أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَىِ النَّهَارِ وَزُلَـفًا مِّنَ الَّيۡلِ‌ ؕ اِنَّ الۡحَسَنٰتِ يُذۡهِبۡنَ السَّيِّاٰتِ ‌ؕ ذٰ لِكَ ذِكۡرٰى لِلذّٰكِرِيۡنَ ۞

ترجمہ:

اور دن کی دونوں طرفوں میں اور (ابتدائی) رات کے کچھ حصوں میں نماز قائم رکھیے بیشک نیکیاں، گناہوں کو مٹا دیتی ہیں یہ ان لوگوں کے لیے نصیحت ہے جو نصیحت قبول کرنے والے ہیں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور دن کی دونوں طرفوں میں اور (ابتدائی) رات کے کچھ حصوں میں نماز قائم رکھیے، بیشک میکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں یہ ان لوگوں کے لیے نصیحت ہے جو نصیحت قبول کرنے والے ہیں اور صبر کیجیے پس بیشک اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں فرماتا۔ (ھود : ١١٥۔ ١١٤) 

نماز کی اہمیت

اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے استقامت کا حکم دیا تھا اور اس کے متصل بعد اس آیت میں نماز پڑھنے کا حکم دیا اور یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد سب سے بڑی عبادت نماز پڑھنا ہے اور جب کبھی کسی شخص کو مصیبت یا پریشانی لاحق ہو تو اس کو نماز پڑھنی چاہیے۔ حضرت حذیفہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی چیز سے غم زدہ یا فکر مند ہوتے تو نماز پڑھتے۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٣١٩) 

دن کی دو طرفوں میں فقہاء صحابہ وتابعین کے اقوال

امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : مجاہد اور محمد بن کعب القرظی نے کہا : دن کے دو طرفوں سے مراد فجر اور ظہر اور عصر ہیں۔

حضرت ابن عباس (رض) حسن اور ابن زید نے کہا : دن کی دو طرفوں سے مراد فجر اور مغرب ہیں۔

ضحاک نے کہا : اس سے مراد فجر اور عصر ہیں۔

قتادہ کا بھی یہی قول ہے۔

امام ابن جریر نے کہا : ان اقوال میں یہ اولیٰ یہ ہے کہ دن کی دو طرفوں سے مراد فجر اور مغرب کو لیا جائے۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پر سب کا اجماع ہے کہ دن کی دو طرفوں سے ایک فجر ہے اور یہ نماز طلوع آفتاب سے پہلے پڑھی جاتی ہے تو پھر دن کی دوسری طرف مغرب ہونی چاہیے کیونکہ مغرب کی نماز غروب آفتاب کے بعد پڑھی جاتی ہے۔ (جامع البیان جز ١٢، ص ١٢٧، ص ١٦٧، مطبوعہ دارالفکر بیروت ١٤١٥ ھ) 

نماز فجر کو سفید اور روشن وقت میں پڑھنے، عصر کو دو مثل سایہ کے بعد پڑھنے اور وتر کے وجوب میں امام ابوحنیفہ کی تائید

