أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَوَلَمۡ يَنۡظُرُوۡا فِىۡ مَلَـكُوۡتِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَمَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنۡ شَىۡءٍ ۙ وَّاَنۡ عَسٰٓى اَنۡ يَّكُوۡنَ قَدِ اقۡتَرَبَ اَجَلُهُمۡ‌ ۚ فَبِاَىِّ حَدِيۡثٍۢ بَعۡدَهٗ يُؤۡمِنُوۡنَ ۞

ترجمہ:

کیا انہوں نے آسمانوں اور زمینوں کی نشانیوں میں غور نہیں کیا اور ہر اس چیز میں جس کو اللہ نے پیدا فرمایا ہے ؟ اور اس میں کہ شاید ان کا مقررہ وقت قریب آچکا ہے، پس اس قرآن کے بعد وہ اور کس چیز پر ایمان لائیں گے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : کیا انہوں نے آسمانوں اور زمینوں کی نشانیوں میں غور نہیں کیا اور ہر اس چیز میں جس کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے اور اس میں کہ شاید ان کا مقرر وقت قریب آچکا ہے، پس اس قرآن کے بعد وہ اور کس چیز پر ایمان لائیں گے ؟ 

اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور وحدانیت پر دلائل 

اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبوت کا بیان فرمایا تھا اور چونکہ نبوت کا ثبوت الوہیت کے ثبوت پر موقوف ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنی الوہیت اور توحید کا بیان فرمایا۔

اللہ تعالیٰ نے آسمانوں، زمینوں اور ان کے درمیان جو کچھ ہے ان کی نشانیوں سے اپنی الوہیت پر استدلال فرمایا ہے، آسمانوں، زمینوں اور ان کے درمیان کی چیزوں میں سے ہم صرف سورج کی شعاع کے ایک ذرہ کو لیتے ہیں، کسی کھڑکی یا روشن دان سے جب سورج کی شعاع اندر آتی ہے تو ہم چمکیلے ذرات پر مشتمل ایک غبار کو دیکھتے ہیں، ہم ان ذرات میں سے ایک ذرہ کو دیکھتے ہیں کہ وہ ایک خاص سمت اور خاص وضع پر ہے، سوال یہ ہے کہ سمتیں اور اوضاع اور احیاز تو غیر متناہی ہیں تو اس خاص سمت، خاص حیز اور خاص وضع کے لیے اس کا مخصص کون ہے، اس طرح وہ ذرہ اپنے حجم، اپنی صورت و شکل، اپنے رنگ، اپنی طبیعت اور اپنے اثرات میں تمام احجام اور تمام صور اور اشکال اور تمام رنگوں اور تمام طبائع اور اثرات میں مساوی ہے تو اس خاص حجم، خاص شکل و صورت، خاص رنگ، خاص طبیعت اور اثرات میں ان کا مخصص کون ہے ؟ اگر یہ کہا جائے کہ یہ مخصص کوئی جسم ہے تو وہ جسم بھی ممکن ہوگا تو پھر ہم اس میں کلام کریں گے کہ اس ممکن کو عدم سے وجود میں لانے کا مرجح کرن ہے اور یونہی سلسلہ چلتا رہے گا اور قطع تسلسل کے لیے یہ ماننا پڑے گا کہ وہ مخصص اور مرجح جسم ممکن اور حادث نہیں ہے بلکہ وہ جسم کا غیر ہے اور قدیم اور واجب ہے اور یہ ضروری ہے کہ وہ قدیم اور واجب واحد ہو کیونکہ ایک سے زیادہ قدیم اور واجب ہوں تو وہ قدم اور وجوب میں مشترک ہوں گے اور کسی اور جز کی وجہ سے باہم ممتاز اور متمیز ہوں گے، سو ان میں ایک جز مشترک ہوگا وہ قدم اور وجوب ہے اور ایک جز متمیز ہوگا، جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے سے ممتاز ہوں گے اور جو چیز دو جزو وں سے مرکب ہو وہ اپنے اجزاء کی محتاج ہوگی اور ہر مرکب اور محتاج ممکن ہوتا ہے اور امکان اور احتیاج وجوب، قدم اور الوہیت کے منافی ہے، اور ایک آسان دلیل یہ ہے کہ یہ آسمان، زمین اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے وہ سب ایک نظم اور ایک طریقہ پر ہیں، اس پوری کائنات کا نظام نظم واحد پر چل رہا ہے، سورج ہمیشہ ایک مخصوص جانب سے طلوع ہو کر دوسری جانب غروب ہوجاتا ہے اور اس کے برعکس چاند کا طلوع اور غروب ہوتا ہے اور کبھی اس نظام کے خلاف نہیں ہوا، اسی طرح ہمیشہ آسمان پانی برساتا ہے اور غلہ زمین سے پیدا ہوتا ہے اور کبھی اس نظام کے خلاف نہیں ہوا، سیب کے درخت سے کبھی اخروٹ پیدا نہیں ہوا، کبھی کسی حیوان سے انسان یا کسی انسان سے حیوان پیدا نہیں ہوا اور اس پوری کائنات کا نظم واحد پر جاری رہنا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس کا ناظم بھی واحد ہے۔

امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی 606 ھ فرماتے ہیں :

اللہ سبحانہ نے اس عالم کے سوا کروڑوں عالم بنائے ہیں اور ہر عالم میں اس سے عظیم عرش ہے، اور اس سے اعلی کرسی ہے اور ان آسمانوں سے وسیع آسمان ہیں، لہذا انسان کی عقل اللہ کے ملک اور ملکوت کا کس طرح احاطہ کرسکتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ” وما یعلم جنود ربک الا ھو : اور آپ کے رب کے لشکر کی تعداد کو اس کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ” اور جب انسان اللہ کی نشانیوں میں اور کائنات کی وسعتوں میں غور و فکر کرے گا اور اللہ تعالیٰ کی حکمتوں کے اسرار میں سوچ و بچار کرے گا تو اس کے لیے یہ کہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ ” سبحانک لاعلم لنا الا ما علمتنا : تو پاک ہے ہمیں صرف ان ہی چیزوں کا علم ہے جن کا علم تو نے ہمیں دیا ہے ” (البقرہ :32)

آیا بغیر دلیل کے ایمان لانا صحیح ہے یا نہیں ؟

قرآن مجید کی متعدد آیات میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو مظاہر کائنات میں غور و فکر کرکے اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی وحدانیت پر استدلال کرنے کا حکم دیا ہے۔ 

قل انظروا ما ذا فی السموات والارض : آپ کہیے کہ غور سے دیکھو آسمانوں اور زمینوں میں کیا کیا نشانیاں ہیں (یونس :101)

افلم ینظروا الی السماء فوقہم کیف بنینھا وزیناھا وما لہا من فروج۔ والارض مددناھا والقینا فیہا رواسی وانبتنا فیہا من کل زوج بھیج۔ تبصرۃ وذکری لکل عبد منیب : کیا انہوں نے اپنے اوپر آسمان کو غور سے نہیں دیکھا کہ ہم نے اس کو کیسا کیسا بنایا ہے، اور کس طرح اس کو مزین کیا ہے اور اس میں کوئی شگاف نہیں ہے۔ اور ہم نے زمین کو پھیلا اور اس میں مضبوط پہاڑوں کو پیوست کردیا اور اس میں ہر طرح کے خوش نما پودے اگائے۔ یہ (اللہ کی طرف) ہر رجوع کرنے والے بندے کے لیے بصیرت اور نصیحت ہیں۔ (ق :6 ۔ 8)

افلا ینظرون الی الابل کیف خلقت : کیا یہ لوگ بغور اونٹ کو نہیں دیکھتے کہ وہ کیسے بنایا گیا ہے ؟ (الغاشیہ :17)

وفی الارض ایت للموقنین۔ وفی انفسکم افلا تبصرون : اور یقین رکھنے والوں کے لیے زمین میں بہت نشانیاں ہیں اور خود تمہارے نفسوں میں تو کیا تم (ان نشانیوں کو) بغور نہیں دیکھتے (الذاریات :20 ۔ 21)

