أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

ثُمَّ اَتۡبَعَ سَبَبًا‏ ۞

ترجمہ:

پھر وہ ایک اور مہم پر چل پڑے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : پھر وہ ایک اور مہم پر چل پڑے حتی کہ جب وہ دو پہاڑوں کے درمیان پہنچے تو ان کے پار انہوں نے ایک ایسی قوم دیکھی جو (ان کی) کوئی بات نہیں سمجھتی تھی انہوں نے کہا اے ذوالقرنین ! بیشک یاجوج اور ماجوج زمین میں فساد کررہے ہیں تو کیا ہم آپ کو کچھ سامان مہیا کردیں کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط دیوار بنادیں انہوں نے کہا میرے رب نے مجھے جن چیزوں پر قدرت دی ہے وہ زیادہ بہتر ہیں سو تم صرف محنت سے میری مدد کرو میں تمہارے اور ان کے درمیان بہت مضبوط دیوار بنا دوں گا تم میرے پاس لوہے کی چادریں لائو حتیٰ کہ جب اس دیوار کو ان دو پہاڑوں کے برابر کردیا (تو) کہا آگ کو خوب دہکائو یہاں تک کہ لوہے کی ان چادروں کو آگ بنادیا (پھر) کہا میرے پاس پگھلا ہوا تانبا لائو جو میں اس پر انڈیل دوں پھر یاجوج اور ماجوج اس دیوار پر نہ چڑھ سکے اور نہ اس دیوار میں سوراخ کرسکے انہوں نے کہا یہ میرے رب کی رحمت (سے نبی) ہے اور جب میرے رب کے وعدہ کا وقت آئے گا تو وہ اس (دیوار) کو ریزہ ریزہ کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے اور اس دن ہم ان کے بعضوں کو اس طرح چھوڑ دیں گے کہ وہ تیز موجوں کی طرح ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہوں گے، صور پھونک دیا جائے گا پھر ہم ان سب کو جمع کرلیں گے اور اس دن ہم دوزخ کو کافر پر پیش کردیں گے جن کی آنکھیں میری یاد سے پردے میں رہیں اور وہ (حق کو) سننے کی طاقت نہیں رکھتے تھے (الکھف :92-101)

ذوالقرنین کا تیسرا سفر بہ جانب شمال 

تیسری لشکر کشی اس نے اس علاقہ تک کی جہاں یاجوج ماجوج کے حملے ہوا کرتے تھے۔ یہ یقینا اس کی شمالی مہم تھی جس میں وہ بحر خزر (کاسپین) کو دہنی طرف چھوڑتا ہوا کا کیشیا کے سلسلہ کوہ تک پہنچ گیا تھا اور وہاں اسے ایک درہ ملا تھا جو دو پہاڑی دیواروں کے درمیان تھا۔ اسی راہ سے یاجوج ماجوج آ کر اس طرف کے علاقہ میں تاخت و تاراج کیا کرتے تھے اور یہیں اس نے سد تعمیر کی۔

قرآن نے اس مہم کا حال ان لفظوں میں بیان کیا ہے کہ حتی اذا بلغ بین الدین وجد من دولھما قوما لایک دون یفقھون قولا (٩٣) یہاں تک وہ دو (پہاڑی) دیواروں کے درمیان پہنچ گیا ان کے اس طرف اسے ایک قوم ملی جو کوئی بات بھی سمجھ نہیں سکتی تھی۔ پس صاف معلوم ہوتا ہے ” سدین “ سے مقصود کا کیشیا کا پہاڑی درہ ہے کیونکہ اس کے دہنی طرف بحر خزر ہے جس نے شمال اور مشرق کی راہ روک رکھی ہے۔ بائیں جانب بحر اسود ہے جو شمال مغرب کے لئے قدرتی روک ہے۔ درمیانی علاقے میں اس کا سربہ فلک سلسلہ کوہ ایک قدرتی دیوار کا کام دے رہا ہے، پس اگر شمالی قبائل کے حملوں کے لئے کوئی راہ باقی رہی تھی تو وہ صرف اس سلسلہ کوہ کا ایک عریض درہ یا وسطی وادی تھی اور یقینا وہیں سے یاجوج ماجوج کو دوسری طرف پہنچنے کا موقع ملتا تھا۔ اس راہ کے بند ہوجانے کے بعد نہ صرف بحر خزر سے لے کر بحر اسود تک کا لعقاہ محفوظ ہوگیا بلکہ سمندروں اور پہاڑوں کی ایک ایسید یوار قائم ہوگئی جس نے تمام مغربی ایشیا کو اپنی پاسبانی میں لے لیا اور شمال کی طرف سے حملے کا کوئی خطرہ باقی نہ رہا اب ایران، شام، عراق، عرب، ایشیائے کو چک، بلکہ مصر بھی شمال کی طرف سے بالکل محفوظ ہوگیا تھا۔

نقشہ میں یہ مقام دیکھو۔ تمام مغربی ایشیا نیچے ہے اوپر شمال میں بحرخزر ہے۔ اس سے بائیں جانب شمال مغرب میں بحر اسود ہے۔ درمیان میں بحر خزر کے مغربی ساحل سے بحر اسود کے مشرقی ساحل تک کا کیشیا کا سلسلہ کوہ چلا گیا ہے۔ ان دو سمندروں اور درمیان کے سلسلہ کوہ نے مل کر سینکڑوں میلوں تک ایک قدرتی روک پیدا کردی ہے، اب اس روک میں اگر کوئی شگاف رہ گیا تھا جہاں سے شمالی اقوام کے قدم اس روک کو پھلاگن سکتے تھے تو وہ صرف یہی دو پہاڑوں کے درمیان کی راہ تھی ذوالقرنین نے اسے بھی بند کردیا اور اس طرح شمال اور مغربی ایشیا کا یہ درمانی پھاٹک پوری طرح مقفل ہوگیا۔

