أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

سُبۡحٰنَ الَّذِىۡۤ اَسۡرٰى بِعَبۡدِهٖ لَيۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ اِلَى الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِىۡ بٰرَكۡنَا حَوۡلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنۡ اٰيٰتِنَا‌ ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيۡعُ الۡبَصِيۡرُ ۞

ترجمہ:

ہر عیب سے پاک ہے وہ جو اپنے (مکرم) بندہ کو رات کے ایک قلیل وقفہ میں مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گیا جس کے ارد گرد کو ہم نے برکتیں دیں ہیں تاکہ ہم اس (عبد مکرم) کو اپنی بعض نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی بہت سننے و الا، بہت دیکھنے والا ہے۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ہر عیب سے پاک ہے وہ جو اپنے (مکرم) بندہ کو رات کے ایک قلیل وقفہ میں مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گیا جس کے ارد گرد کو ہم نے برکتیں دیں ہیں تاکہ ہم اس (عبد مکرم) کو اپنی بعض نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی بہت سننے و الا، بہت دیکھنے والا ہے۔ (بنی اسرائیل : ١)

سبحان کا معنی : 

سبحان : سبح کا معنی ہے پانی میں سرعت سے تیرنا، مجازا سیاروں کے اپنے مدار میں گردش کرنے کو بھی کہتے ہیں، قرآن مجید میں ہے :

وکل فی فلک یسبحون : (یسین : ٤٠) اور ہر ایک اپنے مدار میں تیر رہا ہے۔ (یعنی گردش کر رہا ہے)

اور تسبیح کا معنی ہے ان اوصاف سے اللہ تعالیٰ کے پاک ہونے کو بیان کرنا جو اس کی شان کے لائق نہیں ہیں، اور اس کا اصل معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کو بہت تیزی اور سرعت کے ساتھ انجام دینا اور تسبیح کا لفظ تمام عبادات کے لیے عام ہے خواہ اس عبادت کا تعلق ول سے ہو فعل سے ہو یا نیت سے ہو۔ (المفردات ج ١، ص ٢٩٢، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)

سبحان کا لفظ ہر عیب اور نقص سے اللہ تعالیٰ کی تنزیہ اور تقدیس کے لیے ہے، اور اللہ تعالیٰ کے غیر کو اس صفت سے موصوف کرنا ممتنع ہے، اس آیت میں بھی یہ لفظ تنزیہ کے لیے ہے یعنی اللہ تعالیٰ اس نقص سے پاک ہے کہ وہ رات کے ایک لمحہ میں اتنی عظیم سیر نہ کراسکے، تسبیح کا لفظ قرآن مجید میں تسبیح پڑھنے یعنی اللہ تعالیٰ کی تنزیہ اور تقدیس کرنے اور نماز پڑھنے کے معنی میں بھی ہے :

فسبح و اطراف النھار لعلک ترضٰ ۔ (طہ : ١٣٠) اور دن کے کناروں میں آپ نماز پڑھیے اور تسبیح کیجیے تاکہ آپ راضی ہوجائیں۔

حدیث میں یہ لفظ نور کے معنی میں بھی آیا ہے : لا حرقت سبحات وجھہ ما ادرک بصرہ۔ اللہ تعالیٰ کے چہرے کے انوار منتہاء بصر تک کو جلا ڈالتے۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث : ١٧٩، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٩٥، ١٩٦، مسند احمد ج ٤، ص ٤٠١، ٤٠٥)

نیز احادیث میں سبحان کا معنی اللہ تعالیٰ کی تنزیہ ہے۔

حضرت طلحۃ بن عبیداللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سبحان اللہ کی تفسیر پوچھی آپ نے فرمایا، ہر بری چیز سے اللہ تعالیٰ کی تنزیہ بیان کرنا۔ (المستدرک ج ١، ص ٥٠٢، قدیم المستدرک، رقم الحدیث ١٨٩، کتاب الدعا للطبرانی رقم الحدیث : ١٧٥١، ١٧٥٢، مجمع الزوائد ج ١٠، ص ٩٤)

سبحان اللہ کہنے کی فضیلت میں احادیث :

حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ جس شخص نے ایک دن میں سو مرتبہ پڑھا سبحان اللہ وبحمدہ تو اس کے گناہ مٹا دیئے جاتے ہیں خواہ اس کے گناہ سمندر کے جھاگ سے بھی زیادہ ہوں۔ ( صحیح البخاری، رقم الحدیث : ١٤٠٥، صحیح مسلم، رقم الحدیث، ٢٦٩١، سنن الترمذی، رقم الحدیث : ٣٤٦٨، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٥٠٩١، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٧٩٨)

حضرت ابوذر بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں، اللہ تعالیٰ کو کونسا کلام سب سے زیادہ محبوب ہے ؟ فرمایا وہ کلام جس کو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے لیے پسند فرما لیا ہے۔ سبحان ربی وبحمدہ سبحان ربی وبحمدہ۔ (المستدرک ج ١، ص ٥٠١، قدیم المستدرک رقم الحدیث : ١٨٨٩، جدید صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٣١، سنن الترمذی، رقم الحدیث : ٣٥٨٧، مسند احمد ج ٥ ص ١٤٨، شرح السنہ، ج ٥، ص ٤١ )

حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے سبحان اللہ العظیم کہا اس کے لیے جنت میں کھجور کا ایک درخت اگا دیا جاتا ہے۔ (المستدرک ج ١ ص ٥٠١، قدیم المستدرک رقم الحدیث : ١٨٩٠)

حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دو کلمے زبان پر ہلکے ہیں میزان میں بھاری ہیں اللہ کے نزدیک محبوب ہیں۔ سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث : ٧٥٦٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٦٩٤، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٨٠٦، سنن الترمذی، رقم الحدیث : ٣٤٦٧، مسند احمد رقم الحدیث : ٧١٦٧ م عالم الکتب)

حضرت سمرہ بن جندب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : اللہ کے نزدیک سب سے محبوب کلام چار ہیں : سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر۔ تم ان میں سے جس کلام سے ابتدا کرو تمہیں کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ (الحدیث) (صحیح مسلم، رقم الحدیث : ٢١٣٧)

حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ لکھتے ہیں : 

سبحان اللہ کہنے کا معنی ہے اللہ تعالیٰ ہر نقص سے اور ہر ایسی چیز سے پاک ہے جو اس کی شان کے لائق ہیں ہے اور اس کو یہ لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ شریک سے، بیوی سے، بچوں سے، اور تمام رذائل سے پاک ہے، تسبیح کا لفظ بولا ا جاتا ہے اور اس سے ذکر کے تمام الفاظ مراد ہوتے ہیں وار کھی اس سے نفلی نماز مراد ہوتی ہے، صلوۃ التسبیح اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں بکثرت تسبیحات ہیں، سبحان کا لفظ بالعموم اضافت کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ (فتح الباری ج ١١، ص ٢٠٧، مطبوعہ لاہور، ١٤٠١ ھ)

اسریٰ کا معنی :

اسری کا لفظی سری سے بنا ہے، اس کا معنی ہے رات کو جانا، اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط سے فرمایا :

فاسر باھلک۔ (ھود : ٨١) آپ رات میں اپنے اہل کو لے جائیں۔

نیز فرمایا :

سبحن الذی اسری بعبدہ لیلا۔ (بنی اسرائیل : ١) سبحان ہے وہ جو اپنے بندے کو رات کے ایک لمحۃ میں لے گیا۔ (المفردات : ج ٢، ص ٣٠٥، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)

خواب میں معراج ہونے کی روایات :

بعض روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ معراج خواب کا واقعہ ہے اور بعض روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صرف آپ کی روح کو معراج ہوئی تھی آپ کے جسم کو معراج نہیں ہوئی تھی، ہم ان روایات کو ذکر کر کے پھر ان کے جوابات کا ذکر کریں گے انشاء اللہ۔

امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوجی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

عتبہ بن مغیرہ بن الاخنس بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت معاویہ بن ابی سفیان سے رسول اللہ کی معراج کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا یہ اللہ کی طرف سے سچا خواب تھا۔ (جامع البیان، رقم الحدیث : ١٦٦٢٨، الدر المنثور : ج ٥، ص ٢٢٧، مطبوعہ دار الفکر بیروت)

محمد بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے بعض آل ابی بکر نے کہا کہ حضرت عائشہ کہتی تھیں کہ رسول اللہ کا جسم گم نہیں ہوا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح کو سیر کرائی تھی۔ (جامع البیان، رقم الحدیث : ١٦٦٣٠، الدر المنثور ج ٥، ص ٢٢٧، مطبوعہ دار الفکر بیروت)

سلمہ بیان کرتے ہیں کہ امام ابن اسحاق نے کہا حضرت عائشہ کے اس قول کا انکار نہیں کیا گیا اور اس کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے :

وما جعلنا الرویا التی ارینک الا فتنۃ للناس۔ (بنی اسرائیل : ٦٠) اور وہ جلوہ جو ہم نے آپ کو (شب معراج) دکھایا تھا ہم نے اس کو لوگوں کے لیے محض آزمائش بنادیا۔

ان کا استدلال اس سے ہے کہ رویا کا معنی خواب ہے یعنی شب معراج آپ کو جو خواب دکھایا تھا اس کی وجہ سے لوگ فتنہ میں پڑگئے بعض اس کی تصدیق کرکے اپنے ایمان پر قائم رہے اور بعض اس کا انکار کر کے مرتد ہوگئے۔ (ہمیں مرتد ہونے والوں کے ناموں کی تصریح نہیں ملی) اور حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے سے کہا :

یبنی انی اری فی المنام انی اذبحک فانظر ما ذا تری۔ (الصفات : ١٠٢) اے میرے بیٹے ! بیشک میں نے خواب میں یہ دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں تو اب غور کرو تمہاری کیا رائے ہے۔

پھر حضرت ابراہیم نے اپنے خواب پر عمل کیا، اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء (علیہم السلام) کے پاس خواب اور بیداری دونوں حالتوں میں وحی نازل ہوتی تھی اور خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل جاگتا رہتا ہے اور اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ واقعہ معراج آپ کو نیند میں دکھایا گیا تھا یا بیداری میں، اور یہ واقعہ جس حالت میں بھی پیش آیا تھا وہ حق اور صادق ہے۔ (جامع البیان، رقم الحدیث : ١٦٦٣٠، مطبوعہ دار الفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)

خواب میں معراج کی روایات کے جوابات :

امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ لکھتے ہیں :

