أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَ ذَا النُّوۡنِ اِذْ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنۡ لَّنۡ نَّـقۡدِرَ عَلَيۡهِ فَنَادٰى فِى الظُّلُمٰتِ اَنۡ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَكَ ‌ۖ اِنِّىۡ كُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِيۡنَ‌ ۞

ترجمہ:

اور مچھلی والے (یونس) کو یاد کیجیے جب وہ اپنی قوم پر غضب ناک ہو کر نکلے تو انہوں نے یہ گمان کیا کہ ہم ہرگز ان پر تنگی نہیں کریں گے پھر انہوں نے تاریکیوں میں پکارا کہ تیرے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے تو پاک ہے، بیشک میں (ہی) زیادتی کرنے والوں میں سے تھا

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور مچھلی والے (یونس) کو یاد کیجیے جب وہ (اپنی قوم پر) غضب ناک ہو کر نکلے تو انہوں نے یہ گمان کیا کہ ہم ان پر ہرگز تنگی نہیں کریں گے پھر انہوں نے تاریکیوں میں پکارا کہ تیرے سوا عبادت کا کوئی مستحق نہیں ہے تو پاک ہے، بیشک میں (ہی) زیادتی کرنے والوں میں سے تھا تو ہم نے ان کی پکار سن لی اور ان کو غم سے نجات دے دی اور ہم اسی طرح مومنوں کو غم سے نجات دیتے ہیں (الانبیاء :87-88)

حضرت یونس (علیہ السلام) کا قصہ 

یہ انبیاء (علیہم السلام) کا آٹھواں قصہ ہے۔

حضرت یونس (علیہ السلام) کے پورے قصہ کی تفصیل ہم نے یونس :98 (تبیان القرآن ج ٥ ص 469-478) میں ذکر کردی اور حسب ذیل عنوانات پر بحث کی ہے :

حضرت یونس (علیہ السلام) کا نام و نسب، حضرت یونس (علیہ السلام) کی فضیلت میں قرآن مجید کی آیات، حضرت یونس (علیہ السلام) کی فضلیت میں احادیث، حضرت یونس (علیہ السلام) کی سوانح، آثار عذاب دیکھ کر حضرت یونس (علیہ السلام) کی قوم کا توبہ کرنا، حضرت یونس (علیہ السلام) کی قوم کی توبہ قبول کرنے اور فرعون کی توبہ قبول نہ کرنے کی وجہ، حضرت یونس (علیہ السلام) پر گرفت کی توجیہ اور نگاہ رسالت میں ان کا بلند مقام، حضرت یونس (علیہ السلام) کی آزمائش پر سید مودودی کی تنقید، سید مودودی کی تنقید پر توجیہ اور نگاہ رسالت میں ان کا بلند مقام، حضرت یونس (علیہ السلام) کی آزمائش پر سید مودودی کی تنفید، سید مودودی کی تنفید پر مصنف کا تبصرہ 

فظن ان لن نقدر علیہ کے ترجمہ کی تحقیق 

اس آیت میں نقدر کا لفظ تقدیر سے بھی ماخوذ ہوسکتا ہے اس صورت میں اس کا معنی ہوگا حضرت یونس (علیہ السلام) نے یہ گمان کیا کہ ہم ان کے لئے کسی سزا یا گرفت کو مقدر نہیں کریں گے اور اگر یہ قدرت سے ماخوذ ہو تو اس کا معنی ہوگا انہوں نے یہ گمان کیا کہ ہم ان پر قادر نہیں ہوں گے۔ اہل لغنت اور مفسرین نے اسن معنی کو کفر قرار دیا ہے اور صحیح یہ ہے کہ قدر کا معنی ہے تنگی کرنا، یعنی حضرت یونس (علیہ السلام) نے یہ گمان کیا کہ ہم ان پر ہرگز تنگی نہیں کریں گے۔ ہم نے ترجمہ میں اسی معنی کو اختیار کیا ہے۔ پہلے ہم اس آیت کے مختلف تراجم پیش کریں گے پھر ہم اپنے موقف پر اہل لغت اور مفسرین کی تصریحات پیش کریں گ۔ فنقول وباللہ التوفیق 

فظن ان لن نقدر علیہ کے مختلف تراجم 

شیخ سعدی شیرازی متوفی 691 ھ لکھت یہیں : پس گمان برد آنکہ تنگ نہ خود اہم کرد براو۔ 

