أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰيَحۡيٰى خُذِ الۡكِتٰبَ بِقُوَّةٍ‌ ؕ وَاٰتَيۡنٰهُ الۡحُكۡمَ صَبِيًّا۞

ترجمہ:

اے یحییٰ ! پوری قوت سے کتاب کو لے لو، اور ہم نے ان کو بچپن میں ہی نبوت عطا کردی

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے یحییٰ ! پوری قوت سے کتاب کو لے اور ہم نے ان کو بچپن میں ہی نبوت عطا کردی اور اپنے پاس سے (ان کو) نرم دلی اور پاکیزگی عطا کی اور وہ متقی شخص تھے اور وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے والے تھے اور سرکش نافرمان نہ تھے اور ان پر سلام ہو جس دن وہ پیدا ہوئے اور جس دن ان کی وفات ہوگی اور جس دن وہ زندہ اٹھائے جائیں گے (مریم :12-15)

حضرت یحییٰ کو بچپن میں نبوت عطا فرمانا 

آیت :12 سے پہلے یہ عبارت محذوف ہے، پس حضرت زکریا کے ہاں بیٹا پیدا ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے اس بیٹے سے فرمایا : اے یحییٰ پوری قوت سے کتاب کو لے لو، کتاب سے مراد تو رات ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ پوری قوت سے تورات کو حفظ کرو، اس میں غور و فکر کرو اور اس کے احکام پر عمل کرو، پھر فرمایا ہم نے ان کو بچپن میں ہی نبوت دے دی تھی، معمر نے بیان کیا ہے کہ ان کے ہم عمر بچے کہتے تھے آئو کھیلیں ! تو حضرت یحییٰ فرماتے میں کھیلنے کے لئے پیدا نہیں ہوا۔ قتادہ نے کہا ان کو دو یا تین سال کی عمر میں نبوت دی گئی تھی۔

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو پیدا ہوتے ہی نبوت دی گئی اور حضرت یحییٰ کو دو یا تین سال کی عمر میں نبوت دی گئی اور ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت بھی نبی تھے جب حضرت آدم روح اور جسد کے درمیان تھے، ہر نبی پیدائش نبی ہوتا ہے یا اس کو بعد میں نبوت دی جاتی ہے اس کی تحقیق ہم نے تبیان القرآن ج ١ ص 418 میں کی ہے۔

حنان اور زکوۃ کا معنی 

نیز فرمایا ہم نے اپنے پاس سے ان کو حنان اور زکوۃ عطا کردی تھی، حنان کے معنی ہیں شفقت، رحمت اور محبت، حضرت ابن عباس (رض) سے اس کی تفسیر میں دو قول ہیں، ایک یہ کہ : اللہ عزوجل کا ان پر شفقت اور رحمت فرمانا اور دوسرا یہ ہے کہ ان کا لوگوں پر شفقت اور رحمت فرمانا اور شرک سے نکالنا۔

زکوۃ کا معنی ہے پاک کرنا اور برکت دینا اور ان کی خیر اور نیکی کو بڑھانا یعنی ہم نے ان کو برکت والا بنادیا وہ لوگوں کو ہدایت دیتے تھے، اور وہ متقی تھے یعنی اللہ تعالیٰ کے اطاعت گزار تھے اس لئے کہا گیا ہے کہ انہوں نے کبھی گناہ کیا اور نہ گناہ کا ارادہ کیا۔ 

حضرت یحییٰ پر تین بار سلام کی خصوصیت 

اس کے بعد فرمایا اور ان پر سلام ہو جس دن وہ پیدا ہوئے اور جس دن ان کی وفات ہوگی اور جس دن وہ زندہ اٹھائے جائیں۔ ان تین دنوں کی تخصیص کی وجہ یہ ہے :

امام ابن جریر طبری نے کہا یہاں سلام کا معنی ہے امان، ہر شخص جب پیدا ہوتا ہے تو شیطان اس کو ضرر پہنچاتا ہے لیکن وہ اس کے ضرر سے سلامت رہیں گے اور جب وہ فوت ہوں گے تو عذاب قبر سے امان میں رہیں گے اور جب وہ حشر کے دن اٹھیں گے تو عذاب قیامت سے مامون رہیں گے۔

سنیان بن عینیہ نے کہا مخلق کو تین دنوں میں وحشت کا سامنا ہوتا ہے جب وہ پیدا ہوتا ہے تو وہ ماں کے پیٹ سے باہر آ کر ایک نئی دنیا کا سامنا کرتا ہے اور جب وہ مرتا ہے تو ان چیزوں کا سامنا کرتا ہے جن کو اس نے پہلے نہیں دیکھا تھا اور جب وہ دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جائے گا تو اپنے آپ کو عظیم محشر میں پائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان تینوں مقامات پر حضرت یحییٰ پر سلام بھیجا تاکہ وہ ان تینوں مقامات پر سلامتی کے ساتھ رہیں۔