باقی رہا یہ سوال کہ وہاں جو قوم ذوالقرنین کو ملی تھی اور جو بالکل ناسمجھ تھی وہ کونسی قوم تھی ؟ تو اس سلسلہ میں دو قومیں نمایاں ہوتی ہیں اور دونوں کا اس زمانہ میں ووہاں قریب قریب آباد ہونا تاریخ کی روشنی میں آچکا ہے۔ پہلی قوم وہ ہے جو بحر خزر کے مشرقی ساحل پر آباد تھی۔ اسے یونانی مئورخوں نے ” کا سپین “ کے نام سے پکارا ہے اور اسی کے نام سے بحر خزر کا نام بھی ” کا سپین “ پڑگیا۔ دوسری قوم وہ ہے جو اس مقام سے آگے بڑھ کر عین کا کیشیا کے دامن میں آباد تھی۔ یونانیوں نے اسے ” کو لچی “ یا ” کول شی “ کے نام سے پکارا ہے۔ 

اور دارا کے کتبہ اس طرح میں اس کا نام ” کو شیہ “ آیا ہے انہیں دو قموں میں سے کسی نے یا دونوں قوموں نے ذوالقرنین سے یاجوج ماجوج کی شکایت کی ہوگی اور چونکہ یہ غیر متمدن قومیں تھیں اس لئے ان کی نسبت فرمایا : لایکادون یفقھون قولا۔ (ترجمان القرآن ج ٢ ص 407-408 مطبوعہ اسلامی اکادمی لاہور، 1976 ھ)

سورۃ الکھف :92 دو اہم چیزوں کا ذکر فرمایا ہے ایک یاجوج ماجوج کا ذکر ہے اور دوسرا ذکر سید ذوالقرنین کا ہے یعنی وہ پہاڑوں کے درمیان جو ذوالقرنین نے دیوار بنائی تھی۔ اب ہم ان دو چیزوں کی تفصیل کریں گے۔ پہلے یاجوج اور ماجوج کے متعلق احادیث ذکر کریں گے اور پھر ان کے متعلق قدیم اور جدید علماء کی آراء کا ذکر کریں گے۔ اس کے بعد سید ذوالقرنین کے متعلق تحقیق کریں گے۔

یاجوج ماجوج کے متعلق احادیث 

حضرت زینب بنت حجش (رض) بیان کرتی ہیں کہ ایک دن ان کے پاس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھبرائے ہوئے آئے اور آپ فرما رہے تھے عربوں کے لئے اس شر سے ہلاکت ہے جو قریب پہنچ چکا ہے۔ آج یاجوج ماجوج کے سد (بند) سے اتنا کھل یا ہے آپ نے اپنے انگوٹھے اور اس کے ساتھ والی انگلیک و ملا کر دائرہ بنایا۔ حضرت زینب بنت حجش نے کہا یا رسول اللہ کیا ہم میں نیک آدمی ہوں گے اس کے باوجود ہم ہلاک ہوجائیں گے آپ نے فرمایا : ہاں ! جب خبیث کام بہت ہوجائیں گے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :7135، صحیح مسلم رقم الحدیث :288، سنن الترمذی رقم الحدیث :2187 سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :3953)

حضرت نواس بن سمعان (رض) بیان کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ یاجوج اور ماجوج کو بھیجے گا اور وہ ہر بلندی سے بہ سرعت پھسلتے ہوئے آئیں گے ان کی پہلی جماعتیں طبرستان سے گزریں گی اور وہاں کا تمام پانی پی جائیں گی، پھر جب دوسری جماعتیں وہاں سے گزریں گی تو وہ کہیں گی یہاں پر کسی وقت پانی تھا، اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ اور ان کے اصحاب محصور ہوجائیں گے حتیٰ کہ ان میں سے کسی ایک کے نزدیک بیل کی سری بھی تم میں سے ایک کے سو دینار سے افضل ہوگی۔ پھر اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ اور ان کے اصحاب دعا کریں گے۔ تب اللہ تعالیٰ یاجوج اور ماجوج کی گردنوں میں ایک کیڑا پیدا کرے گا پھر صبح کو وہ سب دفعتاً مرجائیں گے۔ پھر اللہ کے نبی اور ان کے اصحاب زمین پر اتریں گے مگر زمین پر ایک بالشت برابر جگہ بھی ان کی گندگی اور بدبو سے خالی نہیں ہوگی۔ پھر اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ اور ان کے اصحاب اللہ سے دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ بختی اونٹوں کی مانند پرندے بھیجے گا یہ پرندے ان لاشوں کو اٹھائیں گے اور جہاں اللہ تعالیٰ کا حکم ہوگا وہاں پھینک دیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ ایک بارش بھیجے گا جو زمین کو دھوے گی اور ہر گھر خواہ وہ مٹی کا مکان ہو یا کھال کا خیمہ وہ آئینہ کی طرف صاف ہوجائے گا پھر زمین سے کا جائے گا تم اپنے پھل اگائو اور اپنی برکتیں لوٹائو، سو اس دن ان کی ایک جماعت ایک انار کو (سیر ہوکر) کھالے گی، اور ایک دودھ دینے والی گائے لوگوں کے ایک قبیلہ کے لئے کافی ہوگی اور دودھ دینے والی بکری ایک گھر والوں کے لئے کافی ہوگی۔ اسی دوران اللہ تعالیٰ ایک پاکیزہ ہوا بھیجے گا جو لوگوں کی بغلوں کے نیچے لگے گی اور وہ ہر مومن اور ہر مسلم کی روح قبض کرلے گی اور برے لوگ باقی رہ جائیں گے جو گدھوں کی طرح کھلے عام جنسی عمل کریں گے اور ان ہی پر قیامت قائم ہوگی۔ (صحیح مسلم، کتاب الغنن رقم الحدیث 110 رقم بلاتکرار :2937 الرقم المسلسل :7239، سنن ابودائود رقم الحدیث :4321، سنن الترمذی رقم الحدیث 2440 سنن ابن ماجہ رقم الحدیث 4075-4076)

