دیکھے اگر یہ گرمیِ بازار آفتاب
sulemansubhani نے Wednesday، 11 March 2020 کو شائع کیا.
دیکھے اگر یہ گرمیِ بازار آفتاب
استاذ زمن شہنشاہ سخن علامہ حسن رضا بریلوی
❤️
دیکھے اگر یہ گرمیِ بازار آفتاب
سر بیچ کر ہو تیرا خریدار آفتاب
❤️
کب تھے نصیب مہر یہ انوار، یہ عروج
تو جس کو چاہے کر دے مرے یار آفتاب
❤️
کس نے نقابِ عارضِ روشن اٹھا دیا
ہر ذرّے سے ہے آج نمودار آفتاب
❤️
وہ حُسن خود فروش اگر بے نقاب ہو
مہتاب مشتری ہو خریدار آفتاب
❤️
ذرّوں میں مل کے پھر نہ پتا حشر تک چلے
آئے تری گلی میں جو اے یار آفتاب
❤️
پوشیدہ گیسوؤں میں ہوا روے پُر ضیا
ہے آج میہمان شبِ تار آفتاب
❤️
آساں نہیں تمہاری تجلی کا سامنا
شکلِ چراغ روز ہے اے یار آفتاب
❤️
اُس کی تجلّیوں سے کرے کون ہم سری
ہو جس کے نقشِ پا سے نمودار آفتاب
❤️
رستہ ترا دلوں میں فلک اس کی رہ گزر
پائے کہاں یہ خوبیِ رفتار آفتاب
❤️
رُک رُک کے پردۂ رُخِ روشن اُٹھائیے
گر جائے چرخ کھا کے نہ اے یار آفتاب
❤️
آتا ہے جام لے کے صبوحی کے واسطے
ہر صبح پیش ساقیِ مے خوار آفتاب
❤️
تیرے فروغِ رُخ کی ثنا کس سے ہو اَدا
بنتا ہے تیرا طالبِ دیدار آفتاب
❤️
تارِ شعاع میں یہ خبر بھیجتا ہے روز
بے مہر مہر کر کہ ہوا زار آفتاب
❤️
ہر صبح آ کر اُن کو جگاتا ہے خواب سے
رکھتا ہے کیا ہی طالعِ بیدار آفتاب
❤️
احباب کو حسنؔ وہ چمکتی غزل سنا
ہر لفظ سے ہو جس کے نمودار آفتاب
❤️