أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَخُوۡنُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوۡلَ وَتَخُوۡنُوۡۤا اَمٰنٰتِكُمۡ وَاَنۡـتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ۞

ترجمہ:

اے ایمان والو ! اللہ اور رسول سے خیانت نہ کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو حالانکہ تمہیں علم ہو

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” اے ایمان والو ! اللہ اور رسول سے خیانت نہ کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو حالانکہ تمہیں علم ہو “

اللہ اور رسول سے خیانت کی ممانعت کے شان نزول میں متعدد روایات 

اس آیت کے متعدد شان نزول ہیں : 

امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : 

1 ۔ عطاء بن ابی رباح روایت کرتے ہیں کہ حضرت جابر بن عبداللہ (رض) نے مجھے یہ حدیث بیان کی کہ ابوسفیان مکہ سے روانہ ہوا تو حضرت جبرئیل نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور بتایا کہ ابوسفیان فلاں فلاں جگہ میں ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اصحاب کو بتایا کہ ابوسفیان فلاں فلاں جگہ میں ہے تم اس کی طرف روانہ ہو اور اس خبر کو چھپا کر رکھنا۔ ایک شخص نے ابوسفیان کو یہ پیغام بھیج دیا کہ (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر حملہ کرنے کے لیے آ رہے ہیں سو تم اپنے دفاع اور اپنی حفاظت کا بندوبست کرلو، تب اللہ عزوجل نے آیت نازل فرمائی : اے ایمان والو ! اللہ اور رسول سے خیانت نہ کرو۔ (جامع البیان رقم الحدیث : 12358، جز 7، ص 294، الدر المنثور، ج 4، ص 48)

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی 256 ھ روایت کرتے ہیں : 

2 ۔ حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے، ابو مرثد کو اور حضرت زبیر (رض) کو بھیجا۔ ہم سب گھوڑوں پر سوار تھے، آپ نے فرمایا یہاں سے روانہ ہو اور روضہ خاخ پر پہنچ جا۔ وہاں مشرکین کی ایک عورت ملے گی جس کے پاس حاطب بن ابی بلتعہ کا مشرکین کی طرف لکھا ہوا ایک خط ہوگا۔ ہم نے اس عورت کا پیچھا کیا جس جگہ کی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نشاندہی کی تھی وہاں وہ ایک اونٹ پر سوار ہو کر جا رہی تھی۔ ہم نے اس سے کہا وہ خط لاؤ اس نے کہا میرے پاس کوئی خط نہیں ہے۔ ہم نے اس کے اونٹ کو بٹھا لیا اور اس کی تلاشی لی، ہمیں اس کے پاس سے خط نہیں ملا۔ ہم نے کہا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غلط نہیں فرمایا تھا تم وہ خط نکالو ورنہ ہم تمہارے کپڑے اتار دیں گے۔ جب اس نے دیکھا کہ ہم اس معاملہ میں بالکل سنجیدہ ہیں تو اس نے اپنے بالوں کے جوڑے میں سے وہ خط نکال کر ہمیں دیا۔ ہم وہ خط لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچے، حضرت عمر (رض) نے کہا یا رسول اللہ ! اس شخص نے اللہ، اس کے رسول اور مسلمانوں سے خیانت کی ہے، آپ مجھے اجازت دیں تاکہ میں اس کی گردن مار دوں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حاطب سے پوچھا تم نے کس وجہ سے یہ کام کیا ؟ حضرت حاطب نے کہا اللہ کی قسم ! میرے دل میں یہ نہیں تھا کہ میں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے والا نہ رہو، میرا ارادہ صرف یہ تھا کہ میرا ان مشرکین پر کوئی احسان ہوجائے اس احسان کی وجہ سے اللہ میرے اہل اور مال سے ان کے شر کو دور رکھے اور آپ کے اصحاب میں سے ہر شخص کا وہاں کوئی قبیلہ ہے جس کی وجہ سے اللہ ان کے اہل اور ان کے مال سے کافروں کے شر کو دور رکھتا ہے۔ آپ نے فرمایا اس نے سچ کہا ہے اور اس کے حق میں سوائے خیر کے اور کوئی کلمہ نہ کہنا۔ حضرت عمر نے کہا اس شخص نے اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں سے خیانت کی ہے آپ مجھے اجازت دیں کہ میں اس کی گردن اڑا دوں۔ آپ نے فرمایا کیا یہ اہل بدر سے نہیں ہے اور بیشک اللہ اہل بدر کی طرف متوجہ ہو اور فرمایا تم جو چاہو عمل کرو میں نے تمہارے لیے جنت کو واجب کردیا ہے۔ یا فرمایا میں نے تمہاری مغفرت کردی ہے۔ پھر حضرت عمر (رض) کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 3983 ۔ مسند احمد ج 1، ص 105)

