أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَمِنۡ ثَمَرٰتِ النَّخِيۡلِ وَالۡاَعۡنَابِ تَتَّخِذُوۡنَ مِنۡهُ سَكَرًا وَّرِزۡقًا حَسَنًا ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيَةً لِّقَوۡمٍ يَّعۡقِلُوۡنَ ۞

ترجمہ:

اور ہم تمہیں کھجوروں اور انگوروں کے پھلوں سے پلاتے ہیں تم ان سے میٹھے مشروبات تیار کرتے ہو، اور عمدہ رزق، بیشک اس میں عقل والوں کے لیے ضرور نشانی ہے۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور ہم تمہیں کھجوروں اور انگوروں کے پھلوں سے پلاتے ہیں تم ان سے میٹھے مشروبات تیار کرتے ہو، اور عمدہ رزق، بیشک اس میں عقل والوں کے لیے ضرور نشانی ہے۔ (النحل : ٦٧ )

سکر کے لغوی معنی کی تحقیق :

اس آیت میں فرمایا ہے تم ان سے سکر اور رزق حسن تیار کرتے ہو، اب ہم سکر کا معنی بیان کر رہے ہیں۔

امام خلیل بن احمد فراہیدی متوفی ١٧٥ ھ لکھتے ہیں : سکر کا معنی صحو (ہوش میں آنا، نشہ اترنا) کی ضد ہے۔ (کتاب العین ج ٣ ص ٩٧٢) اور علامہ راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں :

سکر وہ حالت ہے جو انسان کی عقل پر طاری ہوجاتی ہے، اس کا اکثر استعمال مشروبات میں وہتا ہے، غضب اور عشق کی وجہ سے جو حالت طاری ہوتی ہے اس کو بھی سکر کہتے ہیں، سکرات الموت بھی اسی سے ماخوذ ہے، قرآن مجید میں ہے :

وجاءت سکرۃ الموت بالحق۔ (ق : ١٩) اور موت کی بےہوشی حق کے ساتھ آپہنچی۔

اور سکران مشروبات کو کہتے ہیں جن میں سکر (نشہ) ہوتا ہے، قرآن مجید میں ہے :

تتخذون منہ سکرا ورزقا حسنا۔ (النحل : ٦٧) تم ان سے نشہ آور مشروبات اور عمدہ رزق بناتے ہو۔

اور سکر کا معنی ہے پانی کو روک لینا، یہ وہ حالت ہے جو انسان کی عقل کے ماؤف ہونے سے پیدا ہوتی ہے، کسی چیز کے بند کردینے کو بھی سکر کہتے ہیں، قرآن مجید میں ہے :

انما سکرت ابصارنا۔ (الحجر : ١٥) ہماری نظر بندی کردی گئی ہے۔ (المفردات ج ١ ص ٣١١، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ ١٤١٨)

علامہ المبارک بن محمد ابن الاثیر الجزری المتوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :

سکر اس شراب کو کہتے ہیں جو انگوروں سے نچوڑی جاتی ہے، یہ معنی اس وقت ہے جب کاف پر زبر ہو اگر کاف پر جزم ہو اور سین پر پیش ہو تو اس کا معنی ہے نشہ کی کیفیت، پس نشہ کی وجہ سے شراب کو حرام قرار دیا جاتا ہے نہ کہ نفس نشہ آور مشروب کی وجہ سے پس وہ نشہ آور مشروب کی اس قلیل مقدار کو جائز کہتے ہیں جس سے نشہ نہ ہو، حدیث میں ہے :

حرمت الخمر بعینھا ولسکر من کل شراب۔ خمر (انگور کی شراب) کو بعینا حرام کیا گیا ہے اور ہر مشروب میں سے نشہ آور کو۔ (کتاب الضعفاء الکبیر للعقیلی ج ٤ ص ١٢٤، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٨ ھ)

اور مشہور پہلا معنی ہے یعنی انگور کی شراب اور ایک قول یہ ہے کہ سکر (سین اور کاف پر زبر) کا معنی ہے طعام۔ ازہری نے کہا اہل لغت نے اس کا انکار کیا ہے کہ اہل عرب اس کو نہیں پہچانتے۔ (النہایہ ج ٢ ص ٣٤٤، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٨ ھ)