ہمارے نزدیک صحیح اور برحق قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رات میں مسجد حرام سے مسجد اقسی تک کی سیر کرائی جیسا کہ احادیث میں ہے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو براق پر سوار کرایا اور آپ نے مسجدا قصی میں انبیاء اور رسول کو نماز پڑھائی، اور آپ کو بہت سی نشانیاں دکھائیں، اور جس شخص نے یہ کہا کہ صرف آپ کی روح کو معراج کرائی گئی تھی اور یہ جسمانی معراج نہیں تھی یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو یہ واقعہ آپ کی نبوت پر دلیل نہ ہوتا، اور نہ اس کی حقیقت کا منکرین انکار کرتے، اور اگر یہ صرف خواب کا واقعہ ہوتا تو مشرکین اس کا رد نہ کرتے، کیونکہ خواب میں کسی عجیب و غریب چیز کو دیکھنے پر کسی کو حیرت نہیں ہوتی اور نہ کوئی اس کا انکار کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ اسری بعبدہ یہ نہیں فرمایا کہ اسری بروح عبدہ، اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا براق پر سوار ہونا بھی اس کا تقاضا کرتا ہے کہ یہ جسمانی معراج تھی کیونکہ کسی سواری پر سوار ہونا جسم کا تقاضا ہے نہ کہ روح کا۔ (جامع البیان، ج ١٥، ص ٢٣، ٢٤، مطبوعہ دار الفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)

علامہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :

اگر یہ خواب کا واقعہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ فرماتا بروح عبدہ اور بعبدہ نہ فرماتا، نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

مازاغ البصر وما طغی۔ (النجم : ١٧) نہ نظر ایک طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی) 

سورة النجم کی یہ آیت بھی اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہ بیداری کا واقعہ تھا، نیز اگر یہ خواب کا واقعہ ہوتا تو اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی نشانی اور معجزہ نہ ہوتا، اور آپ سے حضرت ام ہانی یہ نہ کہتیں کہ آپ لوگوں سے یہ واقعہ بیان نہ کریں وہ آپ کی تکذیب کریں گے، اور نہ حضرت ابوبکر کی تصدیق کرنے میں کوئی فضیلت ہوتی، اور نہ قریش کے طعن وتشنیع اور تکذیب کی کوئی وجہ ہوتی، حالانکہ جب آپ نے معراج کی خبر دی تو قریش نے آپ کی تکذیب کی اور کئ مسلمان مرتد ہوگئے اور اگر یہ خواب ہوتا تو اس کا انکار نہ کیا جاتا، اور نیند میں جو واقعہ ہو اس کے لیے اسری نہیں کہا جاتا۔ (الجامع الاحکام القرآن، جز ١٠، ص ١٨٩، مطبوعہ دار الفکر، ١٤١٥ ھ)

علامہ سید محمد آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :

حضرت عائشہ نے جو فرمایا ہے کہ آپ کا جسم شب معراج گم نہیں ہوا تھا اور آپ کی روح کو سیر کرائی گئی تھی، حضرت عائشہ سے یہ روایت صحیح نقل نہیں کی گئی کیونکہ جب یہ واقعہ ہوا اس وقت آپ بہت چھوٹی تھیں، (تقریربا ساڑھے چار سال کی) اس وقت تک آپ رسول اللہ کی زوجہ بھی نہیں تھیں، اور معاویہ بن ابی سفیا اس وقت کافر تھے، اور اس آیت سے جو استدلال کیا گیا ہے۔

وما جعلنا الرویا التی ارینک الا فتنۃ للناس۔ (بنی اسرائیل : ٦٠) اور ہم نے آپ کو جو رویا دکھایا وہ صرف اس لیے تھا کہ لوگوں کو آزمائش میں مبتلا کریں۔

اس کا جواب یہ ہے کہ رویا نیند اور بیداری دونوں میں دیکھنے کے لیے آتا ہے اور جمہور کے نزدیک یہ رویا بیداری میں بدن اور روح کے ساتھ واقع ہوا۔ (روح المعانی ج ١٥، ص ١٠، ١١، مطبوعہ دار الفکر بیروت، ١٤١٧ ھ)

شریک کی ایک روایت جس سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ معراج کا واقعہ خواب کا تھا :

شریک بن عبداللہ بن ابی نمر بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک سے معراج کا واقعہ سنا انہوں نے کہا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد کعبہ میں سوئے ہوئے تھے، نزول وحی سے پہلے آپ کے پاس تین شخص آئے، پھر معراج کا پورا واقعہ بیان کیا۔ امام مسلم فرماتے ہیں شریک نے بعض چیزوں کو مقدم کردیا اور بعض کو موخر کردیا اور روایت میں بعض چیزوں کی زیادتی کی اور بعض کی کمی کی۔ ( صحیح مسلم، باب الاسراء : ٢٦٢، رقم الحدیث : ٢٦١، رقم الحدیث المسلسل، ٤٠٧، صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٥١٧، ٣٥٧٠)

علامہ یحییٰ بن شرف نووی متوفی ٦٧٦ ھ لکھتے ہیں :

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معراج کے متعلق علماء کا اختلاف ہے، ایک قول یہ ہے کہ پوری معراج خواب میں ہوئی تھی، لیکن اکثر متقدمین اور متاخرین علماء، فقہاء، محدثین اور متکلمین کا اس پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جسمانی معراج ہوئی ہے، اور تمام احادیث صحیحہ اس پر دلالت کرتی ہیں اور بغیر کسی دلیل کے ان کے ظاہر معنی سے عدول کرنا جائز نہیں ہے، شریک کی جس روایت کا ابھی ذکر کیا گیا ہے وہ بظاہر اس کے خلاف ہے، لیکن شریک کے بہت اوہام ہیں جن کا علماء نے انکار کیا ہے اور خود امام مسلم نے اس پر تنبیہ کی ہے اور کہا ہے کہ اس نے اپنی روایت میں تقدیم، تاخیر اور زیادتی اور کمی کی ہے اور یہ کہا کہ معراج کا واقعہ نزول وحی سے پہلے کا ہے، اس کا یہ قول غلط ہے کسی نے اس کی موافقت نہیں کی، معراج کی تاریخ میں کافی اختلاف ہے زیادہ قوی یہ ہے کہ معراج ہجرت سے تین سال پہلے ہوئی ہے، کیونکہ اس میں اختلاف نہیں ہے کہ حضرت خدیجہ نے نماز کی فضیت کے بعد رسول اللہ کے ساتھ نماز پڑھی ہے اور اس میں بھی اختلاف نہیں ہے کہ حضرت خدیجہ کی وفات ہجرت سے پہلے ہوئی ہے، ایک قول یہ ہے کہ ہجرت سے تین سال پہلے اور ایک قول ہے ہجرت سے پانچ سال پہلے۔ (صحیح مسلم بشرح النووی ج ١، ص ٩٣٥، ٩٣٩، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ، ١٤١٧ ھ)

علامہ نووی نے یہ تحقیق قاضی عیاض مالکی اندلسی متوفی ٥٤٤ ھ سے اخذ کی ہے۔ (اکمال المعلم بفوائد مسلم ج ١، ص ٤٩١ م ٤٩٧، مطبوعہ دار الوفاء، ١٤١٩ ھ)

عبد کا معنی :

علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں :

عبد کے حسب ذیل معانی ہیں :

١۔ جو حکم شرع کے اعتبار سے عبد ہو یعنی کسی کا غلام ہو اس کو بیچنا اور خریدنا جائز ہو، واضح رہے کہ یہ حکم اس وقت تھا جب دنیا میں غلام بنانے کا رواج تھا، لیکن اسلام نے حکمت سے بد تدریج غلامی کا چلن ختم کردیا اور باقی دنیا میں بی اب غلام بنانے کا رواج ختم ہوگیا۔ اس معنی کے اعتبار سے عبد بہ معنی غلام کے متعلق حسب ذیل آیتیں ہیں :

العبد بالعبد۔ (البقرہ : ١٧٨) غلام کو غلام کے بدلہ میں (قتل کیا جائے)

ضرب اللہ مثلا عبدا مملوکا لا یقدر علی شی۔ (النح : ٧٥) اللہ مثال بیان فرماتا ہے ایک مملوک غلام کی جس کو کسی چیز پر قدرت نہیں ہے۔

٢۔ عبد کا دوسرا معنی ہے عبادت گزار اور اطاعت گزار، بعض وہ ہیں جو اپنے اختیار کے بغیر اضطراری طور پر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہیں اس معنی کے لحاظ سے ہر چیز عبد ہے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتی ہے۔ قرآن مجید میں ہے :

ان کل من فی السموات والارض الا اتی الرحمن عبدا۔ (مریم : ٩٣) آسمانوں اور زمینوں میں جو بھی ہے وہ رحمان کی عبادت کرنے والا ہے۔

٣۔ جو لوگ اپنے اختیار سے اللہ کے غیر کی عبادت کرتے ہیں اور انہوں نے اپنے آپ کو ان کا عبد قرار دے رکھا ہے، قرآن مجید میں ان کے متعلق ہے :

و یوم یحشرھم وما یعبدون من دون اللہ فیقول ءانتم اضللتم عبادی ھولاء ام ھم ضلوا السبیل۔ (الفرقان : ١٧) جس دن اللہ انہیں جمع کرے گا اور ان کو جن کی وہ اللہ کے سوا عبادت کرتے تھے پھر اللہ ان (معبودوں) سے فرمائے گا کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا یا وہ خود ہی گمراہ ہوئے تھے۔

٤۔ جو لوگ اپنے اختیار سے اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور وہ اپنے آپ کو اللہ کا عبد کہتے ہیں لیکن ان کی عبادت ناقص ہے، ان کے متعلق درج ذیل آیتیں ہیں :

ان تعذبھم فانھم عبادک وان تغفرلھم فانک انت العزیز الحکیم۔ (المائدہ : ١١٨) اگر تو انہیں عذاب دے تو بیشک وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں بکش دے تو بیشک تو ہی بہت غالب ہے بڑی حکمت والا ہے۔

قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم لا تقنطوا من رحمت اللہ۔ (الزمر : ٥٣) آپ کہیے اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہو۔

٥۔ جو اپنے اختیار سے اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور ان کی عبادت بہت کامل اور اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہوتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے مثالی عبد ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کے عبد ہونے پر ناز فرماتا ہے اور فخر سے فرماتا ہے کہ وہ میرے بندے ہیں ان کا ذکر درج ذیل آیتوں میں ہے :

ان عبادی لیس لک علیھم سلطان۔ (الحجر : ٤٢) (اے ابلیس) بیشک میرے بندوں پر تیرا کوئی زور نہیں (چل سکے گا)

سبحن الذی اسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی۔ (بنی اسرائیل : ١) سبحان ہے وہ جو اپنے بندہ کو رات کے ایک قلیل وقفہ میں مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گیا۔ (المفردات ج ٢، ص ٤١٥، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)

اللہ تعالیٰ کا سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا عبد فرمانا۔

تمام انبیاء (علیہم السلام) اللہ تعالیٰ کے کامل عبد ہیں لیکن سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے کامل ترین عبد اور محبوب ترین عبد ہیں۔

اس آیت میں یہ فرمایا سبحان ہے وہ جو اپنے عبد کو رات کے ایک قلیل وقت میں لے گیا۔ ایک سوال یہ ہے کہ رسول کا ذکر کیوں نہیں کیا ؟ یوں کیوں نہیں فرمایا : سبحان ہے وہ جو اپنے رسول کو لے گیا، اس کا جواب یہ ہے کہ رسول وہ ہے جو اللہ کے پاس سے بندوں کی طرف لوٹ آئے اور عبد وہ ہے جو بندوں کی طرف سے اللہ کے پاس جائے، اور یہ اللہ کے پاس سے آنے کا نہیں اللہ کی طرف جانے کا موقع تھا، اس لیے یہاں رسول کا ذکر نہیں عبد کا ذکر مناسب تھا۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ کے متعلق فرمایا :

