أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاتَّقُوۡا فِتۡنَةً لَّا تُصِيۡبَنَّ الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا مِنۡكُمۡ خَآصَّةً‌ ۚ وَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِيۡدُ الۡعِقَابِ‏ ۞

ترجمہ:

اور اس عذاب سے ڈرتے رہو جو صرف ان ہی لوگوں کو نہیں پہنچے گا جو تم میں سے ظالم ہیں اور یقین رکھو کہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” اور اس عذاب سے ڈرتے رہو جو صرف ان ہی لوگوں کو نہیں پہنچے گا جو تم میں سے ظالم ہیں اور یقین رکھو کہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے “

ظالموں پر عذاب کے نزول میں صالحین کا شمول 

اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اس بات سے ڈرایا تھا کہ بنو آدم اور ان کے دلوں کے درمیان اللہ حائل ہے اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتنوں، آزمائشوں اور عذاب سے ڈرایا ہے کہ اگر ظالموں پر عذاب نازل ہوا تو وہ صرف ظالموں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ تم سب پر نازل ہوگا اور نیک لوگوں اور بدکاروں سب پر یہ عذاب نازل ہوگا۔

امام ابن جریر نے اپنی سند کے ساتھ اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابن عباس (رض) کا یہ قول روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اپنے درمیان بدکاروں کو نہ رہنے دیں ورنہ اللہ تعالیٰ سب پر عذاب نازل فرمائے گا۔ (جامع البیان جز 7، ص 288، رقم الحدیث : 12345، مطبوعہ دار الفکر بیروت، 1415 ھ)

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ حضرت زینب بنت جحش (رض) بیان کرتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھبرائے ہوئے باہر نکلے آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہورہا تھا۔ آپ فرما رہے تھے عرب والوں کے لیے اس شر سے ہلاکت ہو جو قریب آپہنچا ہے، آج کا دن یاجوج ماجوج کے سوراخ کی وجہ سے فتح کرلیا گیا ہے، پھر آپ نے انگوٹھے اور انگشت شہادت کو ملا کر حلقہ بنایا اور فرمایا اس کی مثل۔ میں نے پوچھا یا رسول اللہ ! کیا ہم ہلاک کردیے جائیں گے حالانکہ ہم میں نیک لوگ بھی ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! جب بدکاری بہت زیادہ ہوجائے گی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 3346 ۔ صحیح مسلم الفتن 2 (2880) 7104 ۔ سنن الترمذی رقم الحدیث : 2187 ۔ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 3953، السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : 11311)

حضرت نعمان بن بشیر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کی حدود قائم کرنے والے اور اللہ کی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے (ترمذی کی روایت میں ہے اللہ کی حدود نافذ کرنے میں سستی اور نرمی کرنے والے) کی مثال اس طرح ہے کہ ایک قوم نے کشتی میں بیٹھنے کے لیے قرعہ اندازی کی، بعض لوگوں کے نام اوپر کی منزل کا قرعہ نکلا اور بعض لوگوں کے نام نچلی منزل کا۔ نچلی منزل والے پانی لینے کے لیے اوپر کی منزل پر گئے پھر انہوں نے کہا کہ اگر ہم کشتی کے پیندے میں سوراخ کرکے سمندر سے پانی لے لیں تو اوپر کی منزل والوں کو زحمت نہیں ہوگی۔ اگر اوپر کی منزل والوں نے ان کو اپنا ارادہ پورا کرنے کے لیے چھوڑ دیا تو سب ڈوب کر ہلاک ہوجائیں گے اور اگر انہوں نے ان کے ہاتھوں کو سوراخ کرنے سے روک دیا تو وہ بھی نجات پالیں گے اور نچلی منزل والے بھی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 2686، 2493 ۔ سنن الترمذی رقم الحدیث : 2180 ۔ صحیح ابن حبان ج 1، رقم الحدیث : 297 ۔ مسند احمد ج 6، رقم الحدیث : 18389، طبع جدید۔ مسند احمد ج 4، ص 268 ۔ 270 ۔ 273، طبع قدیم، سنن کبری للبیہقی، ج 10، ص 288، 91)