علامہ محمد بن مکرم بن منظور افریقی متوفی ٧١١ ھ لکھتے ہیں :

سکر صحو کی ضد ہے یعنی نشہ میں ہونا، قرآن مجید میں ہے :

لا تقربوا الصلوۃ وانتم سکاری حتی تعلموا ما تقولون۔ (النساء : ٤٣) نشہ کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ حتی کہ تم سمجھنے لگو کہ تم کیا کہہ رہے ہو۔

سکرۃ الموت، موت کی شدت کو کہتے ہیں ور سکر خمر (انگور کی شراب) کو بھی کہتے ہیں اور سکر اس شراب کو بھی کہتے ہیں جو کھجوروں اور گھاس وغیرہ سے بنائی جاتی ہے۔ امام ابوحنیفہ نے کہا سکر اس مشروب کو کہتے ہیں جو پانی میں کھجوروں اور گھاس وغیرہ کو ڈال کر بنایا جاتا ہے۔ (نبیذ) مفسرین نے کہا ہے کہ قرآن مجید میں سکر کا لفظ آیا ہے اور اس سے مراد سرکہ ہے لیکن یہ ایسا معنی ہے جس کو اہل لغت نہیں پہچانتے، فرا نے کہا ہے کہ تتخذون منہ سکرا و رزقا حسنا، میں جو سکر کا لفظ ہے اس سے مراد خمر ہے، اور رزق حسن سے مراد کشمش اور چھوارے ہیں اور یہ آیت حرمت خمر سے پہلے نازل ہوئی تھی، الازہری نے اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ سکر سے مراد ہے جن پھلوں کے مشروب کو حرام قرار دیا گیا ہے اور رزق حسن سے مراد ہے جن پھلوں کے مشروب کو حلال قرار دیا گیا ہے۔ ابن الاعرابی نے کہا سکر کا معنی نبیذ ہے، حدیث میں ہے کہ خمر کو بعینا حرام کیا گیا ہے اور ہر مشروب میں سے نشہ آور کو۔ (لسان العرب ج ٤ ص ٣٧٢، ٣٧٣، ملخصا مطبوعہ ایران، ١٤٠٥ ھ)

سکر کی تفسیر میں مفسرین کی تصریحات :

امام عبدالرحمن بن علی بن محمد جوزی متوفی ٥٩٧ ھ لکھتے ہیں :

سکر کی تفسیر میں تین اقوال ہیں :

١۔ حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت ابن عمر اور حسن، سعید بن جبیر، مجاہد، ابراہیم ابن ابی لیل، الزجاج، ابن قتیبہ اور عمرو بن سفیان نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ سکر وہ ہے جس کے پھلوں کا مشروب حرام ہے، ان مفسرین نے کہا یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب خمر (انگور کی شراب) کا پینا مباح تھا، پھر فاجتنبوہ ان سے اجتناب کرو۔ (المائدہ : ٩٠) نازل ہوئی تو یہ آیت منسوخ ہوگئی، سعید بن جبیر، مجاہد، شعبی اور نخعی نے اس آیت کے منسوخ ہونے کا قول کیا ہے۔

اس قول کا خلاصہ یہ ہے کہ سکر سے مراد خمر (انگور کی شراب) ہے اور یہ سورت (النحل) مکی ہے اس وقت شراب کا پینا مباح اور بعد میں مدینہ منورہ میں جب سورة المائدہ : ٩٠ نازل ہوئی تو خمر کو حرام کردیا گیا۔ 

٢۔ حبشہ کی لغت میں سکر کا معنی ہے سرکہ، یہ عوفی کی حضرت ابن عباس سے روایت ہے اور ضحاک نے کہا کہ یمن کی لغت میں سکر کا معنی سرکہ ہے۔

٣۔ ابو عبیدہ نے کہا سکر کا معنی ہے ذائقہ، ان آخری دو قولوں کی بنا پر یہ آیت محکمہ ہے منسوخ نہیں ہے اور رزق حسن سے مراد ہے ان میں سے جو چیزیں حلال ہیں جیسے کھجور، انگور، کشمش او سرکہ وغیرہ۔ (زاد المسیر ج ٤ ص ٤٦٤، ٤٦٥، مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت، ١٤٠٧ ھ)

امام ابوبکر احمد بن علی رازای جصاص حنفی متوفی ٣٧٠ ھ لکھتے ہیں :

