أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قُلْ لَّاۤ اَمۡلِكُ لِنَفۡسِىۡ ضَرًّا وَّلَا نَفۡعًا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُؕ لِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ‌ؕ اِذَا جَآءَ اَجَلُهُمۡ فَلَا يَسۡتَـاخِرُوۡنَ سَاعَةً‌ وَّلَا يَسۡتَقۡدِمُوۡنَ‏ ۞

ترجمہ:

آپ کہیے میں اپنی جان کے لیے نہ کسی ضرر کا مالک ہوں نہ نفع کا مگر اسی کا جو اللہ چاہے، ہر امت کے لیے ایک وقت مقرر ہے جب ان کا مقرر وقت آجائے گا تو وہ نہ ایک گھڑی موخر ہو سکیں گے اور نہ (ایک گھڑی) مقدم ہو سکیں گے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آپ کہیے میں اپنی جان کے لیے نہ کسی ضرر کا مالک ہوں نہ نفع کا مگر اسی کا جو اللہ چاہے، ہر امت کے لیے ایک وقت مقرر ہے جب ان کا مقرر وقت آجائے گا تو وہ نہ ایک گھڑی موخر ہو سکیں گے اور نہ (ایک گھڑی) مقدم ہو سکیں گے آپ کہیے کہ بھلا بتائو تو سہی اگر اس کا عذاب (اچانک) رات کو آجائے یا دن کو تو مجرم کس چیز کو جلدی سے (اپنے بچائو کے لیے) کریں گے کیا پھر جب یہ عذاب آجائے گا تو پھر تم اس کا یقین کرو گے۔ (ان سے کہا جائے گا) اب مانا تم نے بیشک تم اسی کو جلدی طلب کرتے تھے پھر ظالموں سے کہا جائے گا دائمی عذاب کا مزہ چکھو تمہیں صرف ان ہی کاموں کی سزا دی جائے گی جو تم کرتے تھے (یونس : ٥٢۔ ٤٩ )

اس سوال کا جواب کہ مشرکین پر عذاب جلدی کیوں نہیں آتا :

اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ دشمنوں پر عذاب کا نازل کرنا اور دوستوں کے لیے مدد ظاہر کرنا صرف اللہ عزو جل کی قدرت اور اختیار میں ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس وعدہ اور وعید کو پورا کرنے کے لیے ایک وقت معین کردیا ہے اور اس وقت کا تعین اللہ کی مشیت پر موقوف ہے اور جب وہ وقت آجائے گا تو وہ وعدہ لا محالہ پورا ہوگا۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آپ کہئے کہ میں اپنی جان کے لیے نہ کسی نفع کا مالک ہوں نہ کسی ضرر کا مالک ہوں مگر اس کا جو اللہ چاہے، اس استثناء کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس چیز کا چاہیے مجھے مالک اور قادر بنا دتیا ہے، اللہ تعالیٰ رزاق ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قاسم ہیں۔ آپ دنیا اور آخرت کی نعمتیں تقسیم کرتے ہیں۔ آپ نے دنیا میں لوگوں کو غنی کیا اور آپ کی شفاعت سے مسلمانوں کو جنت ملے گی، جو شخص آپ کا انکار کرے وہ نقصان اٹھائے گا اور دوزخ میں جائے گا اور جو شخص آپ پر ایمان لائے گا وہ نفع پائے گا اور جنت میں جائے گا۔ سو یہ وہ نفع اور ضرر ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کی قدرت اور اختیار میں دیا ہے ہاں اللہ تعالیٰ کے قادر کیے بغیر آپ کو اپنی جان پر بھی کسی نفع اور ضرر کا اختیار نہیں ہے اور اس آیت میں یہی مراد ہے کہ اے کافرو ! تم مجھ سے یہ مطالبہ کیوں کرتے ہو کہ میں جلد دوستوں کے لیے امداد ظاہر کروں اور دشمنوں پر عذاب لائوں کیونکہ یہ چیز صرف اللہ عزو جل کی مشیت پر موقوف ہے اور اس کے چاہے بغیر تو مجھے اپنی ذات کے لیے بھی کسی نفع اور ضرر کا اختیار نہیں ہے۔ 

نزول عذاب کے بعد ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں :

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپ کہیے کہ بھلا بتائو تو سہی اگر اس کا عذاب اچانک رات کو آجائے یا دن کو تو مجرم کس چیز کو جلدی سے (اپنے بچائو کے لیے) کریں گے یعنی آپ ان مشرکین سے کہئے کہ اگر رات یا دن کے کسی وقت میں تمہارے پاس عذاب آجائے اور قیامت قائم ہوجائے تو کیا تم قیامت کو اپنے اوپر سے دور کرنے پر قادر ہو، اور اگر تمہارے مطالبہ کی بناء پر بالفرض عذاب آجائے تو تم کو اس سے کیا فائدہ ہوگا، اس وقت ایمان لانا تو کارآمد ہے نہیں تو پھر کس لیے تم اس عذاب کے جلد آجانے کا مطالبہ کر رہے ہو ؟ نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کیا پھر یہ عذاب آجائے گا تو پھر تم اس کا یقین کرو گے ! (ان سے کہا جائے گا) اب مانا تم نے ! بیشک تم اسی کو جلدی طلب کرتے تھے یعنی جب ان پر اللہ کا عذاب واقع ہوجائے گا تو ان سے کہا جائے گا کہ اب تم ایمان لے آئے اور اب تم نے اس کی تصدیق کردی حالانکہ اس وقت تمہاری تصدیق کوئی فائدہ نہیں دے گی اور تم اس سے پہلے اس عذاب کے جلد آنے کا مطالبہ کرتے تھے اور اس کے نزول کی تکذیب کرتے تھے، سو اب تم اس چیز کو چکھو جس کی تم تکذیب کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : پھر ظالموں سے کہا جائے گا دائمی عذاب کا مزہ چکھو، تمہیں صرف ان ہی کاموں کی سزا دی جائے گی جو تم کرتے تھے دوزخ کے فرشتے کافروں سے کہیں گے : اب اللہ کے دائمی عذاب کو گھونٹ گھونٹ بھر بھر کر پیو، یہ وہ عذاب ہے جو نہ کبھی زائل ہوگا نہ فنا ہوگا اور یہ تمہارے ان برے کاموں کا نتیجہ ہے جو تم اپنی زندگی میں اللہ کی معصیت میں کرتے تھے۔ 

