أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَقُلۡ اٰذَنۡـتُكُمۡ عَلٰى سَوَآءٍ ‌ؕ وَاِنۡ اَدۡرِىۡۤ اَقَرِيۡبٌ اَمۡ بَعِيۡدٌ مَّا تُوۡعَدُوۡنَ‏ ۞

ترجمہ:

پھر اگر یہ پیٹھ پھیر لیں تو آپ کہیے میں واضح طور پر تم کو خبردار کرچکا ہوں۔ اور میں (از خود) نہیں جانتا کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ نزدیک ہے یا دور

مشرکین سے کس چیز کا وعدہ کیا گیا تھا ؟

الانبیاء :109 میں فرمایا، پھر اگر یہ پیٹھ پھیر لیں تو آپ کہیے کہ میں واضح طور پر تم کو خبردار کر چاک ہوں۔

ایذان کا معنی ہے کسی کو جنگ کے لئے بالنا، للکارنا اور مبارزت کرنا یعنی اگر تم نے میری دعوت اسلام کو قبول نہیں کیا تو میری طرف سے اعلان جنگ قبول کرلو، میں معلم کی حیثیت سے تم کو پوری پوری تعلیم دے چکا ہوں۔ اس کا یہ معنی بھی کیا گیا ہے میں نے تم سے جو اعلان جنگ کیا ہے، اس سے خبردار کر رہا ہوں، فوراً تم سے جنگ نہیں کر رہا بلکہ تم کو مہلت دے رہا ہوں تاکہ تم اس مہلت سے فائدہ اٹھا کر اسلام قبول کرلو۔

پھر فرمایا : میں (از خود) نہیں جانتا کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ قریب ہے یا دور۔ مفسرین نے کہا اس سے مراد قیامت ہے اور بعض نے کہا اس سے ان پر دنیا میں عذاب کا نزول مراد ہے۔ وہ کہتے تھے کہ بتائیں قیامت کب آئے گی ؟ یا آپ کا انکار کرنے کی وجہ سے ہم پر آسمانی عذبا کب نازل ہو گاڈ یا اس سے مراد یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو ان کو اعلان جنگ سنایا تھا، وہ جنگ کب ہوگی ؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا آپ کہیے کہ میں از خود بغیر وحی کے نہیں جانتا کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے، وہ قریب ہے یا دور۔

القرآن – سورۃ نمبر 21 الأنبياء آیت نمبر 109