أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قَالُوۡۤا اَضۡغَاثُ اَحۡلَامٍۚ وَمَا نَحۡنُ بِتَاۡوِيۡلِ الۡاَحۡلَامِ بِعٰلِمِيۡنَ ۞

ترجمہ:

انہوں نے کہا یہ تو پریشان خواب ہیں اور ہم پریشان خوابوں کی تعبیر نہیں جانتے۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انہوں نے کہا یہ تو پریشان خوب ہیں اور ہم پریشان خوابوں کی تعبیر نہیں جانتے۔ (یوسف : ٤٤) 

اضغاث احلام کا لغوی اور اصطلاحی معنی

ضغے کا معنی ہے بےربط اور خلط ملط باتیں، گھاس پھونس کا مٹھی بھر مجموعہ۔

ابوعبیدہ نے کہا : جس خواب کو بہت لوگ دیکھیں اور ان کو جمع کر کے ایسا مجموعہ یا گٹھا بنا لیا جائے جیسے سوکھی ہوئی گھاس کا گٹھا ہوتا ہے اس سے مراد وہ خواب ہے جس کی تعبیر نہ بیان کی جاسکے۔

الکسائی نے کہا : اضغاث احلام کا معنی ہے ملے جلے اور خلط ملط خواب۔

ابن قتیبہ نے کہا : اضغاث احلام کا معنی ہے جس طرح آدمی مختلف گھاسوں کو ملا کر ایک گٹھا بناتا ہے اور اس میں طرح طرح کی گھاس ہوتی ہے اسی طرح جس خواب میں مختلف النوع باتیں دکھائی دیں۔

الزجاج نے کہا : الضغث کا معنی ہے کسی چیز کا گٹھا، مثلاً سبزیوں یا ان جیسی چیزوں کا، ان کی مراد یہ تھی کہ تم نے خواب میں چند ملی جلی چیزیں دیکھی ہیں، یہ کوئی واضح خواب نہیں ہے اور ایسے ملے جلے خواب کی تعبیر کا ہمیں علم نہیں ہے۔ الاحلام، حلم کی جمع ہے انسان نیند میں جو خواب دیکھتا ہے اس کو حلم کہتے ہیں بعض خواب صحیح ہوتے ہیں اور بعض باطل ہوتے ہیں۔ (زاد المسیر ج ٤، ص ٢٣٠، مطبوعہ المکتب الاسلامی بیروت ١٤٠٧ ھ)

علامہ نظام الدین حسن بن محمد القمی النیشاپوری المتوفی ٧٢٨ ھ لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے نفس ناطقہ کو اس صلاحیت کے ساتھ پیدا کیا ہے کہ وہ عالم افلاک تک پہنچے سکتا ہے اور لوح محفوظ کا مطالعہ کرسکتا ہے لیکن بیداری میں نفس ناطقہ بدن کی تدبیر اور حواس میں تصرف کرنے میں مشغول ہوتا ہے اس مانع کی وجہ سے وہ بیداری میں لوح محفوظ کا مطالعہ نہیں کرسکتا اور نیند کے وقت یہ مشغولیات کم ہوجاتی ہیں تو نفس اس مطالعہ پر قوی ہوجاتا ہے، اور جب روح ان احوال میں سے کسی حال پر واقف ہوجاتی ہے تو اگر وہ احوال اس مشاہدہ کے مطابق خیال میں منتقش ہوجاتے ہیں تو ان کی تعبیر میں کسی تاویل کی احتیاج نہیں ہوتی اور اگر ان احوال کی رموز یا ان کے اشارات خیال میں مرتسم ہوں تو پھر ان کی تعبیر میں کسی تاویل کی احتیاج نہیں ہوتی اور اگر ان احوال کی رموز یا ان کے اشارات خیال میں مرتسم ہوں تو پھر ان کی تعبیر میں تاویل کی احتیاج ہوتی ہے پھر اگر وہ رموز اور اشارات مربوط، مرتب اور منظم ہوں تو ان متخیلات سے حقائق روحانیہ کی طرف منتقل ہونا اور ان کی تاویل کرنا تعبیر کرنے والے کے لیے سہل اور آسان ہوتا ہے اور بعض اوقات وہ رموز اور اشارات محتلط، مضطرب اور غیر منضبط ہوتے ہیں اور ان کی تحلیل اور ان کا تجزیہ کرنا دشوار ہوتا ہے اور ان کی ترتیب اور تالیف میں تشویش ہوتی ہے اور ان سے کسی چیز کی تصویر کشی کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اور ایسے ہی خوابوں کو اضغاث احلام کہا جاتا ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ بدن کی قوتوں میں کسی فساد کی وجہ سے قوت متخیلہ میں تشویش پیدا ہوتی ہے یا خارج میں کسی غیرمانوس چیز سے سابقہ پڑتا ہے اور اس کو اضغاث اس لیے کہتے ہیں کہ یہ تعبیر بیان کرنے والوں کے تھکا دیتی ہے۔ (غرائب القرآن ور غائب الفرقان ج ٤، ص ٩٢، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ١٤١٦ ھ)

سوکھی ہوئی گھاس کے مختلف اور منتشر تنکوں کے گٹھے کو ضغث کہتے ہیں، انسان جو خواب دیکھتا ہے کبھی تو اس کا معنی بالکل واضح ہوتا ہے جیسے انسان بیداری میں سوچ بچار کرتا ہے اور کبھی اس کا معنی غیر مربوط، غیر منضبط اور غیر واضح ہوتا ہے جیسے غیر متناسب اور غیر مربوط اور غیر مرتب گھاس کے تنکوں کو گٹھا ہوا اس کو اضغاث احلام کہتے ہیں اس میں غیر مربوط خیالات کو غیر متناسب اور مختلف قسم کے گھاس کے تنکوں کے مجموعہ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ ہم نے یوسف : ٤ میں اضغاث احلام کی زیادہ وضاحت کی ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 12 يوسف آیت نمبر 44