جبکہ علماء متقدمین نے سکر کا اطلاق خمر پر بھی کیا ہے اور نبیذ پر بھی اور ان میں سے حرام مشروب پر بھی تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ سکر کا اطلاق ان سب پر کیا جاتا ہے، اور ان کا یہ کہنا کہ خمر کی تحریم سے یہ آیت منسوخ ہوگئی ہے اس کا تقاضا کرتا ہے کہ نبیذ حرام نہیں ہے، پس آیت کے ظاہر سے نبیذ کا حلال ہونا واجب ہے، کیونکہ اس کا نسخ ثابت نہیں ہے، قتادہ نے کہا ہے کہ سکر عجمیوں کی خمر ہے، اور رزق حسن سے مراد ہے جس چیز کو وہ نبیذ اور سرکہ بناتے ہیں، جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اس وقت خمر حرام نہیں ہوئی تھی، خمر اس وقت حرام ہوئی جب المائدہ : ٩٠ نازل ہوئی۔ امام ابو یوسف نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت معاذ بن جبل کو یمن کی طرف بھیجا تو ان کو یہ حکم دیا کہ وہ ولگوں کو سکر پینے سے منع کریں، امام ابوبکر نے کہا کہ سکر ہمارے نزدیک حرام ہے اور وہ نقیع التمر ہے (نقیع التمر سے مراد ہے کھجوروں کو پانی میں ڈال دیا جائے اور اس پانی میں جھاگ پیدا ہوجائے۔ (احکام القرآن ج ٣ ص ١٨٥، مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور ١٤٠٠ ھ)

نتقیع الزبیب کی تعریف یہ ہے : انگور کے کچے شیرہ کو پانی میں ڈال دیا جائے، حتی کہ اس کی مٹھاس پانی میں منتقل ہوجائے خواہ اس میں جھاگ پیدا ہوں یا نہ ہوں۔ (بدائع الصنائع ج ٦، ص ٤١٦، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٨ ھ)

علامہ الحصکفی الحنفی متوفی ١٠٨٨ ھ نے نقیع الزبیب کی یہ تعریف کی ہے کہ وہ انگور کا کچا شیرہ ہے، بشرطیکہ جوش دینے کے بعد اس میں جھاگ پیدا ہوجائیں، علامہ شامی نے کہا ہے کہ اولی یہ ہے کہ نقیع التمر والزبیب کہا جائے یعنی کشمش یا چھواروں کو پانی میں ڈال دیا جائے جب ان کو جوش دیا جائے اور یہ گاڑھے ہوجائیں اور ان میں جھاگ پیدا ہوجائیں پھر یہ حرام ہیں ورنہ نہیں۔ (رد المختار ج ١٠، ص ٣١، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت، ١٤١٩ ھ)

اس آیت کی تفسیر میں مکمل بصیرت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے خمر، سکر اور نبیذ کی تعریفات سمجھ لی جائیں۔

ائمہ ثلاثہ کے نزدیک خمر کی تعریف اور اس کا حکم :

ائمہ ثلاثہ کے نزدیک ہر نشہ آور مشروب خمر ہے اور ہر نشہ آور مشروب کا وہی حکم ہے جو خمر کا حکم ہے، یعنی وہ حرام ہے۔ 

علامہ عبداللہ بن احمد بن قدامہ حنبلی متوفی ٦٢٠ ھ لکھتے ہیں :

ہر نشہ آور مشروب حرام ہے خواہ قلیل ہو یا کثیر ہو، اور وہ خمر ہے، اور انگور کے شیرہ کی تحریم کا جو حکم ہے وہی اس کا حکم ہے، اور اس کے پینے پر حد لگانا واجب ہے (اور وہ اسی کوڑے ہیں) حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابن مسعود، حضرت ابن عمر، حضرت ابوہریرہ، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت ابی بن کعب، حضرت انس اور حضرت عائشہ کا یہی مذہب ہے۔ فقہاء تابعین اور تبع تابعین میں سے عطا، طاؤس، مجاہد، قاسم، قتادہ، عمر بن عبدالعزیز، امام مالک، امام شافعی، ابو ثور، ابو عبید اور اسحاق کا یہی مذہب ہے۔