امام فخر الدین محمد بن عمر رازی شافعی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں : دن کی دو طرفوں کے متعلق متعدد اقوال ہیں اور ان میں صحت کے زیادہ قریب قول یہ ہے کہ اس سے مراد فجر اور عصر کی نمازیں ہیں کیونکہ دن کی دو طرفوں میں سے ایک طرف طلوع شمس ہے اور دوسری طرف غروب شمس ہے، پس طرف اول فجر کی نماز ہے اور طرف ثانی سے مغرب کی نماز مراد لینا جائز نہیں کیونکہ وہ زلفا من اللیل (ابتدائی رات کے کچھ حصے) میں داخل ہے۔ پس واجب ہے کہ طرف ثانی سے مراد عصر کی نماز ہو اور جب یہ بات واضح ہوگئی تو یہ آیت امام ابوحنیفہ (رح) کے اس قول پر دلیل ہے کہ فجر کو روشن کر کے نماز پڑھنا افضل ہے۔ (فجر کے ابتدائی وقت میں اندھیرا ہوتا ہے اور اس کو موخر کیا جائے حتیٰ کہ سفیدی اور روشنی پھیل جائے تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس وقت میں نماز پڑھنا افضل ہے جبکہ امام شافعی نزدیک فجر کے ابتدائی وقت میں جب اندھیرا ہوتا ہے نماز پڑھنا افضل ہے) اور یہ آیت اس پر بھی دلیل ہے کہ عصر کی نماز کو موخر کر کے پڑھنا افضل ہے کیونک اس آیت کا ظاہر اس پر دلالت کرتا ہے کہ نماز کو دن کی دو طرفوں میں پڑھنا واجب ہے اور دن کی دو طرفیں طلوع شمس کا اول وقت ہے اور اسی طرح غروب شمس کا اول وقت ہے اور اس پر امت کا اجماع ہے کہ ان وقتوں میں بغیر ضرورت شرعیہ کے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے لہٰذا اس آیت کے ظاہر پر عمل کرنا بہت مشکل ہے۔ لہٰذا اس آیت کو مجاز پر محمول کرنا واجب ہے اس لیے اب اس آیت کا معنی اس طرح ہوا کہ نماز کو اس وقت قائم کیجیے جو دن کی دو طرفوں کے قریب ہے کیونکہ کسی چیز کے قریب پر بھی اس چیز کا اطلاق کردیا جاتا ہے لہٰذا صبح کی نماز اس وقت پڑھی جائے جو طلوع شمس کے قریب ہے اور یہ وہ وقت ہے جب سفیدی اور روشنی ہوتی ہے کیونکہ اندھیرے وقت کی بہ نسبت سفیدی کا وقت طلوع شمس کے زیادہ قریب ہے اور عصر کی نماز اس وقت پڑھی جائے جو غروب شمس کے قریب ہے اور یہ وہ وقت ہے جب ہر چیز کا سایہ دو مثل ہوچکا ہوتا ہے اور ایک مثل سایہ کی بہ نسبت دو مثل سایہ کا وقت غروب شمس کے زیادہ قریب ہے اور مجاز حقیقت کے جتنا زیادہ قریب ہو اس پر لفظ کو محمول کرنا زیادہ اولیٰ ہے پس ثابت ہوگیا کہ اس آیت کا ظاہر ان دونوں مسئلوں میں امام ابوحنیفہ کے مذہب کی تقویت اور تائید کرتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وزلفا من اللیل اور زلف جمع کا صیغہ ہے سو اس کا معنی ہے رات کے تین قریبی اوقات کیونکہ کم از کم جمع کا اطلاق تین پر ہوتا ہے اور ایک وقت مغرب کے لیے ہے اور دوسرا وقت عشاء کے لیے ہے تو پھر تیسرا وقت وتر کے لیے ہونا چاہیے اور اس سے یہ ماننا پڑے گا کہ وتر کی نماز واجب ہے اور یہ بھی امام ابوحنیفہ کے قول کی تائید کرتا ہے کیونکہ امام ابوحنیفہ نے یہ کہا ہے کہ وتر کی نماز واجب ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٦ ص ٤٠٨، مطبوعہ دارالفکر بیروت ١٤١٥ ھ) 