ان آیات کی وجہ سے بعض علماء نے یہ کہا کہ جو شخص غور و فکر کرکے دلیل سے اسلام قبول کرے اسی کا اسلام معتبر ہے، اسی وجہ سے امام بخاری نے ” کتاب العلم ” میں ایک باب (11) کا یہ عنوان قائم کیا ہے قول اور عمل سے پہلے علم ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ” فاعلم انہ لا الہ الا اللہ : جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ” (محمد :19)

اللہ تعالیٰ نے علم سے ابتداء کی ہے، امام بخاری کا منشا یہ ہے کہ لا الہ الا اللہ پر ایمان لانے سے پہلے دلیل سے اس کا علم حاصل کرنا ضروری ہے، خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص بغیر دلیل کا کلمہ پڑھے اس کا ایمان معتبر نہیں ہے۔

لیکن یہ نظریہ صحیح نہیں ہے ورنہ جب مسلمان کفار سے اسلام کے لیے جہاد کرتے تو کفار کے لیے یہ کہنا صحیح ہوتا کہ تمہارا ہم سے جنگ کرنا اور ہم کو قتل کرنا جائز نہیں ہے حتی کہ تم ہمیں دلائل کے ساتھ اسلام کی حقانیت پر غور وفکر کرنے کی مہلت دو ، نیز امام بخاری نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے لوگوں سے قتال کرنے کا حکم دیا گیا ہے حتی کہ وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں اور جب وہ یہ کہہ لیں گے تو وہ مجھ سے اپنی جانوں اور مالوں کو محفوظ کرلیں گے ماسوا حق اسلام کے اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 25)

نیز اس پر تمام اہل علم کا اجماع ہے کہ جب کافر یہ کہے کہ اشہد ان لا الہ الا اللہ واشہد ان محمدا عبدہ ورسولہ، اور کہے کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو دین لے کر آئے ہیں وہ حق ہے اور میں دین اسلام کے مخالف ہر دین سے بری ہوتا ہوں۔ اور وہ شخص بالغ اور صحیح العقل ہو تو اس شہادت اور اقرار کے بعد وہ مسلمان ہوگا اور اگر وہ اس شہادت اور اقرار سے منحرف ہوگیا تو وہ مرتد ہوگا، اور علامہ سمنانی نے کہا ہے کہ سب سے پہلا واجب یہ ہے کہ انسان، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے اور ان تمام امور پر ایمان لائے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لے کر آئے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ کی معرفت کے دلائل پر غور و فکر کرے، بغیر حجت اور دلیل کے ایمان صحیح ہوتا ہے اس پر واضح دلیل یہ حدیث ہے : 

حضرت عمر بن الحکم (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! میری ایک باندی ہے جو میری بکریوں کو چراتی ہے، ایک دن میں اس کے پاس گیا تو بکریوں میں سے ایک بکری کم تھی، میں نے اس کے متعلق سوال کیا تو اس نے کہا اس کو بھیڑیا لے گیا تو مجھے افسوس ہوا اور میں بھی آخر بنو آدم میں سے ہوں، میں نے اس کو ایک تھپڑ مار دیا۔ مجھ پر ایک غلام کو آزاد کرنا تھا کیا میں اس باندی کو آزاد کردوں ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس باندی سے پوچھا اللہ کہاں ہے ؟ اس نے کہا، آسمان میں ؟ آپ نے فرمایا میں کون ہوں ؟ اس نے کہا آپ اللہ کے رسول ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو آزاد کردو۔ (الموطا رقم الحدیث : 1511 ۔ صحیح مسلم المساجد 33 (537) 1179 ۔ سنن ابو داود، رقم الحدیث : 3282 ۔ 3909 ۔ سنن النسائی رقم الحدیث : 1218 ۔ سنن کبری للنسائی رقم الحدیث : 1141 ۔ الاستذکار ج 23، رقم الحدیث : 1483، ص 165)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف آیت نمبر 185