنی یہ ہے کہ قرآن مجید کی تبلیغ میں اس خوف سے آپ کا دل تنگ نہ ہو کہ کفار آپ کی تکذیب کریں گے، اس آیت میں آپ کو قران مجید سے ڈانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اور اس سے پہلے یہ فرمایا کہ آپ کے دل میں اس کی تبلیغ سے تنگی نہ ہو کیونکہ قرآن مجید کی تبلیغ کرنا اور اس سے ڈرانا اسی وقت کامل ہوگا جب آپ کے دل میں اس کی تبلیغ سے تنگی ہو۔ اور اس آیت کا حاصل یہ ہے کہ یہ کتاب اللہ تعالیٰ نے آپ پر نازل فرمائی ہے، اس لیے آپ کو یہ یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور حمایت آپ کے ساتھ ہے لہذا آپ کے دل میں اس کی تبلیغ سے تنگی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ جس کا اللہ حافظ اور ناص ہو اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا سو آپ قرآن مجید کی تبلیغ کرنے، اس سے ڈرانے اور اس کے ساتھ نصیحت کرنے میں مشغول رہیں اور کفار اور مشرکین کی مخالفت کی مطلقاً پروا نہ کریں۔ 

امام مسلم بن حجاج قشیری متوفی 261 ھ روایت کرتے ہیں : حضرت عیاض بن حمار مجاشعی (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے خطبہ میں فرمایا : سنو میرے رب نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمہیں ان چیزوں کی تعلیم دوں جو تم کو معلوم نہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے مجھے آج تعلیم دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں نے اپنے بندوں میں سے کسی بندہ کو جو کچھ مال عطا کیا ہے وہ حلال ہے (جب تک اللہ تالیٰ اس کو حرام نہ فرمائے۔ اس کا مقصد ان مشرکوں کا رد کرنا ہے جنہوں نے از خود بحیرہ اور سائبہ وغیرہ کو حرام کرلیا تھا) میں نے اپنے تمام بندوں کو اس حال میں پیدا کیا کہ وہ (فطرتا) باطل سے دور رہنے والے تھے اور بیشک ان کے پاس شیطان آئے اور انہوں نے ان کو دین (برحق) سے پھیر دیا اور جو چیزیں میں نے ان پر حلال کی تھیں، وہ انہوں نے ان پر حرام کردیں، اور ان کو میرے ساتھ شرک کرنے کا حکم دیا جس (شرک) پر میں نے کوئی دلیل نہیں قائم کی تھی اور اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کو دیکھا اور اہل کتاب کے چند باقی لوگوں کے سوا تمام عرب اور عجم کے لوگوں سے ناراض ہوا اور اللہ نے فرمایا میں نے تم کو آزمائش کے لیے بھیجا ہے اور تمہارے سبب سے (دوسروں کی) آزمائش کے لیے، میں نے تم پر ایسی کتاب نازل کی ہے جس کو پانی نہیں دھو سکتا۔ تم اس کو نیند اور بیداری میں پڑھوگے، اور بیشک اللہ نے مجھے قریش کو جلانے کا حکم دیا ہے، میں نے کہا اے میرے رب ! وہ تو میرا سر پھاڑ دیں گے اور اس کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے چھوڑ دیں گے، اللہ نے فرمایا ان کو اس طرح نکال دو جس طرح انہوں نے تم کو نکالا ہے، تم ان سے جہاد کرو، ہم تمہاری مدد کریں گے، تم خرچ کرو ہم تم پر خرچ کریں گے، تم ایک لشکر بھیجو ہم اس سے پانچ گنا لشکر بھیجیں گے۔ اپنے فرمانبرداروں کے ساتھ اپنے نافرمانوں کے خلاف جنگ کرو (الحدیث) (صحیح مسلم، صفۃ الجنہ، 63 (2865) 7074 ۔ السنن الکبری للنسائی ج 5 رقم الحدیث 8070)

یہ حدیث اس آیت کی بہ منزلہ تفسیر ہے اور اس میں یہ بیان ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار اور مشرکین کی مخالفت اور ان کی ضرر رسانی کا خدشہ تھا اور آپ کو اس سے پریشانی تھی، اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دی کہ آپ پریشان نہ ہوں اور قرآن کریم کی تبلیغ اور اشاعت سے آپ کا دل تنگ نہ ہو، اللہ تعالیٰ کی نصرت اور حمایت آپ کے ساتھ ہے لہذا آپ ان کی مخالفت کی بالکل پروا نہ کریں۔ 