حضرت جریر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس قوم میں گناہوں کے کام کیے جا رہے ہوں اور وہ ان گناہوں کو مٹانے کی قدرت رکھتے ہوں اور پھر نہ مٹائیں تو اللہ ان کو مرنے سے پہلے عذاب میں مبتلا کردے گا۔

اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں اور اس کی سند حسن ہے۔ (صحیح ابن حبان ج 1، رقم الحدیث : 300 ۔ سنن ابو داود ج 3، رقم الحدیث : 4339 ۔ سنن ابن ماجہ ج 2، رقم الحدیث : 4009 ۔ مسند احمد ج 4، ص 364 ۔ 366، طبع قدیم۔ المعجم الکبیر للطبرانی، ج 2، رقم الحدیث : 2382، 2383، ایک روایت میں ہے کہ جس قوم میں گناہ کیے جائیں، وہ قوم زیادہ اور غالب ہو پھر بھی مداہنت کرے اور خاموش رہے اور برائی کو بدلنے کی کوشش نہ کرے تو پھر ان سب پر عذاب آئے گا۔ المعجم الکبیر ج 2، رقم الحدیث : 2380 ۔ 2381 ۔ 2385 ۔ مسند احمد ج 4، ص 361 ۔ 363، طبع قدیم، سنن کبری للبیہقی، ج 10، ص 91)

حجرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سب سے بڑا جہاد یہ ہے کہ ظالم بادشاہ کے سامنے انصاف کی بات بیان کی جائے۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔

(سنن ترمذی، ج 4، رقم الحدیث : 2181 ۔ سنن ابو داود ج 3، رقم الحدیث : 4344 ۔ سنن ابن ماجہ ج 2، رقم الحدیث : 4011 ۔ مسند البزار رقم الحدیث : 3313 ۔ مجمع الزوائد ج 7، ص 272)

امام ابو داود سلیمان بن اشعث متوفی 279 ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بنو اسرائیل میں سب سے پہلی خرابی یہ واقع ہوئی کہ ایک شخص دوسرے شخص سے ملاقات کرکے یہ کہتا اے شخص ! اللہ سے ڈر، اور جو کام تو کر رہا ہے اس کو چھوڑ دے، کیونکہ یہ کام تیرے لیے جائز نہیں ہے۔ پھر جب دوسرے دن اس سے ملاقات کرتا، تو اس کا وہ کام اس کو اس کے ساتھ کھانے پینے اور اٹھنے بیٹھنے سے منع نہ کرتا۔ جب انہوں نے اس طرح کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دل ایک جیسے کردیے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا بنو اسرائیل میں سے جنہوں نے کفر کیا، ان پر داود اور عیسیٰ بن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی کیونکہ انہوں نے نافرمانی کی اور وہ حد سے تجاوز کرتے تھے۔ وہ ایک دوسرے کو ان برے کاموں سے نہیں روکتے تھے جو وہ کرتے تھے اور جو کچھ وہ کرتے تھے وہ بہت برا کام تھا۔ (المائدہ : 78 ۔ 79) ۔ پھر آپ نے فرمایا ہرگز نہیں ! بہ خدا تم ضرور نیکی کا حکم دیتے رہنا اور برائی سے روکتے رہنا اور تم ضرور ظلم کرنے والے کے ہاتھوں کو پکڑ لینا، اور تم اس کو ضرور حق پر عمل کے لیے مجبور کرنا، ورنہ اللہ تمہارے دل بھی ایک جیسے کردے گا پھر تم پر بھی اسی طرح لعنت کرے گا جس طرح ان پر لعنت کی تھی۔ (سنن ابو داود ج 3، رقم الحدیث : 4336، 4337 ۔ امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن غریب ہے، سنن ترمذی، ج 5، رقم الحدیث : 3058، 3059 ۔ سنن ابن ماجہ ج 2، رقم الحدیث : 4006 ۔ مسند احمد ج 1، ص 391، طبع قدیم، امام احمد کی سند میں انقطاع ہے اس لیے یہ سند ضعیف ہے، مسند احمد بتحقیق احمد شاکر، ج 4، رقم الحدیث : 3713، طبع دار الحدیث قاہرہ۔ المعجم الاوسط ج 1، رقم الحدیث : 523، حافظ الہیثمی نے کہا ہے کہ امام طبرانی کی سند کے تمام راوی صحیح ہیں، مجمع الزوائد ج 7، ص 269)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور یہود نے کہا اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، خود ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، ان کے اسی قول کی وجہ سے ان پر لعنت کی گئی، بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کشادہ ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے۔ (الایہ) (المائدہ : 64)

