أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

خُذۡ مِنۡ اَمۡوَالِهِمۡ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمۡ وَتُزَكِّيۡهِمۡ بِهَا وَصَلِّ عَلَيۡهِمۡ‌ؕ اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمۡ‌ؕ وَاللّٰهُ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌ‏ ۞

ترجمہ:

آپ ان کے مالوں سے زکوٰۃ لیجئے جس کے ذریعہ آپ انہیں پاک کریں گے اور ان کے باطن کو صاف کریں گے اور آپ ان پر صلوٰۃ بھیجئے بیشک آپ کی صلوٰۃ ان کے لیے باعث طمانیت ہے اور اللہ بہت سننے والا بےحد جاننے والا ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آپ ان کے مالوں سے زکوٰۃ لیجئے جس کے ذریعہ آپ انہیں پاک کریں گے اور ان کے باطن کو صاف کریں گے اور آپ ان پر صلوٰۃ بھیجئے، بیشک آپ کی صلوٰۃ ان کے لے باعث طمانیت ہے، اور اللہ بہت سننے والا بےحد جاننے والا ہے (التوبہ : ١٠٣)

حضرت ابولبابہ کی توبہ اور شان نزول :

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابولبابہ اور ان کے اصحاب کو کھول دیا تو حضرت ابولبابہ اور ان کے اصحاب (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اپنے اموال لے کر آئے اور کہا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے اموال لیجئے اور ان کو ہماری طرف سے صدقہ کر دیجئے۔ وہ کہتے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے لیے استغفار کیجئے اور ہم کو پاک کیجئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں اس وقت تک ان میں سے کوئی چیز نہیں لوں گا جب تک کہ مجھے اس کا حکم نہ دیا جائے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے مالوں سے زکوٰۃ لیجئے جس کے ذریعہ آپ انہیں پاک کریں گے اور ان کے باطن کو صاف کریں گے اور آپ ان کے لیے مغفرت کی دعا کریں بیشک آپ کی دعائے رحمت ان کے لیے طمانیت ہے۔ یعنی ان سے جو گناہ سرزد ہوچکے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے لیے استغفار فرمائیں۔ (جامع البیان جز ١١ ص ٢٤، تفسیر امام ابن ابی حاتم ج ٦ ص ١٨٧٥)

انبیاء (علیہم السلام) کے غیر پر استقالاً اور انفراداً صلوٰۃ بھیجنے کی تحقیق :

اس آیت میں فرمایا ہے : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان پر صلوٰۃ پڑھئے۔ بیشک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صلوٰۃ ان کے لیے باعث طمانیت ہے۔ (التوبہ : ١٠٣) اس آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غیر، امت کے عام افراد پر بھی مستقل طور پر صلوٰۃ پڑھنا جائز ہے۔ ہم پہلے صلوٰۃ کا معنی بیان کریں گے۔ پھر اس مسئلہ میں فقہاء اسلام کے مذاہب بیان کریں گے اور فریقین کے دلائل ذکر کریں گے اور آخر میں اپنا موقف بیان کریں گے۔ فنقول باللہ التوفیق۔

صلوٰۃ کا لغوی اور شرعی معنی :

علامہ راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ نے لکھا ہے کہ اہل لغت نے کہا ہے کہ صلوٰۃ کا معنی دعا، تبریک اور تمجید ہے اور اللہ اور رسول کے بندوں اور امت پر صلوٰۃ بھیجنے کا معنی ان کا تزکیہ کرنا اور ان کی تعریف کرنا اور توصیف کرنا ہے اور فرشتوں اور مسلمانوں کے صلوٰۃ بھیجنے کا معنی دعا اور استغفار کرنا ہے اور نماز کو بھی صلوٰۃ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کی اصل دعا ہے۔ (المفردات ج ٢ ص ٣٧٤) ۔

علامہ ابن قیم جوزی متوفی ٧٥١ ھ کی تحقیق یہ ہے کہ صلوٰۃ کا معنی ثناء (تعریف اور توصیف) کرنا ہے۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں ابوالعالیہ سے روایت کیا ہے : اللہ عزوجل کا اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوٰۃ پڑھنا ان کی ثناء اور ستائش کرنا اور ان کو سراہنا ہے اور فرشتوں کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوٰۃ پڑھنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ثناء اور ستائش کی دعا کرنا ہے۔ (صحیح البخاری کتاب التفسیر، الاحزاب : ٥٦ ) ۔ اور الاحزاب : ٥٦ میں صلوٰۃ کا معنی رحمت نہیں ہوسکتا بلکہ اس کا معنی ہے : اللہ اور اس کے فرشتے آپ کی ثناء اور تعریف کرتے ہیں۔ (جلاء الافہام ص ٧٦، دارالکتب العلمیہ بیروت) ۔ اس تحقیق کی بناء پر اللھم صل علی محمد کا معنی ہوگا : اے اللہ ! سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعریف اور توصیف فرما۔

