أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَهُوَ الَّذِىۡۤ اَنۡشَاَ لَـكُمُ السَّمۡعَ وَالۡاَبۡصَارَوَالۡاَفۡئِدَةَ‌ ؕ قَلِيۡلًا مَّا تَشۡكُرُوۡنَ‏ ۞

ترجمہ:

اور وہی ہے جس نے تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل پیدا کئے مگر تم بہت کم شکر ادا کرتے ہو

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور وہی ہے جس نے تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل پیدا کئے (مگر) تم بہت کم شکر ادا کرتے ہو۔ اور وہی ہے جس نے تم کو روئے زمین پر پھیلا دیا اور تم اسی کی طرف اٹھائے جائو گے۔ اور وہی ہے جو زندہ کرتا ہے اور موت دیتا ہے اور رات اور دن کا اختلاف (بھی) اسی کے اختیار میں ہے کیا پس تم نہیں سمجھتے۔ (المئومنون : ٨٠-٧٨)

اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتیں اور بندوں کی ناشکری 

اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے بتایا تھا کہ کفار اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو سننے سے انکار کرتے ہیں اور حقائق میں غور و فکر نہیں کرتے اور ان سے نصیحت حاصل نہیں کرتے، اب اللہ تعالیٰ مومنوں کے سامنے اپنی آیات بیان فرما رہا ہے کہ وہی ہے جس نے تم کو کان، آنکھیں اور دل عطا کئے ہیں اور تم کو ان اعضاء کو استعمال کرنے اور ان سے استفادہ کرنے کی توفیق عطاکی ہے اور اس پر تنبیہ فرمائی ہے کہ جو ان اعضاء کا صحیح استعمال نہیں کرتا وہ اس شخص کی طرح جس کے پاس یہ اعضاء نہ ہوں جیسا کہ اس آیت میں ہے :

(الاحقاف : ٢٦) اور بیشک ہم نے ان (قوم عاد) کو ان چیزوں پر اقتدار دیا تھا جن پر تمہیں اقتدار نہیں دیا اور ہم نے انہیں کان اور آنکھیں اور دل بھی دیئے ہوئے تھے لیکن ان کے کان اور آنکھوں اور دلوں نے ان کو نفع نہیں پہنچایا جب کہ وہ اللہ کی آیتوں کا انکار تھے۔

اللہ سبحانہ نے ان آیتوں میں اپنی عظیم نعمتوں کا بیان فرمایا ہے کہ اس نے کان، آنکھیں اور دل عطا کئے ہیں اور ان نعمتوں کا خصوصیت کے ساتھ اس لئے ذکر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی توحید پر استدلال کرنا ان ہی اعضاء پر موقوف ہے، پھر یہ فرمایا کہ لوگ ان نعمتوں کا بہت کم شکر ادا کرتے ہیں، اور دوسری نعمت کا اس طرح ذکر فرمایا اور وہی ہے جس نے تم کو روئے زمین پر پھیلا دیا یعنی نسل در نسل تم کو زمین میں آباد کردیا اور قیامت کے دن تم کو دارآخرت میں جمع فرمائے گا اور جہاں اس کے سوا اور کوئی حاکم نہیں ہوگا اور تیسری نعمت کا اس طرح ذکر فرمایا کہ وہی ہے جس نے تم کو حیات عطا کی تاکہ تم اس حیات میں نیک عمل کر کے دنیا اور آخرت کے امیدوار ہو جائو، اور موت عطا کی اور موت اس وجہ سے نعمت ہے کہ موت کے بعد ہی تم آخرت کی دائمی اور غیر متناہی نعمتوں کو حاصل کرسکتے ہو، اور چوتھی نعمت کا اس طرح ذکر فرمایا کہ وہی دن اور رات کو بار بار لاتا رہتا ہے دن میں تم اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کام کاج اور کسب کرتے ہو اور ان کی تھکاوٹ دور کرنے کے لئے تم رات میں آرام کرتے ہو، اگر دن کو پورا کرنے کے لئے کام کاج اور کسب کرتے ہو اور ان کی تھکاوٹ دور کرنے کے لئے تم رات میں آرام کرتے ہو، اگر دن اور رات کا یہ اختلاف نہ ہوتا مثلاً اگر مسلسل دن ہوتا اور رات نہ ہوتی تو تمہاری تھکاوٹ دور نہ ہوتی اور نیند اور سکون میسر نہ ہوتا اور اگر مسلسل رات ہوتی تو تم کام کاج اور کاروبار نہ کرسکتے اس لئے دن اور رات کا اختلاف بنایا سو دن اور رات کا یہ اختلاف بھی تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے، وہ فرماتا ہے :

(القصص : ٧٢-٧١) آپ کہیے بھلا بتائو تو سہی اگر اللہ تمہارے لئے قیامت تک مسلسل رات ہی رات بنا دیتا تو کیا اللہ کے سوا کوئی معبود ہے جو تمہارے پاس دن کی روشنی لے آتا کیا پس تم سنتے نہیں ہو ؟۔ آپ کہیے ذرا یہ تو بتائو کہ اگر اللہ تمہارے لئے قیامت تک مسلسل دن ہی دن بنا دیتا تو کیا اللہ کے سوا کوئی معبود ہے جو تمہارے پاس رات لے آتا جس میں تم آرام کرتے کیا پس تم دیکھتے نہیں ہو۔ 

پھر جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں میں غور اور فکر نہیں کرتے ان کے متعلق فرمایا کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے !

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون آیت نمبر 78