حضرت ابولبابہ انصاری کی توبہ 

امام عبدالملک بن ہشام متوفی 218 ھ روایت کرتے ہیں :

3 ۔ بنو قریظہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پیغآم بھیجا کہ آپ ہمارے پاس ابولباب بن عبدالمنذر کو بھیجیں، ان کا تعلق بنوعمرو بن عورف سے تھا اور یہ اوس کے حلیف تھے۔ (ان کے نام میں اختلاف ہے، رفاعہ، مبشر اور بشیر تین قول ہیں۔ آپ حضرت علی کی خلافت تک زندہ رہے۔ الاستیعاب رقم الحدیث : 3180) تاکہ ہم اپنے معاملہ میں ان سے مشورہ کریں۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابولبابہ کو بنو قریظہ کی طرف بھیجا، جب بنو قریظہ نے ان کو دیکھا تو ان کے مرد ان کے پاس کھڑے ہوگئے اور ان کی عورتیں فریاد کرنے لگیں، اور بچے ان کے سامنے رونے لگے۔ یہ دیکھ کر ان کے لیے حضرت ابولباب کا دل نرم ہوگیا۔ بنو قریظہ نے ان سے کہا اے ابولبابہ آپ کا کیا مشورہ ہے کیا ہم (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم پر قلعہ سے نکل آئیں ؟ انہوں نے کہا ہاں ! اور ہاتھ سے اپنے گلے کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ وہ تم کو ذبح کردیں گے۔ حضرت ابولبابہ نے کہا اللہ کی قسم ابھی میں میں نے وہاں سے قدم نہیں اٹھائے تھے کہ میں نے یہ جان لیا کہ میں نے اللہ اور اس کے رسول سے خیانت کی ہے۔ پھر حضرت ابولبابہ سیدھے واپس گئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر نہیں ہوئے حتی کہ انہوں نے اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ باندھ لیا اور کہا میں اس وقت تک بندھا رہوں گا جب تک کہ میری اس خیانت پر اللہ تعالیٰ توبہ قبول نہیں فرما لیتا۔ اور اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کیا کہ میں آئندہ کبھی بنو قریظہ کے پاس نہیں جاؤں گا اور نہ کبھی اس شہر میں جاؤں گا جس میں میں نے اللہ اور اس کے رسول کی خیانت کی تھی۔ 

عبداللہ بن ابی قتادہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابولبابہ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی اے ایمان والو ! اللہ اور رسول سے خیانت نہ کرو۔ (الانفال :27) امام ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خبر ہپنچی تو آپ نے فرمایا اگر وہ میرے پاس آجاتے تو میں ان کے لیے استغفار کرتا، اور جب انہوں نے اپنے آپ کو باندھ لیا ہے تو میں ان کو اس وقت تک نہیں کھولوں گا جب تک کہ اللہ ان کی توبہ قبول نہیں فرمالیتا۔

