حکایت نمبر251: حق فیصلے کی زبردست مثال

حضرتِ سیِّدُناعمر بن ہَیَّاج بن سعید علیہ رحمۃ اللہ الوحید سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ اسلام کے نامور قاضی حضرتِ سیِّدُنا شَرِیک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کمرۂ عدالت میں مسند ِ قضا پر جلوہ فرما تھے ، اتنے میں ایک عورت حاضرِ خدمت ہوئی اوراس طرح فریاد کی : ”میں پہلے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پناہ چاہتی ہوں پھر قاضی کی، مجھ مظلومہ کو میرا حق دِلوایا جائے۔” قاضی شَرِیک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس عورت کی فریاد سن کر بے چین ہوگئے اورفرمایا:” بلا جھجک بتاؤ، تم پر کس نے ظلم کیاہے ؟” کہا:” امیر موسیٰ بن عیسیٰ نے۔ دریائے فرات کے کنارے میرا کھجوروں کا ایک باغ ہے جو ہمیں وراثت میں ملا ہے، میں نے اپنے بھائیوں سے اپنا حصہ علیحدہ کرکے درمیان میں دیوار تعمیر کروادی اورایک فارسی شخص کو اس کی نگہبانی کے لئے مقرر کردیا۔امیر موسیٰ بن عیسیٰ نے میرے بھائیوں سے ان کے حصہ کا تمام باغ خریدلیا، پھر اس نے مجھے بھی اپنا حصہ بیچنے کو کہا اورخطیر(بہت)رقم کا لالچ دیا ،میں نے اپنا حصہ بیچنے سے انکار کر دیا،اس نے کل رات پانچ سو آدمی بھیج کر اس دیوار کو گروا دیا، میں نے صبح جاکر دیکھاتو دیوار بالکل ختم کردی گئی تھی اوراب میرے اورمیرے بھائیوں کے درختوں میں کوئی نشانی باقی نہ رہی۔ خدارا!مجھے انصاف دِلائیے۔”
اس مظلومہ کی فریاد سن کر وہ عظیم قاضی بے تاب ہوگیا اورخادم کو حکم فرمایا: مِٹی اورمُہر لاؤ ۔ پھر مُہر لگا کر حکم نامہ اس عورت کے سپرد کر دیا اور کہا:”تم امیر موسیٰ بن عیسیٰ کے پاس جاؤ اوریہ حکم نامہ دے کر کہو کہ قاضی صاحب کی عدالت میں حاضر ہوجاؤ ۔ ” چنانچہ، وہ عورت حکم نامہ لے کر موسیٰ بن عیسیٰ کی رہائش گاہ پر پہنچی اوراس کے دربان کو قاضی صاحب کا پیغام دیا ۔ دربان حکم نامہ لے کر موسیٰ بن عیسیٰ کے پاس گیا اورکہا:” آپ کے خلاف قاضی شَرِیک کی عدالت میں دعویٰ کیا جاچکاہے ، آپ کو عدالت میں طلب کیا گیا ہے ،یہ دیکھئے! قاضی صاحب کی طرف سے مُہر شدہ حکم نامہ آیا ہے ۔” موسیٰ بن عیسیٰ نے دربان سے کہا :” جاؤ اور شہر کے پولیس آفیسر کوہمارے پاس بلالاؤ ۔ جب پولیس افسر آیا تو کہا :”تم قاضی شَرِیک کے پاس جاؤ اورکہو کہ تم سے زیادہ عجیب معاملہ میں نے کسی کا نہیں دیکھا۔ایک عورت نے مجھ پر ناحق دعویٰ کیا اورتم اس کے دعوے پر مجھے عدالت میں طلب کرکے اس کی مدد کررہے ہو۔”پولیس آفیسر نے ڈرتے ہوئے کہا:” حضور مجھے اس معاملے سے دور ہی رکھیں توبہترہوگا ۔ امیر نے غضب ناک ہو کر کہا:”جاؤ اورہمارے حکم پر عمل کرو ۔”
