أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

مَنۡ كَفَرَ بِاللّٰهِ مِنۡۢ بَعۡدِ اِيۡمَانِهٖۤ اِلَّا مَنۡ اُكۡرِهَ وَقَلۡبُهٗ مُطۡمَئِنٌّۢ بِالۡاِيۡمَانِ وَلٰـكِنۡ مَّنۡ شَرَحَ بِالۡكُفۡرِ صَدۡرًا فَعَلَيۡهِمۡ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰهِ‌ۚ وَلَهُمۡ عَذَابٌ عَظِيۡمٌ ۞

ترجمہ:

جس نے اللہ پر ایمان لانے کے بعد کفر کیا سو اس کے جس کو کفر پر مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان کے ساتھ مطمئن ہو بلکہ وہ لوگ جو کھلے دل کے ساتھ کفر کریں تو ان پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : جس نے اللہ پر ایمان لانے کے بعد کفر کیا سو اس کے جس کو کفر پر مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان کے ساتھ مطمئن ہو بلکہ وہ لوگ جو کھلے دل کے ساتھ کفر کریں تو ان پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔ (النحل : ١٠٦)

جان کے خوف سے کلمہ کفر کہنے کی رخصت اور جان دینے کی عزیمت :

اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفر پر وعید بیان فرمائی تھی اور اس آیت میں ان کا ذکر تھا جو مطلقا ایمان نہیں لاتے اور اس آیت میں ان کا حکم بیان فرمایا ہے جو فقط زبان سے کسی مجبوری کی وجہ سے کفر کرتے ہیں دل سے کفر نہیں کرتے اور ان کا حکم بیان فرمایا ہے جو زبان اور دل دونوں سے کفر کرتے ہیں۔

امام ابو الحسن علی بن احمد الواحدی المتوفی ٤٦٨ ھ لکھتے ہیں :

یہ آیت حضرت عمار بن یاسر کے متعلق نازل ہوئی ہے کیونکہ مشرکین نے حضرت عمار کو، ان کے والد یاسر کو اور ان کی ماں سمیہ کو اور حضرت صہیب کو حضرت بلال کو، حضرت خباب کو اور حضرت سالم کو پکڑ لیا اور ان کو سخت عذاب میں مبتلا کیا۔ حضرت سمیہ کو انہوں نے دو انٹوں کے درمیان باندھ دیا اور نیزہ ان کی اندام نہانی کے آر پار کردیا اور ان سے کہا تم مردوں سے اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے اسلام لائی ہو سو ان کو قتل کردیا اور ان کے خاوند یاسر کو بھی قتل کردیا، یہ دونوں وہ تھے جن کو اسلام کی خاطر سب سے پہلے شہید کیا گیا اور رہے عمار تو ان سے انہوں نے جبریہ کفر کا کلمہ کہلوایا۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خبر دی گئی کہ حضرت عمار نے کلمہ کفر کہا ہے تو آپ نے فرمایا بیشک عمار سر سے پاؤں تک ایمان سے معمور ہے، اس کے گوشت اور خون میں ایمان رچ چکا ہے، پھر حضرت عمار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس روتے ہوئے آئے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی آنکھوں سے آنسو پونچھ رہے تھے اور فرما رہے تھے اگر وہ دوبارہ تم سے جبرا کلمہ کفر کہلوائیں تو تم دوبارہ کہہ دینا۔ (اسباب نزول قرآن رقم الحدیث : ٥٦٧، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت، المستدرک ج ٢ ص ٣٥٧، تفسیر عبدالرزاق، رقم الحدیث : ٢١٩٤٦ )

محمد بن عمار بن یاسر بیان کرتے ہیں کہ مشرکین نے عمار بن یاسر کو پکڑ لیا اور ان کو اس وقت تک نہیں چھوڑا حتی کہ انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو برا کہا اور ان کے معبودوں کو اچھا کہا، تب ان کو چھوڑ دیا۔ حضرت عمار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے پوچھا تمہارے ساتھ کیا ہوا ؟ حضرت عمار نے کہا بہت برا ہوا، یا رسول اللہ ! انہوں نے مجھے اس وقت تک نہیں چھوڑا حتی کہ میں آپ کو برا کہوں ان کے بتوں کو اچھا کہوں۔ آپ نے پوچھا تم اپنے دل کو کیسا پاتے ہو ؟ انہوں نے کہا میرا دل ایمان کے ساتھ مطمئن ہے۔ آپ نے فرمایا اگر وہ تمہیں دوبارہ مجبور کریں تو دوبارہ کہہ دینا اس حدیث کی سند صحیح ہے اور امام بخاری اور مسلم نے اس کو روایت نہیں کیا۔ (المستدرک ج ٣ ص ٣٩٢، طبع قدیم، المستدرک رقم الحدیث : ٣٤١٣، طبع جدید، حلیۃ الاولیاء ج ١ ص ١٤٠ )

حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ جنہوں نے سب سے پہلے اسلام کا اظہار کیا وہ سات افراد تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، حضرت ابوبکر، حضرت بلال، حضرت خباب، حضرت عمار، حضرت سمیہ (حضرت عمار کی والدہ) اور حضرت صہیب۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دفاع آپ کے چچا نے کیا۔ حضڑت ابوبکر کا دفاع ان کی قوم نے کیا، باقی پانچوں کو مشرکین نے پکڑ لیا اور ان کو لوہے کی زرہیں پہنا کر دھوپ میں تپانا شروع کردیا، حتی کہ انہوں نے اپنی پوری کوشش سے ان کو عذاب پہنچایا پھر حضرت بلال کے سوا سب بےجان بچانے کے لیے ان کی موافقت کرلی پھر ان میں سے ہر ایک کے پاس ان کی قوم آئی اور ان کو ایک چمڑے پر ڈال کرلے گئی، پھر شام کو ابو جہل آیا اور حضرت سمیہ کو گا لیں دینے لگا پھر اس نے ان کی اندام نہانی میں نیزہ مارا جو ان کے منہ کے پار ہوگیا۔ وہ اسلام کی راہ میں شہید ہونے والی سب سے پہلی خاتون تھیں۔ حضرت بلال نے کفار کی موافقت کرنے کے مقابلہ میں اللہ کی راہ میں جان دینے کو آسان سمجھا، کفار نے ان کے گلے میں رسی ڈال کر بچوں کو تھمادی وہ ان کو مکہ کی گلیوں میں گھسیٹتے پھرتے تھے اور حضرت بلال احد، احد (اللہ ایک ہے) پکارتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٣، ص ٤٧، ٤٨، ج ١٤، ص ٣١٣، مسند احمد ج ١ ص ٤٠٤، طبع قدیم، مسند احمد رقم الحدیث : ٣٨٣٢، طبع جدید، عالم الکتب، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٥٠، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٧٠٨٣، دلائل النبوۃ ج ٢ ص ٢٨١، ٢٨٢، اس حدیث کی سند صحیح ہے )

حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ کی طرف ہجرت کا ارادہ کیا تو آپ نے اپنے اصحاب سے فرمایا میرے پاس سے منتشر ہوجاؤ، پس جس شخص کے پاس طات ہے وہ آخر رات تک ٹھہر جائے اور جس کے پاس طاقت نہیں ہے وہ رات کے پہلے حصے میں چلا جائے اور جب تم یہ سن لو کہ میں اس جگہ ٹھہر گیا ہو تو مجھ سے آکر مل جانا۔ جب صبح ہوئی حضرت بلال، حضرت خباب، حضرت عمار اور قریش کی ایک کنیز جو اسلام لاچکی تھی ان سب کو ابوجہل اور دوسرے مشرکین نے پکڑ لیا۔ انہوں نے حضرت بلال سے کہا تم کفر کرو۔ انہوں نے انکار کیا تو انہوں نے ان کو لوہے کی زرہیں پہنا کر انہیں دھوپ میں تپایا۔ وہ ان کو گھسیٹ رہے تھے اور وہ احد، احد کہہ رہے تھے۔ حضرت خباب کو وہ کانٹوں میں گھسیٹ رہے تھے اور رہے حضرت عمار تو انہوں نے جان بچانے کے لیے کلمہ کفر کہہ لیا اور قریش کی اس کنیز کے جسم میں ابو جہل نے چار کیلیں ٹھونکیں پھر اس کو گھسیٹا پھر ان کی اندام نہانی میں نیزہ مار کر ان کو شہید کردیا پھر حضرت بلال، حضرت خباب، اور حضرت عمار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جا ملے اور آپ کو یہ واقعہ سنایا۔ آپ نے حضرت عمار سے پوچھا جب تم نے کلمہ کفر کہا تھا تو تمہارے دل کی کیفیت کیا تھا ؟ کیا تم نے کھلے دل سے کلمہ کفر کہا تھا ؟ انہوں نے کہا نہیں۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا پھر یہ آیت نازل ہوئی الا من اکرہ وقلبہ مطمئن بالایمان۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٢٦٦٦، الدر المنثور ج ٥ ص ١٧٠، ١٧١)