وہابی علماء کا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات سے ضرر اور نفع پہنچانے کی مطلقاً نفی کرنا

قاضی محمد بن علی بن محمد شوکانی متوفی ١٢٥٠ ھ قل لا املک لنفسی ضرا ولا نفعا (یونس : ١٤٩) کی تفسیر میں لکھتے ہیں : اس آیت میں ان لوگوں کے لیے سخت زجر و توبیخ ہے جو ان مصائب کو دور کرنے کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پکارتے ہیں جن مصائب کو اللہ کے سوا کوئی دور نہیں کرسکتا، اور جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان چیزوں کو طلب کرتے ہیں جن کو دینے پر اللہ سبحانہ کے سوا کوئی اور قادر نہیں ہے، کیونکہ یہ رب العالمین کا مقام ہے جس نے انبیاء صالحین اور تمام مخلوق کو پیدا کیا ہے، اسی نے انکو رزق دیا، اسی نے ان کو زندہ کیا، وہی ان کو وفات دے گا، پس انبیاء میں سے کسی نبی سے یا فرشتوں میں سے کسی فرشتے سے یا ولیوں میں سے کسی ولی سے اس چیز کو کیسے طلب کیا جائے گا جس کے دینے پر وہ قادر نہیں ہیں اور رب الارباب سے جو ہر چیز پر قادر ہے، خالق، رازق، معطی اور مانع ہے اس سے طلب کو ترک کردیا جائے اور تمہارے لیے اس آیت میں کافی نصیحت ہے کیونکہ یہ سید ولد آدم اور خاتم الرسل ہیں۔ جب ان سے اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ آپ لوگوں سے کہیں کہ میں اپنی جان کے لیے کسی نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہوں تو آپ کا غیر کیسے نفع اور نقصان کا مالک ہوگا جس کا مرتبہ آپ سے بہت کم ہے۔ اور جس کا درجہ آپ سے بہت نیچے ہے، چہ جائکہ وہ شخص اپنے علاوہ کسی اور کے نفع اور نقصان پر قادر ہو، پس ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو وفات یافتہ بزرگوں کی قبروں پر بیٹھتے ہیں اور ان سے ایسی حاجتیں طلب کرتے ہیں جن کے پورا کرنے پر اللہ کے سوا اور کوئی قادر نہیں ہے، وہ اس شرک سے آگاہ کیوں نہیں ہوتے جس میں وہ واقع ہوچکے ہیں اور لا الہ الا اللہ کے معنی کی مخالفت میں اتر چکے ہیں۔ اور زیادہ تعجب خیز بات یہ ہے کہ اہل علم ان کو منع نہیں کرتے اور ان کے اور جاہلیت اولی کے درمیان حائل نہیں ہوتے، بلکہ ان کی حالت جاہلیت اولی سے زیادہ شدید ہے کیونکہ وہ لوگ اپنے بتوں کو اللہ کے نزدیک شفاعت کرنے والے مانتے ہیں اور کبھی ان کو بالاستقلال پکارتے ہیں اور کبھی اللہ کے ساتھ پکارتے ہیں، اللہ شیطان کو رسوا کرے اس کی اس ذریعہ سے آنکھیں ٹھنڈی ہوگئی ہیں اور اس امت مبارکہ کے اکثر لوگوں کو کافر بنا کر اس کا دل ٹھنڈا ہوگیا ہے۔ (فتح القدری ج ٢ ص ٦٣١، مطبوعہ دارالوفاء بیروت، ١٤١٩ ھ)

نواب صدیق بھوپالی متوفی ١٣٠٧ ھ نے قاضی شوکانی کا حوالہ دیئے بغیر بعینہ یہی لکھا ہے۔ (فتح البیان ج ٢ ص ٧٥۔ ٧٤، مطبوعہ المضبعہ العصریہ، ١٤١٥ ھ)

آپ سے ضرر اور نفع بالذات پہنچانے کی نفی کی گئی ہے نہ کہ مطلقاً قاضی شوکانی اور نواب صدیق حسن خان بھوپالی نے شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی کے افکار کی اتباع کرتے ہوئے جو کچھ لکھا ہے وہ صحیح نہیں ہے، پہلی بات یہ ہے کہ اس آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نفع اور ضرر کی مطلقاً نفی کرنا صحیح نہیں ہے، اس آیت میں آپ سے بالذات نفع اور ضرر کی نفی کی گئی ہے۔ یعنی آپ بالذات کسی کو نفع اور ضرر نہیں پہنچا سکتے لیکن اللہ کی دی ہوئی قدرت سے نفع اور ضرر پہنچا سکتے ہیں۔ مفسرین نے اس معنی کی تقریر اس طرح کی ہے :