مجبوراً اسے جانا ہی پڑا ۔ جاتے ہوئے اس نے اپنے غلاموں سے کہہ دیا کہ میرے لئے جیل میں بستر وغیرہ کا انتظام کر دو۔ آج میں ضرور جیل بھیج دیا جاؤں گا ۔ پولیس افسر کو معلوم تھا کہ اسلام کا یہ انصاف پسند قاضی ایک مجرم کا پیغام لانے پرمجھے ضرور قید میں ڈال دے گا ۔ جب پولیس آفیسر نے قاضی شَرِیک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو امیر موسیٰ بن عیسیٰ کا پیغام دیاتو قاضی صاحب نے سپاہی کو حکم دیا :” اسے گرفتار کرکے قید خانے میں ڈال دو۔” افسر نے کہا:” خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! مجھے معلوم تھا کہ آپ ایسا ہی کریں گے، اس لئے جیل میں جانے کے لئے پہلے ہی انتظام کر کے آیاہوں۔”جب امیر موسیٰ بن عیسیٰ کو اپنے پولیس آفیسر کی گرفتاری کی خبر پہنچی تو اس نے دربان کو بلا کر قاضی صاحب کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا : ”آپ نے ہمارے قاصد کو گرفتار کرلیا، اس نے تو صرف پیغام پہنچایا تھا، اس کا قصورکیا ہے؟” پیغام پاکر قاضی صاحب نے حکم دیا کہ اسے بھی اس کے ساتھی کے پاس پہنچا دو۔
چنانچہ، اسے بھی قید کرلیا گیا ۔ موسیٰ بن عیسیٰ کو اپنے دربانِ خاص کی گرفتاری کی اطلاع بھی پہنچ گئی ۔ اس نے عصر کی نماز کے بعد کوفہ کے با اثر اورنمایاں لوگوں کے گروہ جن میں قاضی صاحب کے دوست اِسحاق بن صَبَّاح اَشْعَثِی بھی شامل تھے، کو پیغام بھیجا کہ جاؤ قاضی صاحب کو میرا سلام کہنا اور انہیں آگاہ کردینا کہ آپ نے میری بے عزَّتی کی ہے ،میں کوئی عام آدمی نہیں۔ کوفہ کے بااثر لوگوں کی یہ جماعت قاضی صاحب کے پاس آئی، تو انھیں مسجد میں پایا ۔ان لوگوں نے سلام وآداب کے بعد امیر کا پیغام سنانا شروع کیا۔ جیسے ہی ان کا کلام ختم ہوا۔ فرمایا :” کیا بات ہے کہ میں تمہیں ایک ایسے شخص کی طرف داری میں کلام کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں جو حق پر نہیں ۔ پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بآواز بلند فرمایا : کیا یہاں قبیلے کے جوان موجود ہیں؟اگر ہوں تو جلدی سے آجائیں ، تھوڑی ہی دیر میں چند نوجوان آگئے ۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا : ایک ایک کاہاتھ پکڑو اورجیل پہنچا دو۔ خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم !آج کی رات یہ لوگ جیل میں گزاریں گے ۔” کہا:” کیاآپ سچ مچ ہمیں جیل بھجوا رہے ہیں؟” فرمایا : ”ہاں ! واقعی میں تمہیں جیل بھجوا رہا ہوں تاکہ آئندہ تم کسی ظالم کی طرف داری کرتے ہوئے اس کا پیغام نہ لاؤ ۔”
امیر موسیٰ بن عیسیٰ کو ان کی گرفتاری کی اطلاع ملی تو بہت غضب ناک ہوا اور خود جاکرجیل کا دروازہ کھولا اور سب کو رہا کر دیا۔ صبح جب انصاف پسند ،جرأ ت مند قاضی کمرۂ عدالت میں جلوہ گرہواتو داروغۂ جیل نے گذشتہ رات کاتمام واقعہ کہہ سنایا۔ قاضی صاحب نے رجسٹر منگوا کر مہر لگائی اور تمام ریکارڈ گھر بھجواکر غلام کو سواری لانے کا حکم دیا اور کہا:” اب ہم کو فہ میں نہیں رہیں گے ، خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم !ہم نے امیر المؤمنین سے یہ عہدہ طلب نہیں کیا تھابلکہ ہمیں تو مجبور کیا گیا تھا،اورہماری حفاظت وسرپرستی کی ذمہ داری لی گئی تھی۔اب کوفہ میں انصاف قائم کرنا مشکل ہوگیا ہے لہٰذا مجھے یہ عہدہ نہیں چاہے۔یہ کہہ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کوفہ کے اس پل کی طرف چل دیئے جو بغداد جاتاتھا۔جب موسیٰ بن عیسیٰ کو قاضی صاحب کے جانے کی اطلاع ملی تو وہ فوراً آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طرف دوڑا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کا واسطہ دیتے ہوئے کہا :” اے ابو عبداللہ !رک جائیں ۔ خدارا!آپ بغداد نہ جائیں، دیکھیں
