أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَ هَاجَرُوۡا وَجَاهَدُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ بِاَمۡوَالِهِمۡ وَاَنۡفُسِهِمۡۙ اَعۡظَمُ دَرَجَةً عِنۡدَ اللّٰهِ‌ؕ وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡفَآئِزُوۡنَ‏ ۞

ترجمہ:

جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنی جانوں اور اپنے مالوں کے ساتھ جہاد کیا، اللہ کے نزدیک ان کا بہت بڑا درجہ ہے، اور وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنی جانوں اور مالوں کے ساتھ جہاد کیا، اللہ کے نزدیک ان کا بہت بڑا درجہ ہے اور وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں ان کا رب ان کو اپنی رحمت اور رضا کی خوشخبری دیتا ہے اور ان جنتوں کی جن میں ان کے لیے دائمی نعمت ہے وہ ان جنتوں میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، بیشک اللہ کے پاس بہت بڑا اجر ہے (التوبہ : ٢٢۔ ٢١۔ ٢٠ )

سابقین صحابہ کی فضیلت اور اللہ کی رضا کا جنت سے افضل ہونا :

اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا تھا کہ وہ مشرک جنہوں نے کعبہ کی حفاظت کی اور حجاج کو پانی پلایا ان مسلمانوں کے برابر نہیں ہوسکتے جو ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں انہوں نے اپنی جانوں اور مالوں کے ساتھ جہاد کیا، ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اس کی مزید وضاحت کی اور فرمایا : ان کا بہت بڑادرجہ ہے، اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کعبہ کی حفاظت کرنے والے مشرکوں کا بھی اللہ کے نزدیک کوئی درجہ ہے لیکن مسلمانوں کا بڑا درجہ ہے حالانکہ مشرکوں کے تمام نیک اعمال اکارت ہوجاتے ہیں اور آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ واقع میں اللہ کے نزدیک ان کا کوئی درجہ نہیں ہے، البتہ وہ یہ گمان کرتے تھے کہ ان کاموں کی وجہ سے اللہ کے نزدیک ان کا کوئی درجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : تمہارے گمان میں تمہارا جو بھی درجہ ہے ایمان لانے والوں، ہجرت کرنے والوں اور جہاد کرنے والوں کا تم سے بہت بڑا درجہ ہے، اس کی نظیر یہ آیت ہے :

آللہ خیر اما یشرکون (النمل : ٥٩ )

ترجمہ : (آپ کہئے) کیا اللہ بہتر ہے یا جن کو وہ اللہ کا شریک قرار دیتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے وضاحت کرتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ اللہ کے نزدیک ایمان لانے والوں، ہجرت کرنے والوں اور جہاد کرنے والوں کا درجہ تمام مخلوق سے بڑا ہے، اور ان کا درجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ اللہ کی رحمت اور اس کی خوشنودی اور رضا حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے، فوز کا معنی ہے اپنے مطلوب کو پالینا اور ان کا مطلوب عذاب سے نجات اور ثواب کا حصول ہے اور اس کا مصداق فتح مکہ سے پہلے جہاد کرنے والے صحابہ (رض) ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

لایستوی منکم من انفق من قبل الفتح وقاتل اولئک اعظم درجۃ من الذین انفقوا من بعد وقاتلوا وکلا وعداللہ الحسنیٰ ۔ (الحدید : ١٠)

ترجمہ : (اے مسلمانو ! ) تم میں سے جن لوگوں نے فتح (مکہ) سے پہلے (اللہ کی راہ میں) خرچ کیا اور جہاد کیا، ان کے برابر کوئی نہیں ہوسکتا ان کا ان سے بہت بڑا درجہ ہے جنہوں نے بعد میں (اللہ کی راہ میں) خرچ کیا اور جہاد کیا اور اللہ نے ان سب سے جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔

اس کی تائید اس حدیث میں ہے :

حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے اصحاب کو سب وشتم نہ کرو (برا نہ کہو) پس اگر تم میں سے کوئی شخص (اللہ کی راہ میں) احد پہاڑ جتنا بھی خرچ کرے تو وہ ان کے خرچ کیے ہوئے ایک کلویا نصف کلو کے برابر نہیں ہوسکتا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٦٧٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٤٠، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٦٥٨، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٨٦١، مسند احمد ج ٣ ص ٥٤، ٦٣، سنن کبریٰ للیہقی ج ١٠ ص ٢٠٩، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٦١ ) ۔

آیت : ٢١ میں فرمایا ہے : ان کا رب ان کو رحمت اور رضا کی خوشخبری دیتا ہے۔ یہ رب کریم کا وعدہ ہے اور حدیث میں ہے : حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اہل جنت سے فرمائے گا : اے اہل جنت ! وہ کہیں گے اے ہمارے رب ! ہم حاضر ہیں اور تیری اطاعت کے لیے موجود ہیں اور تمام خیر تیرے ہاتھوں میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا تم راضی ہوگئے ؟ وہ کہیں گے ! اے رب ! ہم کیوں راضی نہیں ہوں گے حالانکہ تو نے ہمیں وہ کچھ دیا ہے جو تو نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا میں تم کو اس سے زیادہ افضل چیز نہ دوں ؟ وہ کہیں گے : اے رب ! اس سے زیادہ افضل اور کیا چیز ہے ؟ اللہ فرمائے گا : میں تم پر اپنی رحمت اور رضا نازل کرتا ہوں، اس کے بعد میں کبھی بھی تم سے ناراض نہیں ہوں گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٥٤٩، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٨٢٩، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٥٥٥، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٧٧٤٩، مسند احمد ج ٣ ص ٨٨) ۔

سب سے بڑی نعمت اللہ کی رضا ہے۔ قرآن مجید میں ہے : ورضوان من اللہ اکبر۔ (التوبہ : ٧٢) اللہ کی تھوڑی سی رضا بھی بہت بڑی چیز ہے، لیکن اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ جنت کو معمولی نعمت سمجھا جائے اور جنت کی تحقیر کی جائے۔ جیسا کہ جاہل صوفی کرتے ہیں، جنت اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے اور اس سے بھی بڑی نعمت اللہ کی رضا ہے لیکن یہ نعمت ہم کو جنت میں ہی حاصل ہوگی، اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں جنت کی طلب اور زیادہ فرمائے اور اپنے فضل اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت سے ہمیں جنت عطا فرمائے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة آیت نمبر 20