پانچ وقت کی نمازوں سے گناہوں کے معاف ہونے کے متعلق احادیث

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں۔

امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس (رض) محمد بن کعب قرظی، مجاہد، حسن، ضحاک، حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) ، حضرت سلمان فارسی (رض) اور مسروق نے کہا : ان نیکیوں سے مراد پانچ نمازیں ہیں، یہ پانچ نمازیں گناہوں کو اس طرح مٹا دیتی ہیں جس طرح سے پانی میل کو مٹا دیتا ہے اور دھو ڈلتا ہے۔ (جامع البیان جز ١٢، ص ١٧٢۔ ١٧١، مطبوعہ دارالفکر بیروت ١٤١٥ ھ)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ بتائو کہ اگر تم میں سے کسی شخص کے دروازے پر ایک دریا ہو جس میں وہ ہر روز دن میں پانچ مرتبہ غسل کرتا ہو تو کیا کہتے ہو، کیا اس کے بدن پر میل باقی رہے گا صحابہ نے کہا : اس کے بدن پر میل باقی نہیں رہے گا۔ آپ نے فرمایا : پانچ نمازوں کی ایسی ہی مثال ہے اللہ تعالیٰ ان کی وجہ سے اس کے گناہوں کو مٹا دے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٢٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٦٦٧، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٨٦٨، سنن النسائی رقم الحدیث : ٤٦١، مسند احمد ج ٢ ص ٣٧٩، سنن الدارمی رقم الحدیث : ١١٨٧، مسند ابو عوانہ ج ٢ ص ٢٠، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ١٧٢٦، السنن الکبری للبیہقی ج ١، ص ٣٦١، ج ٣، ص ٦٢، شرح السنہ رقم الحدیث : ٣٤٢، مصنف ابن ابی شیبہ ج ٢، ص ٣٨٩)

حضرت عثمان (رض) کے غلام حمران بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عثمان کو دیکھا انہوں نے پانی کا ایک برتن منگایا پھر اس میں سے تین مرتبہ پانی انڈیل کر اپنے ہاتھوں کو دھویا پھر اپنا دایاں ہاتھ برتن میں ڈال کر پانی لیا اور کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا پھر تین مرتبہ اپنے چہرے کو دھویا، پھر تین مرتبہ اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھویا پھر اپنے سر کا مسح کیا پھر تین مرتبہ اپنے پیروں کو ٹخنوں سمیت دھویا پھر کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے میرے اس وضو کی مثل وضو کیا پھر اس نے دو رکعت نماز پڑھی کہ اس نماز میں اس نے اپنے آپ سے باتیں نہیں کیں (دل میں ازخود خیال آنا ممنوع نہیں ہے، ممنوع یہ ہے کہ انسان خود دنیاوی باتوں کو سوچنا اور ان میں غور و فکر کرنا شروع کر دے) تو اس کے تمام پچھلے گناہوں کو معاف کردیا جائے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٥٩، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٢٦، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١٠٦، سنن النسائی رقم الحدیث : ٨٤، مسند احمد رقم الحدیث : ٤١٨، عالم الکتب ١٤١٩ ھ، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ١٣٩، سنن الدارمی رقم الحدیث : ٦٩٩، مسند البزار رقم الحدیث : ٤٣٠، ٤٢٩، صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ٣، ١٥٨)

ابو عثمان بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت سلمان فارسی (رض) کے ساتھ ایک درخت کے نیچے کھڑا تھا حضرت سلمان نے ایک خشک شاخ کو پکڑ کر زور زور سے بلانا شروع کیا حتیٰ کہ اس کے پتے جھڑنے لگے، پھر کہا اے ابو عثمان تم مجھ سے پوچھتے نہیں کہ میں ایسا کیوں کر رہا ہوں ؟ میں نے کہا : آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں ؟ انہوں نے کہا : جب مسلمان وضو کرتا ہے اور اچھی طرح وضو کرتا ہے پھر پانچ نمازیں پڑھتا ہے تو اس کے گناہ اس طرح جھڑ جاتے ہیں جس طرح یہ پتے جھڑ رہے ہیں اور پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی : واقم الصلوۃ طرفی النھار وزلفا من الیل ان الحسنات یذھبن السیئات ذلک ذکری للذاکرین۔ (ھود : ١١٤) اور دن کی دونوں طرفوں میں اور (ابتدائی) رات کے کچھ حصوں میں نماز قائم رکھیے، بیشک نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں۔ یہ ان لوگوں کے لیے نصیحت ہے جو نصیحت قبول کرنے والے ہیں۔ (مسند احمد رقم الحدیث : ٢٤١٠٨، سنن ابو دائود طیالسی رقم الحدیث : ٦٥٢، سنن الدارمی رقم الحدیث : ٧٢٥)

