اِذْ یُغَشِّیْكُمُ النُّعَاسَ اَمَنَةً مِّنْهُ وَ یُنَزِّلُ عَلَیْكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّیُطَهِّرَكُمْ بِهٖ وَ یُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّیْطٰنِ وَ لِیَرْبِطَ عَلٰى قُلُوْبِكُمْ وَ یُثَبِّتَ بِهِ الْاَقْدَامَؕ(۱۱)

جب اُس نے تمہیں اُونگھ سے گھیر دیا تو اس کی طرف سے چین(تسکین) تھی (ف۲۲) اور آسمان سے تم پر پانی اتارا کہ تمہیں اس سے ستھرا کردے اور شیطان کی ناپاکی تم سے دور فرماوے اور تمہارے دلوں کی ڈھارس بندھائے اور اس سے تمہارے قدم جمادے (ف۲۳)

(ف22)

حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ غُنودگی اگر جنگ میں ہو تو امن ہے اور اللہ کی طرف سے ہے اور نماز میں ہو تو شیطان کی طرف سے ہے ۔ جنگ میں غُنودگی کا امن ہونا اس سے ظاہر ہے کہ جسے جان کا اندیشہ ہو اسے نیند اور اونگھ نہیں آتی ۔ وہ خطرے اور اِضطِراب میں رہتا ہے ۔ خوفِ شدید کے وقت غُنودگی آنا حصولِ امن اور زوالِ خوف کی دلیل ہے ۔ بعض مفسِّرین نے کہا ہے کہ جب مسلمانوں کو دشمنوں کی کثرت اور مسلمانوں کی قِلّت سے جانوں کا خوف ہوا اور بہت زیادہ پیاس لگی تو ان پر غُنودگی ڈال دی گئی جس سے انہیں راحت حاصل ہوئی اور تَکان اور پیاس رفع ہوئی اور وہ دُشمن سے جنگ کرنے پر قادِر ہوئے ، یہ اُونگھ ان کے حق میں نعمت تھی اور یکبارگی سب کو آئی ۔ جماعتِ کثیر کا خوفِ شدید کی حالت میں اسی طرح یکبارگی اُونگھ جانا خلافِ عادت ہے اسی لئے بعض عُلَماء نے فرمایا کہ یہ اُونگھ معجِزہ کے حکم میں ہے ۔

(ف23)

روزِ بدر مسلمان ریگستان میں اُترے ، ان کے اور ان کے جانوروں کے پاؤں ریت میں دھنسے جاتے تھے اور مشرکین ان سے پہلے لبِ آب قبضہ کر چکے تھے ۔ صحابہ میں بعض حضرات کو وضو کی ، بعض کو غسل کی ضرورت تھی اور پیاس کی شدّت تھی تو شیطان نے وسوسہ ڈالا کہ تم گمان کرتے ہو کہ تم حق پر ہو ، تم میں اللہ کے نبی ہیں اور تم اللہ والے ہو اور حال یہ ہے کہ مشرکین غالب ہو کر پانی پر پہنچ گئے تم بغیر وضو اور غسل کئے نمازیں پڑھتے ہو تو تمہیں دشمن پر فتح یاب ہونے کی کس طرح امید ہے ؟ تو اللہ تعالٰی نے مِیۡنہ بھیجا جس سے جنگل سیراب ہوگیا اور مسلمانوں نے اس سے پانی پیا اور غسل کئے اور وضو کئے اور اپنی سواریوں کو پلایا اور اپنے برتنوں کو بھرا اور غبار بیٹھ گیا اور زمین اس قابل ہوگئی کہ اس پر قدم جمنے لگے اور شیطان کا وسوسہ زائل ہو ا اور صحابہ کے دل خوش ہوئے اور یہ نعمت فتح و ظَفر حاصل ہونے کی دلیل ہوئی ۔

اِذْ یُوْحِیْ رَبُّكَ اِلَى الْمَلٰٓىٕكَةِ اَنِّیْ مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاؕ-سَاُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَ اضْرِبُوْا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍؕ(۱۲)

