أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فِىۡ بُيُوۡتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنۡ تُرۡفَعَ وَيُذۡكَرَ فِيۡهَا اسۡمُهٗۙ يُسَبِّحُ لَهٗ فِيۡهَا بِالۡغُدُوِّ وَالۡاٰصَالِۙ ۞

ترجمہ:

جن گھروں کے بلند کئے جانے اور ان میں اس کے نام کا ذکر کئے جانے کا اللہ نے حکم دیا ہے، ان میں صبح اور شام اس کی تسبیح کرتے ہیں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : جن گھروں کے بلند کئے جانے اور ان میں اس کے نام کا ذکر کئے جانے کا اللہ نے حکم دیا ہے، ان میں صبح اور شام اس کی تسبیح کی جاتی ہے۔ (النور : ٣٦)

مساجد کی تعمیر، مساجد میں ذکر اور تسبیح اور مساجد کے آداب کے متعلق احادیث 

یہ آیت اس سے پہلی آیت کے ساتھ مربوط ہے اور پہلی آیت میں جس طاق کا ذکر فرمایا ہے کہ اس میں ایک فانونس ہے جس میں ایک روشن چراغ ہے اب یہ فرمایا ہے کہ وہ طاق کہاں ہے، وہ طاق ان گھروں میں ہے جن کو بلند کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنا ذکر کرنے کا حکم دیا ہے جہاں صبح اور شام اللہ کی تسبیح کی جاتی ہے، ان گھروں سے کیا مراد ہے حضرت ابن عباس (رض) اور جمہور کے نزدیک ان گھروں سے مراد مساجد ہیں، اور مجاہد نے کہا ان گھروں سیم راد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج کے حجرے ہیں اور حسن بصری نے کہا اس سے مراد بیت المقدس ہے۔ (زاد المسیرج ٦ ص 46، مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت، 1407 ھ)

اب ہم مساجد کے بلند کئے جانے اور اس میں اللہ کا ذکر کئے جانے کے متعلق چند احادیث پیش کر رہے ہیں۔

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں مسجد کچی اینٹوں کی بنی ہوئی تھی، اور اس کی چھت شاخوں کی تھی اور اس کے ستون کھجور کے تنوں کے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اس کی عمارت میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔ حضرت عمر نے اس میں اضافہ کا یا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد کی بنیادوں پر اینٹوں اور درخت کی شاخوں سے اس کو بنایا اور لکڑی کے ستون لگائے، پھر حضرت عثمان (رض) نے اس میں بہت تبدیلی کی اور اس میں بہت اضافہ کیا اس کی دیواریں نقشین پتھروں اور چونے سے بنائیں اور اس کے ستون بھی منقش پھتروں کے بنائے اور ساگوان کی لکڑی سے اس کی چھت بنائی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٤٦، (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٤٥١، مسند حمد رقم الحدیث : ٦١٣٩)

عبید اللہ الخولانی بیان کرتے ہیں جب لوگوں نے حضرت عثمان (رض) پر بہ کثرت اعتراض کئے کہ آپ نے اتنی بڑی اور حسین و جمیل مسجد کیوں بنائی ہے ؟ تو حضرت عثمان (رض) پر بہ کثرت اعتراض کئے کہ آپ نے اتنی بڑی اور حسین و جمیل مسجد کیوں بنائی ہے ؟ تو حضرت عثمان (رض) نے کہا کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس شخص نے اللہ کی رضا جوئی کے لئے مسجد کو بنایا اللہ جنت میں اس کی مثل اس کا گھر بنا دے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٥٠، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٣٣، (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣١٨، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٧٣٦)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا گھر میں اکیلے نماز پڑھنے اور بازار میں نماز پڑھنے کی بہ نسبت مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا اجر پچیس درجہ زیادہ ہوتا ہے، کیونکہ جب تم میں سے کوئی شخص اچھی طرح وضو کر کے مسجد میں آتا ہے اور اس کا ارادہ صرف نماز پڑھنے کا ہوتا ہے تو اس کے ہر قدم پر اللہ اس کا ایک درجہ بلند کرتا ہے اور اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے حتیٰ کہ وہ مسجد میں داخل ہوجاتا ہے اور جب وہ مسجد میں داخل ہوجاتا ہے تو جتنے وقت وہ نما ز کے لئے مسجد میں ٹھہرا رہتا ہے اس کا وہ وقت نماز میں ہی شمار کیا جاتا ہے اور جب تک وہ نماز کی جگہ میں بیٹھا رہتا ہے فرشتے اس کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں اے اللہ ! اس پر رحم فرما جب تک وہ اپنا وضو نہیں توڑتا۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٧٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٦٤٩، مسند احمد رقم الحدیث :9363 عالم الکتب بیروت)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم جنت کے باغات کے پاس سے گزرہ تو ان میں چر لیا کرو، میں نے پوچھا یا رسول اللہ جنت کے باغات کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا مساجد، میں نے پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں چرنا کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : سبحان اللہ والحمد اللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر۔

(سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٥٠٩، المسند الجامع رقم الحدیث : ١٤٣٣٥)

مساجد میں پانچ وقت نماز پڑھی جاتی ہے اور ان نمازوں میں اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے اور اس کی تسبیح پڑھی جاتی ہے۔

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اچانک ایک اعرابی (دیہاتی) آیا اور وہ کھڑا ہو کر مسجد میں پیشاب کرنے لگا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب نے اس کو ڈانٹا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کا پیشاب منقطع نہ کرو، اس کو چھوڑ دو ۔ صحابہ نے اس کو چھوڑد ای، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو بلا کر اس سے فرمایا ان مساجد میں پیشاب کرنا اور گندگی ڈالنا جائز نہیں ہے، یہ مساجد تو اللہ عزوجل کے ذکر، نماز اور قرآن پڑھنے کے لئے ہیں، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو حکم دیا تو وہ پانی کا ڈول لے کر آیا اور اس پیشاب پر بہا دیا۔ (صحیح مسلم الطہارۃ :100 رقم الحدیث بلا تکرار ٢٨٥ الرقم المسلسل ٦٤٨ )

حضرت واثلہ بن الاسقع (رض) بیان کرت یہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنے بچوں کو پاگلوں کو شریوں کو، اپنی خریدو فروخت کو اور اپنے جھگڑوں کو اور اپنی بلند آوازوں کو اور اپنی حدود کے نفذ کو اور اپنی تولاروں کے سونتنے کو اپنی مسجد سے دور رکھو، اور اپنی مسجدوں کے دروازوں پر وضو کرنے کی ٹونٹیاں بنائو اور ان میں گرم پانی ڈالو۔ (یعنی سردیوں میں) 

(سنن ترمذی رقم الحدیث : ٧٥٠ مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٧٢٦ المعجم الکبیرج ٢٠ ص ١٧٣ مجمع الزوائد ج ٢ ص ٢٦ )

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 24 النور آیت نمبر 36