أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قَالُوۡا يٰـنُوۡحُ قَدۡ جَادَلۡتَـنَا فَاَكۡثَرۡتَ جِدَالَـنَا فَاۡتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنۡ كُنۡتَ مِنَ الصّٰدِقِيۡنَ ۞

ترجمہ:

انہوں نے کہا اے نوح ! تم نے ہم سے بحث کی اور بہت زیادہ بحث کی، اب اگر تم سچے ہو تو وہ (عذاب) لے آئو جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انہوں نے کہا اے نوح ! تم نے ہم سے بحث کی اور بہت زیادہ بحث کی، اب اگر تم سچے ہو تو وہ (عذاب) لے آئو جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو۔ (نوح نے کہا) اگر اللہ نے چاہا تو تم پر وہ عذاب اللہ ہی لائے گا اور تم (اس کو) عاجز کرنے والے نہیں ہو۔ اگر میں تم کو نصیحت کروں تو میں اپنی نصیحت سے تم کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا جب کہ اللہ تمہیں گمراہ کرنے کا ارادہ کرچکا ہو، وہی تمہارا رب ہے اور تم اسی کی طرف لوٹائے جائو گے۔ کیا وہ یہ کہتے ہیں کہ اس (رسول) نے اس (قرآن) کو ازخود گھڑ لیا ہے ؟ آپ کہیے کہ اگر (بالفرض) میں نے اس کو گھڑ لیا ہے تو میرا گناہ میرے ذمہ ہے اور میں تمہارے گناہوں سے بری ہوں۔ (ھود : ٣٥۔ ٣٢)

جدال کا معنی

علامہ راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں : جدال کا معنی ہے بحث اور منافشہ میں فریق مخالف پر غالب آنے کی کوشش کرنا۔ جدلت الحبل کا معنی ہے میں نے رسی کو مضبوطی سے بنایا، بٹ دیا اور اجدل طاقت ور شکرے کو کہتے ہیں اور اسی سے جدال بنا ہے گویا بحث اور مناقشہ کرنے والوں میں سے ہر فریق دوسرے کو اس کی رائے سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے اور ایک قول یہ ہے کہ جدال کا معنی پچھاڑنا ہے اور اپنے مخالف کو سخت زمین پر گرانا ہے۔ (المفردات ج ١ ص ١١٧)

علامہ ابو عبداللہ مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں : دین میں جدال کرنا محمود ہے، اسی وجہ سے حضرت نوح اور دیگر انبیاء (علیہم السلام) نے اپنی قوموں سے جدال کیا تاکہ حق کا غلبہ ہو اور جس نے ان کے موقف کو قبول کرلیا وہ کامیاب اور کامران ہوگیا اور جس نے ان کے موقف کو مسترد کردیا وہ ناکام اور نامراد ہوگیا اور ناحق جدال کرنا تاکہ باطل کو غلبہ ہو مذموم ہے اور ایسا جدال کرنے والا دنیا اور آخرت میں ملامت اور مذمت کیا جاتا ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن : جز ٩ ص ٢٦) 

حضرت نوح (علیہ السلام) کے جوابات پر کفار کے اعتراضات

سابقہ آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کے دیئے ہوئے وہ جوابات بیان فرمائے تھے جو انہوں نے کفار کے شبہات میں دیئے تھے، ان کے جوابات پر کفار نے دو اعتراض کیے :

(١) کفار نے حضرت نوح (علیہ السلام) کے جوابات کو جدال سے تعبیر کیا اور کہا کہ آپ نے بہت زیادہ جدال کیا ہے اور یہ اس کی دلیل ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان سے بہت زیادہ بحث فرمائی تھی اور حضرت نوح (علیہ السلام) کا جدال توحید، نبوت اور آخرت کو ثابت کرنے کے لیے تھا، اس سے معلوم ہوا کہ حق کو ثابت کرنے کے لیے دلائل پیش کرنا اور شبہات کا ازالہ کرنا یہ وہ جدال ہے جو انبیاء (علیہم السلام) کی سنت ہے اور آبائو اجداد کی اندھی تقلید، جہل اور گمراہی پر اصرار کرنا اور اس پر جدال کرنا کفار کا طریقہ ہے۔