امام ابن اسحاق روایت کرتے ہیں کہ جس دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ام سلمہ (رض) کے گھر تھے، اس دن سحری کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حضرت ابولبابہ کی توبہ کی قبولیت نازل ہوئی۔ حضرت ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں میں نے سحری کے وقت دیکھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہنس رہے تھے، میں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ آپ کو ہمیشہ ہنستا ہوا رکھے آپ کس وجہ سے ہنس رہے تھے ؟ آپ نے فرمایا ابولبابہ کی توبہ قبول کرلی گئی۔ میں نے کہا یا رسول اللہ کیا میں ان کو یہ خوش خبری نہ دوں ؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں اگر تم چاہو تو، حضرت ام سلمہ حجرہ کے دروازے پر کھڑی ہوگئیں۔ یہ پردہ کے احکام نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے۔ حضرت ام سلمہ نے فرمایا اے ابولبابہ تمہیں مبارک ہو اللہ نے تمہاری توبہ قبول فرما لی۔ حضرت ام سلمہ نے فرمایا مسلمان انہیں کھولنے کے لیے جھپٹے۔ حضرت ابولبابہ نے کہا اللہ کی قسم ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی آ کر اپنے ہاتھوں سے مجھے کھولیں گے اور جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کی نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں تشریف لے گئے تو آپ نے انہیں کھول دیا۔ 

امام ابن ہشام فرماتے ہیں کہ حضرت ابولبابہ ستون کے ساتھ چھ راتیں بندھے رہے، ان کی بیوی ہر نماز کے وقت آ کر انہیں کھول دیتی تھیں وہ نماز پڑھتے اور پھر ستون کے ساتھ بندھ جاتے۔ حضرت ابولبابہ کی توبہ کے متعلق جو آیت نازل ہوئی، وہ یہ ہے :” واخرون اعترفوا بذنوبہم خلطو عملا صالحا واخر سیئا عسی اللہ ان یتوب علیہم ان اللہ غور رحیم : اور دوسرے مسلمان جنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کرلیا، انہوں نے کچھ نیک کاموں کو کچھ برے کاموں کے ساتھ ملا لیا، عنقریب اللہ ان کی توبہ قبول فرمائے گا، بیشک اللہ بہت بخشنے والا، بےحد رحم فرمانے والا ہے ” (السیرۃ النبویہ لابن ہشام ج 3، ص 260 ۔ 262 ۔ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت، 1415 ھ، جامع البیان جز 7، رقم الحدیث : 12359، اسد الغابہ ج 6، ص 260، رقم الحدیث : 6205، اسباب النزول للواحدی رقم الحدیث : 477)

امام عبدالرزاق نے اپنی سند کے ساتھ زہری سے روایت کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابولبابہ کی توبہ قبول فرمائی تو انہوں نے کہا یا نبی اللہ ! میری توبہ یہ ہے کہ میں اس قوم کے اس علاقہ کو چھوڑ دوں جس میں، میں نے گناہ کیا تھا اور میں آپ کے پڑوس میں رہوں اور اپنا تمام مال اللہ اور اس کے رسول کی طرف صدقہ کردوں، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہارے لیے صرف تہائی مال کا صدقہ کرنا کافی ہے۔ (مصنف عبدالرزاق، رقم الحدیث : 16397 ۔ المستدرک، ج 3، ص 632، کنز العمال رقم الحدیث : 17034)

حافظ ابوعمر یوسف بن محمد بن عبدالبر القرطبی المتوفی 463 ھ نے حضرت ابولبابہ کی توبہ کا ایک اور سبب بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں : 

حضرت ابولبابہ نے لوہے کی وزنی زنجیروں سے اپنے آپ کو مسجد کے ایک ستون کے ساتھ کئی راتیں باندھے رکھا (علامہ ابن اثیر نے سات سے نو راتیں لکھ ہیں) حتی کہ ان کی سماعت بہت کم ہوگئی اور بینائی بھی بہت کم ہوگئی۔ جب نماز کا وقت آتا یا انہوں نے قضاء حاجت کے لیے جانا ہوتا تو ان کی بیٹی ان کو کھول دیتی اور فارغ ہونے کے بعد پھر ان کو باندھ دیتیں۔