جب اے محبوب تمہارا رب فرشتوں کو وحی بھیجتا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں تم مسلمانوں کو ثابت رکھو (ف۲۴) عنقریب میں کافروں کے دلوں میں ہیبت ڈالوں گا تو کافروں کی گردنوں سے اوپر مارو اور ان کی ایک ایک پور(جوڑ) پر ضرب لگاؤ (ف۲۵)

(ف24)

ان کی اعانت کرکے اور انہیں بشارت دے کر ۔

(ف25)

ابو داؤد مازنی جو بدر میں حاضر ہوئے تھے ، فرماتے ہیں کہ میں مشرک کی گردن مارنے کے لئے اس کے درپے ہوا اس کا سر میری تلوار پہنچنے سے پہلے ہی کٹ کر گر گیا تو میں نے جان لیا کہ اس کو کسی اور نے قتل کیا ۔ سہل بن حنیف فرماتے ہیں کہ روزِ بدر ہم میں سے کوئی تلوار سے اشارہ کرتا تھا تو اس کی تلوار پہنچنے سے پہلے ہی مشرک کا سر جسم سے جدا ہو کر گر جاتا تھا ۔ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یک مشت سنگریزے کُفّار پر پھینک کر مارے تو کوئی کافِر ایسا نہ بچا جس کی آنکھوں میں اس میں سے کوئی پڑا نہ ہو ۔ بدر کا یہ واقعہ صبحِ جمعہ سترہ رمضان مبارک ۲ ؁ ہجری میں پیش آیا ۔

ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ شَآقُّوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗۚ-وَ مَنْ یُّشَاقِقِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ(۱۳)

یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے مخالفت کی اور جو اللہ اور اس کے رسول سے مخالفت کرے تو بے شک اللہ کا عذاب سخت ہے

ذٰلِكُمْ فَذُوْقُوْهُ وَ اَنَّ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابَ النَّارِ(۱۴)

یہ تو چکھو (ف۲۶) اور اس کے ساتھ یہ ہے کہ کافروں کو آ گ کا عذاب ہے (ف۲۷)

(ف26)

جو بدر میں پیش آیا اور کُفّار مقتول اور مقیّد ہوئے یہ تو عذاب دنیا ہے ۔

(ف27)

آخرت میں ۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوْهُمُ الْاَدْبَارَۚ(۱۵)

اے ایمان والو جب کافروں کے لام(لشکر) سے تمہارا مقابلہ ہو تو انہیں پیٹھ نہ دو (ف۲۸)

(ف28)

یعنی اگر کُفّار تم سے زیادہ بھی ہوں تو ان کے مقابلہ سے نہ بھاگو ۔

وَ مَنْ یُّوَلِّهِمْ یَوْمَىٕذٍ دُبُرَهٗۤ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَیِّزًا اِلٰى فِئَةٍ فَقَدْ بَآءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ مَاْوٰىهُ جَهَنَّمُؕ-وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ(۱۶)

اور جو اس دن انہیں پیٹھ دے گا مگر لڑائی کا ہنر کرنے یا اپنی جماعت میں جا ملنے کو تو وہ اللہ کے غضب میں پلٹا اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور کیا بری جگہ ہے پلٹنے کی (ف۲۹)

(ف29)

یعنی مسلمانوں میں سے جو جنگ میں کُفّار کے مقابلہ سے بھاگا وہ غضبِ الٰہی میں گرفتار ہوا ، اس کا ٹھکانا دوزخ ہے سوائے دو حالتوں کے ، ایک تو یہ کہ لڑائی کا ہنر یا کرتب کرنے کے لئے پیچھے ہٹا ہو وہ پیٹھ دینے اور بھاگنے والا نہیں ہے ، دوسرے جو اپنی جماعت میں ملنے کے لئے پیچھے ہٹا ہو وہ بھی بھاگنے والا نہیں ہے ۔

فَلَمْ تَقْتُلُوْهُمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ قَتَلَهُمْ۪-وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰىۚ-وَ لِیُبْلِیَ الْمُؤْمِنِیْنَ مِنْهُ بَلَآءً حَسَنًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱۷)

تو تم نے اُنہیں قتل نہ کیا بلکہ اللہ نے (ف۳۰) انہیں قتل کیا اور اے محبوب وہ خاک جو تم نے پھینکی تم نے نہ پھینکی تھی بلکہ اللہ نے پھینکی اور اس لیے کہ مسلمانوں کو اس سے اچھاانعام عطا فرمائے بے شک اللہ سنتا جانتا ہے

(ف30)

شانِ نُزُول : جب مسلمان جنگِ بدر سے واپس ہوئے تو ان میں سے ایک کہتا تھا کہ میں نے فلاں کو قتل کیا ، دوسرا کہتا تھا میں نے فلاں کو قتل کیا اس پر یہ آیت نازِل ہوئی اور فرمایا گیا کہ اس قتل کو تم اپنے زور و قوت کی طرف نسبت نہ کرو کہ یہ درحقیقت اللہ کی امداد اور اس کی تقویت اور تائید ہے ۔

ذٰلِكُمْ وَ اَنَّ اللّٰهَ مُوْهِنُ كَیْدِ الْكٰفِرِیْنَ(۱۸)

یہ(ف۳۱)تو لو اور اس کے ساتھ یہ ہے کہ اللہ کافروں کا داؤں سست کرنے والا ہے

(ف31)

فتح و نصرت ۔

اِنْ تَسْتَفْتِحُوْا فَقَدْ جَآءَكُمُ الْفَتْحُۚ-وَ اِنْ تَنْتَهُوْا فَهُوَ خَیْرٌ لَّكُمْۚ-وَ اِنْ تَعُوْدُوْا نَعُدْۚ-وَ لَنْ تُغْنِیَ عَنْكُمْ فِئَتُكُمْ شَیْــٴًـا وَّ لَوْ كَثُرَتْۙ-وَ اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ۠(۱۹)

اے کافرو اگر تم فیصلہ مانگتے ہو تو یہ فیصلہ تم پر آچکا (ف۳۲) اور اگر باز آؤ (ف۳۳) تو تمہارا بھلا ہے اور اگر تم پھر شرارت کرو تو ہم پھر سزا دیں گے اور تمہارا جتھا (گروہ)تمہیں کچھ کام نہ دے گا چاہے کتنا ہی بہت ہو اور اس کے ساتھ یہ ہے کہ اللہ مسلمانوں کے ساتھ ہے

(ف32)

شانِ نُزُول : یہ خِطاب مشرکین کو ہے جنہوں نے بدر میں سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جنگ کی اور ان میں سے ابو جہل نے اپنی اور حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت یہ دعا کی کہ یاربّ ہم میں جو تیرے نزدیک اچھا ہو اسکی مدد کر اور جو بُرا ہو اسے مبتلائے مصیبت کر اور ایک روایت میں ہے کہ مشرکین نے مکّۂ مکرّمہ سے بدر کو چلتے وقت کعبۂ معظّمہ کے پردوں سے لپٹ کر یہ دعا کی تھی کہ یاربّ اگر محمّد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) حق پر ہوں تو ان کی مدد فرما اور اگر ہم حق پر ہوں تو ہماری مدد کر اس پر یہ آیت نازِل ہوئی کہ جو فیصلہ تم نے چاہا تھا وہ کردیا گیا اور جو گروہ حق پر تھا اس کو فتح دی گئی ، یہ تمہارا مانگا ہوا فیصلہ ہے اب آسمانی فیصلہ سے بھی جو ان کا طلب کیا ہوا تھا ، اسلام کی حقانیت ثابت ہوئی ۔ ابوجہل بھی اس جنگ میں ذلّت اورسوائی کے ساتھ مارا گیا اور اس کا سر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور میں حاضر کیا گیا ۔

(ف33)

سیدِ عالَم محمّدِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عداوت اور حضور کے ساتھ جنگ کرنے سے ۔