حضرت خباب بن ارت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک چادر سے ٹیک لگائے ہوئے کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے، ہم نے آپ سے شکایت کی اور ہم نے آپ سے کہا کیا آپ ہمارے لیے مدد نہیں طلب کرتے، کیا آپ ہمارے لیے دعا نہیں کرتے ؟ آپ نے فرمایا تم سے پہلی امتوں میں ایک شخص کے لیے زمین میں گڑھا کھودا جاتا، اس کو اس گڑھے میں کھڑا کردیا جاتا پھر اس کے سر پر آری رکھ کر اس کو دو ٹکڑوں میں کاٹ دیا جاتا اور لوہے کی کنگھی سے اس کے جسم کو چھیل دیا جاتا اور وہ کنگھی اس کے گوشت اور اس کی ہڈیوں کو کاٹتی ہوئی گزر جاتی، اور ایسی سخت آزمائش بھی اس کو اس کے دین سے منحرف نہیں کرتی تھیں۔ اللہ کی قسم ! اللہ اس دین کو تکمیل تک پہنچائے گا، حتی کہ ایک سوار، صنعاء سے حضرت موت تک سفر کرے اور اس کو اللہ کے سواو کسی کا خوف نہیں ہوگا اور بھیڑیا بکریوں کا نگہبان ہوگا لیکن تم جلدی کرتے ہو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٩٤٣، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٢٦٤٩، سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٠٤، مسند احمد رقم الحدیث : ٢١٣٧١، طبع جدید عالم الکتب بیروت)

حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ نے میری امت سے خطا، نسیان اور اس کام کے حکم کو اٹھا لیا ہے جس پر انہیں مجبور کیا گیا ہو۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٠٤٥، السنن الکبری للبیہقی ج ٧ ص ٣٥٦، ٣٥٧، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٧٢١٩، سنن الدار قطنی ج ٤ ص ١٧٠، ١٧١، المستدرک ج ٤ ص ١٩٨، اس کی سند ضعیف ہے کیونکہ عطا کا ابن عباس سے سماع نہیں ہے لیکن عبید بن عمری از ابن عباس یہ روایت صحیح ہے )

حسن بصری بیان کرتے ہیں کہ مسیلمہ کے جاسوس دو مسلمانوں کو پکڑ کر اس کے پاس لے گئے، اس نے ان میں سے ایک سے کہا کیا تم یہ گواہ دیتے ہو کہ (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں ؟ اس نے کہا ہاں، پھر اس نے کہا کیا تم یہ گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ اس نے اپنے کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا میں بہرہ ہوں۔ اس نے کہا کیا وجہ ہے، جب میں تم سے کہتا ہوں کہ کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں تو تم کہتے ہو کہ میں بہرہ ہوں پھر اس نے ان کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ پھر اس نے دوسرے مسلمان سے کہا کیا تم گواہی دیتے ہو کہ (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں ؟ اس نے کہا ہاں، پھر اس نے کہا کیا تم یہ گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ اس نے کہا ہاں، پھر اس نے کہا اس کو چھوڑ دیا پھر وہ مسلمان نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ! میں ہلاک ہوگیا، آپ نے پوچھا کیا ہوا ؟ تو اس نے اپنا اور اپنے مسلمان ساتھی کا ماجرا سنایا۔ آپ نے فرمایا رہا تمہارا ساتھی تو وہ اپنے ایمان پر قائم رہا اور رہے تم تو تم نے رخصت پر عمل کیا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث : ٣٣٠٢٧، دار الکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٦ ھ)

اکراہ (دھمکی دینے) کی تعریف اور اس کے مسائل :

علامہ علی بن ابی بکر المرغینانی الحنفی المتوفی ٥٩٣ ھ لکھتے ہیں :

الاکراہ (جبرا کوئی کام کرانا) کا حکم اس وقت ثابت ہوگا جب دھمکی دینے والا شخص اپنی دھکمی کو پورا کرنے پر قادر ہو۔ امام ابوحنیفہ نے اپنے زمانہ کے اعتبار سے کہا کہ اکراہ یا بادشاہ کا معتبر ہوگا یا چور کا، کیونکہ بادشاہ کے پاس بھی اقتدار ہوتا ہے اور چور بھی مسلح ہوتا ہے، لیکن اب زمانہ متغیر ہوگیا ہے، لہذا جس شخص کے پاس بھی ہتھیار ہوں جن سے وہ اپنی دھمکی پوری کرنے پر قادر ہو اور جس شخص کو دھمی دی جائے وہ خوفزدہ ہو کہ اگر اس کی بات نہ مانی گئی تو وہ اپنی دھمکی پوری کر گزرے گا، تو یہ اکراہ ہے۔

اور جب کسی شخص پر جبر کیا جائے کہ وہ اپنا مال بیچے یا کوئی سودا خریدے یا ہزار روپے ادا کرنے کا اقرار کرے ورنہ وہ اس کو قتل کردے گا یا بہت شدید مار پیٹ کرے گا، یا قید کرلے گا تو بعد میں اس کو اختیار ہے چاہے تو بیع نافذ کردے اور چاہے تو بیع فسخ کردے۔

