مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِیْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِؕ-اُولٰٓىٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ ۚۖ-وَ فِی النَّارِ هُمْ خٰلِدُوْنَ(۱۷)

مشرکوں کو نہیں پہنچتا کہ اللہ کی مسجدیں آباد کریں (ف۳۸) خود اپنے کفر کی گواہی دے کر (ف۳۹) ان کا تو سب کیا دھرا اکارت(ضائع) ہے اور وہ ہمیشہ آگ میں رہیں گے (ف۴۰)

(ف38)

مسجدوں سے مسجدِ حرام کعبۂ معظّمہ مراد ہے ، اس کو جمع کے صیغے سے اس لئے ذکر فرمایا کہ وہ تمام مسجدوں کا قبلہ اور امام ہے اس کا آباد کرنے والا ایسا ہے جیسے تمام مسجدوں کا آباد کرنے والا اور جمع کا صیغہ لانے کی یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہر بقعہ مسجدِ حرام کا مسجد ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مسجدوں سے جنس مراد ہو اور کعبۂ معظّمہ اس میں داخل ہو کیونکہ وہ اس جنس کا صدر ہے ۔

شانِ نُزول : کُفّارِ قریش کے رُؤسا کی ایک جماعت جو بدر میں گرفتار ہوئی اور ان میں حضور کے چچا حضرت عباس بھی تھے ان کو اصحاب کرام نے شرک پر عار دلائی اور حضرت علی مرتضٰی نے تو خاص حضرت عباس کو سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابل آنے پر بہت سخت سُست کہا ، عباس کہنے لگے کہ تم ہماری برائیاں تو بیان کرتے ہو اور ہماری خوبیاں چھپاتے ہو ، ان سے کہا گیا کیا آپ کی کچھ خوبیاں بھی ہیں ، انہوں نے کہا ہاں ہم تم سے افضل ہیں ہم مسجدِ حرام کو آباد کرتے ہیں ، کعبہ کی خدمت کرتے ہیں ، حاجیوں کو سیراب کرتے ہیں ، اسیروں کو رہا کراتے ہیں ۔ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی کہ مسجدوں کا آباد کرنا کافِروں کو نہیں پہنچتا کیونکہ مسجد آباد کی جاتی ہے اللہ کی عبادت کے لئے تو جو خدا ہی کا منکِر ہو اس کے ساتھ کُفر کرے وہ کیا مسجد آباد کرے گا اور آباد کرنے کے معنی میں بھی کئی قول ہیں ۔ ایک تو یہ کہ آباد کرنے سے مسجد کا بنانا ، بلند کرنا ، مرمت کرنا مراد ہے ، کافِر کو اس سے منع کیا جائے گا ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ مسجد آباد کرنے سے اس میں داخل ہونا ، بیٹھنا مراد ہے ۔

(ف39)

اور بُت پرستی کا اقرار کر کے ۔ یعنی یہ دونوں باتیں کس طرح جمع ہو سکتی ہیں کہ آدمی کافِر بھی ہو اور خاص اسلامی اور توحید کے عبادت خانہ کو آباد بھی کرے ۔

(ف40)

کیونکہ حالتِ کُفر کے اعمال مقبول نہیں ، نہ مہمانداری ، نہ حاجیوں کی خدمت، نہ قیدیوں کا رہا کرانا ۔ اس لئے کہ کافِر کا کوئی فعل اللہ کے لئے تو ہوتا نہیں لہذا اس کا عمل سب اکارت ہے اور اگر وہ اسی کُفر پر مرجائے تو جہنّم میں ان کے لئے ہمیشگی کا عذاب ہے ۔

اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ وَ لَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ فَعَسٰۤى اُولٰٓىٕكَ اَنْ یَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِیْنَ(۱۸)

اللہ کی مسجدیں وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان لاتے اور نماز قائم رکھتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں (ف۴۱) اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے (ف۴۲) توقریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت والوں میں ہوں

(ف41)

اس آیت میں یہ بیان کیا گیا کہ مسجدوں کے آباد کرنے کے مستحق مؤمنین ہیں ۔ مسجدوں کے آباد کرنے میں یہ امور بھی داخل ہیں جھاڑو دینا ، صفائی کرنا ، روشنی کرنا اور مسجدوں کو دنیا کی باتوں سے اور ایسی چیزوں سے محفوظ رکھنا جن کے لئے وہ نہیں بنائی گئیں ۔ مسجدیں عبادت کرنے اور ذکر کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں اور علم کا درس بھی ذکر میں داخل ہے ۔