شاہ ولی اللہ دہلوی متوفی 1176 ھ لکھتے ہیں : پس گمان گیرد کہ تنگ نہ گیرم بروے۔

شاہ رفیع الدین دہلوی متوفی 1233 ھ لکھتے ہیں : پس جانا یہ کہ ہرگز نہ تنگ پکڑیں گے ہم اوپر اوس کے۔ 

شاہ عبدالقادر دہلوی متوفی 1230 ھ لکھتے ہیں : پھر سجھا کہ ہم نہ پکڑ سکیں گے۔ مئوخر الذکر ترجمہ میں قدر کو قدرت سے ماخوذ مانا ہے، اس کی اتباع میں شیخ محمود الحسن متوفی 1339 ھ نے قدر کا ترجمہ قدرت سے کیا ہے، وہ لکھتے ہیں : پھر سمجھا کہ ہم نہ پکڑ سکیں گے اس کو۔

شیخ شبیر احمد عثمانی متوفی 1369 ھ اس ترجمہ کی تاویل میں لکھتے ہیں :

یا اسی طرح نکل کر بھاگا جیسے کوئی یوں سمجھ کر جائے کہ اب اس کو پکڑ کر واپس نہیں لاسکیں گے۔ گویا بستی سے نکل کر ہماری قدرت سے ہی نکل گیا۔ یہ مطلب نہیں کہ معاذ اللہ یونس (علیہ السلام) فی الواقع ایسا سمجھتے تھے ایسا خیال تو ایک ادنیٰ مومن بھی نہیں کرسکتا، بلکہ غضر یہ ہے کہ صورتحال ایسی تھی جس سے یوں منتزع ہوسکتا تھا۔ حق تعالیٰ کی عادت ہے کہ وہ کاملین کی ادنیٰ ترین لغزش کو بہت سخت پیرا یہ میں ادا کرتا ہے۔ (حاشیہ شبیر احمد عثمانی برتفسیر محمود الحسن ص 439، مطبوعہ مملکت سعودی عربیہ) 

اس لغزش کو اللہ تعالیٰ نے سخت پیرایہ میں ادا نہیں کیا کیونکہ ارباب لغت اور مفسرین کی تصریحات کے مطابق ان لن نقدر کا معنی ہے ہم ان پر تنگی نہیں کریں گے۔ سخت پیرا یہ بلکہ گستاخانہ پیرایہ تو شیخ محمود الحسن کا ترجمہ ہے ” پھر سمجھا کہ ہم نہ پکڑ سکیں گے اس کو۔ “ اور اس آیت میں نقدر کو بہ معنی قدرت لینے کو ارباب لغت اور مفسرین نے کفر قرار دیا ہے۔

نقدر بہ معنی قدرت کو ائمہ لغت کا کفر قرار دینا۔

علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی 502 ھ اور علامہ محمد طاہر پٹنی متوفی 986 ھ نے لکھا ہے اس آیت کا معنی ہے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) نے گمان کیا کہ ہم ان پر ہرگز تنگی نہیں کریں گے۔ (المفردات ج ٢ ص 512، مطبوعہ مکہ مکرمہ 1418 ھ مجمع بحار الانوارج ٤ ص 228 مطبوعہ مدینہ منورہ 1415 ھ)

علامہ جمال الدین محمد بن مکرم بن منظور افریقی متوفی 711 ھ اور علامہ سید محمد بن محمد زبیدی متوفی 1205 ھ لکھتے ہیں :

انفرا اور ابوالہیثم نے کہا فظن ان لن نقدر علیہ کا معنی ہے انہوں نے گمان کیا کہ ہم ان پر تنگی نہیں کریں گے اور زجاج نے کہا ہم ان کے لئے مچھلی کے پیٹ میں رہنا مقدر نہیں کریں گے اور نقدر تقدیر سے ماخوذ ہے ازہری نے کہا یہ معنی بھی فصیح ہے اور یہ اطلاقات ازروئے لغت کے جائز ہیں اور جس نے نقدر کو قدرت سے ماخوذ مانا سو یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ جس نے یہ گمان کیا کہ اللہ کو اس پر قدرت نہیں ہوگی اس نے کفر کیا۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت میں ظن اور شک کفر ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کو کفر سے معصوم رکھا ہے اور اس معنی کی وہی تاویل کرے گا جو کلام عرب اور اس کی لغات سے جاہل ہو۔ (لسان العرب ج ٥ ص 77 ملحضاً مطبوعہ ایران تاج العروس ج و ص 482 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت)

نقدر بہ معنی قدرت کو مفسرین کا کفر قرار دینا :۔

امام فخر الدین محمد بن عمر رازی شافعی متوفی 606 ھ لکھتے ہیں :

