أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّكُمۡ وَمَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَـنَّمَؕ اَنۡـتُمۡ لَهَا وَارِدُوۡنَ ۞

ترجمہ:

بیشک تم خود اور جن چیزوں کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو (وہ سب) دوزخ کا ایندھن ہیں، تم (سب) اس میں داخل ہونے والے ہو

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بیشک تم خود اور جن چیزوں کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو (وہ سب) دوزخ کا ایندھن ہیں۔ تم (سب) اس میں داخل ہونے والے ہو اگر یہ (سچے) معبود ہوتے تو دوزخ میں نہ داخل ہوتے، اور وہ سب اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ان کی اسی میں چیخ و پکار ہوگی اور وہ اس میں کچھ بھی نہ سن سکیں گے (الانبیاء :98-100)

مشرکین کے اس اعتراض کا جواب کہ پھر عیسیٰ اور عزیر (علیہما السلام) بھی دوزخ میں جائیں گے۔

جب یہ آیت نازل ہوئی تو کفار قریش پر بہت دشوار گزاری اور انہوں نے کہا انہوں نے ہمارے خدائوں کو برا کہا ہے، وہ ابن الزبعری کے پاس گئے اور اس کو یہ واقعہ سنایا۔ اس نے کہا اگر میں ان کے پاس ہوتا تو ان کا رد کرتا، کفار نے کہا تم کیا کہتے اس نے کہا میں یہ کہتا کہ مسیح کی نصاریٰ عبادت کرتے ہیں اور یہود عزیز کی عبادت کرتے ہیں تو اس آیت کے عموم کے اعتبار سے وہ بھی دوزخ کا ایندھن بنیں گے۔ ریش اس کے اعتراض سے بہت خوش ہوئے اور انہوں نے یہ سمجھا کہ اب (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دلیل سے مغلوب ہوجائیں گے۔ (ان کا یہ اعتراض لغو تھا کیونکہ عربی زبان میں ” ما “ غیر ذوی العقول کے لئے آتا ہے اور حضرت عیسیٰ اور عزیز (علیہما السلام) ذوی العقول ہیں۔ سو یہ آیت ان پر نہیں بلکہ بتوں پر چسپاں ہوتی ہے کیونکہ وہ غیر ذوی العقول ہیں) جب قریش نے یہ لغو اعترضا کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :

ان الذین سبقت لھم منا الحسنی اولئک عنھا مبعدون (النبیاء :101) بیشک جن لوگوں کے لئے ہماری طرف سے اچھی جزا پہلے سے مقرر ہوچکی ہے، وہ دوزخ سے دور رکھے جائیں گے اور یہ آیات بھی اسی سلسلہ میں نازل ہوئیں :

(الزخرف :57-59) اور جب ابن مریم کی مثال بیان کی گی تو آپ کی قوم چیخنے لگی اور انہوں نے کہا آیا ہمارے معبود بہتر ہیں یا وہ (عیسی) ؟ وہ آپ سے محض جھگڑا کرتے ہیں بلکہ یہ لوگ ہیں ہی جھگڑالو۔ عیسیٰ بھی صرف ایک بندے ہیں جن پر ہم نے انعام کیا اور انہیں بنی اسرائیل کے لئے اپنی قدرت کا نشان بنادیا۔

شرک کے رد اور بتوں کی بےوقعتی اور بےبسی ظاہر کرنے کے لئے جب مشرکین مکہ سے یہ کہا گیا کہ تم خود اور جن چیزوں کی تم عبادت کرتے ہو، دوزخ کا ایندھن ہیں۔ (الانبیاء :98) تو ان چیزوں سے مراد پتھر کے وہ بت تھے جن کی وہ عبادت کرتے تھے نہ کہ انبیاء (علیہم السلام) اور دیگر صالحین جو اپنی تمام زندگی لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے رہے، مگر ان کی وفات کے بعد ان کے معتقدین نے ان کو معبود سمجھنا شروع کردیا۔ ان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ وہ دوزخ سے دور رہیں گے۔ (الانبیاء :101) کیونکہ ان کی جو پرستش کی گی تھی اس میں ان کا کوئی قصور نہیں تھا، اسی لئے قرآن نے اس کے لئے جو لفظ استعمال کیا ہے وہ لفظ ” ما “ ہے جو غیر عاقل کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اس سے اس آیت کے عموم (لفظ ما) سے انبیاء علہیم السلام اور وہ صالحین نکل گئے جن کو لوگوں نے از خود معبود بنا لیا تھا، لیکن مشرکین نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان فیض ترجمان سے حضرت مسیح (علیہ السلام) کا ذکر سن کر یہم جادلہ اور کٹ حجتی کرتے تھے کہ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) لائق مدح ہیں حالانکہ عیسائی ان کی عبادت کرتے ہیں تو پھر ہمارے بت کیوں قابل مذمت ہیں آیا وہ بھی بہتر نہیں ہیں، اگر ہمارے معبود دوزخ میں جائیں گے تو پھر حضرت عیسیٰ اور حضرت عزیز (علیہما السلام) بھی دوزخ میں جائیں گے اللہ تعالیٰ نے سورة زخرف کی ان آیتوں میں فرمایا ان کا خوشی سے چلانا محض ان کا جدل، کٹ حجتی اور ہٹ دھرمی ہے۔

مشرکین کا آخرت میں بہرا ہونا 

اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تم سب اس میں داخل ہونے والے ہو۔ اس میں مشرکین سے خطاب ہے یعنی تم اور بت سب اس میں داخل ہوں گے پھر بتوں کی الوہیت کا رد کرتے ہوئے فرمایا : اگر یہ (سچے) معبود ہوتے تو دوزخ میں داخل نہ ہوتے اور روہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ (النبیاء : ٩٩) پھر فرمایا ان کی اسی میں چیخ و پکار ہوگی اوہ اس میں کچھ بھی نہ سن سکیں گے۔ 

ونحشرھم یوم القیمۃ علی وجوھھم عمیاً وبکماً وصماً (بنی اسرائیل :97) ہم قیامت کے دن ان کو ان کے مونہوں کے بل اٹھائیں گے درآں حالیکہ وہ اندھے، گونگے اور بہرے ہوں گے۔ ایک قول یہ ہے کہ وہ آہستہ کہی ہوئی بات نہیں سنیں گے۔ فرشتے ان سے چلا کر جو بات کہیں گے، وہ سن لیں گے۔ قرآن مجید میں ہے۔

قال اخسوا فیھا ولاتکلمون (المومنون :108) اللہ فرمرمائے گا اسی دوزخ میں دھتکارے ہوئے پڑے رہو اور مجھ سے بات نہ کرو۔

یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خود اللہ تعالیٰ ان سے غضب میں فرمائے اور یا فرشتے اللہ تعالیٰ کا ارشاد پہنچائیں۔

سورة ھود میں اس کی تفسیر گزر چکی ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 21 الأنبياء آیت نمبر 98