أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّمَا يَعۡمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَاَ قَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ وَلَمۡ يَخۡشَ اِلَّا اللّٰهَ‌ فَعَسٰٓى اُولٰۤئِكَ اَنۡ يَّكُوۡنُوۡا مِنَ الۡمُهۡتَدِيۡنَ ۞

ترجمہ:

اللہ کی مساجد صرف وہی لوگ تعمیر کرسکتے ہیں، جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان لائے اور انہوں نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ اد ا کی اور اللہ کے سوا وہ کسی سے نہیں ڈرے اور عنقریب یہی لوگ ہدایت یافتہ لوگوں میں سے ہوں گے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اللہ کی مساجد صرف وہی لوگ تعمیر کرسکتے ہیں، جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان لائے اور انہوں نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی اور اللہ کے سوا وہ کسی سے نہیں ڈرے اور عنقریب یہی لوگ ہدایت یافتہ لوگوں میں سے ہوں گے (التوبہ : ١٨)

مسجد بنانے کا جواز اور استحقاق کن امور پر موقوف ہے :

اللہ تعالیٰ نے تعمیر مساجد کا جواز پانچ چیزوں میں منحصر فرمایا ہے : (١) اللہ پر ایمان (٢) قیامت پر ایمان (٣) نماز قائم کرنا (٤) زکوٰۃ ادا کرنا (٥) اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرنا۔ مساجد بنانے کے لیے اللہ پر ایمان رکھنا اس لیے ضروری ہے کہ مسجد وہ جگہ ہے جہاں اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کی جاتی ہے، سو جو شخص اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہ رکھتا ہو اس کے لیے اللہ کی عبادت کی جگہ بنانا ممنوع ہوگا۔ قیامت پر ایمان رکھنا اس لیے ضروری ہے کہ جس شخص کا قیامت پر ایمان نہیں ہوگا اس شخص کے لیے اللہ کی عبادت کا کوئی محرک اور باعث نہیں ہوگا۔ نماز قائم کرنا اس لیے ضروری ہے کہ مسجد بنانے کی غرض ہی نماز کی ادائیگی ہے، سو جو شخص نماز نہ پڑھتاہو اس کے لیے مسجد بنانا ممنوع ہوگا۔ زکوٰۃ ادا کرنا اس لیے ضروری ہے کہ مسجد میں داخل ہونے کے لیے بدن کی طہارت ضروری ہے اور نماز کے لیے وضو اور پاک اور صاف لباس ضروری ہے اور اس کے لیے مال خرچ کرنا ہوگا اور اس کے لیے فراخ دلی سے مال وہی خرچ کرے گا جو زکوٰۃ ادا کرتا ہو، نیز فقراء، مساکین اور مسافروں کو زکوٰۃ ادا کی جاتی ہے اور مسجد کے نمازیوں میں فقراء، مساکین، مسافر اور دیگر مستحقین زکوٰۃ ہوتے ہیں اور مسجد میں آنے والے کو انہیں زکوٰۃ ادا کرنے کا موقع ملتا ہے۔ مسجد بنانے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ مسجد بنانے والا اللہ عزوجل کے سوا کسی نہ ڈرتا ہو، کیونکہ بعض اوقات غیر مسلم مسجد بنانے میں مزاحم ہوتے ہیں جیسا کہ بھارت اور دیگر غیر مسلم ممالک میں اس کا بکثرت مشاہدہ کیا گیا ہے، ایسے میں مسجد بنانے کی جرات وہی شخص کرے گا جو اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتا ہو، نیز اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ مسجد بنانے والا نام و نمود اور اپنی تعریف و شہرت کے لیے مسجد نہ بنائے بلکہ صرف اللہ عزوجل کی رض اور خوشنودی کے لیے مسجد بنائے۔

مسجد بنانے کے انحصار میں ایمان بالرسول ذکر نہ کرنے کی توجیہات :

اس آیت میں مسجد بنانے کے لیے ایمان باللہ اور دیگر امور کا تو ذکر فرمایا ہے لیکن ایمان بالرسول کا ذکر نہیں فرمایا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ایمان باللہ ایمان بالرسول کو مستلزم ہے کیونکہ اللہ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے تمام ارشادات پر ایمان لایا جائے اور اللہ کا ایک ارشاد یہ بھی ہے محمد رسول اللہ (الفتح : ٢٩) سو جس نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کا رسول نہیں مانا اس نے اللہ عزوجل کو نہیں مانا، دوسرا جواب یہ ہے کہ اس میں نماز کا ذکر ہے اور نماز سے پہلے اذان اور اقامت ہوتی ہے اور اذان اور اقامت میں ہے محمد رسول اللہ، تیسرا جواب یہ ہے کہ اس میں نماز کا ذکر ہے اور نماز سے مراد وہ نماز ہے جس کی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تعلیم دی کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے اس طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٢٤٦، ٦٣١) چوتھا جواب یہ ہے کہ خود نماز کے تشہد میں ہے : السلام علیک ایھا النبی اور نماز کے دوران میں ہے اللھم صل علی محمد وعلی اٰل محمد اور صراحتاً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر اس لیے نہیں فرمایا تاکہ مشرکین کے اس قول کا رد ہو کہ (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دینِ اسلام کی دعوت اپنی ریاست اور حکومت کی طلب کی خاطر دیتے ہیں۔