حضرت ابولبابی نے جو اپنے آپ کو باندھا تھا حافظ ابن عبدالبر نے اس کی کئی وجوہات بیان کی ہیں اور سب سے عمدہ وجہ وہ ہے جو زہری سے مروی ہے اور وہ یہ ہے کہ حجرت ابولبابہ بھی غزوہ تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نہیں گئے تھے، انہوں نے اپنے آپ کو ایک ستون سے باندھ لیا اور کہا اللہ کی قسم ! میں اپنے آپ کو نہیں کھولوں گا، اور کوئی چیز کھاؤں گا اور نہ پیوں گا حتی کہ اللہ عزوجل میری توبہ قبول فرما لے یا میں مرجاؤں۔ وہ سات دن بندھے رہے کچھ کھایا نہ پیا حتی کہ بےہوش ہوگئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی۔ ان سے کہا گیا کہ اے ابولباب ! اللہ نے تمہاری توبہ قبول کرلی ہے، انہوں نے کہا بہ خدا میں اپنے آپ کو نہیں کھولوں گا، حتی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آ کر مجھے کھولیں۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور آپ نے اپنے ہاتھ سے ان کو کھولا۔ التوبہ 103 کی تشریح میں حضرت ابن عباس نے بھی یہی فرمایا ہے کہ یہ آیت حضرت ابولباب اور ان کے علاوہ سات، آٹھ یا نو افراد کے متعلق نازل ہوئی ہے جو غزوہ تبوک میں نہیں گئے تھے، پھر وہ نادم ہوئے اور انہوں نے توبہ کی اور انہوں نے اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں سے باندھ لیا تھا ان کا نیک عمل توبہ تھا اور ان کا برا عمل غزوہ تبوک سے رہ جانا تھا۔ 

حافظ ابو عمر فرماتے ہیں کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت ابولبابہ کا گناہ یہ تھا کہ وہ بنو قریظہ کے حلیفوں میں سے تھے اور انہوں نے بنو قریظہ کو یہ اشارہ کیا تھا کہ اگر تم سعد بن معاذ کے حکم پر قلعہ سے نکل آئے تو تم کو ذبح کردیا جائے گا اور انہوں نے اپنے حلقوم کی طرف اشارہ کیا تب یہ آیت نازل ہوئی : اے ایمان والو ! اللہ اور رسول سے خیانت نہ کرو۔ (الانفال : 27) ۔ (الاستیعاب ج 4، ص 304 ۔ 305، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت، 1415 ھ)

اللہ اور رسول کی امانت میں خیانت کے محامل 

اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس آیت میں یہ حکم دیا ہے کہ وہ مال غنیمت میں خیانت نہ کریں اور اس کو اس لیے خیانت فرمایا کہ یہ اللہ کے عطیہ میں خیانت کرنا ہے، اور رسول کی اس لیے خیانت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مال غنیمت کی تقسیم کا والی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بنایا ہے۔ سو جس شخص نے اس مال غنیمت میں خیانت کی اس نے اللہ اور رسول کی خیانت کی۔ اللہ اور رسول کی امانت میں خیانت کے اور بھی محامل ہیں : اللہ کی خیانت فرائض کو ترک کرنا اور رسول کی خیانت آپ کی سنت کو ترک کرنا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا اللہ کی خیانت فرائض کو ترک کرنا یا ان کی ادائیگی میں کمی کرنا ہے اور ایک قول یہ ہے کہ تمام احکام شرعیہ کو مکمل ادا کرنا امانت ہے اور کسی بھی حکم شرعی میں کمی کرنا یا اس کو ترک کرنا خیانت ہے، اور مال غنیمت میں خیانت کرنا بھی اس میں داخل ہے ہرچند کہ ان آیات کا نزول مال غنیمت میں خیانت کے متعلق ہے لیکن اعتبار عموم الفاظ کا ہوتا ہے خصوصیت مورد اور سبب کا نہیں ہوتا۔

ابن زید نے کہا اس قسم کی خیانت منافقین کرتے تھے ان کو معلوم تھا کہ وہ کافر ہیں اور وہ پھر بھی ایمان کو ظاہر کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے متعلق فرماتا ہے : ” واذا قاموا الی الصلوۃ قاموا کسالی یراءون الناس ولا یذکرون اللہ الا قلیلا : اور وہ (منافقین) جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو سستی سے کھڑے ہوتے ہیں لوگوں کو دکھاوا کرتے ہیں اور اللہ کا ذکر بہت کم کرتے ہیں ” (النساء : 142)