اور اگر کسی شخص پر جبر کیا گیا کہ وہ مردار کھائے یا شراب پیے ورنہ اس کو قید کرلیا جائے گا یا اس کو مارا پیٹا جائے گا تو اس کے لیے مردار کھانا یا شراب پینا جائز نہیں ہے۔ ہاں اگر اس کو یہ خوف ہو کہ اگر اس کی بات نہ مانی تو وہ اس کو قتل کردے گا یا اس کا کوئی عضو کاٹ دے گا تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ کام کرلے جس کی اس کو دھمکی دی ہے، اور اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ شراب نہ پیے اور ان کو اسے قتل کرنے کا موقع دے یا عضو کاٹنے کا موقع دے۔ حتی کہ اگر اس نے ان کا کہنا نہ مانا اور انہوں نے اس کو قتل کردیا تو وہ گنہگار ہوگا کیونکہ اس حالت میں اس کے لیے مردار کھانا یا شراب پینا مباح تھا اور وہ اپنے ہلاک کیے جانے میں ان کا معاون ہوا۔

اور اگر کسی شخص پر جبر کیا گیا کہ وہ کفریہ کلمہ کہے، معاذ اللہ۔ اللہ تعالیٰ کا کفر کرے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالی دے ورنہ اس کو قید کردیا جائے گا یا ضرب شدید لگائی جائے گی تو یہ اکراہ نہیں ہے، حتی کہ اس کو قتل کرنے کی دھمکی دی جائے یا اس کے کسی عضو کو کاٹنے کی دھمکی دی جائے، اور جب اس کو اپنی کا خطرہ ہو تو اس کے لیے ان کا کہنا مان لینا جائز ہے مگر کفر میں توریہ کرے اگر اس نے کلمہ کفریہ کہا اور اس کا دل ایمان سے مطمئن تھا تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ جیسا کہ حضرت عمار بن یاسر کی روایت ہے اور قرآن مجید میں الا من اکرہ وقلبہ مطمئن بالایمان۔ اور اگر اس نے کلمہ کفریہ نہیں کہا اور اس کو قتل کردیا گیا تو اس کو اجر ملے گا۔ اس لیے کہ حضرت خبیب نے صبر کیا اور ان کو سولی دے دی گئی۔ (یہ مثال درست نہیں ہے، حضرت خبیب نے جنگ بدر میں حارث بن عامر کو ایک کافر کو قتل کردیا تھا، کافروں نے حضرت خبیب کو اس کے انتقام میں سولی دی تھی۔ صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٠٤٥، علامہ مرغینانی کو حضرت سمیہ اور حضرت یاسر کی مثال دینی چاہیے تھی جو اپنی جان پر کھیل گئے اور کلمہ کفر نہیں کہا یا اس مسلمان کی جس نے کلمہ کفر نہیں کہا اور مسیلمہ کذاب نے اس کو قتل کردیا، ان کے حوالے گزر چکے ہیں۔ سعیدی غفرلہ)

اگر اس پر جبر کیا گیا کہ وہ کسی مسلمان کا مال تلف کردے ورنہ اس کو قتل کردیا جائے گا یا اس کا کوئی عضو کاٹ دیا جائے گا تو اس کے لیے اس مال کو تلف کرنا جائز ہے اور جس کا مال ہے یہ اس کے لیے ضامن ہوگا۔

اور اگر اس پر جبر کیا گیا کہ وہ فلاں شخص کو قتل کردے تو اس کے لیے اس کو قتل کرنا جائز نہیں ہے اور اگر اس نے اس کو قتل کردیا تو وہ گنہگار ہوگا اور اگر یہ قتل عمدا ہو تو جبر کرنے والے سے قصاص لیا جائے گا۔

اور اگر کسی شخص پر جبر کیا گیا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے اور اس نے طلاق دے دے تو یہ طلاق واقع ہوجائے گی۔ (زبانی طلاق ہوجائے گی اور اگر اس سے جبرا طلاق لکھوائی تو واقع نہیں ہوگی، رد المختار ج ٤ ص ٣٢٤، طبع جدید، ١٤١٩ ھ)

اگر اس کو زنا کرنے پر جبر کیا گیا تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس پر حد ہوگی اور اگر سلطان نے اس پر جبر کیا ہے تو اس پر حد نہیں ہوگی، اور امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک اس پر حد نہیں ہے۔

اور اگر اس کو مرتد ہونے پر مجبور کیا گیا ہے اور اس نے زبان سے کلمہ کفر کہا اور اس کا دل اسلام پر مطمئن تھا تو اس کی عورت اس کے نکاح سے خارج نہیں ہوگی۔ (ہدایہ اخیرین ص ٣٥١۔ ٣٤٦، ملخصا مطبوعہ شرک علمیہ ملتان)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 16 النحل آیت نمبر 106