مسجد بنانے کے فضائل اور مسجد کے اجرو ثواب کے متعلق احادیث :

جب لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مسجد (مسجد نبوی) کو ازسرنو بنانے کے سلسلہ میں بہت اعتراض کیے تو حضرت عثمان (رض) نے فرمایا : تم نے بہت اعتراض کیے ہیں اور میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : جس شخص نے اللہ کی رضا کی طلب کے لیے مسجد بنائی اللہ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٥٠، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٣٣، مسند احدم ج ١ ص ٦١، رقم الحدیث : ٤٣٤، سنن الداری رقم الحدیث : ١٣٩٩، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٧٣٦، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣١٨، جامع الاصول رقم الحدیث : ٨٧١٩) ۔

حضرت عمرو بن عبسہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جس نے اس لیے مسجد بنائی تاکہ اس میں اللہ کا ذکر کیا جائے اللہ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٦٣٥، سنن النسائی رقم الحدیث : ٦٣٥، مسند احمد ج ٤ ص ٣٨٦) ۔

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص صبح کو مسجد میں جائے یا شام کو مسجد میں جائے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر صبح اور شام کو جنت سے مہمانی تیار کرتا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٦٢، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٦٦٩ ) ۔

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سات آدمیوں کو اللہ تعالیٰ اس دن اپنے سایہ میں رکھے گا جس دن اللہ کے سایہ کے سوا اور کسی کا سایہ نہیں ہوگا : (١) امام عادل (٢) جو شخص اللہ کی عبادت میں جوان ہوا (٣) جس شخص کا دل مسجد سے نکلنے کے بعد بھی مسجد میں معلق رہا حتیٰ کہ وہ دوبارہ مسجد میں آیا (٤) وہ دو آدمی جو اللہ کی محبت میں جمع ہوئے اور اللہ کی محبت میں الگ الگ ہوئے (٥) جس شخص نے تنہائی میں بیٹھ کر اللہ کو یاد کیا اور اس کی آنکھوں نے آنسو بہائے (٦) جس شخص کو خوبصورت اور مقتدر عورت نے گناہ کی دعوت دی اور اس نے کہا میں اللہ سے ڈرتا ہوں (٧) جس شخص نے چھپا کر صدقہ دیا حتیٰ کہ بائیں ہاتھ کو پتا نہ چلا کہ دائیں ہاتھ نے کیا دیا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٦٠، ١٤٢٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠٣١) ۔

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : انسان کو اپنے گھر میں نماز پڑھنے سے ایک نماز کا اجر ملتا ہے اور قبائل کی مسجد میں نماز پڑھنے سے پچیس نمازوں کا اجر ملتا ہے اور جامع مسجد میں نماز پڑھنے سے پانچ سو نمازوں کا اجر ملتا ہے اور مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے سے پچاس ہزار نمازوں کا اجر ملتا ہے اور میری مسجد (مسجد نبوی) میں نماز پڑھنے سے پچاس ہزار نمازوں کا اجر ملتا ہے اور مسجد حرام میں نماز پڑھنے سے ایک لاکھ نمازوں کا اجر ملتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٤١٣) ۔

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ مسجد نبوی کے گرد جگہ خالی ہوئی تو بنو سلمہ نے مسجد کے قریب منتقل ہونے کا ارادہ کیا، جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خبر پہنچی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا : مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ تم مسجد کے قریب منتقل ہونے کا ارادہ کر رہے ہو۔ انہوں نے کہا ہاں ! یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہمارا یہ ارادہ ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے بنو سلمہ ! اپنے گھروں میں ہی رہو، تم جس قدر قدم چلتے ہو تمہاری اتنی ہی نیکیاں لکھی جاتی ہیں، (پھر فرمایا) اپنے گھروں میں ہی رہو تم جس قدر قدم چلتے ہو تمہاری اتنی نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٣٦٥ ) ۔

حضرت بریدہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو اندھیروں میں چل کر مسجدوں تک جاتے ہیں انہیں قیامت کے دن نور تام کی بشارت دے دو ۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٥٦١، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٢٣، المعجم الکبیر ج ٢ رقم الحدیث : ٥٨٠٠) ۔