یہ منافقین تھے جن کو اللہ اور اس کے رسول نے دین کی وجہ سے امن دیا اور وہ خیانت کرتے تھے، ایمان ظاہر کرتے تھے اور ان کے باطن میں کفر تھا۔ (جامع البیان جز 9، ص 295، مطبوعہ دار الفکر بیروت، 1415 ھ)

امانت ادا کرنے اور خیانت نہ کرنے کے متعلق قرآن مجید کی آیات 

اس آیت میں مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی امانتوں میں خیانت نہ کریں۔ امانت ادا کرنے کی تاکید اور خیانت کرنے پر وعید کے متعلق اس آیت کے علاوہ قرآن مجید میں اور یہ آیات ہیں :

فان امن بعضکم بعضا فلیود الذی اوتمن اماتہ ولیتق اللہ ربہ : پس اگر تم میں سے ایک کو دوسرے پر اعتبار ہو تو جس پر اعتبار کیا گیا ہے، اسے چاہیے کہ وہ اس کی امانت ادا کرے اور اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے۔ (البقرہ :283)

ان اللہ یا مرکم ان تؤدوا الامانات الی اھلہا : بیشک اللہ تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ تم امانت والوں کو ان کی مانت ادا کرو۔ (النساء :58)

انا عرضنا الامانۃ علی السموت والارض والجبال فابین ان یحملنہا واشقن منہا وحملہا الانسان انہ کان ظلوما جہولا : ہم نے آسمانوں اور زمینوں اور پہاڑوں پر اپنی امانت کو پیش کیا انہوں نے اس امانت میں خیانت کرنے سے انکار کیا اور ڈرے اور انسان نے اس میں خیانت کی بیشک وہ ظالم اور جاہل ہے (الاحزاب :82)

والذین ھم لاماناتہم وعہدہم راعون : اور جو لوگ اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرنے والے ہیں (المومنون :8)

امانت ادا کرنے اور خیانت نہ کرنے کے متعلق احادیث اور آثار 

1 ۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 35 ۔ صحیح مسلم الایمان 106 (58) 206 ۔ سنن الترمذی رقم الحدیث : 2638 ۔ سنن النسائی رقم الحدیث : 5020 ۔ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : 1127 ۔ مکارم الاخلاق، رقم الحدیث : 176 ۔ سنن کبری ج 6، ص 288)

2 ۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو تمہارے پاس امانت رکھے اس کی امانت ادا کرو اور جو تم سے خیانت کرے اس کے خیانت مت کرو۔ (سنن ابو داود رقم الحدیث : 1235، 1234 ۔ سنن الترمذی رقم الحدیث : 1271 ۔ المستدرک ج 2، ص 46 ۔ مسند احمد ج 3، ص 4، مکارم الاخلاق، رقم الحدیث : 160، سنن دارمی، رقم الحدیث : 2600)

3 ۔ حضرت نواس بن سمعان (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بہت بڑی خیانت یہ ہے کہ تمہارا بھائی تم سے کوئی بات کہے اور وہ اس میں سچا ہو اور تم اس کو جھوٹا کہو (مسند احمد ج 4، ص 183، مجمع الزوائد ج 8، ص 98، اتحاف السادۃ المہرۃ ج 8، ص 264، رقم الحدیث : 6023)

4 ۔ حضرت عبادہ بن الصامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم مرے لیے چھ چیزوں کے ضامن ہوجاؤ تو میں تمہارے لیے جنت کا ضامن ہوں، جب تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو تم اس کو ادا کرو، جب تم عہد کرو تو اس کو پورا کرو، جب تم بات کرو تو سچ بولو، تم اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرو، اپنی نظروں کو نیچا رکھو اور اپنے ہاتھوں کو کسی کے آگے نہ پھیلاؤ۔ (شعب الایمان ج 4، رقم الحدیث : 5255 ۔ مکارم الاخلاق رقم الحدیث : 175 ۔ سنن کبری ج 6، ص 288)