حضرت جابر (رض) سے بھی یہ حدیث مروی ہے اس میں یہ جملہ بھی ہے پھر یاجوج اور ماجوج خمر کے پہاڑ کے پاس پہنچیں گے یہ بیت المقدس کا پہاڑ ہے۔ وہ کہیں گے ہم نے زمین والوں کو تو قتل کردیا۔ اب آسمان والوں کو قتل کریں پھر وہ آسمان کی طرف تیر پھینکیں گے اللہ تعالیٰ ان کے تیروں کو خون آلودہ کر کے لوٹا دے گا۔ (صحیح مسلم، کتاب الفتن، رقم الحدیث :111 رقم الحدیث المسلسل :7230)

یاجوج اور ماجوج کے متعلق قدیم علماء کی آراء 

حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی 852 ھ لکھتے ہیں۔

ضحاک نے کہا یاجوج اور ماجوج ترک میں سے ہیں۔ کعب سے روایت ہے کہ یاجوج ترک سے ہیں اور ماجوج ویلم سے ہیں ان کی صفت کے متعلق امام ابن عدی، امام ابن ابی حاتم اور امام طبرانی نے اوسط میں روایت کیا ہے حضرت حذیفہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یاجوج ایک امت ہے اور ماجوج ایک اور امت ہے۔ ہر امت میں چار لاکھ نفر ہیں، ان میں سے ایک شخص فوت ہوتا ہے تو اس کی صلب سے ایک ہزار نر پیدا ہوجاتے ہیں اور وہ سب مسلح ہوتے ہیں۔ امام ابن عدی نے کہا یہ حدیث موضوع ہے امام ابن ابی حاتم نے کہا اس حدیث میں ایک راوی العطار منکر الحدیث ہے۔ امام حاکم اور امام ابن مردکیہ نے حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت کیا ہے کہ یاجوج اور ماجوج حضرت آدم (علیہ السلام) کی ذریت میں سے ہیں اور امام ابن ابی حاتم نے حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت کیا ہے کہ جن اور انس دس میں سے ایک ہیں اور یاجوج اور ماجوج دس میں سے نو ہیں۔ کعب سے روایت ہے کہ ان کا قد بہت اونچے درخت کی مانند ہے اور حاکم کی حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ یاجوج اور ماجوج ایک ایک بالشت کے اور دو دو بالشت کے ہیں اور ان میں سے طویل ترین تین بالشت کے ہیں اور حضرت ابوہریرہ (رض) نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : حضرت نوح کے تین بیٹے پیدا ہوئے سام، حام اور یافث، سام سے عرب، روم اور فارس پیدا ہوئے اور حام سے قبطی، بربر اور حبشی پیدا ہوئے اور یافت کے یاجوج، ماجوج، ترک اور صقالیہ پیدا ہوئے۔ اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔ اور سعید بن بشیر قتادہ سے روایت کرتے ہیں کہ یاجوج اور ماجوج بائیس قبیلے ہیں۔ ذوالقرنین نے ان میں سے اکیس قبیلوں پر سد بنائی ہے ان میں سے ایک قبیلہ اس وقت لڑنے کے لئے گیا ہوا تھا وہ ترک ہیں اور وہ اس سد سے باہر ہیں اور علامہ نووی نے اپنے فتاوی میں یہ روایت ذکر کی ہے کہ یاجوج ماجوج حضرت آدم کی اولاد ہیں مگر وہ حوا سے پیدا نہیں ہوتے ہیں وہ ہمارے علاقی بھائی ہیں۔ سلف نے اس قول کو صرف کعب احبار سے روایت کیا ہے اور یہ قول اس حدیث مرفوع سے مردود ہے کہ یاجوج اور ماجوج حضرت نوح (علیہ السلام) کی ذریت ہیں اور حضرت نوح قطعی طور پر حضرت حوا کے بطن سے پیدا ہوئے۔ (فتح الباری ج ١٤ ص 619-621، مطبوعہ دارالفکر بیروت، 1420 ھ، 2000 ء)

یاجوج اور ماجوج کے متعلق متاخرین کی آرا ء 

(بعض لوگوں کی رائے میں) قرآن مجید نے ذوالقرنین کی فتوحات کے سلسلہ میں جو نشانیاں بتائی ہیں وہ اچھی خاصی حد تک سکندر یونانی کی فتوحات پر منطبق ہوتی ہیں : حتی اذا بلغ مغرب الشمس (18: الکھف :86) تاریخ کا بھی بیان ہے کہ سکندر کی ابتدائی فوج کشی شمال و مغرب ہی کی جانب تھی۔ عین حمتہ سے مراد جھیل cbrida ہوسکتی ہے جو مناستر سے پچاس میل جانب مغرب واقع ہے۔ یہ چشمہ اپنے سیاہی مائل گدلے پانی کے لئے مشہور ہے۔ یہاں تک کہ جو دریا اس سے نکال ہے اس کا نام بھی دریائے سیاہ (Black Drin) ہے (اس سے بحر اسود بھی مراد لیا گیا ہے۔ )

” مطلع الشمس “ سکندر کی بعد کی فوجی مہمات مشرق کی سمت میں ہوئیں۔ (مراد ہے کہ اس کی مملکت کی انتہائی مشرقی حد) ” یاجوج ماجوج “ غالباً منگول قبیلے تھے جو پہاڑوں کی دوسری جانب آباد تھے اور کہیں کہیں موقع پا کر یلغار کرتے ہوئے ترکوں کے درمیان گھس آتے تھے۔ دربند میں ایک آہنی دیوار سد سکندر کے نام سے مشہور چلی آتی تھی اور اس کا پھاٹک باب الحدید کہلاتا تھا۔ یہ دربند وسط ایشیا کے مشرقی علاقے میں ضلع حصار میں بخارا سے 150 میل جنوب و مشرق میں 38 درجے عرض بلد شمالی اور 67 درجے طول ابلد مشرقی پر واقع ہے۔

بہرحال یہ امر ثبوت طلب ہے کہ سکندر یونانی کی فتوحات شمالی یورپی روس اور سائبیریا تک ہوئی تھیں، الادریسی نے سد سکندری انہیں اطراف میں دکھائی ہے اور اس کا نقشہ بھی دیا ہے۔ (اردو دائرۃ المعارف ج ١ ص 62، لاہور 1973 ء)