علامہ محی الدین شیخ زادہ متوفی ١٩٥١ ھ لکھتے ہیں : اس آیت میں استثناء متصل بھی ہوسکتا ہے اور منقطع بھی، اگر استثناء متصل ہو تو اس آیت کا معنی اس طرح ہوگا : میں کسی کو نقصان یا نفع پہنچانے کی قدرت نہیں رکھتا مگر اللہ تعالیٰ جس کو نفع یا نقصان پہنچانا چاہے میں اس پر قادر ہوں اور اس کا مالک ہوں اور اگر یہ استثناء منقطع ہو تو اس کا معنی یہ ہوگا : میں کسی کو نقصان یا نفع پہنچانے پر قادر نہیں ہوں لیکن اللہ جو نفع یا نقصان چاہے وہ ہوجاتا ہے یعنی وہ اس کی مشیت سے ہوگا۔ (حاشیۃ الشیخ زادہ علی البیضاوی ج ٤ ص ٥٧٧، مطبوعی دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٩ ھ)

علامہ قرطبی نے اس استثناء کا صرف بطور استثنا متصل معنی کیا ہے، قاضی بیضاوی، علامہ خفا جی اور علامہ ابو سعود نے لکھا ہے کہ یہ استثناء متصل اور منقطع دونوں ہوسکتے ہیں۔ اور قاضی شوکانی اور نواب بھوپالی نے لکھا ہے کہ یہ استثناء صرف منقطع ہے اور انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نفع اور نقصان پہنچانے کی مطلقاً نفی کردی۔

علامہ سید محمد آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں : بعض متقدمین کا یہ نظریہ ہے کہ بندہ کے لیے قدرت ہوتی ہے جو اللہ کے اذن سے موثر ہوتی ہے اور اس آیت کا معنی یہ ہے کہ میں کسی ضرر یا نفع پہنچانے پر قادر نہیں ہوں مگر جس کو اللہ چاہے تو میں اس کی مشیت سے نفع اور ضرر پہنچانے پر قادر ہوتا ہوں۔ (روح المعانی ج ٧ ص ١٩٠، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٧ ھ)

استثناء متصل میں مستثنی، مستثنی منہ کی جنس سے ہوتا ہے اور استثناء منقطع میں مستثنی، مستثنی منہ سے مغائر ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک بھی یہ مستثنی منقطع ہے اور آیت کا معنی اس طرح ہے : آپ کہئے میں ضرر یا نفع پہنچانے پر بالذات قدرت نہیں رکھتا مگر جس کو اللہ چاہے میں اس کو ضرر یا نفع پہنچانے پر بالعطا قدرت رکھتا ہوں اور میرا یہ نفع اور ضرر پہنچانا اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہے۔ اور بالذات کی قید اس لیے لگائی ہے کہ بکثرت آیات، احادیث اور آثار سے ثابت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کی دی ہوئی قدرت سے دشمنان اسلام کو نقصان پہنچایا ہے اور اسلام کے حامیوں اور ناصروں کو نفع پہنچایا، اگر اس آیت میں بالذات کی قید نہ لگائی جائے تو ان تمام آیات، احادیث اور آثار کا انکار لازم آئے گا، اب ہم ایک ایسی نظیر پیش کر رہے ہیں جس سے نقصان اور نفع پہنچانے میں بالذات کی قید لگانے کا برحق ہونا بالکل واضح ہوجائے گا۔

روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) حجر اسود کو بوسہ دیتے ہوئے فرماتے : میں خوب جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ کسی کو ضرر پہنچا سکتا ہے اور نہ کسی کو نفع پہنچا سکتا ہے اور اگر میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا، اس حدیث کو صحاح ستہ کی جماعت نے روایت کیا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٥٩٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٢٧٠، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٨٧٣، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٨٦٠، سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٩٣٧، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٩٤٣)

اس حدیث پر یہ اشکال ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس رض اللہ عنہما نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے دن حجر اسود اس حال میں آئے گا کہ اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن سے یہ دیکھ رہا ہوگا اور اس کی ایک زبان ہوگی جس سے یہ کلام کرے گا اور یہ ان لوگوں کے حق میں گواہی دے گا جو اس کی حق کے ساتھ تعظیم کریں گے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٩٦١، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٩٤٤، ، سند احمد ج ١ ص ٢٤٧، سنن الدارمی رقم الحدیث : ١٨٤٦، صحیح ابن خزیمہرقم الحدیث : ٢٧٣٥، مسند ابو یعلی رقم الحدیث : ٢٧١٩، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٣٧١١، المعجم الکبری رقم الحدیث : ١١٤٣٢، الکامل لابن عدی ج ٢ ص ٦٧٩، المستدرک ج ١ ص ٤٥٧، حلیۃ الاولیاء ج ٦ ص ٢٤٣، سنن کبری للبیہقی ج ٥ ص ٧٥)

قاضی محمد بن علی بن محمد شوکانی متوفی ١٢٥٠ ھ لکھتے ہیں : حضرت ابن عباس (رض) کی یہ حدیث صحیح ہے : اور حضرت عمر (رض) نے یہ (تو ایک پتھر ہے نہ کسی کو ضرر پہنچا سکتا ہے اور نہ کسی کو نفع پہنچا سکتا ہے) اس لیے فرمایا تھا کہ لوگوں نے تازہ تازہ بتوں کی عبادت کو چھوڑا تھا، حضرت عمر (رض) کو یہ خدشہ ہوا کہ کہیں لوگ یہ نہ سمجھیں کہ حجر اسود کی تعظیم کرنا بھی ایسا ہی ہے جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں عرب بتوں کی تعظیم کرتے تھے پس انہوں نے یہ ارادہ کیا کہ لوگوں کو یہ بتلائیں کہ ان کا حجر اسود کی تعظیم کرنا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فعل کی اتباع کی وجہ سے تھا نہ اس لیے کہ حجر اسود ضرر اور نفع بالذات دیتا ہے جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں بتوں کی عبادت کی جاتی تھی۔ (نیل اوطار جز ٦ ص ١٣٢، مطبوعہ مکتبہ الکلیات الازہر مصر، ١٣٩٨ ھ)