(٢) حضرت نوح (علیہ السلام) ان کو جس عذاب سے ڈراتے تھے کفار نے ان سے اس عذاب کو بہ عجلت طلب کیا اور کہا : اگر آپ سچے ہیں تو ہمارے پاس اس عذاب کو جلد لے کر آئیں جس سے آپ ہم کو ڈراتے ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اس کے جواب میں فرمایا تھا : اگر اللہ نے چاہا تو وہ عذاب تم پر اللہ ہی لائے گا اور تم (اس کو) عاجز کرنے والے نہیں ہو، اس کا معنی یہ ہے کہ عذاب کو نازل کرنا میری طرف مفوض نہیں ہے، یہ اللہ کا کام ہے وہ جب چاہے گا اس کو کرے گا اور اس کو کوئی عاجز کرنے والا نہیں ہے۔ 

جب اللہ تعالیٰ کفار کو گمراہ کرنے کا ارادہ فرمائے تو پھر گمراہ ہونے میں ان کا کیا قصور ہے ؟

پھر نوح (علیہ السلام) نے فرمایا : اگر میں تم کو نصیحت کروں تو میں تم کو اپنی نصیحت سے فائدہ نہیں پہنچا سکتا، جب کہ اللہ تم کو گمراہ کرنے کا ارادہ کرچکا ہو۔ اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہی ان کو گمراہ کرنے کا ارادہ کرلیا ہے تو پھر ان کے گمراہ ہونے میں ان کا کیا قصور ہے ؟ نیز جب اللہ تعالیٰ نے ان کو گمراہ کرنے کا ارادہ کرلیا تھا تو پھر حضرت نوح (علیہ السلام) کو ان کی ہدایت کے لیے بھیجنے کا کیا فائدہ تھا ؟ امام رازی نے اس کے جواب میں لکھا ہے کہ کبھی اللہ تعالیٰ بندے سے اس کے کفر کا ارادہ کرتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے کفر کا ارادہ کرے تو پھر اس کا ایمان لانا محال ہے اور حضرت نوح (علیہ السلام) نے جو فرمایا تھا وہ ہمارے مذہب کی صحت پر صراحتاً دلالت کرتا ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٦ ص ٣٤٢۔ ٣٤١، مطبوہ دار احیاء التراث العربی بیروت، ١٤١٥ ھ) میں نے دیکھا کہ مفسرین میں سے کوئی بھی اس اعتراض کا جواب دینے کے درپے نہیں ہوا، میرے نزدیک اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ازل میں اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کافروں کو ایمان لانے یا نہ لانے کا اختیار عطا فرمائے گا لیکن وہ ہدایت کو قبول کرنے کی بجائے اپنے آبائو اجداد کی اندھی تقلید پر جمے رہنے کو اختیار کریں گے اور ہٹ دھرمی سے کام لیں گے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے سوء اختیار کی بناء پر ان کے حق میں کفر کو مقدر کردیا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو گمراہی پر رکھنے کا ارادہ فرمایا اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارادہ فرمانا ان کے اپنے اختیار کی وجہ سے ہے، اس لیے قیامت کے دن وہ یہ عذر پیش نہیں کرسکتے کہ جب تو نے ہی ہمیں گمراہ کرنے کا ارادہ کرلیا تھا تو ہدایت کو قبول نہ کرنے میں ہمارا کیا قصور ہے اور نہ ہی حضرت نوح (علیہ السلام) کو ہدایت کے لیے بھیجنے کا عبث ہونا لازم آیا، کیونکہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے مسلسل ہدایت دینے کے باوجود انہوں نے اپنے اختیار سے ہدایت کو قبول نہیں کیا۔

انسان کے افعال کی قدرت میں مذاہب

متکلمین اور جبر اور قدر کی وضاحت بندے کے افعال پر قادر ہونے یا نہ ہونے کے متعلق متکلمین اسلام کے نظریات مختلف ہیں۔

جبریہ کہ نظریہ یہ ہے کہ انسان کو اپنے افعال پر کوئی اختیار نہیں ہے اور وہ شجر و حجر کی طرح مجبور محض ہے

