أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاِذَاۤ اَذَقۡنَا النَّاسَ رَحۡمَةً مِّنۡۢ بَعۡدِ ضَرَّآءَ مَسَّتۡهُمۡ اِذَا لَهُمۡ مَّكۡرٌ فِىۡۤ اٰيَاتِنَا‌ ؕ قُلِ اللّٰهُ اَسۡرَعُ مَكۡرًا‌ ؕ اِنَّ رُسُلَنَا يَكۡتُبُوۡنَ مَا تَمۡكُرُوۡنَ‏ ۞

ترجمہ:

اور جب ہم لوگوں کو مصیبت پہنچنے کے بعد رحمت کی لذت چکھاتے ہیں تو وہ اسی وقت ہماری آیتوں (کی مخالفت) میں سازشیں کرنے لگتے ہیں، آپ کہئے کہ اللہ بہت جلد خفیہ تدبیر کرنے والا ہے۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور جب ہم لوگوں کو مصیبت پہنچنے کے بعد رحمت کی لذت چکھاتے ہیں تو وہ اسی وقت ہماری آیتوں کی (مخالفت) میں سازشیں کرنے لگتے ہیں، آپ کہئے کہ اللہ بہت جلد خفیہ تدبیر کرنے والا ہے، بیشک ہمارے فرشتے تمہاری سازشوں کو لکھ رہے ہیں (یونس : ٢١ )

مصائب کے بعد کفار پر رحم فرمانا :

اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا تھا کہ مشرکین آپ سے قرآن مجید کے علاوہ کوئی اور معجزہ طلب کرتے ہیں اور ان کی یہ طلب محض عناد اور کٹ حجتی کے لیے تھی اور اس سے ان کا مقصد ہدایت کو طلب کرنا نہیں تھا، اب اسی معنی کو موکد کرنے کے لیے فرماتا ہے کہ جب اللہ مصیبت کے بعد ان پر رحمت فرماتا ہے تو یہ اللہ کی آیتوں کی مخالفت میں سازشیں کرنے لگتے ہیں۔ مصیبت سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کفر پر ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کی بناء پر ان سے بارشیں روک لیں اور ان کو خشک سالی اور قحط میں مبتلا کردیا، پھر اللہ عزو جل نے ان پر رحم فرمایا اور ان پر بارشیں نازل فرمائیں جس سے قحط دور ہوگیا اور بجائے ان رحمتوں کی نسبت اپنے ان بتوں کی طرف کردی جو کسی نفع اور ضرر پر قادر نہیں ہیں۔

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ قریش نے اسلام قبول کرنے میں بہت تاخیر کردی، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے خلاف دعا فرمائی تو ان کو قحط نے جکڑ لیا، حتی کہ وہ اس میں ہلاک ہونے لگے۔ انہوں نے مردار اور ہڈیاں کھائیں، پھر آپ کے پاس ابو سفیان آیا اور اس نے کہا اے محمد ! آپ صلہ رحم کا حکم دیتے ہیں، اور آپ کی قوم ہلاک ہو رہی ہے، آپ اللہ سے دعا کیجئے۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی : آپ اس دن کا انتظار کیجئے جب آسمان واضح دھواں لائے گا۔ (الدخان : ١٠) پھر وہ دوبارہ اپنے کفر کی طرف لوٹ گئے۔ منصور کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کی تو ان پر بارش ہوئی، اور پورا آسمان بادلوں سے ڈھک گیا پھر لوگوں نے بارش کی کثرت کی شکایت کی تو آپ نے دعا فرمائی : اے اللہ ! ہمارے اردگرد بارش نازل فرما، ہم پر بارش نہ نازل فرما، تو بادل آپ کے سر سے چھٹ گئے پھر لوگوں کے اردگرد بارش ہوئی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٠٢٠ مطبوعہ دارارقم بیروت)

حضرت زید بن خالد جہنی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں حدیبیہ میں صبح کی نماز پڑھائی، اس وقت آسمان پر رات کی بارش کا اثر تھا، نماز سے فارغ ہو کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے، پھر آپ نے فرمایا : اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا میرے بندوں نے صبح کی، بعض مجھ پر ایمان لانے والے تھے اور بعض میرے کفر کرنے والے تھے، جنہوں نے کہا اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش ہوئی وہ مجھ پر ایمان لانے والے ہیں اور ستارے کا کفر کرنے والے ہیں اور جنہوں نے کہا کہ فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی ہے وہ میرا کفر کرنے والے ہیں اور ستارے پر ایمان لانے والے ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٨٤٦، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧١، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٣٩٠٦، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٥٢٥)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : نزول رحمت کے بعد وہ ہماری آیتوں کے خلاف سازشیں کرنے لگتے ہیں، مجاہد نے اس کی تفسیر میں کہا وہ اللہ کی آیتوں کا مذاق اڑاتے ہیں اور تکذیب کرتے ہیں اور مقاتل نے کہا وہ یہ نہیں کہتے کہ یہ اللہ کا رزق ہے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ہم پر فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آپ کہئے کہ اللہ بہت جلد خفیہ تدبیر کرنے والا ہے یعنی وہ ان کو بہت جلد سزا دینے والا ہے اور وہ ان کی سازشوں کی گرفت پر بہت زیادہ قادر ہے۔ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا : اور جب انسان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ پہلو کے بل یا بیٹھے ہوئے یا کھڑے ہوئے ہم سے دعا کرتا ہے پس جب ہم اس سے مصیبت کو دور کردیتے ہیں تو وہ اس طرح گزر جاتا ہے گویا جب اس کو وہ مصیبت پہنچی تھی تو اس نے ہم کو پکارا ہی نہ تھا (یونس : ١٢) اس آیت میں تو انسان کے صرف شکر نہ کرنے کا بیان فرمایا تھا اور زیر تفسیر آیت میں یہ ذکر فرمایا کہ وہ صرف اعراض اور شکر نہ کرنے پر ہی اکتفاء نہیں کرتے بلکہ اللہ کی نعمتوں کو اور اس کے احسان کو جھٹلاتے ہیں اور اس کی کی ہوئی رحمت کو اپنے طابل معبودوں، یعنی بتوں اور ستاروں کی طرف منسوب کرتے ہیں اور اپنی سازشوں سے اللہ تعالیٰ کی آیات میں شر اور فساد کو طلب کرتے ہیں۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 10 يونس آیت نمبر 21