دیکھئے حضرت عمر نے فرمایا : حجر اسود ضرر اور نفع نہیں پہنچا سکتا تو قاضی شوکانی نے ایک پتھر کی نفع رسانی ثابت کرنے کے لیے اس قول میں بالذات کی قید لگائی اور کہا کہ حضرت عمر کی مراد یہ تھی کہ حجر اسود بذاتہ ضرر اور نفع نہیں پہنچا سکتا، اور یہی قاضی شوکانی ہیں جنہوں نے بغیر کسی قید کے زیر تفسیر آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ضرر اور نفع پہنچانے کی مطلقاً نفی کردی، انا للہ و انا الیہ راجعون !

اللہ تعالیٰ کی عطا سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نفع رسانی کے متعلق قرآن مجید کی آیات :

اللہ ارشاد فرماتا ہے : وما نقموٓالا ان اعنھم اللہ ورسولہ من فضلہٖ (التوبہ : ٧٤) اور ان کو صرف یہ ناگوار ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول نے ان کو اپنے فضل سے غنی کردیا۔

ولو انھم رضوا ما اتھم اللہ و رسولہ وقالوا حسبناا للہ سیؤتینا اللہ من فضلہٖ ورسولہ (التوبہ : ٥٩) اور کیسا اچھا ہوتا اگر وہ اس چیز پر راضی ہوجاتے جو ان کو اللہ اور اس کے رسول نے عطا کی اور وہ یہ کہتے کہ ہمیں اللہ کافی ہے، عنقریب ہم کو اللہ اپنے فضل سے عطا کرے گا اور اس کا رسول۔

واتقول للذی انعم اللہ علی وانعمت علیہ۔ (الاحزاب : ٣٧) اور جب آپ اس شخص سے کہتے تھے جس پر اللہ نے انعام کیا اور آپ نے انعام کیا۔

اللہ تعالیٰ کی عطا سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نفع رسانی کے متعلق احادیث اور آثار

حضرت سہل بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں کہ خیبر کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کل میں جھنڈا اس شخص کے ہاتھوں میں دوں گا جس کے ہاتھوں پر اللہ خیبر کو فتح کرے گا، وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوگا اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتا ہوگا، پھر مسلمانوں نے رات اس طرح گزاری کہ وہ ساری رات مضطرب رہے کہ کس کو آپ صبح جھنڈا عطا فرمائیں گے۔ صبح کو سب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچے، ان میں سے ہر شخص کو یہ امید تھی کہ آپ اس کو جھنڈا عطا فرمائیں گے۔ آپ نے فرمایا علی ابن ابی طالب کہاں ہیں ؟ عرض کیا یا رسول اللہ ! ان کی آنکھوں میں تکلیف ہے۔ آپ نے فرمایا ان کو بلائو۔ انکو لایا گیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی آنکھوں میں لعاب دہن ڈالا اور ان کے لیے دعا کی، وہ تندرست ہوگئے گویا کہ ان کی آنکھوں میں کبھی درد ہی نہ تھا، آپ نے ان کو جھنڈ اعطا فرمایا۔ حضرت علی نے کہا یا رسول اللہ ! میں ان سے قتال کرتا رہوں گا حتی کہ وہ ہماری طرح (مسلمان) ہوجائیں۔ آپ نے فرمایا تم اپنی مہم پر روانہ ہو حتی کہ تم ان کے علاقے میں پہنچ جائو، پھر تم ان کو اسلام کی دعوت دو اور ان کو بتائو کہ ان پر اللہ کے کیا حقوق واجب ہیں، اللہ کی قسم ! اگر اللہ تمہاری وجہ سے کسی ایک شخص کو ہدایت دے دے تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہت بہتر ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٢١٠، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٤٠٦، السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٨٤٠٣)

حضرت قتادہ بن النعمان (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک کمان ہدیہ کی گئی، جنگ احد کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ کمان مجھے عطا فرما دی، میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت کے لیے آپ کے سامنے اس کمان سے تیر مار تا رہا حتی کہ وہ کمان ٹوٹ گئی، پھر بھی میں آپ کے سامنے کھڑا رہا اور آپ کے چہرہ کی طرف آنے والے تیروں کے سامنے اپنا چہرہ کرتا رہا حتی کہ ایک تیر میری آنکھ کے ڈھیلے پر لگا۔ وہ ڈھیلا میرے چہرے پر لٹک گیا۔ میں نے اس ڈھیلے کو اپنی ہتھیلی میں رکھ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچا۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ آپ نے دعا کی : اے اللہ ! قتادہ نے اپنے چہرے سے تیرے نبی کے چہرے کی حفاظت کی ہے، پس اس کی اس آنکھ کو اس کی دونوں آنکھوں میں سب سے حسین اور سب سے تیز نظر والی بنا دے تو حضرت قتادہ کی وہ آنکھو دونوں آنکھوں میں زیادہ حسین اور زیادہ تیز نظر والی تھی۔ (امام ابو یعلی کی روایت میں یہ واقعہ جنگ بدر کا ہے، حافظ بیہقی کی دلائل النبوۃ میں یہ واقعہ جنگ احد کا ہے اور یہی قرین قیاس ہے) (العمعجم الکبیر ج ١٩ ص ٨، مسند ابو یعلی رقم الحدیث : ١٥٤٩، دلائل النبوۃ لابی نعیم رقم الحدیث : ٤١٧، المستدرک ج ٣ ص ٢٩٥، السیرۃ النبویہ لابن کثیر ج ٣ ص ٦٦، الاصابہ رقم : ٧٠٩١، اسد الغابہ رقم : ٤٢٧٧، الاستیعاب رقم : ٢١٣١)