جس نے یہ گمان کیا کہ اللہ عاجز ہے، وہ کافر ہے، کسی ایک مومن کی طرف بھی اس کی نسبت کرنا جائز نہیں ہے تو انبیاء علہیم السلام کی طرف اس کی نسبت کرنا کس طرح جائز ہوگا۔ اس کا معنی یہ ہے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) نے یہ گمان کیا کہ ہم ان پر تنگی نہیں کریں گے اور اب نقدر کا معنی تنگی کرنا ہوگا اور اس آیت کا معنی یہ ہے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) نے یہ گمان کیا کہ ہم ان پر تنگی نہیں کریں گے اور حسب ذیل آیات میں قدر بہ معنی تنگی کرنا ہے :

اللہ یسط الرزق لمن یشآء من عبادہ ویقدرا (العنکبو :62) اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہے، رزق کشادہ کردیتا ہے اور جس کے لئے چاہے تنگ کردیتا ہے۔ 

ومن قدر علیہ رزق (الطلاق : ٧) اور جس پر اس کا رزق تنگ کردیا گیا۔ 

واما اذا مابتلہ فقدر علیہ رزقہ فیقول ربی اھانن (الفجر :16) اور رہا وہ جس کو وہ آزماتا ہے سو اس کی روزی تنگ کردیتا ہے تو وہ کہتا ہے میرے رب نے مجھے ذلیل کیا۔ (تفسیر کبیرج ٨ ص 180، داراحیاء التراث العربی بیروت، 1415 ھ)

علامہ ابوعبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی 668 ھ لکھتے ہیں :

ایک قولیہ ہے کہ شیطان نے ان کے ذہن میں یہ گمان ڈالا کہ اللہ ان کو سزا دینے پر قادر نہیں ہے یہ قول مردود ہے اور کفر ہے۔ عطا، سعید بن جبیر اور اکثر علماء نے یہ کہا ہے کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ انہوں نے یہ گمان کیا کہ اللہ تعالیٰ ان پر تنگی نہیں فرمائے گا جس طرح الرعد :26 میں بقدر اور الطلاق : ٧ میں قدر تنگی کرنے کے معنی میں ہے۔

قاضی بیضاوی متوفی 685 ھ نے بھی اس آیت میں ان لن نقدر کا معنی تنگی نہ کرنا کیا ہے۔ اس کی شرح میں علامہ احمد بن محمد حنف خفا جی متوفی 1069 ھ لکھتے ہیں :

یہ لفظ قدرت سے ماخوذ نہیں ہے کیونکہ اس کا گمان کوئی بھی نہیں کرسکتا چہ جائیکہ صحضرت یونس) جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ (عنایتہ القاضی ج ٦ ص 467، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، 1417 ھ)

مفتی محمد شفیع دیوبندی متوفی 1396 ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

لفظ نقدر میں بہ اعتبار لغت کے ایک احتمال یہ ہے کہ یہ مصدر قدرت سے مشتق ہو تو معنی یہ ہوں گے کہ انہوں نے یہ گمان کرلیا کہ ہم ان پر قدرت اور قابو نہ پاسکیں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ بات کسی پیغمبر سے تو کیا مسلمان سے بھی اس کا گمان نہیں ہوسکتا کیونکہ ایسا سمجھنا کفر صریح ہے اس لئے یہاں یہ معنی قطعاً نہیں ہوسکتے۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہ مصدر قدر سے مشتق ہو جس کے منی تنگی کرنے کے ہیں۔ جسے قرآن کریم میں ہے :

اللہ یسط الرزق لمن یشآء من عبادہ ویقدر لہ۔ اللہ تعالیٰ وسعت کردیتا ہے رزق میں جس کے لئے چاہے اور تنگ کردیتا ہے جس پر چاہے۔

ائمہ تفسیر میں سے عطاء سعید بن جبیر، حسن بصری اور بہت سے علماء نے یہی معنی اس آیت میں لئے ہیں اور مراد آیت کی یہ قرار دی کہ حضرت یونس (علیہ السلام) کو اپنے قایس و اجتہاد سے یہ گمان تھا کہ ان حالات میں اپنی قوم کو چھوڑ کر کہیں چلے جانے کے بارے میں مجھ پر کوئی تنگی نہیں کی جائے گی۔ (معاف القرآن ج ٦ ص 223 مطبوعہ ادارۃ المعارف کراچی 1413 ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 21 الأنبياء آیت نمبر 87