تو سہی کہ آپ نے اپنے ہی بھائیوں کو قید کردیا تھا۔” فرمایا :” ہاں! جب انہوں نے ایک ایسے معاملے میں دخل اندازی کی جس کی انہیں اجازت نہ تھی تو میں نے انہیں قید کردیالیکن تم نے انہیں آزاد کردیا ہے، جب تک وہ سب کے سب واپس جیل میں نہ بھیج دیئے جائیں میں ہرگز واپس نہ جاؤں گا اوربغداد جاکر امیر المؤمنین کی طرف سے دی جانے والی اس ذمہ داری سے استعفیٰ دے دوں گا ۔”
امیر موسیٰ بن عیسیٰ نے قاضی صاحب کا یہ پُر عزم فیصلہ سنا تو سپاہیوں کوحکم دیا کہ جن جن کو میں نے رِہا کیاتھا ان سب کو واپس جیل بھیج دیا جائے۔ حکم پاتے ہی سپاہی شہر کی طرف چلے گئے لیکن قاضی صاحب اسی جگہ کھڑے رہے۔ جب داروغۂ جیل نے آکر اطلاع دی کہ ان تمام کوجیل میں بھیج دیا گیا ہے تب آپ وہاں سے واپس پلٹے۔
امیر موسیٰ بن عیسیٰ نے اپنے ایک غلام سے کہا:” قاضی صاحب کی سواری کی لگام پکڑ کر آگے آگے چلو۔ چنانچہ، وہاں موجود تمام لوگ اور امیر موسیٰ بن عیسیٰ قاضی صاحب کے پیچھے پیچھے چل دیئے۔مسجد میں پہنچ کر قاضی صاحب نے مجلسِ قضا قائم کی امیر موسیٰ بن عیسیٰ کو مظلوم عورت کے برابر کھڑا کیا اور عورت سے فرمایا :” جس پر تم نے دعویٰ کیا تھا وہ تمہارے سامنے موجود ہے۔ امیر موسیٰ بن عیسیٰ نے کہا:” اے انصاف پسندقاضی! اب میں خود حاضر ہوں لہٰذا میری وجہ سے قید کئے جانے والوں کو آزاد کیا جائے۔” فرمایا:” ہاں! اب انہیں آزاد کیا جا تاہے۔” یہ کہہ کر ان کی رِہائی کا پروانہ جاری کر دیا اورفرمایا:” اے موسیٰ بن عیسیٰ!اس عورت نے تم پر جو دعویٰ کیا ہے اس بارے میں کیا کہتے ہو؟” کہا:” یہ سچ کہتی ہے۔” فرمایا:” وہ تمام چیزیں جو اس سے لی گئی تھیں اسے واپس کی جائیں اورجو دیوار گرائی گئی تھی اسے فوراً تعمیر کروایاجائے ۔” امیر نے کہا :” ٹھیک ہے میں ابھی یہ کام کروا دیتاہوں کیااس کے علاوہ بھی کوئی دعویٰ ہے ؟” قاضی صاحب نے اس عورت سے پوچھا:” کیا تمہار اکوئی اوردعویٰ ہے؟” کہا: ”ہاں! میرے فارسی خادم کا گھر بھی گرادیا گیا تھا اوراس کا سامان بھی ٹوٹ پھوٹ گیا تھا۔ امیر نے کہا:” میں اس نقصان کا بھی ازالہ کئے دیتاہوں۔” قاضی صاحب نے پھر پوچھا :”کیا کوئی اوردعویٰ باقی ہے؟”عورت نے کہا :” اب میرا کوئی دعویٰ باقی نہیں۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کو اچھی جزا عطافرمائے ۔ پھر وہ عورت دعائیں دیتی ہوئی چلی گئی ۔
اب حق ظاہر ہوگیا تھااور مظلوم کو اس کا حق مل چکا تھا۔ چنانچہ، قاضی صاحب فوراََ اُٹھ کھڑے ہوئے اورامیر موسیٰ بن عیسیٰ کا ہاتھ تھام کر اپنی نشست پر بٹھا یا ، خود اس کے سامنے کھڑے ہو گئے اورکہا:” اے امیر! اے موسیٰ بن عیسیٰ!السلام علیکم،شرعی فیصلہ ہوگیا ہے ،اب آپ امیر ہیں، میرے لائق کوئی حکم ہوتو ارشاد فرمائیں ۔” امیر موسیٰ بن عیسیٰ نے ہنستے ہوئے کہا:” اب آپ کو کیا حکم دوں ؟ پھر اسلام کے اس عظیم قاضی کی عدالت سے چلا گیا ۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)