وَ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖۤ اِذْ قَالُوْا مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلٰى بَشَرٍ مِّنْ شَیْءٍؕ-قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ الَّذِیْ جَآءَ بِهٖ مُوْسٰى نُوْرًا وَّ هُدًى لِّلنَّاسِ تَجْعَلُوْنَهٗ قَرَاطِیْسَ تُبْدُوْنَهَا وَ تُخْفُوْنَ كَثِیْرًاۚ-وَ عُلِّمْتُمْ مَّا لَمْ تَعْلَمُوْۤا اَنْتُمْ وَ لَاۤ اٰبَآؤُكُمْؕ-قُلِ اللّٰهُۙ-ثُمَّ ذَرْهُمْ فِیْ خَوْضِهِمْ یَلْعَبُوْنَ(۹۱)

اور یہود نے اللہ کی قدر نہ جانی جیسی چاہیے تھی (ف۱۸۱) جب بولے اللہ نے کسی آدمی پر کچھ نہیں اتارا تم فرماؤ کس نے اُتاری وہ کتاب جو موسیٰ لائے تھے روشنی اور لوگوں کے لیے ہدایت جس کے تم نے الگ الگ کاغذ بنالیے ظاہر کرتے ہو (ف۱۸۲) اور بہت سا چھپالیتے ہو (ف۱۸۳)ا ور تمہیں وہ سکھایا جاتا ہے (ف۱۸۴) جو نہ تم کو معلوم تھا نہ تمہارے باپ دادا کو اللہ کہو (ف۱۸۵) پھر انہیں چھوڑ دو ان کی بیہودگی میں کھیلتا(ف۱۸۶)

(ف181)

اور اس کی معرفت سے محروم رہے اور اپنے بندوں پر اس کو جو رحمت و کرم ہے اس کو نہ جانا ۔

شانِ نُزول : یہود کی ایک جمات اپنے حِبرُ الاَحبار مالک ابنِ صیف کو لے کر سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وسلم سےمجادلہ کرنے آئی سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا میں تجھے اس پروردگار کی قسم دیتا ہوں جس نے حضرت موسٰی علیہ السلام پر توریت نازل فرمائی ، کیا توریت میں تو نے یہ دیکھا ہے ” اِنَّ اللَّٰہَ یَبْغَضُ الْحِبْرَ السَّمِیْنَ” یعنی اللہ کو موٹا عالِم مبغوض ہے ؟ کہنے لگا ہاں یہ توریت میں ہے ، حضور نے فرمایا تو موٹا عالِم ہی تو ہے اس پر غضبناک ہو کر کہنے لگا کہ اللہ نے کسی آدمی پر کچھ نہیں اُتارا ۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور اس میں فرمایا گیا کس نے اُتاری وہ کتاب جو موسٰی لائے تھے تو وہ لاجواب ہوا اور یہود اس سے برہم ہوئے اور اس کو جھڑکنے لگے اور اس کو حِبْر کے عہدہ سے معزول کر دیا ۔ (مدارک و خازن)

(ف182)

ان میں سے بعض کو جس کا اظہار اپنی خواہش کے مطابق سمجھتے ہو ۔

(ف183)

جو تمہاری خواہش کے خلاف کرتے ہیں جیسے کہ توریت کے وہ مضامین جن میں سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت و صفت مذکور ہے ۔

(ف184)

سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور قرآنِ کریم سے ۔

(ف185)

یعنی جب وہ اس کا جواب نہ دے سکیں کہ وہ کتاب کس نے اُتاری تو آپ فرما دیجئے اللہ نے ۔

(ف186)

کیونکہ جب آپ نے حُجّت قائم کر دی اور انداز و نصیحت نہایت کو پہنچا دی اور ان کے لئے جائے عذر نہ چھوڑی ، اس پر بھی وہ باز نہ آئیں تو انہیں ان کی بے ہودگی میں چھوڑ دیجئے ۔ یہ کُفّار کے حق میں وعید و تہدید ہے ۔

وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْهِ وَ لِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰى وَ مَنْ حَوْلَهَاؕ-وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَ هُمْ عَلٰى صَلَاتِهِمْ یُحَافِظُوْنَ(۹۲)

اور یہ ہے برکت والی کتاب کہ ہم نے اُتاری (ف۱۸۷) تصدیق فرماتی ان کتابوں کی جو آگے تھیں اور اس لیے کہ تم ڈر سناؤ سب بستیوں کے سردار کو (ف۱۸۸) اور جو کوئی سارے جہان میں اس کے گرد ہیں اور وہ جو آخرت پر ایمان لاتے ہیں (ف۱۸۹) اس کتاب پر ایمان لاتے ہیں اور اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں

(ف187)

یعنی قرآن شریف ۔

(ف188)

اُمُّ القُرٰی مکّہ مکرّمہ ہے کیونکہ وہ تمام زمین والوں کا قبلہ ہے ۔

(ف189)

اور قیامت و آخرت اور مرنے کے بعد اُٹھنے کا یقین رکھتے ہیں اور اپنے انجام سے غافل و بے خبر نہیں ہیں ۔

وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِیَ اِلَیَّ وَ لَمْ یُوْحَ اِلَیْهِ شَیْءٌ وَّ مَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْلَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُؕ-وَ لَوْ تَرٰۤى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ بَاسِطُوْۤا اَیْدِیْهِمْۚ-اَخْرِجُوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ غَیْرَ الْحَقِّ وَ كُنْتُمْ عَنْ اٰیٰتِهٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ(۹۳)

اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے (ف۱۹۰) یا کہے مجھے وحی ہوئی اور اسے کچھ وحی نہ ہوئی(ف۱۹۱) اور جو کہے ابھی میں اتارتا ہوں ایسا جیسا خدا نے اتارا (ف۱۹۲) اور کبھی تم دیکھو جس وقت ظالم موت کی سختیوں میں ہیں اور فرشتے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں(ف۱۹۳) کہ نکالو اپنی جانیں آج تمہیں خواری کا عذاب دیا جائے گا بدلہ اس کا کہ اللہ پر جھوٹ لگاتے تھے(ف۱۹۴) اور اس کی آیتوں سے تکبر کرتے

(ف190)

اور نبوّت کا جھوٹا دعوٰی کرے ۔

(ف191)

شانِ نُزول : یہ آیت مُسَیلمہ کَذّاب کے بارے میں نازل ہوئی جس نے یَمامہ عَلاقۂ یمن میں نبوّت کا جھوٹا دعوٰی کیا تھا ۔ قبیلۂ بنی حنیفہ کے چند لوگ اس کے فریب میں آ گئے تھے یہ کذّاب زمانۂ خلافتِ حضرت ابو بکر صدیق میں وحشی قاتلِ امیرِ حمزہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے قتل ہوا ۔

(ف192)

شانِ نُزول : یہ عبداللہ بن ابی سرح کاتِبِ وحی کے حق میں نازل ہوئی ۔ جب آیت ” وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ ” نازل ہوئی اس نے اس کو لکھا اور آخر تک پہنچتے پہنچتے پیدائشِ انسان کی تفصیل پر مطلع ہو کر متعجب ہوا اور اس حالت میں آیت کا آخر ””فَتَبَارَکَ اللّٰہ ُاَحْسَنُ الْخَالِقِیْن ” بے اختیار اس کی زبان پر جاری ہو گیا ، اس پر اس کو یہ گھمنڈ ہوا کہ مجھ پر وحی آنے لگی اور مرتد ہو گیا ، یہ نہ سمجھا کہ نورِ وحی اور قوت و حُسنِ کلام سے آیت کا آخر کلمہ زبان پر آ گیا ، اس میں اس کی قابلیت کا کوئی دخل نہ تھا زورِ کلام خود اپنے آخر کو بتا دیا کرتا ہے جیسے کبھی کوئی شاعر نفیس مضمون پڑھے وہ مضمون خود قافیہ بتا دیتا ہے اور سننے والے شاعر سے پہلے قافیہ پڑھ دیتے ہیں ، ان میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو ہرگز ویسا شعر کہنے پر قادر نہیں تو قافیہ بتانا ان کی قابلیّت نہیں کلام کی قوت ہے اور یہاں تو نورِ وحی اور نورِ نبی سے سینہ میں روشنی آتی تھی چنانچہ مجلس شریف سے جُدا ہونے اور مرتد ہو جانے کے بعد پھر وہ ایک جملہ بھی ایسا بنانے پر قادر نہ ہوا جو نظمِ قرآنی سے مل سکتا ، آخر کار زمانۂ اقدس ہی میں قبل فتحِ مکّہ پھر اسلام سے مشرف ہوا ۔

(ف193)

اَرواح قبض کرنے کے لئے جھڑکتے جاتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں ۔

(ف194)

نبوّت اور وحی کے جھوٹے دعوے کر کے اور اللہ کے لئے شریک اور بی بی بچے بتا کر ۔

وَ لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰى كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ تَرَكْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰكُمْ وَرَآءَ ظُهُوْرِكُمْۚ-وَ مَا نَرٰى مَعَكُمْ شُفَعَآءَكُمُ الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ اَنَّهُمْ فِیْكُمْ شُرَكٰٓؤُاؕ-لَقَدْ تَّقَطَّعَ بَیْنَكُمْ وَ ضَلَّ عَنْكُمْ مَّا كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ۠(۹۴)

اور بے شک تم ہمارے پاس اکیلے آئے جیسا ہم نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا (ف۱۹۵) اور پیٹھ پیچھے چھوڑ آئے جو مال ومتاع ہم نے تمہیں دیا تھا اور ہم تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارشیوں کو نہیں دیکھتے جن کا تم اپنے میں ساجھا بتاتے تھے (ف۱۹۶) بے شک تمہارے آپس کی ڈور کٹ گئی(ف۱۹۷) اور تم سے گئے جو دعوے کرتے تھے(ف۱۹۸)

(ف195)

نہ تمہارے ساتھ مال ہے نہ جاہ ، نہ اولاد جن کی مَحبت میں تم عمر بھر گرفتار رہے ، نہ وہ بُت جنہیں پُوجا کئے ، آج ان میں سے کوئی تمہارے کام نہ آیا ، یہ کُفّار سے روزِ قیامت فرمایا جاو ے گا ۔

(ف196)

کہ وہ عبادت کے حقدار ہونے میں اللہ کے شریک ہیں ۔ (معاذ اللّٰہ)

(ف197)

اور علاقے ٹوٹ گئے ، جماعت منتشر ہو گئی ۔

(ف198)

تمہارے وہ تمام جُھوٹے دعوے جو تم دنیا میں کیا کرتے تھے باطل ہو گئے ۔