ہماری دلیل یہ ہے کہ حضرت ابن عمر نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر نشہ آور (مشروب) خمر ہے اور ہر خمر حرام ہے۔ (سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٣٦٨٠)

اور حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس (مشروب) کی کثیر مقدار نشہ آور ہو اس کی قلیل مقدار (بھی) حرام ہے۔ (سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٣٦٨١)

اور حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ہر نشہ آور حرام ہے اور فرمایا جو مشروب فرق (بارہ کلو) کی مقدار میں نشہ آور ہو اس سے ایک چلو پینا بھی حرام ہے۔ (سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٣٦٨٧، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٨٦٦) اور حضرت عمر نے فرمایا : خمر کی تحریم نازل ہوئی اور یہ انگور، چھوہارے، شہد، گندم، اور جو سے بنتی ہے اور خمر اس چیز کو کہتے ہیں جو عقل کو ڈھانپ لے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٥٨١، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٣٦٦٩، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٨٧٤، السنن الکبری للنسائی، ٦٧٨٣، سنن النسائی رقم الحدیث : ٥٥٧٨) نیز اس لیے کہ نشہ آور مشروب انگور کے شیرہ کے مشابہ ہے اور امام احمد نے کہا نشہ آور مشروب پینے کی رخصت میں کوئی حدیث صحیح نہیں ہے۔ (المغنی ج ٣ ص ١٣٦، مطبوعہ دار الفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)

نیز علامہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں :

جو شخص نشہ آور مشروب کو پیے خواہ قلیل یا کثیر اس پر حد واجب ہوگی، کیونکہ اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ انگور کا کچا شیرہ پینے پر حد واجب ہوتی ہے اور ہمارے امام (احمد) کا یہ مذہب ہے کہ انگور کا شیرہ اور ہر نشہ آور مشروب کا حکم برابر ہے۔ حسن، عمر بن عبدالعزیز، قتادہ، اوزاعی، امام مالک، اور امام شافعی کا یہی مذہب ہے اور ایک جماعت نے یہ کہا ہے کہ انگور کے کچے شیرہ کے علاوہ کسی مشروب کے پینے سے اس وقت حد واجب ہوگی جب پینے والے کو نشہ آجائے، ابو وائل، ابراہیم نخعی، اکثر اہل کوفہ اور اصحاب رائے کا یہی مذہب ہے، جس نے تحریم کے اعتقاد کے ساتھ کسی مشروب کو پیا اس پر حد لگائے جائے گی اور جس نے تاویل کے ساتھ کسی مشروب کو پیا اس پر حد نہیں لگائی جائے گی کیونکہ خمر کی تعریف میں اختلاف ہے، پس یہ اس نکاح کے مشابہ ہے جو بغیر ولی کے کیا گیا ہو۔ (المغنی ج ٣ ص ١٣٦، مطبوعہ دار الفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)

امام ابوحنیفہ کے نزدیک خمر کی تعریف اور اس کا حکم :

علامہ علاء الدین بن ابی بکر بن مسعود کا سانی حنفی متوفی ٥٨٧ ھ لکھتے ہیں :

انگور کے کچے شیرہ میں جب جوش پیدا ہوجائے اور گاڑھا ہوجائے اور اس میں جھاگ آجائیں تو وہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک خمر ہے۔ امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک جب انگور کے کچے شیرے میں جوش آجائے اور وہ گاڑھا ہوجائے تو وہ خمر ہے خواہ اس میں جھاگ پیدا ہوں یا نہ ہوں۔ (بدائع الصنائع ج ٦، ص ٤٠٦، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٨ ھ)

انگور کے شیرہ کو جب پکایا جائے حتی کہ وہ دوتہائی سے کم اڑ جائے اور صحیح یہ ہے کہ دو تہائی اڑ جائے اور ایک تہائی رہ جائے تو اس کو طلاء کہتے ہیں اور تازہ کھجوروں کو کچے پانی میں ڈالا جائے اور وہ پانی گاڑھا ہوجائے اور اس میں جھاگ پیدا ہوجائے تو اس کو سکر کہتے ہیں، اور کچے پانی میں منقی یا کشمش ڈال دی جائے اور اس میں جوش آجائے اور جھاگ پیدا ہوجائیں تو اس کو نقیع الزبیب کہتے ہیں، یہ تینوں مشروب بھی حرام ہیں بشرطیکہ یہ تینوں گاڑھے ہوں اور ان میں جوش آجائے، ورنہ یہ بالاتفاق حرام ہیں ہیں، اور ان تینوں مشروبات کی حرمت خمر کی حرمت سے کم ہے اور جو ان کو حلال کہے اس کو کافر نہیں کہا جائے گا، کیونکہ ان کی حرمت اجتہاد سے ثابت ہے۔ (خمر کا ایک قطرہ پینے سے بھی حد واجب ہے اور ان مشروبات کے پینے سے اس وقت حد لگے گی جب نشہ ہوجائے)