شیخ ابو الکلام احمد لکھتے ہیں : اب صرف ایک معاملہ کی تشریح باقی رہ گئی ہے یعنی یاجوج اور ماجوج سے کون سی قوم مراد ہے ؟ اور جو سد سائرس نے بنائی تھی اس کی تاریخی نوعیت کیا ہے ؟

قرآن مجید نے یاجوج اور ماجوج کا دو جگہ ذکر کیا ہے۔ ایک تو یہاں ہے دوسرا سورة انبیاء میں ہے : حتیٰ اذا فتحت یاجوج و ماجوج وہھم من کل حدب ینسلون (96-212)

یاجوج اور ماجوج کا نام سب سے پہلے عہد عتیق میں آیا ہے۔ حز قئیل نبی کی کتاب میں جنہیں بخت نصر اپنے آخری حملہ بیت المقدس میں گرفتار کر کے بابل لے گیا تھا اور جو سائرس کے ظہور تک زندہ رہے۔ یہ پیش گوئی ملتی ہے :

” اور خداوند کا کلام مجھ تک پہنچا۔ اس نے کہا اے آدم زاد ! تو جوج کی طرف اپنا منہ کر کے اس کے برخلاف نبوت کر۔ جوج کی طرف، جو ماجوج کی سر زمین کا ہے اور روش، مسک اور توبال کا سردار ہے۔ خداوند یہو واہ یوں کہتا ہے کہ میں تیرا مخلاف ہوں، میں تجھے پھرا دوں گا۔ تریے جبڑوں میں بنسایں ماروں گا، تیرے سارے لشکر اور گھوڑوں اور سواروں کو جو جنگی پوشاک پہنے چوپہریاں اور سپر لئے ہوئے ہیں اور سب شمشیر بکف ہیں، کھینچ نکالوں گا اور میں ان کے ساتھ فارس اور کوش اور فوط کو بھی کھینچ نکالوں گا جو سپر لئے ہوئے اور خود پہنے ہوں گے۔ نیز جو مر اور شمال بعید کے اطراف کے باشندگان تجرمہ اور ان کا سارا لشکر “

اس کے بعد دور تک تفصیلات چلی گئی ہیں اور چار باتیں خصوصیت کے ساتھ کہی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ جوج شمال کی طرف سے آئے گا تاکہ لوٹ مار کرے۔ دوسری یہ کہ ماجوج پر اور ان پر جو جزیروں میں سکنت رکھتے ہیں تباہی آئے گی “ تیسرے یہ کہ جو لوگ اسرائیل کے شہروں میں بسنے والے ہیں وہ بھی ماجوج کے مقابلہ میں حصہ لیں گے اور ان کے بیشمار ہتھیار ان کے ہاتھ آئیں گے۔ چوتھی یہ کہ ماجوج کی تباہی کا گورستان ” مسافروں کی وادی “ میں بنے گا جو ” سمندر کے پورب میں ہے “ ان کی لاشیں عرصہ تک وہاں پڑی رہیں گی۔ لوگ انہیں گاڑتے رہیں گے تاکہ رہگذر صاف ہوجائے۔ حزقی ایل۔ (باب 39-38)

یہ واضح رہے کہ اس پیشین گوئی سے پہلے سائرس کے ظہور اور یہودیوں کی آزادی و خوشحالی کی پیش گوئی بیان کی جا چکی ہے اور اس پیشین گوئی کا محل ٹھیک اس مکاشفہ کے بعد ہے جس میں حزقیل بنی نے بنی اسرائیل کی سوکھی ہڈیوں کو زندہ ہوتے دیکھا تھا اور جسے قرآن نے بھی سورة بقرہ کی آیت او کالذی مرعلی قریۃ وھی خاویۃ علی عروشھا (259-2) میں بیان کیا ہے۔ پس ضروری ہے کہ جوج اور ماجوج کا معاملہ بھی اسی زمانے کے لگ بھگ پیش آنے والا ہو یعنی سائرس کے زمانہ میں اور یہ سائرس کے ذوالقرنین ہونے کا ایک مزید ثبوت ہے کیونکہ قرآن صاف کہہ رہا ہے کہ اس نے یاجوج و ماجوج کے حملوں کی روک تھا مکہ لئے ایک سد تعمیر کی تھی۔ 

عہد عتیق کے بعد یہ نام ہمیں مکاشفات یوحنا میں بھی ملتا ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ ” جب ہزار برس پورے ہو چکیں گے تو شیطان قید سے چھوڑ دیا جائے گا اور وہ ان قوموں کو جو زمین کے چاروں طرف ہوں گی یعنی یاجوج اور ماجوج کو گمراہ کرنے اور لڑانے کے لئے جمع کرنے نکلے گا ان کا شمار سمندر کی ریت کے برابر ہوگا۔ وہ تمام زمین کی وسعتوں پر چڑھ جائیں گی۔ 7:20)

یاجوج اور ماجوج کے لئے یورپ کی زبانوں میں Gog اور Magog کے نام مشہور ہوگئے ہیں اور شارحین تو رات کہتے ہیں کہ یہ نام سب سے پہلے تورات کے ترجمہ سبعینی میں اختیار کئے گئے تھے۔ لیکن کیا اس لئے اختیار کئے گئے کہ جوج اور ماجوج کا یونانی تلفظ یہی ہوسکتا تھا، یا خود یونانی میں پہلے سے یہ نام موجود تھے ؟ اس بارے میں شارحین کی رائیں مختل ہیں لیکن زیادہ قوی بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ یہ دونوں نام اسی طرح یا اس کے قریب قریب یونانیوں میں بھی مشہور تھے۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ کون قوم تھی ؟ تمام تاریخی قرائن متفق طور پر شہادت دے رہے ہیں کہ اس سے مقصود صرف ایک ہی قوم ہوسکتی ہے اس کے سوا کوئی نہیں، یعنی شمال مشرقی میدانوں کے وہ وحشی مگر طاقتور قبائل جن کا سیلاب قبل از تاریخ عہد سے لے کر نویں صدی مسیحی تک برابر مغرب کی طرف امنڈتا رہا، جن کے مشرقی حملوں کی روک تھام کے لئے چینیوں کو سینکڑوں میل لمبی دیوار بنانی پڑی تھی، جن کی مختلف شاخیں تاریخ میں مختلف ناموں سے پکاری گئی ہیں اور جن کا آخری قبیلہ یورپ میں میگر کے نام سے روشناس ہوا اور ایشیا میں تاتاریوں کے نام سے۔ اسی قوم کی ایک شاخ تھی جسے یونانیوں نے سیتھین کے نام سے پکارا ہے اور اسی کے حملوں کی روک تھام کے لئے سائرس نے سد تعمیر کی تھی۔