حارث بن عبید اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ جنگ احد میں حضرت ابو ذر (رض) کی آنکھ زخمی ہوگئی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر لعاب دہن لگا دیا تو وہ دونوں آنکھوں سے زیادہ صحیح تھی۔ (مسند ابو یعلی رقم الحدیث : ١٥٥٠، مجمع الزوائد ج ٨ ص ٢٩٨)

حضرت عثمان بن حنیف (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور عرض کیا آپ اللہ سے دعا کیجئے کہ اللہ (میری آنکھوں کو) ٹھیک کر دے۔ آپ نے فرمایا اگر تم چاہو تو میں دعا کرو دوں اور اگر تم چاہو تو میں اس کو موخر کر دوں وہ تمہارے لیے بہتر ہوگا۔ اس نے کہا نہیں، آپ اللہ سے دعا کیجئے۔ آپ نے اسے حکم دیا کہ وہ اچھی طرح وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھے اور یہ دعا کرے : اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیرے نبی رحمت (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں، اے محمد ! میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی طرف اپنی اس حاجت میں متوجہ ہوتا ہوں تاکہ وہ پوری کی جائے، آپ اس حاجت میں میری شفاعت کیجئے، (اے اللہ) آپ کی میری حاجت میں شفاعت کو قبول فرما۔ وہ شخص شفاعت کے یہ کلمات بار بار کہتا رہا حتی کہ اس کی آنکھیں ٹھیک ہوگئیں۔ (مسند احمد ج ٤ ص ١٣٨، طبع قدیم مسند احمد رقم الحدیث : ٧١٧٥، احمد شاکر نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٥٧٨، امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ١٢١٩، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٣٨٥، عمل الیوم وللیلہ للنسائی رقم الحدیث : ٦٥٨، مسند عبد بن حمید رقم الحدیث : ٣٧٩، المستدرک ج ١ ص ٣١٣، دلائل لانبوۃ للبیہقی ج ٦ ص ١٦٦، مختصر تاریخ دمشق ج ٣ ص ٣٠٤، تحفۃ الذاکرین ص ١٨٠، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، الاذکار للنودی رقم الحدیث : ٤٨٣، مکتہ نزار مصطفی، ریاض) 

وصال کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استمداد اور استغاثہ کے جواز کے متعلق احادیث اور آثار :

امام ابن ابی شیبہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ مالک الدار جو حضرت عمر (رض) کے وزیر خوراک تھے، وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کے زمانہ میں (ایک بار) لوگوں پر قحط پڑگیا، ایک شخص (حضرت بلال بن حارث مزنی) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر مبارک پر گئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! اپنی امت کے لیے بارش کی دعا کیجئے کیونکہ وہ (قحط) سے ہلاک ہو رہے ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس شخص کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا : عمر کے پاس جائو، ان کو سلام کہو اور خوشخبری دو کہ تم پر یقینا بارش ہوگی اور ان سے کہو کہ تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے، تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے۔ پھر وہ حضرت عمر (رض) کے پاس گئے اور ان کو یہ بشارت دی۔ حضرت عمر (رض) رونے لگے، اور کہا : اے اللہ ! میں صرف اسی چیز کو ترک کرتا ہوں جس سے میں عاجز ہوں۔ (المصنف ج ١٢ ص ٣٢، مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی، المصنف ج ٦ ص ٣٥٩، الاستیعاب ج ٣ ص ٢٣٨، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٥ ھ، دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٧ ص ٤٧، الکامل فی التاریخ ج ٢ ص ٣٩٠۔ ٣٨٩، فتح الباری ج ٢ ص ٤٩٢۔ ٤٩٥، حافظ ابن کثیر نے اس حدیث کی سند کے متعلق لکھا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے۔ البدایہ والنہایہ ج ٥ ص ١٦٧ طبع جدید، دارالفکر بیروت، ١٤١٨ ھ)

نیز حافظ ابن کثیر نے اپنی سند کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ حضرت عمر کے زمانہ میں (١٨ ھ میں) جب عام قحط پڑا تو حضرت بلال بن حارث کے گھر والوں نے ان سے کہا کہ وہ بکری ذبح کریں، انہوں نے کہا اس میں کچھ نہیں ہے۔ گھر والوں کے اصرار پر جب بکری کو ذبح کیا تو اس کی ہڈیاں سرخ تھیں۔ انہوں نے پکارا یا محمد اہ، خواب میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت ہوئی، آپ نے فرمایا : عمر کو میرا سلام کہو اور اس سے کہنا میرا عہد تمہارے ساتھ پورا ہونے والا ہے، اس کی گرہ سخت ہے اے عمر ! تم سمجھ داری سے کام لو، اے عمر ! تم سمجھ داری سے کام لو۔ پھر حضرت عمر نے نماز استسقاء پڑھی۔ (البدایہ والنہایہ ج ٥ ص ١٦٧، طبع جدید دارالفکر، ١٤١٨ ھ، الکامل فی التاریخ ج ٢ ص ١٨٩ بیروت، ١٤٠٠ ھ، المنتظم لابن الجوزی ج ٣ ص ١٥٧، دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)