اور معتزلہ کا یہ نظریہ ہے کہ انسان اپنے افعال کا خود خالق ہے

اور اہل سنت کا یہ نظریہ ہے کہ انسان اپنے افعال کا کسب کرتا ہے اور اس کے افعال کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور کسب کا معنی اختیار اور ارادہ ہے، جب بندہ کسی کام کو کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس میں وہ فعل پیدا کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو ازل میں علم تھا کہ بندہ کفر یا ایمان میں سے کس کو اختیار کرے گا اور اس کے اختیار کی بناء پر اللہ تعالیٰ اس کے اندر کفر یا ایمان میں سے کسی ایک کو پیدا کرے گا اور اس کے اسی علم کا نام تقدیر ہے۔ عام لوگوں کو تقدیر پر یہ خدشہ ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی ہمارے متعلق یہ لکھ دیا تھا کہ ہم نیک اور بدافعال میں سے کیا کریں گے تو ہم نیکی یا بدی کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جبر اس وقت ہوتا جب ہم کو اختیار نہ دیا جاتا، جبر کی واضح مثال یہ ہے کہ ایک بچہ اپنے اختیار اور ارادہ سے سٹیڈیم میں کرکٹ میچ دیکھنے جانا چاہتا ہے لیکن اس کا باپ اس کو جبراً گھسیٹتے ہوئے اسکول لے کرجاتا ہے اور اس کو ہیڈماسٹر کے سپرد کر کے آتا ہے کہ اس کو چھٹی سے پہلے اسکول سے نکلنے نہ دینا، اب جتنے وقت وہ بچہ اسکول میں رہتا ہے اس کا دل و دماغ میچ ہی میں رہتا ہے اور وہ بےدلی سے اسکول میں وقت گزارتا ہے، یہ جبر ہے۔ اگر ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا کہ ہم اپنے اختیار اور ارادہ سے نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں جانا چاہتے لیکن کوئی غیبی طاقت ہم کو سینما ہائوں میں فلم دیکھنے لے جاتی اور ہم بےدلی سے فلم دیکھتے اور ہمارا دل اور دماغ نما ز اور مسجد میں ہوتا تب تو یقینا یہ جبر ہوتا، لیکن جب کہ ایسا نہیں ہوتا، ہمارا دل نماز پڑھنے کو چاہتا ہے تو ہم نماز پڑھتے ہیں اور ہمارا دل فلم دیکھنے کو چاہتا ہے تو ہم فلم دیکھتے ہیں، ہمارے تمام نیک اور بدافعال ہماری خواہش کے مطابق اور ہمارے اختیار اور ارادہ کے موافق ہوتے ہیں تو واضح ہوگیا کہ ہم پر جبر نہیں ہے اور ہم مختار ہیں اور اسی اختیار کی بناء پر ہم کو جزا یا سزا ملتی ہے، ہاں ہم پیدائش اور موت میں مجبور ہیں، ہم اپنے اختیار سے پیدا ہوسکتے ہیں، نہ اپنے اختیار سے مرسکتے ہیں، نہ اجل آنے پر موت کو موخر کرسکتے ہیں، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ آج کل کے تعلیم یافتہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر فلاں شخص خاندانی منصوبہ بندی کی دوائیں اپنی بیوی کو کھلا دیتا تو اس کے اتنے بچے نہ ہوتے یا اگر فلاں شخص کو بروقت طبی امداد مل جاتی تو وہ نہ مرتا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے جن کی پیدائش مقدر کردی ہے وہ ہرحال میں پیدا ہوں گے اور کوئی دوا یا کوئی طریقہ ان کو پیدا ہونے سے روک نہیں سکتا اور جس شخص کی موت کا اللہ تعالیٰ نے وقت مقدر کردیا ہے کسی دوا یا کسی طریقہ سے اس کو اس وقت کے بعد موت سے بچایا نہیں جاسکتا۔ ان تعلیم یافتہ لوگوں پر حیرت ہوتی ہے کہ جن کاموں میں وہ مختار ہیں مثلاً نماز پڑھنے یا نہ پڑھنے میں، ان میں خود کو مجبور کہتے ہیں اور جن امور میں وہ مجبور ہیں مثلاً پیدائش اور موت میں، ان میں سے خود کو مختار کہتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ امور تکوینیہ میں ہم مجبور ہیں اور امور تشریعیہ میں ہم مختار ہیں۔ امور تکوینیہ سے مراد وہ امور ہیں جن میں ہمارے فعل کا دخل نہیں ہے، مثلاً پیدا ہونا اور پیدائش میں مذکر یا مونث ہونا، بارشوں کا ہونا، دریائوں اور سمندروں میں طوفانوں کا آنا، زلزلوں کا آنا، آندھیوں کا آنا، گرمی، سردی اور برسات کے موسموں کا آنا اور امور تشریعیہ سے مراد احکام شرعیہ ہیں، جن میں ہمارے فعل کا دخل ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 11 هود آیت نمبر 32