أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَّجَعَلۡنَا عَلٰى قُلُوۡبِهِمۡ اَكِنَّةً اَنۡ يَّفۡقَهُوۡهُ وَفِىۡۤ اٰذَانِهِمۡ وَقۡرًا‌ ؕ وَاِذَا ذَكَرۡتَ رَبَّكَ فِى الۡقُرۡاٰنِ وَحۡدَهٗ وَلَّوۡا عَلٰٓى اَدۡبَارِهِمۡ نُفُوۡرًا‏ ۞

ترجمہ:

اور ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں تاکہ وہ اسے سمجھ نہ سکیں اور ان کے کانوں میں ڈاٹ ہے، اور جب آپ قرآن میں صرف اللہ وحدہ کا ذکر کرتے ہیں تو وہ اعراض کرتے ہوئے پیٹھ موڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں تاکہ وہ اسے سمجھ نہ سکیں اور ان کے کانوں میں ڈاٹ ہے، اور جب آپ قرآن میں صرف اللہ وحدہ کا ذکر کرتے ہیں تو وہ اعراض کرتے ہوئے پیٹھ موڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔ (بنی اسرائیل : ٤٦ )

اس آیت پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں اور ان کے کانوں میں ڈاٹ لگا دی ہے تو پھر وہ ایمان نہ لانے میں معذور ہیں، تو اب ایمان نہ لانے پر ان کی مذمت کرنے کی کیا توجیہ ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان کافروں نے اپنے بغض اور عناد سے اللہ عتالی کی جناب میں یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں اتنی گستاخی کی جس کی سزا کے طور پر اللہ تعالیٰ نے ان کو ہدایت سے محروم کردیا، ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے اور ان کے کانوں میں ڈاٹ لگا دی۔

اس آیت کی مکمل تفسیر ہم نےالانعام : ٢٥میں کردی ہے، دیکھیے تبیان القرآن ج ٣ ص ٤٢٣۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء آیت نمبر 46