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم پر عذاب نازل کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو جو لوگ بھی اس قوم میں ہوں، ان سب کو عذاب پہنچتا ہے پھر ان کو ان کے اعمال کے مطابق اٹھایا جاتا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 7109، صحیح مسلم صفۃ الجنہ 84 (2879) 7101)

بدکاروں کے گناہوں کی وجہ سے نیکوکاروں کو عذاب کیوں ہوگا 

اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے : ” ولا تزر وازرۃ وزر اخری : اور کوئی بوجھ اٹھانے والے کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ” (الانعام :164)

” کل نفس بما کسبت رھینہ : ہر نفس اپنے عمل کے بدلے میں گروی ہے ” (المدثر :38)

” لہا ما کسبت و علیہا ما اکتسبت : اس نے جو نیک کام کیا اس کا فائدہ صرف اسی کو ہے، اور اس نے جو برا کام کیا اس کا ضرر صرف اسی کو ہے ” (البقرہ :286)

ان آیات کا تقاضا یہ ہے کہ کسی شخص سے دوسرے کے گناہوں پر گرفت نہیں کی جائے گی اور دوسرے کے گناہوں کا کسی شخص کو عذاب نہیں ہوگا، اور مذکور الصدر احادیث میں یہ بیان فرمایا ہے کہ جب عذاب آئے گا تو وہ بدکاروں کے ساتھ نیک لوگوں کو بھی ہوگا اور زیر تفسیر آیت بھی یہی منشاء ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جب لوگ کسی برائی کو دیکھیں تو ہر دیکھنے والے پر فرض ہے کہ وہ اس برائی کو مٹائے یا اس برائی پر ٹوکے اور ملامت کرے ورنہ کم از کم اس کو دل سے برا جانے اور وہ ان لوگوں سے ناراض ہو اور ان سے محبت کا تعلق نہ رکھے، اور جب نیک لوگ ایسا نہیں کریں گے تو وہ گنہ گار ہوں گے اور عذاب الٰہی کے مستحق ہوں گے۔

امام ابو القاسم سلیمان بن احمد طبرانی متوفی 360 ھ روایت کرتے ہیں :

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ نے ایک فرشتہ کی طرف وحی کی کہ فلاں فلاں بستی والوں پر ان کی بستی کو الٹ دو ، اس نے کہا اس بستی میں ایک بندہ ہے جس نے ایک پل بھی تیری نافرمانی نہیں کی۔ اللہ نے فرمایا اس بستی کو اس شخص پر اور اس بستی والوں پر الٹ دو کیونکہ میری وجہ سے اس شخص کا چہرہ ایک دن بھی غصہ سے متغیر نہیں ہوا۔ اس حدیث کے دو راویوں کی تضعیف کی گئی ہے، لیکن ابن المبارک اور ابوحاتم نے ان کی توثیق کی ہے۔ (مجمع الزوائد ج 7، ص 270 ۔ المعجم الاوسط ج 8، رقم الحدیث : 7657، مطبوعہ مکتبہ المعارف ریاض، 1415 ھ)

المائدہ : 62 اور المائد : 78 میں بھی اسی قسم کا مضمون ہے۔ اس موضوع پر سیر حاصل بحث کے لیے ان آیتوں کی تفسیر بھی دیکھ لی جائے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 8 الأنفال آیت نمبر 25