ان اللہ یبشرک بیحی مصدقا بکلمۃ من اللہ و سیدا و حصورا۔ (آل عمران : ٣٩) (اے زکریا) اللہ آپ کو یحییٰ کی بشارت دیتا ہے جو (عیسی) کلمۃ اللہ کے مصدق ہوں گے اور سردار ہوں گے اور عورتوں سے بہت بچنے والے ہوں گے۔

حضرت یحییٰ کو سید کہا اور آپ کو عبد فرمایا اس کی کیا وجہ ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سیادت، سلطنت اور مالکیت حقیقت میں اللہ کی صفات ہیں بندے کو اگر سید یا مالک یا صاحب سلطنت کہا جائے گا تو یہ مجاز ہوگا، اور بندے کی ایسی صفت جو اس کی حقیقی صفت ہو اور اللہ کی نہ وہ ہو صرف عبدیت ہے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ اپنے محبوب کا ذکر حقیقی وصف کے ساتھ کرے مجاز اور مستعار وصف کے ساتھ نہ کرے، اور فضیلت حقیقی وصف میں ہے مجاز اور مستعار وصف میں نہیں ہے۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ آپ کو محض عبدا نہیں فرمایا عبدہ فرمایا ہے، یعنی اس کا بندہ، عبد تو دنیا میں ہزاروں ہیں لیکن کامل عبد وہ ہے جس کو مالک خود کہے یہ میرا بندہ ہے، اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جہاں بھی ذکر فرمایا اپنی طرف اضافت کر کے فرمایا : 

الحمدللہ الذی انزل علی عبدہ الکتاب۔ (الکہف : ١) اللہ ہی کے لیے سب تعریفیں ہیں جس نے اپنے بندہ پر کتاب نازل کی۔ 

الیس اللہ بکاف عبدہ۔ (زمر : ٣٦) کیا اللہ اپنے بندہ کو کافی نہیں ؟

حضرت سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اسری اللہ آپ کو لے گیا، اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا :

ولما جاء موسیٰ لمیقاتنا۔ (الاعراف : ١٤٣) اور جب موسیٰ ہمارے مقرر کیے ہوئے وقت پر آئے۔

اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا :

وقال انی ذاھب الی ربی۔ (الصفات : ٩٩) اور (ابراہیم نے) کہا : بیشک میں اپنے رب کی طرف جاننے والا ہوں۔

حضرت موسیٰ از خود گئے حضرت ابراہیم از خود گئے اور حضرت سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ لے جانے والا تھا اور وہی لانے والا تھا اور ان دونوں صورتوں میں بڑا فرق ہے۔

امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :

میں نے اپنے والد اور شیخ عمر بن الحسین سے سنا، انہوں نے کہا میں نے شیخ سلیمان انصاری سے سنا کہ جب سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلند درجات اور عظیم مراتب پر پہنچے تو اللہ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی اے محمد ! تم کو کس وجہ سے یہ بلندی عطا کی گئی آپ نے جواب دیا اے میرے رب کیونکہ تو میرے عبد ہونے کو اپنی طرف منسوب فرماتا ہے اور مجھے اپنا عبادت گزار قرار دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : سبحان الذی اسری بعبدہ۔ (تفسیر کبیر ج ٧، ص ٢٩٣، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت، ١٤١٥ ھ)

مسجد اقصی سے ہو کر آسمانوں کی طرف جانا :

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا مسجد حرام سے مسجد اقصی تک :

حضرت انس بن مالک نے حدیث معراج بیان کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر میں براق پر سوار ہوا حتی کہ میں بیت المقدس پہنچا پھر میں نے براق کو اس حلقہ میں باندھ دیا جہاں انبیاء (علیہم السلام) کی سواریاں باندھی جاتی ہیں، پھر میں مسجد میں داخل ہوا اور میں نے وہاں دو رکعت نماز پڑھی، پھر میں مسجد سے باہر آگیا پھر میرے پاس جبریل (علیہ السلام) ایک برتن میں شراب اور ایک برتن میں دودھ لے کر آگئے، میں نے دودھ لے لیا تو جبریل نے کہا آپ نے فطرت کو اختیار کرلیا پھر ہمیں آسمان کی طرف معراج کرائی گئی۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث : ١٦٢ )

اس جگہ یہ سوال ہوتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو براہ راست آسمانوں کی طرف کیوں نہیں لے جایا گیا درمیان میں مسجد اقصی کیوں لے جایا گیا اس کی حسب ذیل حکمتیں ہیں :

١۔ اگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف آسمانوں پر جانے کا ذکر فرماتے تو مشرکین کے لیے اطمینان اور تصدیق کا کوئی ذریعہ نہ ہوتا کیونکہ آسمانوں کے طبقات اور درجات، سدرہ اور سدرہ سے اوپر کے حقائق میں سے کوئی چیز ان کی دیکھی ہوئی تھی نہ انہیں اس کے متعلق کوئی علم تھا، لیکن مسجد اقصی ان کی دیکھی ہوئی تھی تو جب آپ نے یہ فرمایا کہ میں رات کے ایک لمحے میں مسجد اقصی گیا اور واپس آگیا، اور ان کو یہ بھی معلوم تھا کہ آپ اس سے پہلے مسجد اقصی نہیں گئے ہیں تو انہوں نے آپ سے مسجد اقصی کی نشانیاں پوچھنی شروع کریں اور جب آپ نے سب نشانیاں بتادیں تو واضح ہوگیا کہ آپ کا دعوی اتنا حصہ تو بہرحال سچا ہے کہ آپ مسجد اقصی جاکر واپس آئے ہیں جبکہ بظاہر یہ یہ بھی بہت مشکل اور مستعد اور محال تھا، تو پھر آپ کے دعوی کے باقی حصہ کا بھی صدق ثابت ہوگیا کیونکہ جب آپ رات کے ایک لمحہ میں مسجد اقصی تک جاکر واپس آسکتے ہیں تو پھر آسمانوں تک جاکر بھی واپس آسکتے ہیں، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مسجد اقصی کی نشانیوں کے متعلق سوالات اور آپ کے جوابات دینے کا ذکر اس حدیث میں ہے :

حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب قریش نے مجھے جھٹلایا تو میں حطیم میں کھڑا ہوگیا اللہ نے میرے لیے بیت المقدس منکشف کردیا تو میں بیت المقدس کی طرف دیکھ دیکھ کر ان کو اس کی نشانیاں بتارہا تھا۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث : ٤٧١٠، صحیح مسلم، رقم الحدیث : ١٧٠، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣١٣٣، مسند احمد، رقم الحدیث : ١٥٠٩٩، مسند عبدالرزاق، رقم الحدیث : ٩٧١٩، صحیح ابن حبا، رقم الحدیث : ٥٥ )

٢۔ دوسری وجہ ی ہے ہ کہ عالم میثاق میں تمام انبیاء اور مرسلین نے اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کیا تھا کہ جب ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوں تو تمام انبیاء (علیہم السلام) ان پر ایمان لے آئیں اور ان کی نصرت کریں، قرآن مجید میں ہے :

واذ اخذ اللہ میثاق النبیین لما اتیتکم من کتب و حکمۃ ثم جائکم رسول مصدق لما معکم لتومنن بہ ولتنصرنہ قالء اقرررتم واخذتم علی ذلکم اصری، قالوا اقررنا، قال فاشھدوا وانا معکم من الشاھدین، فمن تولی بعد ذلک فاولئک ھم الفاسقون۔ (آل عمران : ٨١، ٨٢) اور ( اے رسول) یاد کیجیے جب اللہ نے تمام نبیوں سے پختہ عہد لیا کہ میں تم کو جو کتاب اور حکمت دوں پھر تمہارے پاس وہ عظیم رسول آجائیں جو اس چیز کی تصدیق کرنے والے ہوں جو تمہارے پاس ہے تو تم ان چیزوں پر ضرور بہ ضرور ایمان لانا اور ضرور بہ ضرور ان کی مدد کرنا، فرمایا کیا تم نے اقرار کرلیا اور میرے اس بھاری عہد کو قبول کرلیا ؟ انہوں نے کہا، ہم نے اقرار کرلیا، فرمایا پس گواہ رہنا اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔ پھر اس کے بعد جو عہد سے پھرا سو وہی لوگ نافرمان ہیں۔

امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

ابو ایوب بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالب نے فرمایا : اللہ عزوجل نے حضرت آدم کے بعد جس نبی کو بھیجا اس سے (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق عہد لیا کہ اگر آپ کو اس نبی کی حیات میں مبعوث کیا گیا تو وہ ضرور آپ پر ایمان لائے اور آپ کی مدد کرے اور اپنی امت سے بھی آپ کی اطاعت کا عہد لے۔ (جامع البیان، رقم الحدیث : ٥٧٩٠، الدر المنثور، ج ٢، ص ٢٥٢، ٢٥٣، تفسیر فتح القدیر ج ١، ص ٥٨٧)

سدی بیان کرتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد جس نبی کو بھی بھیجا اس سے یہ عہد لیا کہ وہ (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ضرور ایمان لائے اگا اور آپ کی ضرور مدد کرے گا اگر آپ اس کی حیات میں مبعوث ہوئے ورنہ وہ اپنی امت سے یہ عہد لے گا کہ اگر آپ مبعوث ہوئے اور وہ امت زندہ ہوئی تو وہ ضرور آپ پر ایمان لائے گا اور ضرور آپ کی مدد کرے گی۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٥٧٩٢، تفسیر امام بن ابی حاتم، رقم الحدیث : ٣٧٦١، الدر المنثور، ج ٢، ص ٢٥٣ )

امام الحسین بن مسعود الفرا البغوی المتوفی ٥١٦ ھ لکھتے ہیں :

اللہ عزوجل نے یہ ارادہ کیا کہ تمام نبیوں اور ان کی امتوں سے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق عہد لے اور صرف انبیاء کے ذکر پر اکتفا کرلیا، جیسا کہ حضرت ابن عباس اور حضرت علی بن ابی طالب نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد جس نبی کو بھی بھیجا اس سے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معاملہ میں عہد لیا اور ان سے ان کی امتوں کے متعلق بھی عہد لیا کہ اگر ان کی زندگی میں آپ کو مبعوث کیا گیا تو وہ ضرور آپ پر ایمان لائیں گے اور آپ کی نصرت کریں گے، جب حضرت آدم (علیہ السلام) کی پشت سے ان کی ذریت کو نکالا گیا ان میں انبیاء (علیہم السلام) بھی چراغوں کی طرح تھے اس وقت اللہ تعالیٰ نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق عہد لیا۔ (معالم التنزیل، ج ١ ص ٢٥٠، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٤ ھ)