شمال مشرق کے اس علاقے کا بڑا حصہ اب منگولیا کہلاتا ہے لیکن منگول لفظ کی ابتدائی شکل کیا تھیا ؟ اس کے لئے جب ہم چین کے تاریخی مصادر کی طرف رجوع کرتے ہیں (اور ہمیں اسی طرف رجوع ہونا چاہیے کیونکہ وہ منگولیا کے ہم سایہ میں ہے) تو معلوم ہوتا ہے کہ قدیم نام موگ تھا۔ یقینا یہی موگ جو چھ سو برس قبل مسیح یونانیوں میں میگ اور مے گاگ پکارا جاتا ہوگا اور یہی عبرانی میں ماجوج ہوگیا۔ (ترجمان القرآن ص 420-421 مطبوعہ لاہور 1976 ء)

سید ابوالاعلیٰ مودودی متوفی 1399 ھ لکھتے ہیں :

یاجوج اور ماجوج سے مراد ایشیا کے شمال مشرقی علاقے کی وہ قومیں ہیں جو قدیم زمانے سے متمدن ممالک پر غارت گرانہ حملے کرتی رہی ہیں اور جن کے سیلاب وقتاً فوقتاً اٹھ کر ایشیا اور یورپ دونوں طرف رخ کرتے رہے ہیں۔ بائبل کی کاتب پیدائش (باب :10) میں ان کو حضرت نوح کے بیٹے یافث کی نسل میں شمار کیا گیا ہے اور یہی بیان مسلمان مئورخین کا بھی ہے، حزقی ایل کے صحیفے (باب 39-38) میں ان کا علقاہ روس اور توبل (موجودہ توبالسک) اور مسک (موجودہ ماسکو) بتایا گیا ہے۔ اسرائیلی مئورخ یوسیفوس ان سے مراد سیتھین قوم لیتا ہے جس کا علاقہ بحر اسود کے شمال اور مشرق میں واقع تھا۔ جیروم کے بیان کے مطابق ماجوج کا کیشیا کے شمال میں بحر خزر کے قریب آباد تھے۔ (تفہیم القرآن ج ٣ ص 46-47، مطبوعہ لاہور، 1982 ء)

شیخ شبیر احمد عثمانی متوفی 1369 ھ لکھتے ہیں :

یاجوج ماجوج کون ہیں ؟ کسی ملک میں رہتے ہیں ؟ ذوالقرنین کی بنائی ہوئی سد (آہنی دیوار) کہاں ہے ؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے متعلق مفسرین و مئورخین کے اقوال مختلف رہے ہیں۔ میرا خیال یہ ہے (واللہ اعلم) کہ یاجوج ماجوج کی قوم عام انسانوں اور جنتا کے درمیان ایک برزخی مخلوق ہے اور جیسا کہ کعب احبار نے فرمایا اور نووی نے قتاوی میں جمہور علماء سے نقل کیا ہے ان کا سلسلہ نسب باپ کی طرف سے آدم پر منتہی ہوتا ہے، مگر ماں کی طرف سے حوا تک نہیں پہنچتا گویا وہ عام آدمیوں کے محض باپ شریک بھائی ہوئے۔ کیا عجب ہے کہ دجال اکبر جسے تمیم داری نے کسی جزیرہ میں مقید دیکھا تھا اسی قوم میں کا ہو، جب حضرت مسیح (علیہ السلام) جو محض ایک آدم زاد خاتون (مریم صدیقہ) کے بطن سے بتوسط نفخہ ملکیہ پیدا ہوئے نزول من السماء کے بعد جال کو ہلاک کردیں گے۔ اس وقت یہ قوم یا جوج ماجوج دنیا پر خروج کرے گی اور آخر کار حضرت مسیح کی دعا سے غیر معملوی موت مرے گی۔ اس وقت یہ قوم کہاں ہے اور ذوالقرنین کی دیوار آہنی کس جگہ واقع ہے سو جو شخص ان سب اوصاف کو پیش نظر رکھے گا جن کا ثبوت اس قوم اور دیوار آہنی کے متعلق قرآن کریم اور احادیث صحیحہ میں ملتا ہے اس کو کہنا پڑے گا کہ جن قوموں، ملکوں اور دیواروں کا لوگو نے رائے سے پتا دیا ہے یہ مجموعہ اوصاف ایک میں بھی پایا نہیں جاتا۔ لہٰذا وہ خیالات صحیح قوموں، ملکوں اور دیواروں کا لوگوں نے رائے سے پتا دیا ہے یہ مجموعہ اوصاف ایک میں بھی پایا نہیں جاتا۔ لہٰذا وہ خیالات صحیح معلوم نہیں ہوتے اور احادیث صحیحہ کا انکار یا نصوص کی تاویلات بعیدہ دین کے خلاف ہے۔ رہا مخالفین کا یہ شبہ کہ ہم نے تمام زمین کو چھان ڈالا مگر کہیں اس کا پتا نہیں ملا اور اسی شبہ کے جواب کے لئے ہمارے مولفین نے پتا بتلانے کی کوشش کی ہے اس کا صحیح جواب دہی ہے جو علاہ آلوسی بغدادی نے دیا ہے کہ ہم کو اس کا موقع معلوم نہیں اور ممکن ہے کہ ہمارے اور اس کے درمیان بڑے بڑے سمندر حائل ہوں اور یہ دعویٰ کرنا کہ ہم تمام خشکی اور تری پر محیط ہوچکے ہیں واجب التسلیم نہیں عقلاً جائز ہے کہ جس طرح اب سے پانچ سو برس پہلے ہم کو چوتھے براعظم (امریکہ) کے وجود کا پتہ نہ چلا اب بھی کوئی پانچواں بر اعظم ایسا موجود ہو جہاں تک ہم رسائی نہ حاصل کرسکے ہوں اور تھوڑے دنوں بعد ہم وہاں تک یاد وہ لوگ ہم تک پہنچ سکیں۔ سمندر کی دیوار اعظم جو آسٹریلیا کے شمال مشرقی ساحل پر واقع ہے آج کل برطانوی سائنسدان ڈاکٹر سی ایم ینگ کے زیر ہدایت اس کی تحقیقات جاری ہے۔ یہ دیوار ہزار میل سے زیادہ لمبی اور بعض بعض مقامات پر بارہ بارہ میل تک چوڑی اور ہزار فٹ اونچی ہے جس پر بیشمار مخلوق بستی ہے جو مہم اس کام کے لئے روانہ ہوء تھی حال میں اس نے اپنی یک سالہ تحقیق ختم کی ہے، جس سے سمندر کے عجیب و غریب اسرار منکشف ہوتے ہیں اور انسان کو حیرت واستعجاب کی ایک نئی دنیا معلوم ہو رہی ہے پھر کیسے دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ ہم کو خشکی و تری کی تمام مخلوق کے مکمل انکشافات حاصل ہوچکے ہیں۔ بہرحال مخبر صادق نے جس کا صدق دلائل قطعیہ سے ثابت ہے جب اس دیوار کی مع اس کے اوصاف کے خبر دی تو ہم پر واجب ہے کہ ہم اس کی تصدیق کریں اور ان واقعات کے منتظر رہیں جو مشرکین و منکرین کے علی الرغم پیش آ کر رہیں گے۔ (حاشیہ قرآن بر ترجمہ شیخ محمود حسن، مطبوعہ مملکتہ عربیہ سعودیہ)