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور اس نے کہا میں نے مدینہ کے ایک سرے پر ایک عورت کو گرا لیا اور میں نے جماع کے سوا اس سے سب کچھ کرلیا اور اب میں حاضر ہوں آپ میرے متعلق فیصلہ فرمائیں۔ حضرت عمر نے کہا اللہ تعالیٰ نے تجھ پر پردہ رکھ لیا تھا، کاش تو بھ اپنا پردہ رکھتا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے کوئی جواب نہیں دیا وہ شخص چلا گیا پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو بھیج کر اسے بلوایا اور اس پر یہ آیت پڑھی۔ واقم الصلوٰۃ طرفی النھار و زلفا من الیل ان الحسنات یذھبن السیئات ذلک ذکری للذاکرین (ھود : ١١٤) قوم میں سے ایک شخص نے کہا کیا یہ حکم اس کے ساتھ خاص ہے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں، یہ حکم تمام لوگوں کے لیے ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٦٧٦٣، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٤٦٨، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣١١٢، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٧٣٢٤، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ١٣٨٢٩، مسند احمد ج ١، ص ٤٤٥، صحیح بن خزیمہ رقم الحدیث : ٣١٣، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٥٣٤٣، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ١٧٣٠، سنن کبریٰ للبیہقی ج ٨، ص ٢٤١)

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھا ہوا تھا، پس ایک شخص آیا اور اس نے کہا یا رسول اللہ ! میں نے حد کا ارتکاب کرلیا ہے آپ مجھ پر حد جاری فرمائیں۔ آپ نے اس سے کوئی سوال نہیں کیا پھر نماز کا وقت آگیا تو اس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز پڑھی، جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز سے فارغ ہوگئے تو وہ شخص آپ کے سامنے جاکھڑا ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ! میں نے ایک حد کا ارتکاب کیا ہے آپ مجھ پر کتاب اللہ کا حکم نافذ کیجیے۔ آپ نے پوچھا کیا تم نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی ؟ اس نے کہا : جی پڑھی ہے آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہارے گناہ کو یا فرمایا تمہاری حد کو معاف فرما دیا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٨٢٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٦٤) یہ وہی شخص ہے جس کا اس سے پہلی حدیث میں ذکر تھا۔ حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے ایک عورت کا بوسہ لے لیا اس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آکر اس واقعہ کی خبر دی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : اقم الصلوٰۃ طرفی النھار وزلفا من الیل ان الحسنات یذھبن السیئات۔ (ھود : ١١٤) اس شخص نے پوچھا یا رسول اللہ ! کیا یہ حکم صرف میرے لیے ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہ حکم میری تمام امت کے لیے ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٢٦، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٦٣، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٣٩٨، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٤٧٦٣)

حضرت معاذ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! یہ بتائیے کہ ایک آدمی ایک عورت سے ملا ان کے درمیان جان پہچان نہیں تھی اور ایک مرد ایک عورت کے ساتھ جماع کے علاوہ جو کچھ کرسکتا ہے وہ اس نے کرلیا تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فمائی : واقم الصوٰۃ طرفی النھار الایہ۔ (ھود : ١٤) آپ نے اس کو یہ حکم دیا کہ وہ وضو کر کے نماز پڑھے حضرت معاذ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا یا رسول اللہ ! یہ حکم اس کے ساتھ خاص ہے یا تمام مومنین کے لیے ہے ؟ آپ نے فرمایا بلکہ یہ حکم تمام مومنین کے لیے ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣١١٣، مسند احمد، ج ٥، ص ٢٤٤، المعجم الکبیر ج ٢٠، رقم الحدیث : ٢٧٨، ٢٧٧، سنن الدار قطنی ج ١، ص ١٣٤، المستدرک ج ١، ص ١٣٥، سنن کبریٰ للبیہقی ج ١، ص ١٢٥)