حافظ عمر بن اسماعیل بن کثیر دمشقی متوفی ٧٧٤ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت ابن عباس نے کہا اللہ تعالیٰ نے جس نبی کو بھی بھیجا اس سے یہ عہد لیا کہ اگر اس کی حیات میں اللہ تعالیٰ نے (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیج دیا تو وہ ان کی ضرور اطاعت کرے گا اور ضرور ان کی نصرت کرے گا اور اس کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنی امت سے بھی یہ عہد لے کہ اگر ان کی زندگی میں سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث کیا گیا تو وہ سب ان پر ایمان لائیں گے اور ان کی نصرت کریں گے اور طاؤس، حسن بصری اور قتادہ نے کہا کہ اللہ نے نبیوں سے یہ عہد لیا کہ بعض نبی دوسرے بعض نبیوں کی تصدیق کریں گے، اور یہ عہد سابق کے منافی نہیں ہے اسی لیے امام عبدالرازق نے حضرت علی اور حضرت ابن عباس کے قول کو روایت کیا ہے۔

امام احمد نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ حضرت عمر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا کہ میں نے بنو قریظہ کے ایک یہودی سے کہا ہے تو اس نے میرے لیے تورات کی آیات لکھ کردی ہیں کیا میں وہ آیات آپ کو دکھاؤں۔ یہ سن کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ متغیر ہوگیا، عبداللہ بن ثابت کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر سے کہا کیا آپ نہیں دیکھتے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہر کس قدر متغیر ہوگیا ہے، پھر حضرت عمر نے کہا میں اللہ کو رب مان کر راضی ہوں، اور اسلام کو دین مان کر اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول مان کر، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرے سے غصہ کی کیفیت دور ہوگئی، اور آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تمہارے پاس ہوں اور پھر تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرو تو تم گمراہ ہوجاؤ گے۔ (مسند احمد ج ٣، ص ٣٣٨) اور امام ابو یعلی اپنی سند کے ساتھ حضرت جابر سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اہل کتاب سے کسی چیز کا سوال نہ کرو وہ ہرگز تمہیں ہدایت نہیں دیں گے، وہ خود گمراہ ہوچکے ہیں تم ان سے کوئی بات سن کر یا کسی باطل کی تصدیق کرو گے یا کسی حق بات کی تکذیب کرو گے، بیشک اللہ عزوجل کی قسم اگر تمہارے دور میں حضرت موسیٰ زندہ ہوتے تو میری پیروی کرنے کے سوا ان کے لیے اور کوئی چیز جائز نہ ہوتی۔ (مسند ابو یعلی، رقم الحدیث : ٢١٣٥) اور بعض احادیث میں ہے کہ اگر حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ زندہ ہوتے تو میری پیروی کرنے کے سوا ان کے لیے اور کوئی کام جائز نہ ہوتا، پس قیامت تک کے دائمی رسول سیدنا محمد خاتم الانبیاء صلوات اللہ وسلامہ علیہ ہیں اور آپ جس زمانہ میں بھی ہوتے تو آپ ہی امام اعظم ہوتے اور آپ ہی واجب الاطاعت ہوتے اور تمام انبیاء پر مقدم ہوتے، اسی وجہ سے جب تمام انبیاء (علیہم السلام) معراج کی شب بیت المقدس میں جمع ہوئے تو آپ ہی تمام نبیوں کے امام ہوئے اور میدان حشر میں بھی آپ ہی اللہ تعالیٰ کے حضور سب کی شفاعت فرمائیں گے اور یہی وہ مقام محمود ہے جو آپ کے سوا اور کسی کے لائق نہیں ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ج ١، ص ٤٢٦، مطبوعہ دار الفکر بیروت، ١٤١٩ ھ)

اس تفصیل سے معلوم ہوگیا کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شب معراج، مسجد اقسی سے ہوتے ہوئے آسمانوں پر جانا اس لیے تھا کہ اپنے اپنے زمانوں میں انبیاء سابقین (علیہم السلام) نے آپ پر ایمان لانے اور آپ کی نصرت کرنے کا جو عہد کیا تھا وہ عہد پورا ہوجائے۔

٣۔ مسجد اقصی سے ہو کر آسمانوں کی طرف جانے کی تیسری حکمت یہ ہے کہ آپ کا مسجد اقصی جانا اور نبیوں کی امامت فرمانا معراج کی تصدیق کا اور خصوصا بیداری میں اور جسم کے ساتھ معراج کی تصدیق کا ذریعہ بن گیا۔

حافظ ابن کثیر دمشقی لکھتے ہیں :

محمد بن کعب القرظی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت دحیہ بن خلیفہ کو قیصر روم کے پاس بھیجا پھر ان کے وہاں جانے اور قریصر روم کے سوالات کے جوابات دینے کا ذکر کیا، پھر بیان کیا کہ شام کے تاجروں کو بلایا گیا تو ابو سفیان بن صخر بن حرب اور اس کے ساتھیوں کے آنے کا ذکر کیا پھر ہرقل نے ابو سفیان سے سوالات کیے اور ابو سفیان نے جوابا دیئے، جن کا تفصیلی ذکر صحیح بخاری اور مسلم میں ہے۔ ابو سفیان نے پوری کوشش کی کہ قیصر روم کی نگاہوں میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مرتبہ کم کردے، ان ہی باتوں کے دوران اس کو واقعہ معراج یاد آیا، اس نے قیصر روم سے کہا اے بادشاہ ! کیا میں تم کو ایسی بات نہ سناؤں جس سے اس شخص کا جھوٹ تم پر واضح ہوجائے، اس نے پوچھا وہ کیا بات ہے ؟ اس نے کہا وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ ایک رات ہماری زمین ارض حرم سے نکل کر تمہاری اس مسجد، بیت المقدس میں پہنچے اور اسی رات کو صبح سے پہلے ہمارے پاس حرم میں واپس پہنچ گئے، بیت المقدس کا بڑا عابد جو بادشاہ کے سرہانے کھڑا ہوا تھا وہ کہنے لگا مجھے اس رات کا علم ہے، قیصر نے اس کی طرف مڑ کر دیکھا اور پوچھا تمہیں اس رات کا کیسے علم ہے ؟ اس نے کہا میں ہر رات کو سونے سے پہلے مسجد کے تمام دروازے بند کردیا کرتا تھا، اس رات کو میں نے ایک دروازہ کے علاوہ سارے دروازے بند کردیئے، وہ دروازہ بند نہیں ہوا، اس وقت وہاں جتنے کارندے دستیاب تھے سب نے پوری کوشش کی مگر وہ دروازہ بند نہیں ہوا، ہم اس دروازہ کو اپنی جگہ سے ہلا بھی نہیں سکے، یوں لگتا تھا جیسے ہم کسی پہاڑ کے ساتھ زور آزمائی کر رہے ہوں، ہم نے کہا صبح کو بڑھیوں کو بلا کردکھائیں گے کہ اس میں کیا نقص ہوگیا ہے، اور اس رات کو دروازہ یونہی کھلا چھوڑ دیا، صبح کو ہم نے دیکھا کہ مسجد کے ایک گوشہ میں جو پتھر تھا، اس میں سوارخ تھا اور پتھر میں سواریوں کے باندھنے کے نشانات تھے، میں نے اپنے اصحاب سے کہا گزشتہ رات کو وہ دروازہ اس لیے بند نہیں ہوسکا تھا کہ اس دروازہ سے ایک نبی کو آنا تھا، اور اس رات ہماری اس مسجد میں نبیوں نے نماز پڑھی ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٣، ص ٢٨، مطبوعہ دار الفکر بیروت، ١٤١٩ ھ)

اس روایت سے بھی یہ معلوم ہوا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد اقصی سے گزر کر جو آسمانوں کی طرف گئے اس میں یہ حکمت بھی تھی کہ آپ کا وہاں جانا واقعہ معراج کی تصدیق کا ذریعہ بن جائے۔

٤۔ چوتھی حکمت یہ تھی کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) اپنی اپنی قبروں میں مدفون ہیں، اور وہ سب اس رات کو مسجد اقدس میں جمع ہوئے، تمام نبیوں نے خطبات پڑھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو جو نعمتیں دی ہیں ان کا بیان کیا اور سب کے آخر میں سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ دیا اور اپنی نعمتوں کا ذکر فرمایا اور آپ نے سن نبیوں کو نماز پڑھائی اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء (علیہم السلام) اپنی قبروں میں زندہ ہوتے ہیں اور جہاں چاہتے ہیں چلے جاتے ہیں، اور ایک وقت میں متعدد جگہ بھی تشریف لے جاتے ہیں اس وقت سب نبی اپنی اپنی قبروں میں تھے اور مسجد اقصی میں بھی تھے۔

شیخ اشرف علی تھانوی متوفی ١٣٦٤ ھ لکھتے ہیں :

حضرت آدم (علیہ السلام) جمیع انبیاء میں اس کے قبل بیت المقدس میں بھی مل چکے ہیں اور اسی طرح وہ اپنی قبر میں بھی موجود ہیں اور اسی طرح بقیہ آسمانوں میں جو انبیاء (علیہم السلام) کو دیکھا سب جگہ یہی سوال ہوتا ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ قبر میں تو اصل جسد سے تشریف رکھتے ہیں اور دوسرے مقامات پر ان کی روح کا تمثل ہوا ہے یعنی عنصری جسد سے جس کو صوفیہ جسد مثالی کہتے ہیں روح کا تعلق ہوگیا اور اس جسد میں تعدد بھی اور ایک وقت میں روح کا سب کے ساتھ تعلق بھی ممکن ہے لیکن ا کے اختیار سے نہیں بلکہ محض بہ قدرت و مشیت حق۔ (نشر الطیب ص ٦٤، ٦٥، مطبوعہ تاج کمپنی لمیٹڈ کراچی)

خاصہ یہ ہے کہ مسجد اقصی میں آپ کے تشریف لے جانے کی وجہ سے یہ معلوم ہوگیا کہ انبیاء علہیم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہوتے ہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں اور ایک وقت میں کئی جگہ بھی ہوتے ہیں اسی مفہوم کو بعض علماء حاضر و ناظر سے بھی تعبیر کرتے ہیں لیکن اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) ہر وقت ہر جگہ موجود ہوتے ہیں، ہر وقت ہر جگہ موجود ہونا اور ہر وقت ہر چیز کا علم ہونا یہ صرف اللہ تعالیٰ کی شان ہے۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بعض نشانیاں دکھانا :