پیر محمد کرم شاہ الازہری متوفی 1418 ھ لکھتے ہیں :

یاجوج اور ماجوج کا ذکر قرآن کریم میں دو بار آیا ہے ایک یہاں اور دوسرا سورة الانبیاء میں، یورپ کی زبانوں میں انہیں Gog and Magog کہا جاتا ہے یہ کون سی قوم تھی تمام تاریخی قرائن متفقہ طور پر شہادت دیتے ہیں کہ اس سے مقصود صرف ایک ہی قوم ہوسکتی ہے یعنی شمال مشرقی میدانوں کے وہ وحشی اور طاقتور قبائل جن کے مشرقی حملوں کی روک تھام کے لئے چین کے شہنشاہ شین وہوا نگ ٹی کو وہ عظیم الشان دیوار بنانی پڑی جو پندرہ سو میل تک چلی گئی ہے اور جو دیوار چین کے نام سے مشہور ہے۔ اس کی تعمیر 213 ق م میں شروع ہوئی اور دس برس میں ختم ہوئی اس نے شمال اور مغرب کی طرف منگولین قبائل کے حملوں کی تمام راہیں مسدود کردیں۔ اس لئے ان کے حملوں کا رخ پھر وسط ایشیا کی طرف مڑ گیا۔ انہی کے حملوں کو روکنے کے لئے سائرس نے سد تعمیر کی، شمال مشرق کے اس علاقہ کا بڑا حصہ اب منگولیا کہلاتا ہے لیکن چینی ذرائع سے پتا چلتا ہے کہ اس کا اصلی قدیم نام ” موگ “ ہے جو چھ سو برس ق م میں یونانیوں میں میگ اور میگاگ پکارا جاتا تھا اور یہی لفظ عبرانی میں ماجوج ہوگیا۔ (ضیاء القرآن ج ٣ ص 49-50 مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور، 1399 ھ)

یاجوج اور ماجوج کے متعلق مصنف کا نظریہ 

حاکم نے حضرت ابوہریرہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ یاجوج اور ماجوج حضرت نوح کے بیٹے یافث کی اولاد سے ہیں۔ تورات میں بھی اس طرح مذکور ہے (حزقی ایل باب 38-39) شیخ ابوالکلام نے کہا یہ وہی ہیں جن کو پہلے تاتاری اور اب منگول کہا جاتا ہے۔ سید مودودی نے لکھا ہے کہ یہ ایشیا کے شمال مشرقی علاقے کی وحشی قومیں ہیں۔ شیخ عثمانی نے لکھا ہے کہ یہ عام انسانوں اور جنات سے پیدا شدہ ایک بر زخی قوم ہے۔ پیر محمد کرم شاہ الازہری نے لکھا ہے کہ یہ ایشیا کے شمال مشرقی علاقہ کے وحشی قبائل ہیں۔ بعض نے کہا یہ منگول ہیں۔ ہمارا اس پر ایمان ہے کہ یاجوج ماجوج پیدا ہوچکے ہیں اور قرب قیامت میں ان کا ظہور ہوگا۔ قرآن مجید اور احادیث میں ان کے مصداق کا تعین نہیں کیا اور نہ ان کی واضح اور حتمی صفات بیان کی ہیں۔ ان کی صفات اور مصداق کے متعلق جو کچھ بھی کہا گیا وہ سب ظن وتخمین اور اندازوں پر مبنی ہے، اس کی نظیر یہ ہے کہ ہمارا اس پر ایمان ہے کہ جنت اور دوزخ موجود ہیں لیکن ہم قطعی طور پر یہ نہیں بتاسکتے کہ جنت اور دوزخ کس جگہ پر ہیں۔ (بعض اخبار احاد سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت سات آسمانوں کے اوپر اور عرش کے نیچے ہے یکن یہ قطعی نہیں ہے)

ان آیات میں دوسری اہم چیز سد ذوالقرنین ہے اب ہم اس کی تحقیق کرتے ہیں :

سد ذوالقرنین کی تحقیق 

شیخ ابوالکام احمد لکھتے ہیں :

