دیکھے اگر یہ گرمیِ بازار آفتاب

استاذ زمن شہنشاہ سخن علامہ حسن رضا بریلوی 

❤️

دیکھے اگر یہ گرمیِ بازار آفتاب

سر بیچ کر ہو تیرا خریدار آفتاب

❤️

کب تھے نصیب مہر یہ انوار، یہ عروج

تو جس کو چاہے کر دے مرے یار آفتاب

❤️

کس نے نقابِ عارضِ روشن اٹھا دیا

ہر ذرّے سے ہے آج نمودار آفتاب

❤️

وہ حُسن خود فروش اگر بے نقاب ہو

مہتاب مشتری ہو خریدار آفتاب

❤️

ذرّوں میں مل کے پھر نہ پتا حشر تک چلے

آئے تری گلی میں جو اے یار آفتاب

❤️

پوشیدہ گیسوؤں میں ہوا روے پُر ضیا

ہے آج میہمان شبِ تار آفتاب

❤️

آساں نہیں تمہاری تجلی کا سامنا

شکلِ چراغ روز ہے اے یار آفتاب

❤️

اُس کی تجلّیوں سے کرے کون ہم سری

ہو جس کے نقشِ پا سے نمودار آفتاب

❤️

رستہ ترا دلوں میں فلک اس کی رہ گزر

پائے کہاں یہ خوبیِ رفتار آفتاب

❤️

رُک رُک کے پردۂ رُخِ روشن اُٹھائیے

گر جائے چرخ کھا کے نہ اے یار آفتاب

❤️

آتا ہے جام لے کے صبوحی کے واسطے

ہر صبح پیش ساقیِ مے خوار آفتاب

❤️

تیرے فروغِ رُخ کی ثنا کس سے ہو اَدا

بنتا ہے تیرا طالبِ دیدار آفتاب

❤️

تارِ شعاع میں یہ خبر بھیجتا ہے روز

بے مہر مہر کر کہ ہوا زار آفتاب

❤️

ہر صبح آ کر اُن کو جگاتا ہے خواب سے

رکھتا ہے کیا ہی طالعِ بیدار آفتاب

❤️

احباب کو حسنؔ وہ چمکتی غزل سنا

ہر لفظ سے ہو جس کے نمودار آفتاب

❤️