انبیاء (علیہم السلام) کے غیر پر انفراداً صلوٰۃ بھیجنے میں مذاہب فقہاء :

علماء شیعہ کی ایک جماعت نے لکھا ہے کہ بعض متعصین اہلسنت نے لکھا ہے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آل پر مستقلاً صلوٰۃ بھیجنا جائز نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص کہے اے اللہ ! امیرالمومنین علی پر صلوٰۃ بھیج یا فاطمۃ الزہرا پر صلوٰۃ بھیج تو یہ ممنوع ہے۔ حالانکہ قرآن مجید کی اس آیت سے عام مسلمانوں پر بھی صلوٰۃ بھیجنا جائز ہے۔ چہ جائیکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اہل بیعت اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ولی پر صلوٰۃ بھیجنا ناجائز ہو۔ (تفسیر نمونہ ج ٨ ص ١٢١۔ ١٢٠، مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ طہران، ١٣٧٥ ھ) ۔

علامہ موسیٰ بن احمد صالحی حنبلی متوفی ٩٦٠ ھ لکھتے ہیں : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غیر پر بھی انفراداً صلوٰۃ بھیجنا جائز ہے۔ (الاقناع مع کشاف القناع ج ١ ص ٤٣٢، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٨ ھ) ۔

قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی متوفی ٥٤٤ ھ لکھتے ہیں : امام مالک کے نزدیک انبیاء (علیہم السلام) کے غیر پر مستقلاً صلوٰۃ بھیجنا مکروہ ہے۔ (اکمال المعلم بفوائد مسلم ج ٢ ص ٣٠٥، مطبوعہ دارالوفاء بیروت، ١٤١٩ ھ) ۔

حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ لکھتے ہیں : امام مالک اور جمہور کے نزدیک انبیاء (علیہم السلام) کے غیر پر استقالاً صلوٰۃ بھیجنا مکروہ ہے۔ (فتح الباری ج ٣ ص ٣٦٢، مطبوعہ لاہور، ١٤٠١ ھ)

علامہ بدرالدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی ٨٥٥ ھ لکھتے ہیں : امام احمد کے نزدیک غیر انبیاء پر استقالاً صلوٰۃ بھیجنا جائز ہے اور امام ابو حنیفہ، ان کے اصحاب، امام مالک، امام شافعی اور اکثرین کے نزدیک انبیاء (علیہم السلام) کے غیر پر انفراداً صلوٰۃ نہ بھیجی جائے لیکن ان پر تبعاً صلوٰۃ بھیجی جاسکتی ہے۔ (عمدۃ القاری جز ٩، ص ٩٥، مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ، ١٣٤٨ ھ)

انبیاء (علیہم السلام) کے غیر پر صلوٰۃ اور سلام بھیجنے میں جمہور کا موقف :