حضرت ابو الیسر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میرے پاس ایک عورت کھجوریں خریدنے کے لیے آئی میں نے اس سے کہا اس سے زیادہ اچھی کھجوریں میرے گھر میں ہیں، پھر میں نے اس سے نفسانی خواہش کا قصد کیا اور اس کا بوسہ لے لیا پھر میں نے حضرت ابوبکر (رض) سے اس واقعہ کا ذکر کیا انہوں نے فرمایا تم اپنے اوپر پردہ رکھو اللہ سے توبہ کرو اور کسی سے یہ واقعہ کا ذکر کیا انہوں نے (بھی) کہا اپنا پردہ رکھو توبہ کرو اور کسی کو نہ بتائو مجھ سے پھر صبر نہ ہوسکا میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو اس واقعہ کی خبر دی۔ آپ نے پوچھا کیا تم نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کسی غازی کے گھر والوں کی اس کی غیر موجودگی میں خبرگیری کی ہے ؟ میں نے کہا نہیں ! (امام ابن جریر کی روایت میں ہے پھر پوچھا کیا تم نے کسی غازی کو جہاد کا سامان مہیا کیا ہے ؟ میں نے کہا نہیں ! ) حتیٰ کہ میں نے یہ تمنا کی کہ کاش میں اس وقت اسلام لایا ہوتا اور میں نے یہ گمان کیا کہ میں دوزخیوں میں سے ہوں۔ راوی نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بڑی دیر تک سر جھکائے بیٹھے رہے حتیٰ کہ اللہ تعلایٰ نے آپ پر اس آیت کی وحی نازل فرمائی : واقم الصلوۃ طرفی النھار الایہ۔ (ھود : ١١٤) حضرت ابو الیسر نے کہا پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ پر اس آیت کی تلاوت فرمائی۔ آپ کے اصحاب نے پوچھا یا رسول اللہ ! یہ آیت اس کے ساتھ خا ص ہے یا تمام لوگوں کے لیے عام ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تمام لوگوں کے لیے عام ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣١١٥، المعجم الکبیر ج ٩، رقم الحدیث : ٣٧١، جامع البیان رقم الحدیث : ١٤٣٨٠)

اس جگہ یہ اعتراض نہ کیا جائے کہ صحابہ کرام بھی اس قسم کے فحش کام کرتے تھے کیونکہ صحابہ کرام کی خطائیں تکمیل دین کا ذریعہ تھیں جن بعض صحابہ سے یہ لغرش ہوگئی ان کی یہ لغرش سورة ھود کی اس آیت کے نزول کا سبب بنی اور قیامت تک کی امت کے لیے یہ رحمت عام ہوئی کہ نیکیاں گناہوں کے مٹنے کا ذریعہ بن گئیں۔ 

پانچ وقت کی نمازوں کے علاوہ دیگر عبادات سے گناہوں کے معاف ہونے کے متعلق احادیث

مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں یہ لکھا ہے کہ پانچ وقت کی نمازیں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں لیکن احادیث میں دیگر عبادات کے متعلق بھی تصریح ہے کہ وہ گناہوں کو مٹا دیتی ہیں۔

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے لیلۃ القدر میں قیام کیا اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٥ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٦٠، سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٢٠٦، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٣٤١٣، مسند احمد رقم الحدیث : ١٠٥٤٤، عالم الکتب مسند الحمیدی رقم الحدیث : ٩٥٠، سنن الدارمی رقم الحدیث : ١٧٢٣، سنن ابودائو رقم الحدیث : ١٣٧٣، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٣٢٦، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٦٨٣، صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ١٨٩٤)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے ایمان کی ہالت میں ثواب کی نیت سے رمضان میں قیام کیا اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٥٩، سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٢٠٦، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٣٤١٣، مسند احمد رقم الحدیث : ١٠٥٤٤، عالم الکتب ١٤١٩ ھ)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس نے دوران حج جماع کیا نہ جماع کی باتیں کیں نہ کوئی گناہ یا تو وہ حج کر کے اس طرح لوٹے گا جس طرح اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٥٢١، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٣٥٠، سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٦٢٦، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٨٨٩، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٨١١، مسند احمد رقم الحدیث : ٧١٣٦، عالم الکتب مسند حمیدی رقم الحدیث : ١٠٠٤، سنن الدارمی رقم الحدیث : ١٨٠٣، صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ٢٥١٤)