عبداللہ بن نفطویہ نے کہا جب وہ پیدا ہوں اور پہلی بار دنیا کو دیکھیں تو ان پر سلامتی ہو اور جب وہ فوت ہوں اور پہلی بار امر آخرت کو دیکھیں تو ان پر سلامتی ہو اور جب ان کو اٹھایا جائے اور وہ پہلی بار جنت اور دوزخ کو دیکھیں تو ان پر سلامتی ہو۔

اللہ تعالیٰ نے اور انبیاء پر بھی سلام بھیجا ہے مثلاً فرمایا : سلام علی نوح فی العلمین (الصفت :79) اور فرمایا : سلام علی ابراہیم (الصفت :109) لیکن ایک بار سلام بھیجا ہے اور حضرت یحییٰ علیہ اسللام پر تین بار سلام بھجیا ہے۔ ہرچند کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر بھی تین بار سلام کا ذکر ہے ” والسلم علی یوم ولدت ویوم اموت ویوم ابعث حیا “ (مریم :33) لیکن حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے اوپر خود سلام بھیجا ہے اگرچہ اللہ تعالیٰ کے امر سے بھیجا ہے اور حضرت یحییٰ پر اللہ تعالیٰ نے سلام بھیجا ہے۔

یوم میلاد پر خوشی منانے اور یوم وفات پر غم نہ منانے کا جواب 

ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ انبیاء (علیہم السلام) پر کثرت سے سلام پڑھنا چاہیے خصوصاً ان کے میلاد کے دن اس لئے اہل سنت بارہ ربیع الاول کو عید میلاد النبی مناتے ہیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں اس دن درود سلام پڑھتے ہیں اور مجالس منعقد کرتے ہیں ان میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعمتیں پڑھی جاتی ہیں اور آپ کے فضال و مناقب بیان کئے جاتے ہیں۔ بعض اہل تنقیص اور مبتعین یہ اعتراض کرتے ہیں حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ کے یوم وفات پر بھی سلام بھیجا گیا، پھر جس طرح تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یوم میلاد مناتے ہو اس طرح تم ان کا یوم وفات بھی منایا کرو۔ اس کا جواب یہ ہے کہ شریعت میں ہمیں نعمت ملنے پر خوشی کے اظہار کا تو حکم دیا گیا ہے اور مصیبت پر غم منانے کا حکم نہیں دیا بلکہ اس سے منع فرمایا ہے، اور نعمت کے بیان کرنے اور اس پر اظہار خوشی کرنے کا ذکر ان آیتوں میں ہے :

واما بنعمۃ ربک فحدث (الضحیٰ : ١١) قل بفضل اللہ برحمتہ فبذالک فلیفرحوا (یونس 58) اور آپ اپنے رب کی نعمتوں کو بیان کیجیے۔ آپ کہیے لوگوں کو اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر خوشی منانا چاہیے۔

اور کسی مصیبت پر اللہ تعالیٰ نے غم منانے کا حکم نہیں دیا بلکہ صبر اور ضبط نفس کا حکم دیا ہے اور رونے پیٹنے ماتم کرنے اور چیخنے چلانے سے منع فرمایا ہے۔ جس طرح شیعہ کرتے ہیں اور تحقیق یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت 12 ربیع الاول کو اور آپ کی وفات ٢ ربیع الاول کو ہوئی ہے۔ امام محمد بن سعد متوفی 230 ھ امام بیہقی متوفی 458 ھ علامہ سھیلی متوفی 58 ھ، حافظ ابن کثیر متوفی 774 ھ حافظ ابن حجر متوفی 852، علامہ محمد بن یوسف الصالحی متوفی 942 ھ ملا علی قاری متوفی 1014 ھ کی بھی یہی تحقیق ہے۔ (الطبقات الکبریٰ ج ٢ ص 208، دلائل النبوۃ ج ٧ ص 235، الروض الانف ج ٤ ص 440، البدایہ والنہایہ ج ٤ ص 228، فتح الباری ج ٨ ص 474، سبل الہدی والر شاد ج ١٢ 305، مرقات ج ١١ ص 238)

اس مسئلہ کی زیادہ تفصیل اور تحقیق ہم نے الانبیاء ٣٤ میں کی ہے وہاں ملاحظہ فرمائیں۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 19 مريم آیت نمبر 12