علامہ یحییٰ بن شرف نووی شافعی متوفی ٦٧٦ ھ لکھتے ہیں : ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر انفراداً صلوٰۃ بھیجنے پر اجماع ہے۔ اسی طرح تمام انبیاء اور ملائکہ پر استقلالاً صلوٰۃ بھیجنے کے جواز اور استحباب پر لائق شمار علماء کا جامع ہے اور انبیاء (علیہم السلام) کے غیر کے متعلق جمہور کا موقف یہ ہے کہ ان پر ابتدائً صلوٰۃ نہ بھیجی جائے۔ مثلاً ابوبکر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں کہا جائے گا اور ممانعت میں اختلاف ہے۔ ہمارے بعض اصحاب نے کہا کہ یہ حرام ہے اور اکثر علماء نے یہ کہا کہ یہ مکروہِ تنزیہی ہے۔ اور بہت سے علماء نے یہ کہا کہ یہ مکروہ تنزیہی بھی نہیں خلافِ اولیٰ ہے۔ کیونکہ یہ اہل بدعت کا شعار ہے اور ہم کو اہل بدعت کے شعار سے منع کیا گیا ہے اور مکروہ وہ ہوتا ہے جس میں قصداً ممانعت وارد ہو۔ ہمارے اصحاب نے کہا : اس کے مکروہِ تنزیہی ہونے کی دلیل یہ ہے کہ سلف کی زبانوں میں صلوٰۃ کا لفظ انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ مخصوص ہے۔ جیسے اللہ عزوجل کا لفظ اللہ سبحانہٗ کے ساتھ مخصوص ہے۔ پس جس طرح محمد عزوجل نہیں کہا جائے گا ہرچند کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عزیز اور جلیل ہیں۔ اسی طرح ابوبکر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا علی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں کہا جائے گا۔ اگرچہ اس کا معنی صحیح ہے اور اس پر اتفاق ہے کہ غیر انبیاء پر تبعاً صلوٰۃ بھیجی جاسکتی ہے۔ اس لیے یہ کہا جائے گا کہ اللھم صل علی محمد وعلی اٰل محمد و اصحابہ وازواجہ وذریتیہ واتباعہ۔ کیونکہ اس کے متعلق احادیث صحیح وارد ہیں اور ہم کو تشہد میں اس کا حکم دیا گیا ہے۔ اور خارج از نماز بھی اس پر سلف صالحین کا عمل رہا ہے اور جہاں تک سلام کا تعلق ہے تو ہمارے اصحاب میں سے شیخ ابو محمد جوینی نے یہ کہا ہے کہ غائب کے حق میں یہ بھی صلوٰۃ کی طرح ہے اور غیر انبیاء پر انفراداً سلام نہیں بھیجا جائے گا۔ پس علی (علیہ السلام) نہیں کہا جائے گا اور اس میں زندہ اور مردہ برابر ہیں۔ اور حاضر کو سلام کے ساتھ مخاطب کیا جائے گا۔ مثلاً السلام علیک یا السلام علیکم کہا جائے گا۔ (الاذکار ج ١ ص ١٣٦۔ ١٣٥، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٧ ھ) ۔

علامہ شمس الدین ابن قیم جوزی حنبلی متوفی ٧٥١ ھ نے سلام بھیجنے کے مسئلہ میں علامہ جوینی سے اختلاف کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں : دوسرے علامء نے صلوٰۃ اور سلام میں فرق کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سلام کا لفظ ہر مومن کے حق میں مشروع ہے۔ خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ۔ حاضر ہو یا غائب۔ کیونکہ یہ کہنا معروف اور معمول ہے کہ فلاں شخص کو میرا سلام پہنچا دو ۔ اور یہ اہل اسلام کی تحیت (تعظیم) ہے۔ بخلاف صلوٰۃ کے کیونکہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حق ہے۔ اس لیے نماز کے تشہد میں پڑھتے ہیں۔ السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین اور یوں نہیں پڑھا جاتا الصلوٰۃ علینا وعلی عباد اللہ الصالحین اور اس سے ان دونوں کے درمیان فرق معلوم ہوگیا۔ (جلاء الافہام ص ٢٦٠، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت) ۔

انبیاء (علیہم السلام) کے غیر پر استقالاً صلوٰۃ پڑھنے والوں کے دلائل اور ان کے جوابات :

مجوزین کی ایک دلیل سورة توبہ کی زیر بحث آیت ١٠٣ ہے : صل علیھم ان صلوٰتک سکنٌ لھم۔ آپ ان پر صلوٰۃ بھیجئے، آپ کی صلوٰۃ ان کے لیے باعث طمانیت ہے۔ اور دیگر آیتیں یہ ہیں : اولٰٓئک علیھم صلوٰتٌ من ربھم ورحمۃٌ۔ (البقرہ : ١٥٧) (یہ) وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی جانب سے صلوات ہیں اور رحمت۔ ھوالذی یصلی علیکم۔ (الاحزاب : ٤٣) وہی ہے جو تم پر صلوٰۃ بھیجتا ہے۔ ان آیتوں کے علاوہ حسب ذیل احادیث سے بھی وہ استدلال کرتے ہیں :

حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) بیان کرے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جب لوگ صدقہ لے کر آتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے لیے دعا کرتے : اے اللہ ! ان پر رحمت بھیج۔ سو میرے باپ ابو اوفیٰ صدقہ لے کر آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا فرمائی : اے اللہ ! ابو اوفیٰ کی آل پر رحمت بھیج۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٤٩٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠٧٨، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٥٩٠، سنن النسائی رقم الحدیث : ٣٤٥٩، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٥٩٦) ۔

امام دارمی نے ایک طویل حدیث روایت کی ہے۔ اس میں ہے، ایک خاتون نے کہا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھ پر اور میرے خاوند پر صلوٰۃ بھیجئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر صلوٰۃ بھیجی۔ (سنن الدارمی رقم الحدیث : ٦، مسند احمد ج ٣ ص ٣٩٨، ٣٠٣، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ١٩٥٠، مصنف ابن ابی شیبہ ج ٢ ص ٥١٩)