5 ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں شہید ہوجانے سے تمام گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے ماسوا امانت کے۔ قیامت کے دن ایک بندہ کو لایا جائے گا خواہ وہ اللہ کی راہ میں شہید ہوچکا ہو۔ اس سے کہا جائے گا کہ اپنی امانت کو ادا کر۔ وہ کہے گا اے رب میں اب کیسے امانت کو ادا کروں اب تو دنیا ختم ہوچکی ہے، پھر کہا جائے گا اس کو دوزخ کی طرف لے جاؤ، اس کو دوزخ کی طرف لے جایا جائے گا پھر اس کے سامنے اس امانت کی مثل پیش کی جائے گی جس شکل و صورت میں اس کو وہ امانت دنیا میں پیش کی گئی تھی۔ وہ اس کو پہچان لے گا وہ اس امانت کے پیچھے دوزخ کے ایک گڑھے میں اترے گا حتی کہ اس کو اٹھا کر اپنے کندھوں پر رکھے گا اور جب وہ گمان کرلے گا کہ وہ اس گڑھے میں سے باہر نکل رہا ہے تو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس گڑھے میں نیچے گرتا چلا جائے گا۔ پھر حضرت ابن مسعود نے کہا نماز امانات ہے اور وضو امانت ہے اور وزن امانت ہے اور ییمائش امانت ہے اور انہوں نے کئی چیزیں گنیں اور ان سب سے بڑی امانت وہ ہے جو لوگ کسی کے پاس کوئی چیز رکھتے ہیں۔ زازان کہتے ہیں کہ پھر میں حضرت براء بن عازب کے پاس گیا انہوں نے بھی اسی طرح بیان کیا جس طرح حضرت ابن مسعود نے بیان کیا تھا۔ اور قرآن مجید میں ہے کہ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانت رکھوانے والوں کو ان کی امانتیں ادا کرو۔ (مکارم الاخلاق، رقم الحدیث : 145 ۔ شعب الایمان، ج 4، رقم الحدیث : 5266، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت، 1410 ھ)

6 ۔ حضرت عمر بن الخطاب (رض) عبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سب سے پہلے لوگوں سے جو چیز اٹھا لی جائے گی وہ امانت ہے، اور آخر میں جو چیز باقی رہ جائے گی، وہ نماز ہے اور بہت سے نمازی ایسے ہیں کہ ان کی نماز میں کوئی خیر نہیں ہے (شعب الایمان ج 4، رقم الحدیث : 5274 ۔ السنن الکبری للبیہقی ج 6، ص 289 ۔ مکارم الاخلاق، رقم الحدیث : 160)

7 ۔ حسن بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم کسی شخص کی نماز اور اس کے روزے سے دھوکا نہ کھانا، جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نماز پڑھے لیکن جو امانت دار نہیں وہ دین دار نہیں۔ (مصنف عبدالرزاق ج 11، رقم الحدیث : 20192 ۔ مصنف ابن ابی شیبہ ج 6، رقم الحدیث : 30317 ۔ شعب الایمان ج 4، رقم الحدیث : 5279 ۔ کنز العمال رقم الحدیث : 8436 ۔ مکارم الاخلاق رقم الحدیث : 146)

8 ۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا کسی شخص کی نماز کو دیکھو نہ اس کے روزے کو، یہ دیکھو وہ اپنی بات میں کسی قدر سچا ہے، اور جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو وہ کس قدر امانت دار ہے اور جب اس پر دنیا پیش کی جائے تو وہ کسی قدر متقی ہے۔ (شعب الایمان ج 4، رقم الحدیث : 5279 ۔ کنز العمال رقم الحدیث : 8435)