اب شماسہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عمرو بن العاص (رض) کے پاس گئے اس وقت وہ موت کے قریب تھے اور رو رہے تھے انہوں نے کہا جب اللہ نے میرے دل میں اسلام ڈالا تو میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اپنا ہاتھ بڑھائیے تاکہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کروں آپ نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا آپ نے فرمایا : اے عمرو ! کیا ہوا ؟ میں نے کہا میرا ارادہ ہے کہ میں کچھ شرط لگائوں، آپ نے پوچھا تم کیا شرط عائد کرتے ہو ؟ میں نے عرض کیا میری مغفرت کردی جائے آپ نے فرمایا : کیا تم کو معلوم نہیں، اے عمرو ! اسلام پہلے گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور ہجرت پہلے گناہوں کو مٹا دیتی ہے اور حج پہلے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٢١، صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ٢٥١٥، الترغیب وا تلرہیب رقم الحدیث : ١٦٤٢)

حضرت ابوقتادہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے درمیان کھڑے ہو کر فرمایا : اللہ کی راہ میں جہاد کرنا اور اللہ پر ایمان لانا سب سے افضل عمل ہیں ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا یا رسول اللہ ! یہ بتلائیے اگر میں اللہ کی راہ میں قتل کردیا جائوں تو کیا اس سے میرے تمام گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں ! اگر تم اس حال میں اللہ کی راہ میں قتل کردیئے جائو کہ تم صبر کرنے والے ہو ثواب کی نیت کرنے والے ہو آگے بڑھ کر حملہ کرنے والے ہو اور دشمن سے پیٹھ پھیرنے والے نہ ہو پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم نے کیا کہا تھا ؟ انہوں نے کہا یہ بتائیے اگر میں اللہ کی راہ میں قتل کردیا جائوں تو کیا اس میرے تمام گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں ! بشرطیکہ تم صبر کرنے والے ہو ثواب کی نیت کرنے والے ہو آگے بڑھ کر حملہ کرنے والے ہو اور دشمن سے پیٹھ پھیرنے والے نہ ہو ( تو سب گناہ معاف کردیئے جائیں گے) ماسوا قرض کے، یہ حضرت جبریل نے مجھ سے ابھی کہا ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٨٨٥، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٧١٢، موطا امام مالک رقم الحدیث : ٩٣٣، مسند حمیدی رقم الحدیث : ٤٢٥، سنن سعید بن منصور رقم الحدیث : ٢٥٥٣، مصنف ابن ابی شیبہ ج ٥، ص ٣١٠، مسند احمد ج ٥، ص ٢٩٧، سنن الدارمی رقم الحدیث : ٢٤١٧، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٤٦٥٤، سنن النسائی رقم الحدیث : ٣١٥٧، ٣١٥٦) 

نیکیوں سے صغیرہ گناہ مٹتے ہیں یا کبیرہ ؟

گناہ دو قسم کے ہیں : گناہ صغیرہ اور گناہ کبیرہ۔ فرض کا ترک اور حرام کا ارتکاب گناہ کبیرہ ہے اور واجب کا ترک اور مکروہ تحریمی کا ارتکاب گناہ صغیرہ ہے۔ فقہاء اسلام نے یہ کہا ہے کہ نیکیوں سے صرف گناہ صغیرہ معاف ہوتے ہیں اور گناہ کبیرہ توبہ سے معاف ہوتے ہیں یا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت سے یا اللہ تعالیٰ کے فضل محض سے نیکیوں سے گناہ کبیرہ معاف نہیں ہوتے صرف گناہ صغیرہ معاف ہوتے ہیں اس پر دلیل یہ حدیث ہے : حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے تھے : پانچ نمازیں، ایک جمعہ سے دوسرا دوسرا جمعہ اور ایک رمضان سے دوسرا رمضان ان کے درمیان گناہوں کا کفارہ ہیں جب کہ کبائر سے اجتناب کرے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣٣، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢١٤، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٠٨٦، صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ٣١٤، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ١٧٣٣، مسند احمد ج ٢، ص ٤٨٤، سنن کبریٰ للبیہقی ج ٢، ص ٤٦٧، شرح السنہ رقم الحدیث : ٣٤٥)