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ فرماتا ہے، مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم ! میں زمین والوں کو عذاب دینے کا ارادہ کرتا ہوں پھر میں ان لوگوں کو دیکھتا ہوں جو میرے گھروں کو آباد رکھتے ہیں اور جو میری وجہ سے آپس میں محبت رکھتے ہیں اور جو سحر کے وقت اٹھ کر مجھ سے استغفار کرتے ہیں تو میں ان سے عذاب کو پھیر دیتا ہوں۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٢ ص ٣٨٣، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٨ ھ) ۔

حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب تم کسی شخص کو مسجد کی حفاظت کرتے ہوئے دیکھو تو اس کے ایمان کی گواہی دو ، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : انما یعمر مساجد اللہ من امن باللہ والیوم الاخر۔ (التوبہ : ١٨) ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٦١٧، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٨٠٢، سنن الدارمی رقم الحدیث : ١٢٢٣ ) ۔

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم جنت کے باغات سے گزرو تو اس میں چرا کرو۔ کہا گیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جنت کے باغات کون سے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مساجد۔ پوچھا گیا ان میں چرنا کس طرح ہے ؟ فرمایا سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر (کہنا) (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٥٠٩) ۔

مسجد کے احکام کے متعلق احادیث :

حضرت ابو قتادہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو وہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز (تحیۃ المسجد) پڑھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٤٤، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧١٤) ۔

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے اس بدبودار درخت (لہسن اور پیاز) میں سے کچھ کھایا وہ ہماری مسجدوں کے قریب نہ آئے، کیونکہ جس چیز سے انسانوں کو ایذاء پہنچتی ہے اس سے فرشتوں کو بھی ایذاء پہنچتی ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٨٥٥، ٨٥٤، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٦٤ ) ۔

حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری امت کے تمام اعمال اچھے اور برے مجھ پر پیش کیے گئے، میں نے نیک اعمال میں دیکھا کہ تکلیف دہ چیز راستہ سے ایک طرف کردی گئی اور برے اعمال میں، میں نے دیکھا کہ بلغم کو مسجد میں دفن کیے بغیر چھوڑ دیا گیا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٥٤ ) ۔

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص مسجد میں جس نیت سے آیا اس کا وہی حصہ ہے۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٧٢) ۔

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم کسی شخص کو مسجد میں خریدوفروخت کرتے ہوئے دیکھو تو کہواللہ تیری تجارت میں نفع نہ دے اور جب تم دیکھو کہ کوئی شخص اپنی گم شدہ چیز کی تلاش کے لیے مسجد میں چلا رہا ہے تو کہو اللہ تیری چیز کو واپس نہ کرے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٢١، سنن الدارمی رقم الحدیث : ١٤٠١) ۔

حسن بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ وہ مسجد میں دنیاوی باتیں کریں گے تم ان کے پاس مت بیٹھو اللہ کو ان کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ (مشکوٰۃ رقم الحدیث : ٧٤٣ ) ۔

امام مالک فرماتے ہیں کہ ہمیں یہ حدیث پہنچی ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب (رض) نے مسجد کے باہر ایک کھلی جگہ بنوادی تھی، جس کا نام بطیحا تھا، آپ نے فرمایا جو آدمی پہیلیاں اور بجھارتیں ڈالتا چاہتا ہو یاشعر پڑھنا چاہتا ہو یا آواز بلند کرنا چاہتا ہو وہ اس کھلی جگہ میں چلا جائے۔ (موطا امام مالک اثر : ٢٢٤، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، موطا مع الزرقانی رقم : ٤٢٤، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت) ۔

حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اپنے بچوں کو اور اپنے لڑائی جھگڑوں کو اور اپنی حدود (کے نفاذ) کو اور اپنی خریدوفروخت کو اپنی مسجدوں سے دور رکھو اور جمعہ کے دنوں میں مسجدوں میں کثرت سے جمع ہو اور اپنی مسجدوں کے دروازوں پر وضو کرنے کی جگہیں بنائو۔ (مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ١٧٢٦، المعجم لکبیر ج ٢٠ رقم الحدیث : ٣٦٩، مسند الشامبین رقم الحدیث : ٣٥٨١) ۔

حضرت ابوالدرداء، حضرت ابو امامہ اور حضرت واثلہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اپنے بچوں کو اور اپنے پاگل لوگوں کو اور اپنے برے لوگوں کو اور اپنی خریدوفروخت کو اور اپنے لڑائی جھگڑوں کو اور اپنی آوازوں کو اور اپنی تلوار سونتنے کو اور اپنی حدود قائم کرنے کو اپنی مسجدوں سے دور رکھو اور جمعہ کے دنوں میں کثرت سے اپنی مسجدوں میں جمع ہو اور اپنی مسجدوں کے دروازوں پر اپنی وضو کی جگہیں بنائو۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٧٥٠، المعجم الکبیر ج ٨ رقم الحدیث : ٧٦٠١، مسند الشامبین رقم الحدیث : ٣٦٢٩، مجمع الزوائد ج ٢ ص ٢٦ ) ۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة آیت نمبر 18