9 ۔ حضرت حذیفہ بن ایمان (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے دو حدیثیں بیان کی تھیں، ایک تو پوری ہوچکی ہے اور دوسری کا میں انتظار کر رہا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ امانت لوگوں کے دلوں کی گہرائی میں اتری، پھر قرآن نازل ہوا اور لوگوں نے قرآن اور حدیث کا علم حاصل کیا۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امانت اٹھ جانے کی پیش گوئی بیان کی اور فرمایا ایک شخص تھوڑی دیر سوئے گا اور امانت اس کے دل سے نکل جائے گی اور چھالے کی طرح اس کا اثر رہ جائے گا جس طرح پیر کے نیچے انگارہ آنے سے آبلہ پڑجاتا ہے اور اس کے اندر کچھ نہیں ہوتا۔ پھر آپ نے ایک کنکری لے کر اس کو اپنے پیر پر لڑھکا دیا اور فرمایا پھر لوگ خریدو فروخت کریں گے اور ان میں سے کوئی بھی امانت داری اور دیانت داری سے کام نہیں لے گا حتی کہ لوگ کہیں گے کہ فلاں قبیلہ میں ایک دیانت دار شخص ہوا کرتا تھا اور یہ فلاں شخص کس قدر بیدار مغز، خوش مزاج اور زیرک ہے، لیکن اس کے دل میں ایمان کا ایک ذرہ بھی نہیں ہے۔ اس کے بعد حضرت حذیفہ نے فرمایا ایک وہ وقت تھا جب میں ہر شخص سے بغیر کسی خدشہ اور کھٹکے کے خریدو فروخت کرلیتا تھا اور سوچتا تھا کہ یہ شخص اگر مسلمان ہے تو اس کا دین اس کو خیانت سے روکے گا، اور اگر وہ یہودی یا نصرانی ہے تو حاکم کے خوف سے خیانت نہیں کرے گا لیکن اس زمانے میں فلاں فلاں شخص کے علاوہ خریدو فروخت میں اور کسی پر اعتماد نہیں کرتا (صحیح البخاری رقم الحدیث : 6497 ۔ صحیح مسلم ایمان 230 (43) 3660 ۔ سنن الترمذی رقم الحدیث : 2186 ۔ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 4053 ۔ مصنف عبدالرزاق ج 11، رقم الحدیث : 20194)

10 ۔ عطا خراسانی بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے فرمایا جو شخص اللہ عزوجل سے اس حال میں ملقات کرے گا کہ اس نے کسی شخص کی امانت ادا نہیں کی ہوگی، اللہ عزوجل اس کی نیکیوں کو لے لے گا جب کہ وہاں دینار ہوگا نہ درہم۔ (مکارم الاخلاق للخرائطی، رقم الحدیث : 148)

11 ۔ حضرت انس بن مالک نے فرمایا جب کسی گھر میں خیانت ہو تو اس سے برکت چلی جاتی ہے۔ (مکارم الاخلاق للخرائطی، رقم الحدیث : 151، مطبوعہ مطبعہ المدنی قاہرہ، 1411 ھ)

12 ۔ حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہارے دین میں سے جو چیز سب سے پہلے گم ہوگی وہ امانت ہے اور آخر میں نماز گم ہوگی۔ ثابت بنانی نے کہا ایک شخص روزے رکھتا ہے، نماز پڑھتا ہے لیکن جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو وہ امانت ادا نہیں کرتا۔ (مکارم الاخلاق للخرائطی رقم الحدیث : 155 ۔ المعجم الکبیر ج 9، رقم الحدیث : 8699، حافظ الہیثمی نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے، مجمع الزوائد ج 7، ص 329)

13:۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مومن وہ ہے جس کو لوگ اپنی جان اور مال میں امین سمجھیں۔ (مکارم الاخلاق رقم الحدیث : 156، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 3934)

14:۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جنت میں جبار داخل ہوگا نہ بخیل، نہ خائن اور بدخلق۔ (مکارم الاخلاق، رقم الحدیث : 157 ۔ سنن الترمذی رقم الحدیث : 1953 ۔ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 3691)

15 ۔ مجاہد نے کہا مکر، دھوکا اور خیانت دوزخ میں ہیں اور مکر اور خیانت مومن کے اخلاق میں سے نہیں ہیں۔ (مکارم الاخلاق، رقم الحدیث : 158 ۔ المستدرک، ج 4، ص 607)

16 ۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عنقریب لوگوں کے اوپر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں سچے کو جھوٹا کہا جائے گا اور جھوٹے کو سچا کہا جائے گا اور خائن کو امانت دار کہا جائے گا اور امانت دار کو خائن کہا جائے گا۔ (مکارم الاخلاق رقم الحدیث : 167، مسند احمد ج 2، ص 291)