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جس کے اردگرد ہم نے برکتیں دی ہیں، تاکہ ہم اس (عبد مکرم) کو اپنی بعض نشانیاں دکھائیں مسجد اقصی کے اردگرد جو برکتیں ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں کہ مسجد اقصی تمام انبیاء سابقین کی عبادت گاہ ہے اور ان کا قبلہ ہے، اس میں بکثرت دریا اور درخت ہیں، اور یہ ان تین مساجد میں سے ہے جن کی طرف قصدا رخت سفر باندھا جاتا ہے، اور یہ ان چار مقامات میں سے ہے جہاں دجال کا داخلہ ممنوع ہے، امام احمد نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ دجال تمام روئے زمین میں گھومے گا، سوا چار مساجد کے، مسجد مکہ، مسجد مدینہ، مسجد اقصی اور مسجد طور، اور اسمیں ایک نماز پڑھنے کا اجر پچاس ہزار نماوں کے برابر ہے۔ (سنن ابن ماجہ) اور امام ابو داؤد اور امام ابن ماجہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باندی حضرت میمونہ سے روایت کیا ہے انہوں نے کہا یا نبی اللہ ! ہمیں بیت المقدس کے بارے میں بتائیں، آپ نے فرمایا اس جگہ حشر نشر ہوگا، اس جگہ آکر نماز پڑھو کیونکہ اس جگہ ایک نماز پڑھنے کا اجر ایک ہزار نمازوں برابر ہے، نیز امام احمد نے نبی صلی الہ علیہ وسلم کی بعض ازواج سے روایت کیا ہے انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! ہم میں سے کوئی بیت المقدس حاضر ہونے کی طاقت نہیں رکھتا، آپ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی وہاں حاضر ہوسکے تو وہاں زیتون کا تیل بھیج دے جس سے وہاں چراغ چلایا جائے، اس مسجد میں چراغ جلانے کا اجر بھی وہاں نماز پڑھنے کے برابر ہے، اور امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے کہ مسجد اقصی وہ دوسری مسجد ہے جس کو روئے زمین پر بنایا گیا ہے حضرت ابو ذر روایت کرتے ہیں میں نے پوچھا یا رسول اللہ ! زمین میں سب سے پہلی کون سی مسجد بنائی گئی ؟ آپ نے فرمایا مسجد الحرام، میں نے کہا پھر کون سی ؟ آپ نے فرمایا مسجد الاقصی، میں نے پوچھا ان کے درمیان کتنی مدت ہے ؟ آپ نے فرمایا چالیس سال، پھر تمہیں جہاں بھی موقع ملے تم نماز پڑھ لو، حضرت ابراہیم کے کعبہ کو تعمیر کرنے کے بعد حضرت یعقوب نے مسجد اقسی کو تعمیر کیا اور پھر حضرت سلیمان نے اس کی تجدید کی۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا تاکہ ہم ان کو اپنی بعض نشانیاں دکھائیں، یعنی تاکہ ہم آپ کو آسمانوں کی طرف لے جائیں تاکہ ہم اس میں بہت عجیب و غریب امور دکھائیں، حدیث صحیح میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت المقدس کے پتھر سے آسمانوں کی طرف چڑھ کر گئے اور ہر آسمان میں آپ کی ایک نبی سے ملاقات ہوئی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنت اور دوزخ کے احوال سے مطلع ہوئے اور آپ نے فرشتوں کو دیکھا جن کی تعداد کے بارے میں اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت المقدس میں انبیاء (علیہم السلام) کو دو رکعت نماز پڑھائی پہلی رکعت میں قل یا ایھا الکافرون اور دوسری میں سورة اخلاص پڑھی، انبیاء (علیہم السلام) کی سات صفیں تھیں اور تین صفیں مرسلین کی تھیں اور فرشتوں نے بھی ان کے ساتھ نماز پڑھی، اور یہ آپ کی خصوصیت ہے اور اس میں یہ حکمت تھی کہ ظاہر کیا جائے کہ آپ سب کے امام ہیں، اس میں اختلاف ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) نے اپنی روحوں کے ساتھ نماز پڑھی یا جسموں کے ساتھ، اس میں بھی اختلاف ہے کہ یہ نماز آسمانوں کی طرف جاتے ہوئے پڑھی یا واپسی میں۔ حافظ ابن کثیر نے کہا واپسی میں پڑھی اور قاضی عیاض نے کہا پہلے پڑھی، ایک روایت میں یہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر آسمان میں دو رکعت نماز پڑھی اور وہاں کے فرشتوں کی امامت فرمائی، آپ کا رات کو جانا اور آسمانوں کی طرف عروج رات کے ایک حصہ میں ہوا، وہ ایک حصہ کتنی دیر پر مشتمل تھا اس کی مقدار معلوم نہیں ہے۔

بعض روایات میں ہے کہ جب آپ واپس آئے تو بستر اسی طرح گرم تھا، آپ کے عمامہ کے ٹکرانے سے جو درخت کی شاخیں ہلیں تھیں وہ اسی طرح ہل رہی تھیں، آپ کو پہلے بیت المقدس لے جایا گیا اور پھر آسمانوں کی طرف عروج کرایا گیا، تاکہ بتدریج بلند مقامات کی طرف عروف ہو اور عجیب و غریب امور دیکھنے کے لیے آپ مرحلہ وار مانوس ہوں اور آپ کے آنے اور جانے سے محشر کی زمین مشرف ہوجائے، کعب احبار نے بیان کیا ہے کہ آسمان دنیا سے بیت المقدس کی طرف ایک دروازہ کھلا ہوا ہے اور اس دروازے سے ہر روز ستر ہزار فرشتے نازل ہوتے ہیں اور جو شخص بیت المقدس میں آئے اور نماز پڑھے اس کے لیے استغفار کرتے ہیں اس لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہلے بیت المقدس لے جایا گیا پھر آسمانوں کی طرف عروف کرایا گیا، ایک قول یہ ہے کہ بیت القمدس کا ہر ستون یہ دعا کرتا تھا کہ اے ہمارے رب ہمیں ہر نبی کی زیارت کا شرف حاصل ہوا ہے، اب ہم سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت کے مشتاق ہیں، ہمیں آپ کی زیارت کا شرف عطا فرما تو پہلے آپ کو بیت المقدس لے جایا گیا تاکہ ان کی دعا قبول ہو پھر آپ کو آسمانوں کی طرف عروج کرایا گیا اور اس ناکارہ کا گمان یہ ہے کہ آپ نے بیت المقدس میں نماز پڑھی تاکہ آپ کی امت کے لیے بیت المقدس میں نماز پڑھنے کا نمونہ قائم ہو اور آپ کی سنت ہوجائے جیز یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بیت المقدس میں نماز پڑھنے کا ثواب جو پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہوا ہے اس کی وجہ یہی ہو کہ آپ نے وہاں نماز پڑھی ہے، ورنہ یہ مسجد تو بہت پہلے سے بنی ہوئی تھی، لیکن اس میں نماز پڑھنے کا اجر وثواب پہلے اتنا نہ تھے ا۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے من تبعیضیہ داخل کر کے اس پر متنبہ کیا ہے کہ آپ کو بعض نشانیاں دکھائی گئی ہیں تمام نشانیاں نہیں دکھائی گئیں کیونکہ تمام نشانیاں تو غیر متناہی ہیں اور جسم متناہی غیر متناہی نشانیوں کو نہیں دیکھ سکتا۔ (روح المعانی ج ١٥، ص ١٧، ١٨، مطبوعہ دار الفکر بیروت، ١٤١٧ ھ)

علامہ شہاب الدین خفا جی نے ان نشانیوں کے بیان کے بارے میں لکھا ہے، مثلا رات کے ایک قلیل وقفہ میں آپ کا بیت المقدس پہنچ جانا، اور آپ کے سامنے بیت المقدس کو منکشف کردینا جب مشرکین نے آپ سے بیت المقدس کی نشانیوں کے متعلق پوچھا، اور تمام انبیاء (علیہم السلام) کا متمثل ہو کر بیت المقدس میں آنا اور آپ کا ان کو نماز پڑھانا اور ہر نبی کا اپنے مقام کے اعتبار سے کسی آسمان میں موجود ہونا۔

اس جگہ یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو آسمانوں اور زمینوں کی تمام نشانیاں دکھائیں ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

وکذلک نری ابراہیم ملکوت السموات والارض۔ (الانعام : ٧٥) اور اسی طرح ہم نے ابراہیم کو آسمانوں اور زمینوں کی تمام نشانیاں دکھائیں۔ 

اور ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بعض نشانیاں دکھائیں، اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم کو جو بعض نشانیاں دکھائی گئیں ان کا تعلق توحید کے دلائل کے ساتھ ہے اور آپ کو جو بعض نشانیاں دکھائی گئیں ہیں ان کا تعلق معراج کے ساتھ ہے، دوسرا جواب یہ ہے کہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو بعض نشانیاں دکھائی گئیں وہ ان تمام نشانیوں سے بڑھ کر ہیں جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو دکھائی گئیں تھیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

لقد رای من ایت ربہ الکبری۔ (النجم : ١٨) بیشک انہوں نے اپنے رب کی بہت بڑی نشانیاں ضرور دیکھی ہیں۔

اس آیت کے آخر میں فرمایا : بیشک وہی بہت سننے والا بہت دیکھنے والا ہے۔ 

اس کے دو محمل ہیں۔ (١) اللہ تعالیٰ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتوں کو بہت سننے والا اور آپ کو بہت دیکھنے والا ہے۔ (٢) سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے کلام کو سننے والے اور اس کے جمال کو دیکھنے والے ہیں۔ (عنایت القاضی ج ٦، ص ١٢، ١٣، مطبوعہ دار الفکر بیروت، ١٤١٧ ھ)

رات کے ایک قلیل وقفہ میں معراج کا ہونا :

علامہ علائی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ شب معراج نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سفر کے پانچ مرحلے تھے۔ پہلا مرحلہ براق پر سوار ہو کر مسجد اقصی تک، دوسرا مرحلہ معراج (سیڑھی) پر چڑھ کر آسمان دنیا تک، تیسرا مرحلہ فرشتوں کے پروں پر سوار ہو کر ساتویں آسمان تک، چوتھا مرحلہ حضرت جبریل (علیہ السلام) کے پروں پر سوار ہو کر سدرۃ المنتہی تک، پانچواں مرحلہ رفرف پر سوار ہو کر قاب قوسین تک، آپ کو براق، معراج، فرشتوں کے پروں اور حضرت جربیل کے پروں پر سوار کرانے کی حکمت یہ تھی کہ آپ کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک عزت، وجاہت اور کرامت کو ظاہر کیا جائے ورنہ اللہ سبحانہ س پر قاسر ہے کہ آپ کو پلک جھپکنے سے پہلے جہاں چاہے بغیر کسی سواری کے ذریعہ پہنچا دے، ایک قول یہ ہے کہ براصرف مسجد حرام سے مسجد اقصی تک تھا اور مسجد اقصی سے لے کر جہاں تک اللہ تعالیٰ نے چاہا معراج (سیڑھی) تھی اور اس نورانی سیڑھی کے آسمانوں تک سات ڈنڈے تھے، آٹھواں ڈنڈا ساتویں آسمان سے لے کر سدرۃ المنتہی تک تھا، اور نواں ڈنڈا مقام مستوی تک تھا جہاں پر قلم چلنے کی آواز سنائی دیتی ہے اور دسواں ڈنڈا صریف الاقلام سے لے کر عرش تک تھا۔