(ف42)

یعنی کسی کی رضا کو رضائے الٰہی پر کسی اندیشہ سے بھی مقدم نہیں کرتے ۔ یہی معنی ہیں اللہ سے ڈرنے اور غیر سے نہ ڈرنے کے ۔

اَجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَآجِّ وَ عِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ جٰهَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-لَا یَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَۘ(۱۹)

تو کیا تم نے حاجیوں کی سبیل اور مسجد حرام کی خدمت اس کے برابر ٹھہرالی جو اللہ اور قیامت پر ایمان لایا اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا وہ اللہ کے نزدیک برابر نہیں اور اللہ ظالموں کو راہ نہیں دیتا (ف۴۳)

(ف43)

مراد یہ ہے کہ کُفّار کو مؤمنین سے کچھ نسبت نہیں ، نہ ان کے اعمال کو ان کے اعمال سے کیونکہ کافِر کے اعمال رائیگاں ہیں خواہ وہ حاجیوں کے لئے سبیل لگائیں یا مسجد حرام کی خدمت کریں ۔ ان کے اعمال کو مومِن کے اعمال کے برابر قرار دینا ظلم ہے ۔

شانِ نُزول : روزِ بدر جب حضرت عباس گرفتار ہو کر آئے تو انہوں نے اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ تم کو اسلام اور ہجرت و جہاد میں سبقت حاصل ہے تو ہم کو بھی مسجدِ حرام کی خدمت اور حاجیوں کے لئے سبیلیں لگانے کا شرف حاصل ہے ۔ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی اور آگاہ کیا گیا کہ جو عمل ایمان کے ساتھ نہ ہوں وہ بیکار ہیں ۔

اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْۙ-اَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللّٰهِؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ(۲۰)

وہ جو ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے مال جان سے اللہ کی راہ میں لڑے اللہ کے یہاں ان کا درجہ بڑا ہے (ف۴۴) اور وہی مراد کو پہنچے (ف۴۵)

(ف44)

دوسروں سے ۔

(ف45)

اور انہیں کو دنیا و آخرت کی سعادت ملی ۔

یُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَ رِضْوَانٍ وَّ جَنّٰتٍ لَّهُمْ فِیْهَا نَعِیْمٌ مُّقِیْمٌۙ(۲۱)

ان کا رب انہیں خوشی سناتا ہے اپنی رحمت اور اپنی رضا کی(ف۴۶) اور ان باغوں کی جن میں انہیں دائمی نعمت ہے

(ف46)

اور یہ اعلٰی ترین بِشارت ہے کیونکہ مالِک کی رحمت و رضا بندے کا سب سے بڑا مقصد اور پیاری مراد ہے ۔

خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۲۲)

ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے بےشک اللہ کے پاس بڑا ثواب ہے

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْۤا اٰبَآءَكُمْ وَ اِخْوَانَكُمْ اَوْلِیَآءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْاِیْمَانِؕ-وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ(۲۳)

اے ایمان والو اپنے باپ اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ سمجھو اگر وہ ایمان پر کفر پسند کریں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی کرے گا تو وہی ظالم ہیں (ف۴۷)

(ف47)

جب مسلمانوں کو مشرکین سے ترکِ موالات کا حکم دیا گیا تو بعض لوگوں نے کہا یہ کیسے ممکن ہے کہ آدمی اپنے باپ بھائی وغیرہ قرابت داروں سے ترکِ تعلق کرے ۔ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی اور بتایا گیا کہ کُفّار سے موالات جائز نہیں چاہے ان سے کوئی بھی رشتہ ہو چنانچہ آگے ارشاد فرمایا ۔

قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴)

تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو(انتظار کرو) یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے (ف۴۸) اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا

(ف48)

اور جلدی آنے والے عذاب میں مبتلا کرے یا دیر میں آنے والے میں ۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ دین کے محفوظ رکھنے کے لئے دنیا کی مَشقت برداشت کرنا مسلمان پر لازم ہے اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے مقابل دنیوی تعلقات کچھ قابلِ اِلتفات نہیں اور خدا اور رسول کی مَحبت ایمان کی دلیل ہے ۔