علامہ نووی نے کہا ہے : اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ نیکیوں سے کبائر کے سوا تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں کبائر نیکیوں سے معاف نہیں ہوتے۔ قاضی عیاض نے کہا : جو حدیث میں مذکور ہے یہی اہل سنت کا مذہب ہے کبائر کی معافی توبہ سے ہوتی ہے یا اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے فضل سے۔ ملا علی قاری نے مرقات میں لکھا ہے کہ نماز، روزہ اور حج کبائر کا کفارہ نہیں ہوتے کبائر کا کفاہ صرف توبہ ہے۔ امام ابن عبدالبر نے لکھا ہے اس پر اجماع ہے (میں کہتا ہوں کہ حج میں انسان میدان عرفات میں توبہ کرتا ہے اور اس توبہ سے کبائر سمیت تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں) علامہ طاہر پٹنی نے لکھا ہے کہ حقوق العباد میں قصاص ضرور لیا جائے گا خواہ صغیرہ ہوں اور کبائر توبہ سے معاف ہوں گے۔ جب صغائر معاف ہونے کے بعد نیکیاں بچ جائیں تو ان نیکیوں سے کبائر میں تخفیف ہوجائے گی اور اگر کسی انسان کی صرف نیکیاں ہوں اور اس کا کوئی گناہ نہ ہو صغیرہ نہ کبیرہ تو پھر نیکیوں سے اس کے درجات بلند ہوجائیں گے۔ (تحفتہ الاحوذی ج ١، ص ٦٥٤، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت ١٤١٩ ھ) 

مرجئہ کے استدلال کا جواب امام رازی نے لکھا ہے : مرجئہ کا مذہب ہے کہ ایمان لانے کے بعد انسان کو کسی معصیت پر عذاب نہیں ہوگا وہ اپنے مذہب پر اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ سب سے بڑی نیکی ایمان ہے اور سب سے بڑا گناہ کفر ہے تو جب ایمان لانے سے کفر مٹ جاتا ہے تو کفر سے چھوٹے درجے کو جو گناہ ہیں وہ ایمان لانے سے بطریق اولیٰ مٹ جائیں گے پس ثابت ہوگیا کہ مومن کو کسی معصیت پر کوئی عذاب نہیں ہوگا امام رازی نے ان کی اس دلیل کا کوئی جواب نہیں دیا لیکن اس کی وجہ غالبا یہ ہے کہ اس کا جواب بہت واضح ہے کہ یہ نصوص صریحہ کے مقابلہ میں قیاس ہے۔ قرآن مجید میں بکثرت صریح آیات ہیں کہ نماز نہ پڑھنے، زکوۃ نہ دینے، قتل کرنے، سد کھانے اور مال یتیم کھانے سے سخت عذاب ہوگا اور اس باب میں احادیث بہت زیادہ ہیں۔ اس کے بعد فرمایا : اور صبر کیجیے اس کا ایک معنی ہے نماز کی مشقت پر صبر کیجیے۔ قرآن مجید میں ہے : وامر اھلک بالصلوٰۃ واصطبر علیھا (طہ : ١٣٢) اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیں اور (خود بھی) اس کی مشقت پر صبر کریں۔ اور اس کا دوسر امعنی ہے کفر کی ایذائوں پر صبر کریں۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 11 هود آیت نمبر 114