ظاہر یہ ہے کہ شب معراج نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس مسافت کو طے کیا اپنی اصل پر تھی یعنی اس مسافت کو لپیٹ کر کم نہیں کیا گیا، مکہ مکرمہ سے لے کر اس مقام تک جہاں سے آپ کو وحی کی جاتی ہے تین لاکھ سال کی مسافت ہے، ایک قول یہ ہے کہ پچاس ہزار سال کی مسافت ہے، اس کے علاوہ بھی اقوال ہیں اور یہ اس طرح نہیں ہے جس طرح بعض صوفیاء کہتے ہیں کہ مسافت لپیٹ دی جاتی ہے اور فقہا بھی اس کو بطور کرامت ثابت کرتے ہیں۔ (روح المعانی ج ١٥، ص ١٤، ١٦، مطبوعہ دار الفکر بیروت، ١٤١٧ ھ)

اس جگہ یہ سوال ہوتا ہے کہ ایک لمحہ میں اتنی طویل اور عظیم سیر کیسے واقع ہوگئی اس کے جواب میں بعض علماء نے یہ نکتہ بیان کیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہ منزل روح ہیں اور یہ کائنات بہ منزلہ جسم ہے اور جب جسم سے روح نکل جائے تو جسم مردہ ہوجاتا ہے، سو جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کائنات سے نکل گئے تو یہ کائنات مردہ ہوگئی اور جب آپ اس کائنات میں واپس آئے تو یہ کائنات پھر زندہ ہوگئی، آسمانوں، زمینوں، سورج او سیاروں کی گردش جہاں تک پہنچی تھی وہیں پر رک گئی اور جب آپ اس کائنات میں داخل ہوئے تو پھر وہ گردش وہیں سے پھر شروع ہوگئی اور جب آپ گھر آئے تو آپ کا بستر اسی طرح گرم تھا اور زنجیر ہل رہی تھی۔

اس جواب پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ براق، مسجد اقصی، ساتوں آسمان، سدرہ، رفرف اور عرش وغیرہ یہ سب چیزیں بھی تو اس کائنات میں ہیں جب سفر معراج کے دوران یہ کائنات مردہ ہوگئی تھی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مسجد اقصی میں جاکر امامت فرمانا، آسمانوں پر انبیاء (علیہم السلام) سے ملاقات فرمانا اور باقی معراج کے واقعات کیسے ظہور پذیر ہوئے ؟ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جن جن چیزوں کے ساتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معراج کا تعلق تھا ان کو اللہ تعالیٰ نے زندہ اور اپنے حال پر متحرک رکھا اور ان کے علاوہ باقی کائنات کو بےجان اور ساکن کردنا اور جب آپ سفر معراج سے واپس تشریف لائے تو پھر ہر چیز وہیں سے حرکت کرنے لگی جہاں سے آپ چھوڑ کر گئے تھے، اور جب آصف بن برخیا ایک ماہ کی مسافت سے تخت بلقیس کو پلک جھپکنے سے پہلے لاسکتے ہیں تو پلک جھپکنے سے پہلے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عرش پر جاکر لوٹ آنا کیونکر قابل اعتراض ہوسکتا ہے۔

واقعہ معراج کی تاریخ :

بکثرت علماء محدثین نے یہ کہا ہے کہ معراج کا واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے ہوا ہے، علامہ نووی نے زکر کیا ہے کہ متقدمین عظام، جمہور محدثین اور فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ واقعہ معراج بعثت کے سولہ ماہ بعد ہوا، علامہ سبکی نے کہا اس پر اجماع ہے کہ واقعہ معراج مکہ میں ہوا اور مختار وہ ہے جو ہمارے شیخ ابو محمد دمیاطی نے کہا کہ معراج ہجرت سے ایک سال پہلے ہوئی ہے، او سید جمال الدین محدث نے روضہ الاحباب میں لکھا ہے کہ واقعہ معراج ماہ رجب کی ستائیں تاریخ کو ہوا جیسا کہ حرمین شریفین میں اسی پر عمل ہوتا ہے، ایک قول یہ ہے کہ معراج الربیع الآخر میں ہوئی، ایک قول یہ ہے کہ رمضان میں ہوئی، ایک قول یہ ہے کہ شوال میں ہوئی اس کے علاوہ اور بھی متعدد اقوال ہیں۔ (شرح الشفاء علی ہامش نسیم الریاض ج ٢، ص ٢٤٤ )

علامہ آلوسی لکھتے ہیں :

علامہ نووی نے روضۃ میں لکھا ہے کہ اعلان نبوت کے دس سال بعد واقعہ معراج ہوا، اور فتاوی میں ہے کہ نبوت کے پانچویں یا چھٹے سال معراج ہوئی، فاضل ملا امین عمری نے شرح ذات الشفاء میں وثوق سے لکھا ہے کہ بعثت کے بارہ سال بعد معراج ہوئی، اور ابن حزم نے اس پر اجماع کا دعوی کیا ہے، علماہ نووی نے اپنے فتاوی میں لکھا ہے کہ معراج الربیع الآول میں ہوئی، اور شرح مسلم میں لکھا ہے کہ الربیع الآخر میں ہوئی اور روضہ میں وثوق سے لکھا ہے کہ رجب میں ہوئی، ایک قول رمضان کا اور ایک قول شوال کا ہے اور یہ ستائیسویں شب کو واقع ہوئی بعض نے کہا جمعہ کی شب ہوئی بعض نے کہا ہفتہ کی شب ہوئی، علامہ دمیری نے ابن الاثیر سے نقل کیا ہے کہ معراج پیر کی شب پوئی۔ (روح المعانی ج ١٥، ص ٦، ٧، ٩، ١٠، مطبوعہ دار الفکر بیروت، ١٤١٧ ھ)

واقعہ معراج کی ابتدا کی جگہ :

علامہ آلوسی لکھتے ہیں :

اس میں بھی اختلاف ہے کہ معراج کس جگہ ہوئی۔ امام بخاری، امام مسلم، امام ترمذی اور امام نسائی نے حضرت انس سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حطیم کعبہ میں نیند اور بیداری کے عالم میں تھے کہ آپ کے پاس ایک آنے والا آیا اور اس نے آپ کا یہاں سے یہاں تک (گلے سے ناف تک) سینہ چاک کیا۔ الحدیث 

امام نسائی نے حضرت ابن عباس سے اور امام ابو یعلی نے اپنی مسند میں اور امام طبرانی نے معجم کبیر میں حضرت ام ہانی سے یہ روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عشا کی نماز کے بعد ان کے (حضرت ام ہانی فاختہ بنت ابی طالب) کے گھر سوئے ہوئے تھے تو آپ کو معراج کرائی گئی اور اسی شب آپ لوٹ آئے۔ الحدیث (روح المعانی جز ١٥، ص ٨، ٩، مطبوعہ دار الفکر، ١٤١٧ ھ)

ان روایات میں اس طرح تطبیق ہوسکتی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلے حضرت ام ہانی کے گھر سوئے پھر وہاں سے اٹھ کر حطیم کعبہ میں چلے گئے اور وہاں سے سفر معراج شروع ہوا اور چونکہ ابتدا میں آپ حضرت ام ہانی کے گھر تھے اور بعد میں حطیم کعبہ تشریف لے گئے، اس لیے دونوں جگہوں کی طرف معراج کی نسبت کردی گئی۔ بعض روایات میں ہے کہ آپ کے گھر سے معراج ہوئی، اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ام ہانی سے تعلق کی بنا پر آپ نے حضرت ام ہانی کے گھر کو اپنا گھر فرمایا، اس کی مزید تفصیل انشاء اللہ عنقریب آئے گی۔

معراج کی احادیث میں تعارض کی توجیہ :

واقعہ معراج تیس سے زیادہ صحابہ کرام سے مروی ہے اور کسی ایک روایت میں بھی پورا واقعہ مفصل مذکور نہیں ہے صحیح بخاری کی کسی حدیث میں مسجد اقصی جانے کا ذکر نہیں ہے، اس کا ذکر امام مسلم اور امام نسائی نے کیا ہے، کسی روایت میں شق صدر کا ذکر نہیں ہے اور کسی میں براق پر سوار ہونے کا ذکر نہیں ہے، اسی طرح موسیٰ (علیہ السلام) کو قبر میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھنے کا امام بخاری نے ذکر نہیں کیا، اس کا ذکر امام مسلم اور امام نسائی اور دیگر محدثین نے کیا ہے۔ صحاح کی روایات میں برزخ کے واقعات دیکھنے کا ذکر نہیں ہے، اس کا ذکر امام بیہقی، امام ابن جریر، حافظ ابن کثیر، علامہ حلبی اور دیگر محدثین نے کیا ہے، اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے واقعہ معراج متعدد بار صحابہ کرام کے سامنے بیان فرمایا اور ہر شخص کے سامنے آپ نے اس کی صلاحیت اور استعداد کے اعتبار سے معراج بیان فرمایا اس وجہ سے یہ تمام روایات غیر مربوط اور باہم متعارض ہیں۔

اب ہماری یہ کوشش ہے کہ واقعہ معراج کو مختلف کتب حدیث سے اخذ کر کے مربوط طریقہ سے پیش کریں اور جو چیز پہلے ہے اس کو پہلے اور جو بعد میں ہے اس کو بعد میں ذکر کریں، صحاح کی روایات سے واقعہ معراج کو نقل کرنے کے بعد ہم امام بیہقی کے حوالے سے برزخ کے دیکھے ہوئے واقعات پیش کریں گے، اس کے بعد ہم ان احادیث کے اسرار اور نکات بیان کریں گے۔ فنقول وباللہ التوفیق وبہ الاستعانۃ یلیق۔

کتب احادیث کے مختلف اقتباسات سے واقعہ معراج کا مربوط بیان :

امام بخاری روایت کرتے ہیں :

حضرت انس بن مالک، حضرت مالک بن صعصعہ سے نقل کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام سے اس رات کا بیان فرمایا جس میں آپ کو معراج کرائی گئی تھی، آپ نے فرمایا جس وقت میں حطیم میں لیٹا ہوا تھا کہ اچانک میرے پاس ایک آنے والا (فرشتہ) آیا اور اس نے میرا سینہ یہاں سے یہاں تک چاک کردیا، راوی کہتے ہیں میرے پہلو میں جارود تھے میں نے پوچھا : یہاں سے یہاں تک کا کیا مطلب ہے ؟ انہوں نے حلقون سے ناف تک، آپ نے فرمایا پھر میرا دل نکالا، پھر ایک سونے کا طشت لایا گیا جو ایمان (اور حکمت) سے لبریز تھا، پھر میرا دل دھویا گیا، پھر اس کو ایمان اور حکمت سے لبریز کیا گیا پھر اس دل کو اپنی جگہ رکھ دیا گیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٨٨٧)

اور امام بخاری کتاب التوحید میں حضرت انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ :

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد حرام میں سوئے ہوئے تھے کہ تین فرشتے آپ کو مسجد حرام سے اٹھا کر زمزم پر لے گئے، ان فرشتوں کے متولی حضرت جبریل تھے، پھر حضرت جبریل نے آپ کے حلقون اور ناف کے درمیان سینہ کو چاک کیا، پھر اپنے ہاتھ سے دل کو زمزم کے پانی سے دھویا، حتی کہ پیٹ کو صاف کردیا، پھر سونے کا ایک طشت لایا گیا جو ایمان اور حکمت سے بھرا ہوا تھا، پھر ایمان اور حکمت کو سینہ میں بھر دیا اور تمام گوشت رگوں میں ایمان اور حکمت کو سمو دیا گیا پھر یسنہ کو بند کردیا گیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٥١٧)