حضرت بلال بن حارث مزنی کی اس صحیح حدیث میں یہ تصریح ہے کہ قحط کے ایام میں انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر مبارک پر جا کر آپ کو پکارا اور آپ نے انکو بارش کی خوشخبری دی۔ حضرت بلال بن حارث مزنی نے محضر صحابہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیغام حضرت عمر (رض) کو سنایا اور تمام صحابہ نے اس پر عمل کیا اور اس میں یہ دلیل ہے کہ وصال کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استمداد اور آپ سے استغاثہ پر تمام صحابہ کا اجماع تھا، اور اس حدیث میں مصائب میں وفات یافتہ بزرگوں سے استمداد کے جواز کی قوی اصل ہے اور اس سلسلہ میں دوسری حدیث یہ ہے :

امام ابو القاسم سلیمان بن احمد طبرانی متوفی ٣٦٠ روایت کرتے ہیں : حضرت عثمان بن حنیف (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص اپنے کسی کام سے حضرت عثمان بن عفان (رض) کے پاس جاتا تھا اورحضرت عثمان (رض) اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے، اور نہ اس کے کام کی طرف دھیان دیتے تھے۔ ایک دن اس شخص کی حضرت عثمان بن حنیف سے ملاقات ہوئی، اس نے حضرت عثمان بن حنیف سے اس بات کی شکایت کی۔ حضرت عثمان نے اس سے کہا : تم وضو خانہ جا کر وضو کرو، پھر مسجد میں جائو اور وہاں دو رکعت نماز پڑھو، پھر یہ کہو اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور ہمارے نبی، نبی رحمت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں، اے محمد ! میں آپ کے واسطے سے آپ کے رب عزو جل کی طرف متوجہ ہوا ہوں تاکہ وہ میری حاجت روائی کرے اور اپنی حاجت کا ذکر کرنا پھر میرے پاس آنا حتی کہ میں تمہارے ساتھ جائوں۔ وہ شخص گیا اور اس نے حضرت عثمان بن حنیف کے بتائے ہوئے طریقہ پر عمل کیا، پھر وہ حضرت عثمان بن عفان کے پاس گیا، دربان نے ان کے لیے دروازہ گھولا اور ان کو حضرت عثمان بن عفان (رض) کے پاس لے گیا۔ حضرت عثمان نے اس کو اپنے ساتھ مسند پر بٹھایا اور پوچھا تمہارا کیا کام ہے ؟ اس نے اپنا کام ذکر کیا، حضرت عثمان نے اسکا کام کردیا اور فرمایا تم نے اس سے پہلے اب تک اپنے کام کا ذکر نہیں کیا تھا اور فرمایا جب بھی تمہیں کوئی کام ہو تو تم ہمارے پاس آجانا، پھر وہ شخص حضرت عثمان (رض) کے پاس سے چلا گیا اور جب ان کی حضرت عثمان بن حنیف تو اس نے کہا اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے، حضرت عثمان (رض) میری طرف متوجہ نہیں ہوتے اور میرے معاملے میں غور نہیں کرتے تھے حتی کہ آپ نے ان سے میری سفارش کی۔ حضرت عثمان بن حنیف نے کہا بخدا میں نے حضرت عثمان (رض) سے کوئی بات نہیں کی، لیکن ایک مرتبہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں موجود تھا، آپ کے پاس ایک نا بینا شخص آیا اور اس نے اپنی نا بینائی کی آپ سے شکایت کی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم اس پر صبر کرو گے ؟ اس نے کہا یا رسول اللہ ! مجھے راستہ دکھانے والا کوئی نہیں ہے اور مجھے بڑی مشکل ہوتی ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا : تم وضو خانے جائو اور وضو کرو، پھر دو رکعت نماز پڑھو، پھر ان کلمات سے دعا کرو۔ حضرت عثمان بن حنیف نے کہا ابھی ہم الگ نہیں ہوئے تھے اور نہ ابھی زیادہ باتیں ہوئی تھیں کہ وہ نا بینا شخص آیا درآن حالیکہ اس میں بالکل نا بینائی نہیں تھی۔ یہ حدیث صحیح ہے۔ (المعجم الصغیر ج ١ ص ١٨٤۔ ١٨٣، مطبوعہ مکتبہ سلفیہ مدینہ منورہ، ١٣٨٨ ھ، المعجم الصغیر رقم الحدیث : ٥٠٨، مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت ١٤٠٥ ھ، المعجم الکبیر ج ٩ ص ٣٠، رقم الحدیث : ٨٣١١، دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٦ ص ١٦٨۔ ١٦٨، فتاوی ابن تیمیہ ج ١ ص ٢٦٨، قاعدہ جلیلہ فی التوسل والوسلہ لا بن تیمہ ص ٩٨، مصر ١٢٧٩ ھ، حافظ منذری متوفی ٦٥٦ ھ نے لکھا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے، الترغیب والترہیب ج ١ ص ٤٨٦، ٤٧٤، اور حافظ الہثیمی نے بھی لکھا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے، مجمع الزوائد ج ٢ ص ٢٧٩، شیخ مبارک پوری متوفی ١٣٥٣ ھ نے بھی امام طبرانی اور امام منذری سے یہ نقل کیا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے، تحفۃ الاحوذی ج ١٠ ص ٣٤، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤١٩ ھ)