ان میں سے چار مشروبات حلال ہیں، نبیذ التمر، اور نبیذ الزبیب یعنی کھجوروں یا کشمش کو پانی میں ڈال کر ہلکا سا جوش دے لیا جائے جبکہ یہ نشہ آور نہ ہوں، اگر اس کو ظن غالب ہو کہ یہ نشہ آور ہیں تو پھر ان کا پینا حرام ہے، کیونکہ ہر نشہ آور مشروب حرام ہے، دوسراب مشروب خلیطان ہے، یعنی چھواروں اور کشمش دونوں کو پانی میں ڈال کر جوش دے لیا جائے اور تیسرا مشروب ہے شہد، گندم جو اور جوار وغیرہ کا نبیذ میں پانی ملا کر رکھا جائے خواہ جوش دیں یا نہ دیں، اور چوتھا مشروب ہے المثلث یعنی انگور کے شیرہ کو پکایا جائے حتی کہ اس کو دو تہائی اڑ جائے اور ایک تہائی باقی رہ جائے۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اکابر صحابہ اور اہل بدر مثلا حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت ابو مسعود ان مشروبات کو حلال قرار دیتے تھے، اسی طرح شعبی اور براہیم نخعی سے روایت ہے کہ امام اعظم نے اپنے بعض تلامذہ سے کہا کہ اہل السنہ والجماعہ کی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ نبیذ کو حرام نہ کہا جائے۔ 

معراج میں مذکور ہے کہ امام ابوحنیفہ نے کہا اگر مجھے تمام دنیا بھی دی جائے تو میں نبیذ کے حرام ہونے کا فتوی نہیں دوں گا کیونکہ اس سے بعض صحابہ کو فاسق قرار دینا لازم آئے گا اور اگر مجھے تمام دنیا بھی دی جائے تو میں نبیذ نہیں پیوں گا کیونکہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے، اور یہ امام اعظم کا انتہائی تقوی ہے۔ (رد المختار ج ١٠، ص ٣٣۔ ٣٠، مطبوعہ دار احیار التراث العربی، بیروت، ١٤١٩ ھ)

اس حدیث کا جواب جس کی کثیر مقدار نشہ آور ہو اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے :

امام ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف کے نزدیک خمر کے علاوہ جس مشروب کی کثیر مقدار نشہ آور ہو اس کی قلیل مقدار پینا جائز ہے اور امام محمد اور ائمہ ثلاثہ کے نزدیک اس کی قلیل مقدار بھی پینا جائز نہیں ہے، ان کی دلیل یہ حدیث ہے :

حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس کی کثیر مقدار نشہ دے اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٨٦٥، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٣٦٨١، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٣٩٣، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ١٣٨٥)

علامہ کاسانی متوفی ٥٨٧ ھ اس حدیث کے جواب میں لکھتے ہیں :

یحی بن معین نے اس حدیث کو رد کردیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت نہیں ہے۔ (حافظ زیلعی متوفی ٥٩٣ ھ نے کہا ہے کہ اس حدیث کی سنت میں ابو عثمان مجہول ہے، امام دار قطنی نے اس حدیث کی کئی اسانید ذکر کی ہیں اور وہ سب ضعیف ہیں۔ نصب الرایہ ج ٥ ص ١٤، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٦ ھ)

دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث ان لوگوں پر محمول ہے جو اس قسم کے مشروبات کو بطور لہو ولعب پئیں۔ (اور جو بدن میں طاقت حاصل کرنے کے لیے ان کو پئیں وہ اس حکم میں داخل نہیں ہیں، در مختار و رد المختار ج ١٠ ص ٣٤، مطبوعہ بیروت ١٤١٩ ھ)