17:۔ حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب بھی خطبہ دیا تو اس میں فرمایا سنو جو امانت ادا نہ کرے وہ ایمان دار نہیں اور جو عہد پورا نہ کرے وہ دین دار نہیں۔ (مکارم الاخلاق رقم الحدیث : 147، سنن کبری للبیہقی ج 6، ص 288 ۔ مسند احمد ج 3، ص 135، 154، 210، 251 ۔ موارد الظمان رقم الحدیث : 100 ۔ مجمع الزوائد ج 1، ص 96، اس کی سند ضعیف ہے)

18 ۔ میمون بن مہران نے کہا تین چیزیں ہر نیک اور بد کو ادا کی جائیں گی، صلہ رحمی کرو خواہ نیک ہو یا بد، عہد جس سے بھی کیا ہے پورا کرو خواہ نیک ہو یا بد، ہر ایک امانت ادا کرو خواہ نیک ہو یا بد۔ (مکارم الاخلاق رقم الحدیث : 159)

19 ۔ حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تم کو اللہ سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں اور سچ بولنے کی اور عہد پورا کرنے کی، اور امانت ادا کرنے کی اور خیانت ترک کرنے کی، اور پڑوسی کی حفاظت کرنے کی اور یتیم پر رحم کرنے کی اور ملائمت سے بات کرنے کی اور (ہر مسلمان کو) سلام کرنے کی اور تواضع اور عاجزی کی۔ (حلیۃ الاولیاء ج 1، ص 240 ۔ 241)

20: حضرت ابو حمید الساعدی (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو صداقت وصول کرنے کا عامل بنایا جب وہ آیا تو اس نے کہا یہ چیزیں تمہارے لیے ہیں اور یہ چیزیں مجھے ہدیہ کی گئی ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو صدقات وصول کرنے کا عامل بنایا جب وہ آیا تو اس نے کہا یہ چیزیں تمہارے لیے ہیں اور یہ چیزیں مجھے ہدیہ کی گئی ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو صدقات وصول کرنے کا عامل بنایا جب وہ آیا تو اس نے کہا یہ چیزیں تمہارے لیے ہیں اور یہ چیزیں مجھے ہدیہ کی گئی ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر تشریف فرما ہوئے اور آپ نے اللہ کی حمد کے بعد فرمایا ان لوگوں کا کیا حال ہے جن کو ہم اپنے بعض مناصب پر عامل بناتے ہیں پھر وہ ہمارے پاس آ کر یہ کہتا ہے کہ یہ چیز تمہارے لیے ہے اور یہ چیز مجھے ہدیہ کی گئی ہے، وہ اپنی ماں کے گھر میں یا اپنے باپ کے گھر میں کیوں نہ بیٹھ گیا پھر یہ دیکھا جاتا کہ اس کو کوئی چیز ہدیہ کی گئی ہے یا نہیں۔ اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے، تم میں سے جو شخص بھی کوئی چیز لے گا، وہ قیامت کے اس کی گردن پر سوار ہوگی۔ اگر وہ اونٹ ہے تو وہ بڑبڑا رہا ہوگا، اگر وہ گائے ہے تو وہ ڈکرا رہی ہوگی اور اگر وہ بکری ہے تو وہ ممیا رہی ہوگی ! پھر آپ نے ہاتھ بلند کرکے تین دفعہ فرمایا اے اللہ کیا میں نے تبلیغ کردی ہے۔ (مکارم الاخلاق رم الحدیث : 139 ۔ صحیح البخاری رقم الحدیث : 2597، 7174 ۔ صحیح مسلم الامارہ : 26 (1832) 4656 ۔ سنن ابو داود رقم الحدیث : 2946 ۔ سنن دارمی رقم الحدیث : 1669 ۔ مسند احمد ج 5، ص 277 ۔ 285 ۔ 423)

النساء : 58 میں بھی ہم نے امانت اور خیانت پر کئی لحاظ سے بحث کی ہے۔ سیر حاصل بحث کے لیے اس تفسیر کو بھی دیکھنا چاہیے۔ البتہ امانت اور خیانت کے موضع پر یہاں زیادہ احادیث بیان کی ہیں اور بعض ان احادیث کا یہاں ذکر نہیں کیا جو وہاں بیان کردی ہیں۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 8 الأنفال آیت نمبر 27