اس حدیث میں بھی یہ تصریح ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بھی آپ سے استمداد اور استغاثہ جائز ہے اور یہ حدیث بھی وفات یافتہ بزرگوں سے استمداد اور استغاثہ کے جواز کی اصل ہے۔ علامیہ یحییٰ بن شرف نووی شافعی متوفی ٦٧٦ ھ لکھتے ہیں : عتبی سے منقول ہے کہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر مبارک کے پاس بیٹھا ہو اتھا، ایک اعرابی آیا اور اس نے کہا : السلام علیک یا رسول اللہ ! میں نے اللہ تعالیٰ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : اور اگر بیشک وہ لوگ جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، تیرے پاس آتے پس وہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے اور ان کے لیے رسول بھی اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرتے تو وہ ضرور اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پاتے۔ (انساء : ٦٤) پس میں آپ کے پاس اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتا ہوا اور آپ سے شفاعت طلب کرتا ہوا آپ کے پاس آیا ہوں۔ پھر اس نے آپ کی مدح سرائی میں دو شعر پڑھے، پھر وہ شخص چلا گیا۔ (عتبی کہتے ہیں) میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، پھر میں نے خوب میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت کی، آپ نے فرمایا : جا کر اس اعرابی سے ملو اور اس کو بشارت دو کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی مغفرت کردی ہے۔ (الاذکار ص ١٨٥، بیروت، شفاء السقام ص ٦٢، تفسیر الثعالبی ج ٢ ص ٢٥٧، تفسیر ابن کثیر ج ١ ص ٥٨٩، علامہ ابو الحیان اندلسی متوفی ٧٥٤ ھ نے ابو عبداللہ رازی سے نقل کیا ہے کہ آپ کی قبر سے آواز آئی کہ تمہاری مغفرت کردی گئی ہے، البحر المحیط ج ٣ ص ٦٩٤، علامہ نسفی متوفی ٧١٠ ھ اور مفتی محمد شفیع متوفی ١٣٩٦ ھ نے بھی اسی طرح نقل کیا، مدارک التنزیل علی ہامش الخازن ج ١ ص ٣٩٩، معارف القرآن ج ٢ ص ٤٦٠) الشیخ ظفر احمد عثمانی تھانوی متوفی ١٣٩٤ ھ لکھتے ہیں : حضرت ابو ایوب انصاری (رض) سے صحیح روایت ہے کہ جب انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر مبارک پر اپنا چہرہ رکھا تو کسی نے اس پر انکار کیا۔ انہوں نے کہا میں نے کسی اینٹ یا پتھر کے پاس نہیں آیا، میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا ہوں جیسا کہ عنقریب آئے گا، اس سے معلوم ہوا کہ اس آیت (النساء : ٦٤) کا حکم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد بھی باقی ہے، لہذا جس شخص نے کوئی گناہ کر کے اپنی جان پر ظلم کرلیا ہو اس کو چاہیے کہ وہ آپ کی قبر مبارک کی زیارت کرے اور آپ کی قبر کے پاس اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اس کے لیے استغفار فرمائیں گے۔ (اعلاء السنن ج ٥ ص ٥٤٤، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٨ ھ) عتبی کی اس نقل صحیح سے بھی یہ واضح ہوگیا کہ وفات کے بعد انبیاء (علیہم السلام) اور اسی طرح اولیاء کرام سے استمداد اور استغاثہ جائز ہے اور جہاں تک دور سے پکارنے کا تعلق ہے تو الشیخ رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں : یہ خود معلوم آپ کو ہے کہ نداء غیر اللہ تعالیٰ کو دور سے شرک حقیقی جب ہوتا ہے کہ ان کو عالم سامع مستقل عقیدہ کرے ورنہ یہ شرک نہیں، مثلاً یہ جانے کہ حق تعالیٰ ان کو مطلع فرما دیگا یا باذنہ تعالیٰ انکشاف ان کو ہوجائے گا یا باذنہ تعالیٰ ملائکہ پہنچا دیں گے جیسا درود کی نسبت وارد ہے یا محض شوقیہ کہتا ہو محبت میں یا عرض حال محل تحر و حرمان میں کہ ایسے مواقع میں اگرچہ کلمات خطابیہ بولتے ہیں لیکن ہرگز نہ مقصود اسماع ہوتا ہے نہ عقیدہ پس ان ہی اقسام سے کلمات مناجات و اشعار بزرگان کے ہوتے ہیں کہ فی حد ذاتہ نہ شرک نہ معصیت الخ۔ (فتاوی رشیدیہ کامل مبوب ص ٦٨، مطبوعہ کراچی)

