أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلَوۡ فَتَحۡنَا عَلَيۡهِمۡ بَابًا مِّنَ السَّمَآءِ فَظَلُّوۡا فِيۡهِ يَعۡرُجُوۡنَۙ ۞

ترجمہ:

اور اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ کھول دیں اور وہ دن بھر اس پر چڑھتے (بھی) رہیں۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ؛ اور اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ کھول دیں اور وہ دن بھر اس پر جڑھتے (بھ) رہیں۔ تب بھی وہ یہی کہیں گے کہ بات صرف یہی ہے کہ ہماری نظر بندی کردی گئی ہے بلکہ ہم لوگوں پر جادو کردیا گیا ہے۔ (الحجر ؛15 ۔ 14)

مشکل الفاظ (سحروغیرہ) کے معانی۔

ظل : جو شخص دن کے وقت کوئی کام کرے اس کے لیے عرب ظل کا لفظ بولتے ہیں جیسے کوئی شخص رات میں کوئی کام کرے تو اس کے لیے بات کا لفظ بولتے ہیں۔

یعرجون : کا معنی وہ چڑھے ہیں معراج کا معنی ہے سیڑھی اور اس کی جمع معارج ہے۔

سکرت : اس کے نظر بندی کردی گئی ہے یہ لفظ تسکیر سے بنا ہے اس کا معنی ہے نظر بندی کر ان اور جس چیز سے نشہ ہو اس کو سکر کہتے ہیں۔

سحر : جس چیز کا سبب مخفی ہو اور اپنی حقیقت کے خلاف اس کا تخیل ہونے لگے، دھوکا دینے اور بےحقیقت خیالات کے پیدا کرنے کو بھی سحر کہتے ہیں۔ ہاتھ کی صفائی اور شعبدہ بازی کو بھی سحر کہتے ہیں، نظر بندی کرنے کو بھی سحر کہتے ہیں قرآن مجید میں ہے : سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ ( الاعراف : ١١٦) انہوں لوگوں کو باندھ دیا۔ شیطان سے کسی قسم کا تقرن حاصل کرکے کفریہ اور شرکیہ کلمات پڑھ کر کسی عجیب و غریب کام کرنے کو بھی سحر کہتے ہیں

علامہ ابو الحیان اند لسی متوفی 754 ھ نے سحر کے متعقل حسب ذیل اقوال لکھے ہیں

(1) سحر سے حاقائق اشیاء تبدیل ہوجاتی ہیں اور لوگوں کی صورتیں بدل جاتی ہیں جیسے پتھر کو سونا بنادینا اور انسان کو گدھ بنادینا اور یہ معجزات اور کرامات کے مشا بہ ہے جیسے ہوا میں اڑنا اور قلیل وقت میں کچیر مسافت کو طے کرلینا۔

(2) بازی گری ملمع سازی اور شعبدہ بازی جس کی واقع میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی قرآن مجید میں ہے : قَالَ بَلْ أَلْقُوا فَإِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَى ( طہ : ٦٦) بس اچانک ان کے جادو سے موسیٰ کو یہ خیال ہوا کہ ان کی رسیاں اور لاٹھیاں درڑ رہیں۔ اور یہ معتزلہ کا قول ہے جن کی رائے میں سحر کی کوئی حقیقت نہیں ہے ابو اسحاق استر بازی شافعی کا قول بھی انہی کے موافق ہے

(3) سحر کے ساتھ اپنی قوت مخیلہ کو لوگوں کے خیالات پر اثر انداز کیا جاتا ہے اور ان کے خیال میں جوابات ڈال دی جاتی ہے ان کو وہی نظر آتا ہے اس کو نظر بندی کہتے ہیں قرآن مجید میں ہے : سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ ( الاعراف : ١١٦)

(4) کوئی محیر العقول کام کرنے کے لیے جنات کی خدمت حاصل کی جاتی ہے اور اس کام کو سحر کہتے ہیں۔

(5) بعض اجسام کو جلاکر ان کی راکھ پر کچھ کلمات پڑھے جاتے ہیں۔

(6) ستاروں کے خواص اور ان کی تاثیر سے یہ عمل کیا جاتا ہے۔

(7) کچھ کفریہ کلمات پڑھ کر یہ عمل کیا جاتا ہے۔ (البحرالمحیط ج 1 ص 525، مطبوعہ دارالفکر بیروت۔ 1412 ھ)

کفار مکہ کے مطالبے پر فرشتوں کو نازل نہ کرنے کی وجہ۔

ان آیتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ جب کفار مکہ نے فرشتوں کے نزول کا مبالبہ کیا جو اس بات کی تصدیق کریں کہ سید نامحمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی طرف سے نبی بناکر بھیجے گئے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر بالفرض یہ مطالبہ پورا بھی کردیا جائے تو وہ یہ کہیں گے یہ جادو ہے۔ ہرچند کہ ہم بظاہر فرشتوں کو دیکھ رہے ہی لیکن ہم حقیقت میں ان کو نہیں دیکھ رہے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ لوگوں کی ایک بہت بڑی جماعت ایک چیز کا مشاہدہ کررہی ہو اور پھر وہ یہ کہیں کہ ہم کو شک ہے جو کچھ ہم نے دیکھا ہے وہ نظر بندی ہے یا جادو ہے اس طرح تو پھر حواس اور مشاہدہ پر اعتبار نہیں رہے گا اس کا جواب یہ ہے کہ جب لوگ ضد عناد اور ہٹدھرمی پر اترآئیں تو ایسا ہوسکتا ہے آخر جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا سے اللہ نے چاند کو دو ٹکڑے کردیا تھا تب بھی کفار نے یہی کہا تھا یہ کھلا ہو اجادو ہے سی طرح تمام جن اور انسان مل کر قرآن کی مثل کوئی سورت بناکر نہیں لاسکے پھر بھی انہوں نے اس کو کلام نہیں مانا اور یہی کہا کہ یہ کھلاہو جادو ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 15 الحجر آیت نمبر 14