اور تیسرا جواب ہے کہ جس شمروب کی کثیر مقدار نشہ آور ہو اس کا وہ آخری گھونٹ ہے جس سے نشہ پیدا ہوا، اور اس کی قلیل مقدار جو غیر نشہ آور ہے وہ حرام نہیں ہے اور یہ حدیث اس آخری گھونٹ پر محمول ہے۔ (بدائع الصنائع ج ٦ ص ٤٧٤، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٨ ھ)

خمر کا بعینہ حرام ہونا اور باقی مشروبات کا بہ قدر نشہ حرام ہونا :

امام ابوحنیفہ جو یہ فرماتے ہیں کہ جس مشروب کی کثیر مقدار نشہ آور ہو اس کی قلیل مقدار حرام نہیں ہے ان کے اس قول پر حسب ذیل احادیث سے استدلال کیا گیا ہے :

حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفا اور مروہ کے درمیان سات چکر لگائے، پھر آپ نے مکہ کی دیواروں میں سے ایک دیوار کے ساتھ ٹیک لگائی، پھر آپ نے فرمایا کوئی پینے کی چیز ہے ؟ تو آپ کے پاس نبیذ کا ایک پیالہ لایا گیا آپ نے اس کو چکھا، پھر ماتھے پر شکن ڈالی، اور اسکو واپس کردیا، پھر آل حاطب میں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا یا رسول اللہ ! یہ اہل مکہ کا مشروب ہے، پھر آپ نے اس کو لوٹایا اور اس پر پانی ڈالا حتی کہ اس میں جھاگ آگئے، پھر آپ نے اس کو پیا اور فرمایا خمر تو بعینھا حرام ہے اور ہر مشروب میں سے نشہ آور (مقدار) حرام ہے۔ (کتاب الضعفاء للعقیلی ج ٤ ص ١٢٤، دار الکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٨ ھ)

امام نسائی نے بھی اس حدیث کو مختلف سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے۔ (السنن الکبری للنسائی، رقم الحدیث : ٦٧٨٠، ٦٧٧٨، ٥١٩٦، ٥١٩٥، ٥١٩٤، ٥١٩٣)

امام طبرانی نے بھی اس حدیث کو متعدد اسانید کے ساتھ حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے۔ (المعجم الکبیر، رقم الحدیث : ١٢٦٣٣، ١٢٣٨٩، ١٠٨٤١، ١٠٨٤٠، ١٠٨٣٩، ١٠٨٣٧)

ان احادیث کی سندیں ہرچند کہ ضعیف ہیں لیکن تعددا سانید کی وجہ سے یہ احادیث حسن لغیرہ ہیں اور لائق استدلال ہیں۔

امام ابوبکر عبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ متوفی ٢٣٥ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

حضرت عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے آپ کے پاس ایک پیالہ لایا گیا جس میں مشروب تھا، آپ نے اس کو اپنے منہ کے قریب کیا، پھر اس کو اپس کردیا، مجلس کے بعض شرکاء نے پوچھا، یا رسول اللہ کیا یہ حرام ہے ؟ آپ نے فرمایا اس کو واپس لاؤ، وہ اس کو واپس لائے، آپ نے پانی منگا کر اس میں پانی ڈالا، پھر اس کو پی لیا، پھر آپ نے فرمایا ان مشروبات میں غور کیا کرو، اگر یہ مشروب جوش مار رہا ہو تو اس کی تیزی کو پانی کے ساتھ توڑ دو ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث : ٢٤٢٠٠، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٦ ھ)

ہمام بن الحارث بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر کے پاس کشمش کا نبیذ لایا گیا، آپ نے اس کو پیا اور ماتھے پر بل ڈالا اور پانی منگایا اس میں پانی ڈالا پھر اس کو پی لیا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث : ٢٤١٩٧)

ابن عون بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر کے پاس ثقیف کے لوگ آئے، ان کے کھانے کا وقت ہوگیا تو حضرت عمر نے کہا گوشت سے پہلے ثرید (گوشت کے سالن میں روٹی کے ٹکڑے) کھاؤ یہ خلل کی جگہوں بھر لیتا ہے، اور جب تمہارے نبیذ میں تیزی ہو تو اس کو پانی سے توڑو، اور دیہاتیوں کو نہ پلاؤ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث : ٢٤١٩٨)