 قیس بن سعد بن عبادہ بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی : اے اللہ ! سعد بن عبادہ کی آل پر اپنی صلوات اور رحمت بھیج۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٥١٨٥، عمل الیوم واللیلۃ للنسائی رقم الحدیث : ١٣٢٥ ) ۔

ان آیات اور احادیث کا جواب یہ ہے کہ ان آیات اور احادیث میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صلوٰۃ بھیجنے کا ذکر ہے اور اللہ تعالیٰ کسی حکم اور کسی قاعدہ کا پابند نہیں ہے۔ وہ جس کو چاہے صلوٰۃ بھیجے اور جو چاہے کرے اور صلوٰۃ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حق ہے۔ وہ اپنا حق جس کو چاہیں عطا کردیں۔ سو یہ آیات اور احادیث ہمارے موضوع سے خارج ہیں۔ ہمارا موضوع یہ ہے کہ امت کسی غیر نبی پر صلوٰۃ بھیجے اور یہ چیز ان آیات اور احادیث سے ثابت نہیں ہے۔ 

انبیاء (علیہم السلام) کے غیر پر انفراداً صلوٰۃ بھیجنے کے دلائل :

امام ابن عبدالبر متوفی ٥٦٣ ھ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے : لاتجعلوا دعآء الرسول یبنکم کدعآء بعضکم بعضاً ۔ (النور : ٦٣) ترجمہ : تم آپس میں رسول کی دعا کو ایسا نہ قرار دو جیسا کہ تم ایک دوسرے کے لیے دعا کرتے ہو۔ اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے دعا میں صلوٰۃ کا ذکر ہو اور مسلمان ایک دوسرے کے لیے دعا میں بھی صلوٰۃ کا ذکر کریں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور عام مسلمانوں کے لیے دعا میں کوئی امتیاز نہیں رہے گا۔ حالانکہ اس آیت کا یہ تقاضا ہے کہ ان میں امتیاز ہونا چاہیے۔ (الاستذکار ج ٦ ص ٢٦٢، طبع بیروت ١٤١٤ ھ، التمہید ج ٧ ص ٩٩، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٩ ھ) ۔

حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا کسی شخص کا کسی شخص پر صلوٰۃ بھیجنا میرے علم میں جائز نہیں ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ٢ ص ٥١٩، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٣١١٩، سنن کبریٰ ج ٢ ص ١٥٣، الاستذکار ج ٦ ص ٢٦٣، التمہید ج ٧ ص ٩٩) ۔

امام عبدالرزاق نے یہ اثر اس طرح روایت کیا ہے : عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : انبیاء کے سوا کسی شخص پر صلوٰۃ بھیجنا جائز نہیں ہے۔ سفیان نے کہا : نبی کے سوا کسی اور پر صلوٰۃ بھیجنا مکروہ ہے۔ (المصنف رقم الحدیث : ٣١١٩، المعجم الکبیر ج ١١ رقم الحدیث : ١٨٨١٣) ۔

امام مالک وغیرہ نے عبداللہ بن دینار سے روایت کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر (مبارک) پر کھڑے ہوتے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوٰۃ بھیجتے اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رض) کے لیے دعا کرتے۔ (الاستذکار ج ٦ ص ٢٦٣، التمہید ج ٧ ص ٩٩) ۔

موطا امام مالک کے موجودہ نسخوں میں یہ روایت ہے کہ حضرت ابن عمر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر پر کھڑے ہوتے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر پر صلوٰۃ بھیجتے۔ (رقم الحدیث : ١٦٦ ) ۔

امام ابن عبدالبر نے اس کا رد کیا ہے اور کہا ہے کہ یحییٰ بن یحییٰ کو اس روایت کے درج کرنے میں مغالطہ ہوا ہے۔ صحیح روایت اس طرح ہے جس طرح مذکور الصدر عبارت میں ذکر ہے۔ (الاستذکارج ٦ ص ٢٦٣، التمہید ج ٧ ص ٩٩) ۔

حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا کوئی شخص کسی شخص پر صلوٰۃ نہ بھیجے۔ باقی لوگوں کے لیے دعا کی جائے اور ان پر رحمت بھیجی جائے۔ (الاستذکار ج ٦ ص ٦٣ ) ۔

خلاصہ یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کے غیر پر تبعاً صلوٰۃ وسلام بھیجنا جائز ہے اور انفراداً اور استقلالاً صلوٰۃ بھیجنا مکروہ تنزیہی ہے اور صرف سلام بھیجنا بلا کراہت جائز ہے۔ یہی جمہور کا مسلک ہے۔ اور یہی ہمارا موقف ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة آیت نمبر 103