وفات یافتہ بزرگوں سے استمداد کی تکفیر کا بطلان

قاضی شوکانی اور نواب بھوپالی نے شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی کی اتباع میں وفات شدہ بزرگوں سے استمداد اور استغاثہ کو کفر اور شرک قرار دیا ہے، ظاہر ہے کہ ان نقول صحیحہ کے ہوتے ہوئے ان کی یہ تکفیر باطل ہے تاہم اس کے بطلان کو واضح کرنے کے لیے ہم شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی متوفی ١٢٠٦ ھ کے بھائی شیخ سلیمان بن عبدالوہاب متوفی ١٢٠٨ ھ کی عبارت پیش کر رہے ہیں، وہ لکھتے ہیں : مسلمانوں کی تکفیر کے بارے میں تمہارا موقف اس لیے بھی صحیح نہیں کہ غیر اللہ کو پکارنا اور نذر نیاز قطعاً کفر نہیں، حتی کہ اس کے مرتکب مسلمان کو ملت اسلامیہ سے خارج کردیا جائے، کیونکہ حدیث صحیح میں ہے کہ حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : شبہات کی بناء پر حدود ساقط کردو اور حاکم نے اپنی صحیح میں اور ابو عوانہ اور بزار نے سند صحیح کے ساتھ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب کسی شخص کی سواری کسی بےآب وگیاہ صحرا میں گم ہوجائے تو وہ تین بار کہے اے عباد اللہ ! (اے اللہ کے بندو) مجھ کو اپنی حفاظت میں لے لو، تو اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ہیں جو اس کو اپنی حفاظت میں لے لیتے ہیں، اور طبرانی نے روایت کیا ہے کہ اگر وہ شخص مدد چاہتا ہو تو یوں کہے کہ اے اللہ کے بندو ! میری مدد کرو۔ اس حدیث کو فقہا اسلام نے اپنی کتب جلیلہ میں ذکر کیا ہے اور اس کی اشاعت عام ہے اور معتمد فقہاء میں سے کسی نے اس کا انکار نہیں کیا، چناچہ امام نودی نے ” کتاب الاذکار “ میں اس کا ذکر کیا ہے اور ابن القیم نے اپنی کتاب ” الکلم الطیب “ میں اس کا ذکر کیا ہے اور ابن مفلح نے ” کتاب الآداب “ میں اور ابن مفلح نے اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے : حضرت امام احمد بن حنبل صاحبزادے بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد (یعنی امام احمد بن حنبل) سے سنا، وہ فرماتے تھے کہ میں نے پانچ بار حج کیے ہیں، ایک بار میں پیدل جا رہا تھا اور راستہ بھول گیا، میں نے کہا : اے عباد اللہ ! مجھے راستہ دکھائو، میں یونہی کہتا رہا، حتی کہ میں صحیح راستے پر آ لگا۔ اب میں یہ کہتا ہوں کہ جو شخص کسی غائب یا فوت شدہ بزرگ کو پکارتا ہے اور تم اس کی تکفیر کرتے ہو، بلکہ تم محض اپنے قیاس فاسد سے یہ کہتے ہو کہ اس شخص کا شرک ان مشرکین کے شرک سے بھی بڑھ کر ہے جو بحر و بر میں عبادت کی غرض سے غیر اللہ کو پکارتے تھے اور اس کے رسول کی علی الاعلان تکذیب کرتے تھے۔ کیا تم اس حدیث اور اس کے مقضی علماء اور آئمہ کے عمل کو اس شخص کے لیے اصل نہیں قرار دیتے جو بزرگوں کو پکارتا ہے اور محض اپنے فاسد قیاس سے اس کو شرک اکبر قرار دیتے ہو، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ جبکہ شبہات سے حدود ساقط ہوجاتی ہیں، تو اس مضبوط اصل کی بناء پر ایسے شخص سے تکفیر کیونکر نہ ساقط ہوگی۔ نیز مختصر الروضہ میں کہا ہے : جو شخص توحید و رسالت کی گواہی دیتا ہو، اس کو کسی بدعت کی بناء پر کافر نہیں کہا جائے گا اور ابن تیمیہ نے بھی اسی بات کو ترجیح دی ہے۔ جبکہ جو شخص فوت شدہ بزرگوں کو پکارتا ہے وہ کسی بدعت کا مرتکب بھی نہیں ہے، کیونکہ اس کا یہ فعل ایک مضبوط اصل یعنی حدیث صحیح ( جس کا اوپر ذکر ہوچکا ہے) اور سلف کے عمل پر مبنی ہے۔ (الصواعق الالہیہ ص ٤٠۔ ٣٩، مطبوعہ مکتبہ ایشین، استنبول) ہرچند کہ وفات یافتہ بزرگوں سے استمداد اور استغاثہ جائز ہے لیکن یہ مستحسن اور افضل نہی ہے، افضل اور اولی یہی ہے کہ ہر بلا اور مصیبت کو ٹالنے کے لیے اور ہر رنج اور تکلیف کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کو ہی پکارا جائے اور اس سے مدد طلب کی جائے، کیونکہ اس کی امداد اور اعانت مسلم ہے اور ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہے اور ظنی سہاروں کے بجائے قطعی آسرے سے تمسک کرنا مستحسن ہے، باقی وفات یافتہ بزرگ اس کے اذن کے تابع ہیں وہ کسی کے تابع نہیں ہے، اس سے مدد طلب کرنا مصائب سے نجات کا ذریعہ بھی ہے، عبادت بھی ہے، کار ثواب بھی ہے اور انبیاء (علیہم السلام) اور اولیاء کرام کی سنت اور ان کا اسوہ اور طریقہ بھی ہے۔ قل لا املک لنفسی ضرا ولا نفعا (الاعراف : ١٨٨) میں بھی ہے، وہاں ہم نے ایک اور پہلو سے اس آیت پر مفصل گفتگو کی ہے، نیز یونس : ٢٣۔ ٢٢ پر جو ہم نے گفتگو کی ہے اس کو بھی بغور پڑھ لیا جائے اور ان تینوں آیتوں کی تفسیر میں جو بحث کی ہے اس کو ایک ساتھ پڑھنے سے انشاء اللہ اس موضوع پر کافی بصیرت افروز معلومات حاصل ہوں گی۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 10 يونس آیت نمبر 49