اب ایک سوال اور غور طلب ہے۔ ذوالقرنین نے جو سد تعمیر کی تھی وہ درہ داریال کی سد ہے یا در بند کی دیوارڈ یا دونوں ؟ قرآن میں ہے کہ ذوالقرنین دو پہاڑی دیواروں کے درمیان پہنچا، اس نے آہنی تختیوں سے کام لای، اس نے درمیان کا حصہ پاٹ کے برابر کردیا، اس نے پگھلا ہوا تانبا استعمال کیا۔ تعمیر کی یہ تمام خصوصیات کسی طرح بھی دربند کی دیوار پر صادق نہیں آتیں یہ پتھر کی بڑی بڑی سلوں کی دیوار ہے اور دو پہاڑی دیواروں کے درمیان نہیں ہے بلکہ سمندر سے پہاڑ کے بلند حصہ تک چلی گئی ہے۔ اس میں آہنی تخیوں اور پگھلے ہوئے تانبے کا کوئی نشان نہیں ملتا۔ پس یہ قطعی ہے کہ ذوالقرنین والی سد کا اطلاق اس پر نہیں ہوسکتا۔

البتہ درہ داریال کا مقام ٹھیک ٹھیک قرآن کی تصریحات کے مطابق ہے۔ یہ دو پہاڑی چوٹیوں کے درمیان ہے اور جو سد تعمیر کی گئی ہے اس نے درمیان کی راہ بالکل مسدود کردی ہے چونکہ اس کی تعمیر میں آہنی سلوں سے کام لیا گیا تھا اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ جارجیا میں ” آہنی دروازہ “ کا نام قدیم سے مشہور چلا آتا ہے۔ اسی کا رتجمہ ترکی میں ” دا مرکپو “ مشہور ہوگیا۔

بہرحال ذوالقرنین کی اصلی سد یہی سد ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس کے بعد خود اس نے یا اس کے جانشینوں نے یہ دیکھ کر کہ کا کیشیا کا مشرقی ڈھلوان بھی خطرہ سے خالی نہیں دربند کی دیوار تعمیر کردی ہو اور نوشیرواں نے اسے اور مضبوط کیا ہو۔ یا ممکن ہے کہ فی الحقیقت نوشیرواں ہی کی تعمیر ہو۔

دربند کی دہری دیوار 1796 ء تک موجود تھی جس کی تصویر ایک روسی سیاح کی بنائی ہوئی ایچ والڈ نے اپنی کتاب ” کو اکیسیس “ میں نقل کی ہے، لیکن 1904 ء میں جب پروفیسر جیکسن نے اس کا معائنہ کیا تو گو آثار باقی تھے لیکن دیوار گرچکی تھی البتہ اکہری دیوار اکثر حصوں میں اب تک باقی ہے۔

موجودہ زمانہ کے شارحین تورات میں بھی ایک جماعت اسی طرح گئی ہے کہ یاجوج و ماجوج سے سیتھین قوم مراد تھی لیکن وہ حزقتیل کی پیش گوئی کا محمل ان کا وہ حملہ قرار دیتے ہیں جو ہیروڈوٹس کے قول کے مطابق 630 قبل مسیح میں ہوا تھا۔ لیکن اس صورت میں یہ مشکل پیدا ہوجاتی ہے کہ حز قیل کی کتاب بابل کی اسیری کے زمانہ میں لکھی گی ہے کیونکہ وہ خود بھی بخت نصر کے اسیروں میں سے تھے اور سیتھین حملہ اس سے بہت پہلے ہوچکا تھا۔ اس باب میں مزید تفصیلات کے لئے انسائیکلوپیڈیا برٹیانیکا اور جیویش انسائیکلوپیڈیا میں لفظ Gog کا مقالہ دیکھنا چاہیے۔

ہم نے ذوالقرنین کے مبحث میں پوری تفصیل سے کام لیا ہے کیونکہ زمانہ حال کے معترضین قرآن نے اس مقام کو سب سے زیادہ اپنے معاندانہ استہزاء کا نشانہ بنایا ہے۔ وہ کہتے ہیں ذوالقرنین کی کوئی تاریخی اصلیت نہیں ہے۔ یہ محض عرب یہودیوں کی ایک کہانی تھی جو پیغمبر اسلام نے اپنی خوش اعتقادی سے صحیح سمجھ لی اور نقل کردی۔ اس لئے ضروری تھا کہ ایک مرتبہ یہ مسئلہ اس طرح صاف کردیا جائے کہ شک و تردد کا کوئی پہلو باقی نہ رہے۔ (ترجمان القرآن ج ٢ ص 429-430 مطبوعہ لاہور 1976 ء 

سید ابوالاعلیٰ مودودی متوفی 1399 ھ لکھتے ہیں :

ذوالقرنین کی تعمیر کردہ دیوار کے متعلق بعض لوگوں میں یہ غلط خیال پایا جاتا ہے کہ اس سے مراد مشہور دیوار چین ہے حالانکہ دراصل یہ دیوار قفقاز (Caucasus) کے علاقہ داغستان میں در بند اور داریال (Darial) کے درمیان بنائی گئی تھی۔ قفقارز اس ملک کو کہتے ہیں جو بحیرہ اسود (Black Sea) اور بحیرہ خزر (Caspian Sea) کے درمیان واقع ہے۔ اس ملک میں بحیرہ اسود سے داریال تک تو نہایت بلند پہاڑ ہیں اور ان کے درمیان اتنے تنگ درے ہیں کہ ان سے کوئی بڑی حملہ آور فوج نہیں گزر سکتی۔ البتہ در بند اور داریال کے درمیان جو علاقہ ہے اس میں پہاڑ بھی زیادہ بلند نہیں ہیں اور ان میں حملہ آور فوج نہیں گزر سکتی۔ البتہ در بند اور داریال کے درمیان جو علاقہ ہے اس میں پہاڑ بھی زیادہ بلند نہیں ہیں اور ان میں کوہستانی راستے بھی خاصے وسیع ہیں۔ قدیم زمانے میں شمال کی وحشی قومیں اس طرف سے جنوب کی طرف غارت گرانہ حملے کرتی تھیں اور ایرانی فرمانروائوں کو اسی طرف سے اپنی مملکت پر شمالی حملوں کا خطرہ لاحق رہتا تھا۔ انہی حملوں کو روکنے کے لئے ایک نہایت مضبوط دیوار بنائی گئی تھی جو 50 میل لمبی 290 فیٹ بلند اور دس فیٹ چوڑی تھی۔ ابھی تک تاریخی طور پر یہ تحقیق نہیں ہوسکا ہے کہ یہ دیوار ابتداء کب کس نے بنائی تھی۔ مگر مسلمان مئورخین اور جغرافیہ نویس اسیک و سد ذوالقرنین قرار دیتے ہیں اور اس کی تعمیر کی جو کیفیت قرآن مجید میں بیان کی گئی ہے اس کے آثار اب بھی وہاں پائے جاتے ہیں۔ 

