أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَقُوۡلَا لَهٗ قَوۡلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهٗ يَتَذَكَّرُ اَوۡ يَخۡشٰى ۞

ترجمہ:

آپ دونوں اس سے نرمی سے بات کریں اس امید پر کہ وہ نصیحت حاصل کرے یا ڈرے

طہ : ٤٤ میں فرمایا : آپ دونوں اس سے نرمی سے بات کریں اس امید پر کہ کہ وہ نصیحت حاصل کرے یا ڈرے۔

فرعون اپنی الوہیت کا مدعی تھا اور اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور توحید کا منکر اور مخالف تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ نرمی سے بات کرنے کا کیوں حکم دیا ؟ اس کی دو وجہیں ہیں :

(١) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی فرعون نے پرورش کی تھی، اس حق کی رعایت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ نرمی سے بات کرنے کا حکم دیا۔ اس میں یہ تنبیہ ہے کہ ماں باپ کا حق کس قدر عظیم ہے۔

(٢) جابر اور مقتدر لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ جب ان کو سختی کے ساتھ نصیحت کی جائے تو وہ مزید اکڑ جاتے ہیں اور ان کے غرور اور تکبر میں اور اضافہ ہوجاتا ہے اور ان کی انانیت ان کو حق قبول کرنے سے باز رکھتی ہے۔

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کے ساتھ جو نرمی کے ساتھ کلام کیا تھا اس کی ایک مثال تو عنقریب طہ : 47 میں آرہی ہے اور دوسری مثال یہ آیت ہے :

ھل لک الی ان تزکی واھدیک الی ربک فتخشی (النازعات :18-19) کیا تم پاکیزہ ہونا چاہتے ہو ؟ (اور یہ چاہتے ہو کہ) میں تمہارے رب کی طرف تمہاری راہنمائی کروں سو تم (اس سے ڈرو ؟ )

اس کی تیسری مثال کے متعلق حضرت ابن عباس نے فرمایا اس کو اس کی کنیت کے ساتھ مخاطب کرنا۔ اس کی کنیت کے متعلق چار قول ہیں : (١) ابومرہ (٢) ابو مصعب (٣) ابو العباس (٤) ابوالولید۔

اور اس کی چوتھی مثال یہ ہے کہ حسن بصری نے کہا اس سے کہنا اس کا رب ہے اور اس کے لوٹنے کی جگہ ہے اور اس کے آگے جنت اور دوزخ ہے اور اس کی پانچویں مثال یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے پاس جا کر کہا : میں جو پیغام لے کر آیا ہوں تم اس پر ایمان لے آئو اور رب العالمین کی عبادت کرو، پھر تمہارا شباب قائم رہے گا اور تم بوڑھے نہیں ہو گے اور تم تاحیات بادشاہ رہو گے یہ ملک تم سے کوئی چھین نہیں سکے گا اور جب تم فوت ہوگئے تو جنت میں داخل ہو جائو گے۔ فرعون کو یہ کلام اچھا لگا پھر جب ہامان آیا تو اس نے ہامان کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی باتوں کی خبر دی۔ اس نے کہا میرا خیال ہے کہ تم خود دانشمند ہو تم رب ہو کیا تم مربوب (مخلوق) بننا چاہتے ہو ؟ اور اس نے فرعون کی رائے بدل دی۔

یحییٰ بن معاذ رازی نے کہا : جو شخص خدائی کا دعویٰ کرتا ہو اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نرمی کی یہ شان ہے تو جو شخص اللہ تعالیٰ کو خدا مانتا ہو اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نرمی کا کیا حال ہوگا !

خالد بن معدان نے معاذ سے روایت کیا ہے کہ اللہ کی قسم ! فرعون اس وقت تک نہیں مرسکتا تھا حتیٰ کہ وہ یا نصیحت حاصل کرلیتا یا اللہ تعالیٰ سے ڈر جاتا، کیونکہ اس آیتم میں فرمایا : اس امید پر کہ وہ نصیحت حاصل کرے یا ڈرے اور جب وہ سمندر میں غرق ہونے لگا تھا تو اس نے نصیحت بھی حاصل کرلی تھی اور ڈرا بھی تھا۔ (زاد المسیرج ٥ ص 287-289، ملحضاً مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت، 1407 ھ)

القرآن – سورۃ نمبر 20 طه آیت نمبر 44