اس آیت کا دوسرا محمل یہ ہے کہ باوجود بسیار کوشش اور پرزور تبلیغ کے مشرکین اپنی ہٹ دھرمی پر قائم تھے اور کفر، عناد اور سرکشی پر اصرار کرتے تھے۔ اس سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بےحد قلق اور رنج ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کے ایمان نہ لانے سے آپ کے دل میں رنج اور تنگی نہ ہو تاکہ آپ کشادہ دلی اور پوری لگن کے ساتھ ان کو اس قرآن کے ذریعہ اخروی عذاب سے ڈراتے رہیں، اس معنی کی تائید ان آیات سے ہوتی ہے : فلعک باخع نفسک علی آثارہم ان لم یومنوا بھذا الحدیث اسفا : اگر وہ اس قرآن پر ایمان نہ لائے تو کہیں فرط غم سے آپ جان دے دیں گے ” الکہف : 6) ۔ ” لعلک باخع نفسک الا یکونوا مومنین : (لگتا ہے) اگر وہ ایمان نہ لائے تو شاید آپ (فرط غم سے) جان دے دیں گے ” (الشعراء :3)

امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی 310 ھ نے حضرت ابن عباس (رض) ، مجاہد، قتادہ اور سدی سے اپنی اسانید کے ساتھ یہ نقل کیا ہے کہ اس آیت میں حرج شک کے معنی میں ہے یعنی آپ کے دل میں قرآن مجید کے متعلق شک نہ ہو۔ (جامع البیان، ج 8، ص 154 تا 153 ۔ مطبوعہ دار الفکر، بیروت، 1415 ھ)

امام فخر الدین رازی متوفی 606 ھ نے بھی حرج کی تفسیر میں اس معنی کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ شک کو حرج اس لیے کہتے ہیں کہ شک کرنے والے کے دل میں تنگی ہوتی ہے اس کے برخلاف یقین کرنے والے کو شرح صدر ہوتا ہے پھر اس کی تائید میں یہ آیت پیش کی ہے : ” فان کنت فی شک مما انزلنا الیک فسئل الزین یقرءون الکتاب من قبلک : اگر آپ (بہ فرض محال) اس چیز کے متعلق شک میں ہو جو ہم نے آپ کی طرف نازل فرمائی ہے تو ان لوگوں سے پوچھ لیں جو آپ سے پہلے کتاب پڑھتے ہیں ” (یونس : 94) 

ہمارے نزدیک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف قرآن مجید میں شک کرنے کی نسبت کرنا صحیح نہیں ہے۔ شک ایمان کے منافی ہے، اس لیے یہ محال ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن مجید کے کلام اللہ ہونے میں شک کریں۔ علاوہ ازیں لغت کی کسی کتاب میں حرج کا معنی شک نہیں ہے اور مجاز پر کوئی قرینہ نہیں ہے۔ اس کے برعکس اس کے خلاف پر قرائن ہیں اور قرآن مجید کی اس آیت سے استشہاد کرنا باطل ہے۔ اولا اس لیے کہ اس میں لفظ ” اگر ” کے ساتھ کلام ہے جس سے شک کا وقوع ثابت نہیں اور ثانیاً یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مخاطب نہ ہوں بلکہ عام سننے والا مخاطب ہو۔ ہمارے استاذ علامہ سید احمد سعید کا ظمی (رح) نے اس آیت کو اسی پر محمول کیا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ کلام بطور تعریض ہو، بہ ظاہر شک کا اسناد آپ کی طرف ہو اور مراد آپ کی امت ہو۔ 

قرآن مجید سے ڈرانے اور نصیحت کرنے کے الگ الگ محل :

اس آیت میں فرمایا ہے : ” تاکہ آپ اس (قرآن) کے سے ڈرائیں اور یہ ایمان والوں کے لیے نصیحت ہے ” لیکن چونکہ اس سے فائدہ صرف مومنین حاصل کرتے ہیں اور وہی اس کی نصیحت کو قبول کرتے ہیں اس لیے فرمایا کہ یہ مومنین کے لیے نصیحت اس آیت میں قرآن مجید سے ڈرانے کا بھی ذکر ہے اور قرآن مجید سے نصیحت کرنے کا بھی ذکر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عموماً انسان دو قسم کے ہوتے ہیں۔ بعض ضدی اور سرکش ہوتے ہیں اور لذات جسمانیہ میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کو انبیاء (علیہم السلام) اخروی عذاب سے ڈراتے ہیں اور بعض انسان نیک اور شریف ہوتے ہیں اور حق بات کو قبول کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ ان کے لیے انبیاء (علیہم السلام) کی صرف تنبیہ اور نصیحت ہی کافی ہوتی ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف آیت نمبر 2