ابن جریر طبری اور ابن کثیر نے اپنی تاریخوں میں یہ واقعہ لکھا ہے، اور یاقوت نے بھی معجم البلدان میں اس کا حوالہ دیا ہے کہ حضرت عمر (رض) نے آذر بائیجان کی فتح کے بعد 22 ھ میں سراقہ بن عمرو کو باب الابواب (دربند) کی مہم پر روانہ کیا اور سراقہ نے عبدالرحمٰن بن ربیعہ کو اپنے مقدمتہ الجیش کا افسر بنا کر آگے بھیجا۔ عبدالرحمٰن جب ارمینیہ کے علاقے میں داخل ہوئے تو وہاں کے فرمانروا شہر براز نے جنگ کے بغیر اطاعت قبول کرلی۔ اس کے بعد انہوں نے باب الابواب کی طرف پیش قدمی کا ارادہ کیا۔ اس موقع پر شہر براز نے ان سے کہا کہ میں نے اپنے ایک آدمی کو سد ذوالقرنین کا مشاہدہ اور اس علاقے کے حالات کا مطالعہ کرنے کے لئے بھیجا تھا وہ آپ کو تفصیلات سے آگاہ کرسکتا ہے۔ چناچہ اس نے عبدالرحمٰن کے سامنے اس شخص کو پیش کردیا۔ (طبریٰ ، ج ٣ ص 235 تا 239 البدلیتہ والنہایہ ج ٧، ص 122 تا 125 معجم البلدان، ذکر باب الابواب) ۔

اس واقعہ کے دو سو برس بعد عباسی خلیفہ واثق (232-227 ھ) نے سد ذوالقرنین کا مشاہدہ کرنے کے لئے سلام الترجمان کی قیادت میں 50 آدمیوں کی ایک مہم روانہ کی جس کے حالات یاقوت نے معجم البلدان میں اور ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں خاصی تفصیل کے ساتھ بیان کئے ہیں۔ ان کا یان ہے کہ یہ وفد سامرہ (سرمن رای) سے تفلیس، وہاں سے الستر پر، وہاں سے اللان ہوتا ہوا فیلان شاہ کے علاقے میں پہنچا پھر خزر کے ملک میں داخل ہوا اور اس کے بعد دربند پہنچ کر اس نے سد کا مشاہدہ کیا۔ (البدایہ والنہایہ ج ٢ ص 111 ج ٧ ص 122 تا 125 معجم البلدان، باب الابواب) اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تیسری صدی ہجی میں بھی مسلمان عام طور پر قفقاز کی اس دیوار ہی کو سد ذوالقرنین سمجھتے تھے۔

یاقوت نے معجم البلدان میں متعدد دوسرے مقامات پر بھی اس امر کی تصریح کی ہے۔ خزر کے زیر عنوان وہ لکھتا ہے کہ ہی بلاۃ الترک خلف باب الابواب المعروف بالدربند قریب من سد ذی القرنین ” یہ ترکوں کا علاقہ ہے جو سد ذوالقرنین کے قریب باب الابواب کے پیچھے واقع ہے جسے در بند بھی کہتے ہیں “ اسی سلسلہ میں وہ خلیفہ المقتدر باللہ کے سفیر، احمد بن فضلان کی ایک رپورٹ نقل کرتا ہے جس میں مملکت خزر کی تفصیلی کیفیت بیان کی گئی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ خزر ایک مملکت کا نام ہے جس کا صدر مقام اتل ہے۔ دریائے اتل اس شہر کے درمیان سے گزرتا ہے اور یہ دریا روس اور بلغار سے آ کر بحر خزر میں گرتا ہے۔

باب الابواب کے زیر عنوان لکھتا ہے کہ اس کو الباب اور دربند بھی کہتے ہیں۔ یہ بحر خزر کے کنارے واقع ہے۔ بلاوکفر سے بلاو مسلمین کی طرف آنے والوں کے لئے یہ راستہ انتہائی دشوار گزار ہے۔ ایک زمانہ میں یہ نوشریوان کی مملکت میں شامل تھا اور شاہان ایران اس سرحد کی حفاظت کو غایت درجہ اہمیت دیتے تھے۔ (تفہیم القرآن ج ٣ ص 771-772، مطبوعہ لاہور، 1982 ء)

پیر محمد کرم شاہ الازہری متوفی 1418 ھ لکھتے ہیں :

آخر میں ہمیں یہ تحقیق کرنا ہے کہ سائرس نے جو سد تعمیر کی تھی اس کا محل وقوع کہاں ہے بحر خزر کے مغربی ساحل پر ایک قدیم شہر دربند آباد رہے یہ ٹھیک اس مقام پر واقع ہے جہاں کا کیشیا کا سلسلہ کوہ ختم ہوتا ہے اور بخر خزر سے مل جاتا ہے، یہاں ایک دیوار ہے جس کا طول پچاس میل اور اونچائی انتیس فٹ اور موٹائی دس فٹ ہے (انسائیکلو پیڈیا) اس مقام سے مغرب کی طرف درہ دانیال ہے جو دو بلند پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے، یہاں بھی قدیم زمانے سے ایک دیوار ہے اور اس آہنی دیوار کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ (ضیاء القرآن ج ٣ ص 50، مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور 1399 ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 18 الكهف آیت نمبر 92