امام ترمذی روایت کرتے ہیں :

حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ جس رات نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معراج کرائی گئی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس براق لایا گیا جس کو لگام ڈالی ہوئی تھی اور اس پر زین چڑھائی ہوئی تھی، اس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے شوخی سے اچھل کود کی تو اس سے حضرت جبریل نے کہا کیا تم سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اس طرح کر رہے ہو ؟ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بڑھ کر مکرم کوئی شخصیت آج تک تم پر سوار نہیں ہوئی، تب براق تھم گیا اور اس کا پسینہ بہنے لگا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣١٣١)

امام بخاری روایت کرتے ہیں :

حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر میرے پاس ایک سواری لائی گئی جو خچر سے چھوٹی اور گدھے سے بڑی تھی، اس کا رنگ سفید تھا، جارود نے کہا، اے ابو حمزہ ! (حضرت انس) کیا وہ برا تھا ؟ حضرت انس نے کہا ہاں وہ منتہائے نظر پر قدم رکھتا تھا مجھے اس پر سوار کرایا گیا اور جبریل مجھے لے کر چلے گئے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٨٨٧)

امام مسلم روایت کرتے ہیں :

عن انس بن مالک ان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال مررت علی موسیٰ لیلۃ اسری بی عند الکثیب الاحمر وھو قائم یصلی فی قبرہ۔ حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس رات مجھے معراج کرائی گئی میرا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر کثیب احمر کے پاس سے گزر ہوا اس وقت وہ اپنی قبر میں کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣٧٤، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٦٣١)

امام بیہقی روایت کرتے ہیں :

حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ کے اصحاب نے عرض کیا : آپ ہمیں شب معراج کا واقعہ بیان کیجیے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں نے مسجد حرام میں عشا کی نماز پڑھی، پھر میں سوگیا پرھ ایک آنے والا آیا اور اس نے مجھے بیدار کیا، میں بیدار ہوا مجھے کچھ نظر نہ آیا، پھر میں مسجد سے باہر نکلا اور غور سے دیکھا تو مجھے خچر سے مشابہ ایک جانور نظر آیا ان کے کان اوپر کو اٹھے ہوئے تھے اور اس کو براق کہا جاتا ہے، اور مجھ سے پہلے انبیاء (علیہم السلام) اس (قسم کے) جانور پر سواری کرتے تھے وہ منتہائے نظر پر قدم رکھتا تھا، میں اس پر سوار ہوا، جس وقت میں اس پر سواری کر رہا تھا تو مجھے دائیں جانب سے کسی شخص نے آواز دی یا محمد ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں تم سے سوال کرتا ہوں۔ مجھے دیکھو، یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں تم سے سوال کرتا ہوں مجھے دیکھو، میں نے اس کو جواب نہیں دیا اور میں اس کے پاس نہیں ٹھہرا، پھر مجھے اپنی بائیں جانب سے کسی نے آواز دی یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں تم سے سوال کرتا ہوں مجھے دیکھو یا محمد۔ میں تم سے سوال کرتا ہوں مجھے دیکھو، میں نے اس کو بھی جواب نہیں دیا، اور نہ اس کے پاس ٹھہرا، پھر اسی سیر کے دوران ایک عورت انتہائی زینت سے آراستہ اپنی با ہیں کھولے کھڑی تھی اس نے بھی کہا یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں تم سے سوال کرتی ہوں، مجھے دیکھو، میں نے اس کی طرف بھی التفات نہیں کیا نہ اس کے پاس ٹھہرا حتی کہ میں بیت المقدس پہنچ گیا میں نے اس حلقہ میں اپنی سواری کو باندھا جس حلقے میں انبیاء (علیہم السلام) اپنی سواریاں باندھتے تھے پھر جبریل (علیہ السلام) میرے پاس دو برتن لے کر آئے، ایک میں شراب تھی اور دوسرے میں دودھ، میں نے دودھ پی لیا اور شراب کو چھوڑ دیا، حضرت جبریل نے کہا آپ نے فطرت کو پالیا میں نے کہا اللہ اکبر، اللہ اکبر، حضرت جبریل نے پوچھا آپ نے راستہ میں کیا دیکھا تھا ؟ میں نے کہا جب میں جارہا تھا تو دائیں جانب سے ایک شخص نے مجھے پکار کر کہا یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں تم سے سوال کرتا ہوں مجھے دیکھو، میں نے اس کو جواب نہیں دیا اور نہ اس کے پاس ٹھہرا، حضرت جبریل نے کہا یہ بلانے والا یہودی تھا اگر آپ اس کی دعوت پر لبیک کہتے اور اس کے پاس ٹھہرے تو آپ کی امت یہودی ہوجاتی، آپ نے فرمایا جب میں جارہا تھا تو ایک شخص نے مجھے بائیں جانب سے آواز دی یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں تم سے سوال کرتا ہوں مجھے دیکھو، جبریل نے کہا یہ نصاری تھا اگر آپ اس کی دعوت پر لبیک کہتے تو آپ کی امت عیسائی ہوجاتی، آپ نے فرمایا اس سیر کے دوران ایک عورت انتہائی زینت سے آراستہ اپنی با ہیں کھولے کھڑی تھی اس نے بھی کہا، یا محمد، میں تم سے سوال کرتی ہوں مجھے دیکھو میں نے اس کو جواب نہیں دیا اور نہ اس کے پاس ٹھہرا، جبریل نے کہا یہ دنیا تھی اگر آپ اس کو جواب دیتے تو آپ کی امت دنیا کو آخرت پر اختیار کرلیتی۔

آپ نے فرمایا پھر میں اور جبریل (علیہ السلام) بیت المقدس میں داخل ہوئے اور ہم میں سے ہر ایک نے دو رکعت نماز پڑھی پھر میرے پاس ایک معراج (نورانی سیڑھی) لائی گئی جس پر بنو آدم کی روحیں اس وقت چڑھتی ہیں جب تم دیکھتے ہو کہ میت کی آنکھیں آسمان کی طرف کھلی ہوئی ہوتی ہیں، وہ بہت حسین معراج تھی، کسی مخلوق نے ایسی معراج نہ دیکھی ہوگی میں اور جبریل اس معراج پر چڑھے حتی کہ ہماری ملاقات آسمان دنیا کے فرشتے سے ہوئے اس کا نام اسماعیل تھا اس کے ماتحت ستر ہزار فرشتے تھے اور ان میں سے ہر فرشتے کے ماتحت ایک لاکھ فرشتے تھے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

وما یعلم جنود ربک الا ھو۔ (المدثر : ٣١) آپ کے رب کے لشکروں کو صرف وہی (اللہ تعالی) جانتا ہے۔

پھر جبریل نے آسمان کا دروازہ کھلوایا، کہا گیا : یہ کون ہیں ؟ کہا جبریل، پوچھا گیا تمہارے ساتھ کون ہیں ؟ کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوچھا گیا کیا انہیں بلایا گیا ہے ؟ کہا ہاں، آپ نے فرمایا پھر میں نے حضرت آدم کو ان کی اس صورت میں دیکھاجس میں انہیں بنایا گیا تھا ان پر جب ان کی اولاد میں سے مومنین کی روحیں پیش کی جاتیں تو فرماتے یہ پاکیزہ روح ہے اس کو علیین میں لے جاؤ اور جب ان پر ان کی اولاد میں سے کفار کی روحیں پیش کی جاتیں تو فرماتے یہ خبیث روح ہے اس کو سجیین میں لے جاؤ، ابھی میں کچھ ہی چلا ہوں گا کہ میں نے دیکھا کہ دسترخوان بچھے ہوئے ہیں اور ان پر نہایت نفیس بھنا ہوا گوشت رکھا ہے، اور دوسری جانب اور خوان رکھے ہیں جن پر نہایت بدبودار اور سڑا ہوا گوشت رکھا ہے اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو عمدہ گوشت کے تو پاس نہیں جاتے اور سڑا ہوا بدبودار گوشت کھا رہے ہیں، میں نے کہا : اے جبریل یہ کون لوگ ہیں ؟ کہا یہ آپ کی امت کے وہ لوگ ہیں جو حلال کو چھوڑ کر حرام کے پاس جاتے ہیں، پھر میں کچھ آگے چلا تو کچھ اور لوگوں کو دیکھا ان کے پیٹ کوٹھڑیوں کی طرح ہیں ان میں سے جب بھی کوئی اٹھتا تو گرجاتا اور کہتا اے اللہ قیامت کو قائم نہ کرنا، ان کو فرعونی جانور روند رہے تھے اور وہ اللہ تعالیٰ سے فریاد کر رہے تھے، میں نے کہا جبریل یہ کون لوگ ہیں ؟ کہا یہ آپ کی امت میں سے سود کھانے والے ہیں یہ قیامت کے دن اس طرح اٹھیں گے جس طرح آسیب زدہ شخص اٹھتا ہے، پھر میں کچھ آگے چلا تو ایسے لوگوں کو دیکھا جن کے ہونٹ اونٹوں کے ہونٹوں کی طرح تھے ان کے منہ کھول کر ان میں پتھر ڈالے جاتے پھر وہ پتھر ان کے نچلے دھڑ سے نکل جاتے، میں نے ان کو اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتے ہوئے سنا، میں نے کہا جبریل یہ کون لوگ ہیں ؟ کہا یہ آپ کی امت کے وہ لوگ جو ظلما یتیموں کا مال کھاتے تھے دراصل یہ لوگ اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے تھے اور عنقریب یہ لوگ جہنم میں داخل ہوں گے، پھر میں کچھ آگے چلا تو دیکھا کہ کچھ عورتیں اپنے سینوں کے بل لٹکی ہوئی ہیںِ میں نے سنا وہ اللہ تعالیٰ سے فریاد کر رہی تھیں، میں نے کہا جبریل یہ کون عورتیں ہیں ؟ انہوں نے کہا یہ آپ کی امت میں سے زنا کرنے والیاں ہیں پھر میں کچھ اور آگے چلا تو دیکھا کچھ لوگ پہلوؤں سے گوشت کاٹ کاٹ کر ان کے منہ میں ڈالا جارہا ہے اور ان سے کہا جارہا ہے کہ اس کو کھاؤ جیسا کہ تم (دنیا میں) اپنے بھائی کا گوشت کھاتے تھے، میں نے کہا جبریل یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے کہا یہ آپ کی امت میں سے غیبت کرنے والے اور چغلی کرنے والے لوگ ہیں۔ الحدیث (دلائل النبوۃ ج ٢، ص ٣٩٠، ٣٩٣)

اس حدیث کو امام ابن جریر نے سورة اسراء کی تفیسر میں اپنی سند سے روایت کیا ہے اور اس کو امام ابن ابی حاتم نے بھی روایت کیا ہے اس کی سند میں ایک روای ابو ہارون عبدی مترک ہے۔

امام بیہقی روایت کرتے ہیں :

حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سبحان الذی اسری بعبدہ، کی تفسیر میں فرمایا :