حضرت عائشہ نے فرمایا اگر تمہارے نبیذ میں تیزی ہو تو اس کی تیزی کو پانی سے توڑ لو۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث : ٢٤١٩٩)

حضرت ابوہریرہ نے کہا جس شخص کو اپنی نبیذ کے متعلق شک ہو تو وہ اس میں پانی ڈال لے، اس کا حرام عنصر چلا جائے گا اور حلال باقی رہ جائے گا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث : ٢٤٢٠١)

نافع بن عبدالحارث بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے فرمایا : ان مشکوں میں سے اس نبیذ کو پیو کیونکہ یہ کمر کو قائم رکھتا ہے اور کھانے کو ہضم کرتا ہے اور جب تک تمہارے پاس پانی ہے یہ تم پر غالب نہیں آسکے گا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث : ٢٤٢٠٣)

امام علی بن عمر دارقطنی اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کے پاس جائے اور وہ اس کو کھانا کھلائے تو وہ کوئی سوال کیے بغیر اس کا کھانا کھائے اور اگر وہ اس کو مشروب پلائے تو وہ اس مشروب کو پیے اور اگر میں کوئی شبہ ہو تو وہ اس مشروب میں پانی ملالے۔ (سنن دار قطنی رقم الحدیث : ٤٦٢٩، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٧ ھ)

حضرت ابن مسعود بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس برتن میں نبیذ لایا گیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو لیا پھر ماتھے پر بل ڈال کر اس کو واپس کردیا، ایک شخص نے پوچھا یا رسول اللہ کیا یہ حرام ہے ؟ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو لیا اور زمزم کے ڈول سے اس میں پانی ڈالا اور فرمایا تمہارا مشروب جوش مار رہا ہو تو اس کی تیزی کو پانی سے توڑ لو۔ (سنن دار قطنی رقم الحدیث : ٤٥٦١ )

مالک بن قعقاع بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر سے گاڑھے نبیذ کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے، آپ کو ایک شخص سے نبیذ کی بو آئی آپ نے پوچھا یہ کیسی بو ہے ؟ اس نے کہا یہ نبیذ کی بو ہے، آپ نے فرمایا جاؤ اس میں سے لے کر آؤ، وہ لے کر آیا، آپ نے سر جھکا کر اس کو سونگھا پھر واپس کردیا وہ شخص کچھ دور جاکر واپس آیا اور پوھچا : آیا یہ حرام ہے یا حلال ہے ؟ آپ نے سر جھکا کر دیکھا تو اس کو گاڑھا پایا آپ نے اس میں پانی ڈالا اور پی لیا اور فرمایا جب تمہارے برتنوں میں مشروب جوش مارنے لگے تو اس کے گاڑھے پن کو پانی سے توڑو۔ (سنن دار قطنی رقم الحدیث : ٤٦٤٨، مطبوعہ بیروت، ١٤١٧ ھ)

ان احادیث کی اسانید بھی ضعیف ہیں لیکن تعداد اسانید کی وجہ سے یہ احادیث حسن لغیرہ ہیں اور ان سے استدلال کرنا صحیح ہے، ان بکثرت احادیث سے یہ واضح ہوگیا کہ نبیذ پینا جائز ہے، اور جس مشروب کی کثیر مقدار نشہ آور ہو اس کی قلیل مقدار پینا جائز ہے، بشرطیکہ وہ مشروب غیر خمر ہو، اور اسی طرح جو مشروب غیر خمر ہو اور اس کے تیز اور گاڑھے ہونے کی وجہ سے نشہ کا خطرہ ہو تو اس میں پانی ملا کر اور اس کی تیزی کو توڑ کر اکو پینا جائز ہے، اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ ایلوپیتھک دواؤں میں جو قلیل مقدار میں الکوحل ملی ہوئی ہوتی ہے اور اس میں دیگر دواؤں کی آمیزش ہوتی ہے اور اس کا چمچہ یا دو چمچے پیے جاتے ہیں وہ دوائیں شراب نہیں ہیں اور ان کا پینا جائز ہے اسی طرح پر فیوم بھی قلیل مقدار میں اسپرے کیا جاتا ہے اس کا اسپرے کرنا بھی جائز ہے اور وہ نجس نہیں ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 16 النحل آیت نمبر 67