میرے پاس ایک گھوڑٰ لائی گئی اور اس پر مجھ کو سوار کرایا گیا، آپ نے فرمایا اس کا قدم منتہائے بصر پر تھا، آپ روانہ ہوئے اور آپ کے ساتھ حضرت جربیل (علیہ السلام) بھی چلے، آپ ایک ایسی قوم کے پاس پہنچے جو ایک دن فصل بوتی تھی اور دوسرے دن وہ فصل کاٹ لیتی تھی اور جس قدر وہ فصل کاٹتے تھے اتنی ہی فصل بڑھ جاتی تھی، آپ نے کہا اے جبریل یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے کہا یہ اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والے ہیں ان کی نیکیوں کو سات سو گنا تک بڑھا دیا گیا ہے، اور تم جو چیز بھی خرچ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ میں اور چیز لے آتا ہے اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے، پھر آپ ایک ایسی قوم کے پاس آئے جن کے سروں کو پتھروں سے کچلا جارہا تھا اور جب سر کچل دیا جاتا تھا تو وہ سر پھر درست ہوجاتا اور ان کو مہلت نہ ملتی (کہ سر پھر کچل دیا جاتا) میں نے کہا اے جبریل یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے کہا یہ وہ لوگ ہیں جن کے سر ( ٖفرض) نماز کے وقت بھاری ہوجاتی تھے، پھر آپ ایک ایسی قوم کے پاس گئے جن کے آگے اور پیچھے کپڑے کی دھجیاں تھیں اور وہ جہنم کے کانٹے دار درخت زقوم کو جانوروں کی طرح چرچگ رہے تھے، اور جہنم کے پتھر اور انگارے کھا رہے تھے، میں نے کہا اے جبریل یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے کہا یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مالوں کی زکوۃ ادا نہیں کرتے تھے، اور اللہ تعالیٰ نے ان پر بالکل ظلم نہیں کیا اور نہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم کرتا ہے، پھر آپ ایک ایسی قوم کے پاس آئے جن کے سامنے دیگچیوں میں پاکیزہ گوشت پکا ہوا رکھا تھا اور دوسری جانب سڑا ہوا خبیث گوشت رکھا ہوا تھا، وہ سڑے ہوئے خبیث گوشت کو کھا رہے تھے اور پاکیزہ گوشت کو چھوڑ رہے تھے، آپ نے کہا جبریل یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے کہا یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس حلال اور طیب بیوی تھی اور وہ اس کو چھوڑ کر رات بھر بدکار عورت کے پاس رہتے تھے، پھر آپ نے دیکھا کہ راستے میں ایک لکڑی ہے جو ہر کپڑے کو پھاڑ دیتی ہے اور ہر چیز کو زخمی کردیتی ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

ولا تقعدوا بکل صراط توعدون۔ (الاعراف : ٨٦) اور ہر راستہ میں اس لیے نہ بیٹھو کہ مسلمانوں کو ڈراؤ۔

آپ نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا یہ آپ کی امت کے ان لوگوں کی مثال ہے جو لوگوں کا راستہ روک کر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جس نے لکڑیوں کا ایک گٹھا جمع کرلیا جس کو وہ اٹھا نہیں سکتا تھا، اور وہ اس گٹھے میں مزید لکڑیاں ڈالنا چاہتا تھا، آپ نے فرمایا اے جبریل یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا یہ آپ کی امت میں سے ہو شخص ہے جس کے پاس امانتیں تھیں اور وہ ان کو ادا نہیں کرسکتا تھا، اور وہ مزید امانتیں رکھ لیتا تھا، پھر آپ ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرے جن کی زبانیں اور ہونٹ آگ کے انگاروں سے کاٹے جاتے تھے اور جب بھی ان کو کاٹ دیا جاتا وہ پھر پہلے کی طرح ہوجاتے اور ان کو ذرا مہلت نہ ملتی، آپ نے کہا اے جبریل یہ کون لوگ ہیں ؟ کہا یہ آپ کی امت کے فتنہ پرور خطیب ہیں، پھر آپ کا گزر ایک چھوٹے پتھر سے ہوا جس کے سوراض سے ایک بڑا بیل نکل رہا تھا، پھر وہ بیل اس سوراخ میں داخل ہونا چاہتا لیکن داخل نہ ہوسکتا، آپ نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا ہی وہ شخص ہے جو کوئی (بڑی بری) بات کہہ کر اس پر نادم ہوتا ہے اس کو واپس لینا چاہتا ہے اور واپس نہیں لے سکتا۔ پھر آپ کا گزر ایک ایسی وادی سے ہوا جہاں سے بہت خوشگوار، ٹھنڈی اور خوشبودار ہوا آرہی تھی، جس میں مشک کی خوشبو تھی، اور وہاں سے آواز آرہی تھی آپ نے پوچھا اے جبریل یہ مشک کی خوشبو والی پاکیزہ ہوا کیسی ہے اور یہ آواز کیسی ہے ؟ انہوں نے کہا یہ جنت کی آواز ہے جو یہ کہہ رہی ہے کہ اے اللہ ! مجھ سے کیا ہوا اپنا وعدہ پورا کر اور مجھے میرے اہل عطا فرما، کیونکہ میری خوشبو، میرا ریشم، میرا سندس، اور استبرق، میرے موتی، میرے مرجان، میرے مونگے، میرا سونا اور چاندی، میرے کو زے اور کٹورے، میرا شہد، میرا دودھ، اور میری شراب بہت زیادہ ہوگئے ہیں پس تو اپنے وعدہ کے مطابق مجھے اہل جنت عطا فرما، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تیریے لیے ہر مسلم اور ہر مسلمہ ہے اور ہر مومن اور ہر مومنہ ہے جو مجھ پر اور میرے رسولوں پر ایمان لائیں اور اعمال صالحہ کریں اور میرے ساتھ بالکل شرک نہ کریں اور میرے سوا کسی کو شریک نہ بنائیں اور جو مجھ سے ڈریں گے میں ان کو امان دوں گا اور جو مجھ سے سوال کریں گے میں ان کو عطا کروں اور جو مجھے قرض دیں گے میں ان کو جزا دوں گا اور جو مجھ پر توکل کریں گے میں ان کے لیے کافی ہوں اور میں اللہ ہوں، میرے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں میں وعدہ کے خلاف نہیں کرتا، جنت نے کہا میں راضی ہوگئی۔ 

پھر آپ ایک ایسی وادی میں آئے جہاں سے نہایت بری، بھیانک اور مکروہ آوازیں آرہی تھیں، آپ نے فرمایا اے جبریل یہ کیسی آوازیں ہیں، انہوں نے کہا یہ جہنم کی آواز ہے جو کہہ رہی ہے مجھے اہل دوزخ عطا کر جن کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا ہے، کیونکہ میرے طوق میری زنجیریں، میرے شعلے اور میری گرمی، میرا تھور، میرا لہو اور پیپ اور میرے عذاب اور سزا کے اسباب بہت وافر ہوگئے ہیں، میری گہرائی بہت زیادہ ہے، اور میری آگ بہت تیز ہے، مجھے وہ لوگ دے جن کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا ہوا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہر مشرک اور کافر، خبیث اور منکر بےایمان مرد اور عورت تیرے لیے ہے یہ سن کر جہنم نے کہا میں راضی ہوگئی۔

آپ نے فرمایا پھر آپ روانہ ہوئے حتی کہ بیت المقدس پر آئے اور آپ نے ایک پتھر کے پاس اپنی سواری باندھی، پھر آپ بیت المقدس میں داخل ہوئے اور فرشتوں کے ساتھ نماز پڑھی، پھر جب آپ نے نماز پڑھ لی تو انہوں نے کہا اے جبریل یہ آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ انہوں نے کہا یہ (سیدنا) محمد رسول اللہ ہیں اور خاتم النبیین ہیں، انہوں نے پوچھا کیا انہیں بلایا گیا ہے ؟ جبریل نے کہا ہاں، انہوں نے کہا اللہ ہمارے بھائی اور ہمارے خلیفہ کو سلامت رکھے وہ اچھے بھائی اور اچھے خلیفہ ہیں، انہیں خوش آمدید ہو، پھر انبیاء (علیہم السلام) کی روحیں آئیں، انہوں نے اپنے رب کی ثنا کی، پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا :

الحمدللہ الذی اتخذ ابراہیم خلیلا واعطانی ملکا عظیما وجعلنی امۃ قانتا للہ یوتم بی وانقدنی من النار وجعلھا علی برداوسلاما۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جس نے ابراہیم کو خلیل بنایا اور جس نے مجھے عظیم ملک دیا اور مجھے اللہ سے ڈرنے والی امت بنایا، میری پیروی کی جاتی ہے اور مجھے آگ سے بچایا اور اس آگ کو میرے لیے ٹھنڈی اور سلامتی کردیا۔

پھر حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اپنے رب کی ثنا کرتے ہوئے کہ :

الحمدللہ الذی خولنی ملکا وانزل علی الزبور والان لی الحدید وسخرلی الطیر والجبال و اتانی الحکمۃ فصل الخطاب۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے حکومت کی نعمت دی اور مجھ پر زبور نازل کی اور لوہے کو میرے لیے نرم کردیا اور پرندوں اور پہاڑوں کو میرے لیے مسخر کردیا اور مجھے حکمت دی اور فیصلہ سنانے کا منصب دیا۔

پھر حضرت سلیمان نے اپنے رب کی ثنا کرتے ہوئے فرمایا :

الحمدللہ الذی سخرلی الریاح والجن والانس وسخر لی الشیاطین یعملون ما شئت من محاریب و تماثیل الایۃ وعلمنی منطق الطیر وکل شیئ واسال لی عین القطر و اعطانی ملکا عظیما لا ینبغی لاحد من بعدی۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے میرے لیے ہواؤں کو، جنوں کو اور انسانوں کو مسخر کردیا، اور میرے لیے شیاطین کو مسخر کردیا، جو عمارتیں اور مجسمے بناتے تھے اور مجھے پرندوں کی بولی سکھائی اور ہر چیز سکھائی، اور میرے لیے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہایا، اور مجھے ایسا عظیم ملک دیا جو میرے بعد کسی اور کے لیے سزاوار نہیں ہے۔

پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب کی ثنا کرتے ہوئے کہا :

الحمدللہ الذی علمنی التوراۃ والانجیل وجلعنی ابری الاکمہ والابرص واحی الموتی باذنہ ورفعنی و طھرنی من الذین کفروا و اعاذنی وامی من الشیطان الرجیم فلم یکن للشیطان علیھا سبیل۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے تورات اور انجیل کی تعلیم دی اور مجھے مادر زاد اندھوں اور برص والوں کو ٹھیک کرنے والا بنایا، اور میں اس کے اذن سے مردوں کو زندہ کرتا ہوں اور مجھے آسمان پر اٹھایا اور مجھے کفار سے نجات دی اور مجھے اور میری والدہ کو شیطان رجیم سے محفوظ رکھا، اور شیطان کا ان پر کوئی زور نہیں ہے۔ 

(بقیہ تفسیر اگلی آیت میں ملاحظہ کریں)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء آیت نمبر 1