أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قَالُوۡا لَا ضَيۡرَ‌ ۖ اِنَّاۤ اِلٰى رَبِّنَا مُنۡقَلِبُوۡنَ‌ۚ ۞

ترجمہ:

انہوں نے کہا کوئی مضائقہ نہیں، ہم اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں

اہل معرفت پر مصائب کا آسان ہونا، اور مصائب برداشت کرنے پر انہیں مراتب سے نوازنا۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جادوگروں نے کہا کوئی مضائقہ نہیں ! ہم اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں۔

جادوگروں نے جو فرعون سے کہا ہم اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں اس کے حسب ذیل محامل ہیں :

(١) وہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں اتنے مستغرق ہوچکے تھے کہ وہ ہر حادثہ اور ہر مصیبت میں اللہ سے واصل ہونے اور اس کی ذات کا ارادہ کرتے تھے، وہ ثواب کی رغبت میں ایمان لائے تھے اور نہ عذاب کے خوف سے، ان کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا اور اس کی معرفت کے انوار میں ڈوب جانا تھا۔

(٢) انہوں نے کہا ہماری خواہش یہ ہے کہ ہمارا رب ہمارے گناہوں کو بخش دے، اس کا محمل یہ ہے کہ ایمان لانے سے پہلے جو انہوں نے کفر کیا تھا اور جادو کیا تھا ان گناہوں کو اللہ تعالیٰ معاف فرما دے۔

(٣) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کے قرب کے کتنے بڑے متربہ پر کیوں نہ پہنچ جائے، وہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا رنے سے مستغنی نہیں ہوتا اور انسان کو کبھی اپنی نیکیوں سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے اور چاہے وہ کتنا پہنچا ہوا بزرگ اور عبادت گزار کیوں نہ ہو اس کو اپنے آپ کو قصور دار قرار دے کر اللہ تعالیٰ سے اپنی خطائوں کی معافی طلب کرنی چاہیے، کوئی بھی شخص قرب الٰہی میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے بڑھ کر تو نہیں انہوں نے بھی یہ دعا کی تھی۔

(الشعرائ : ٨٢) اور جس چیز کی میں امید کرتا ہوں کہ وہ قیامت کے دن میری (اجتہادی یابہ ظاہر) خطائوں کو بخش دے گا۔

فرعون نے ایمان لانے والے جادوگروں کو سولی پر چڑھا کر شہید کردیا تھا، اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو حق کا اظہار کرنا چاہیے اور ظالموں کی ظلم اور ان کی دھمکیوں کی پروا نہ کر کے کلمہ حق سنا دینا چاہیے۔ جیسا کہ ان ایمان لانے والے جادوگروں نے کیا۔ ابن عطا نے کہا جو شخص حق کا مشاہدہ کرلیتا ہے اس پر حق کی راہ میں ہر مصیبت اور ہر بلا آسان ہوجاتی ہے۔

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھے ہوئے تھے اور حضرت اسماء بنت عمیس ان کے قریب تھیں۔ اچانک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلام کا جواب دیا، پھر آپ نے فرمایا، اے اسمائ ! یہ جعفر بن ابی طالب تھے جو حضرت جبریل اور میکائل (علیہما السلام) کے ساتھ تھے، وہ یہاں سے گزرے تو انہوں نے مجھ کو سلام کیا۔ میں نے ان کے سلام کا جواب دیا، اور جعفر نے بتایا کہ ان کا فلاں، فلاں دن مشرکین سے مقابلہ ہوا تو میرے جسم کے سامنے کے حصہ میں تہتر زخم اور گھائو لگے، پھر میں نے اپنے دائیں ہاتھ سے جھنڈا پکڑ لیا میرا وہ ہاتھ کاٹ دیا گیا تو میں نے بائی ہاتھ میں جھنڈا پکڑ لیا پھر میرا وہ ہاتھ بھی کاٹ دیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے میرے ان دو ہاتھوں کے بدلے میں یہ دو پر عطا فرمائے جن کے ساتھ میں حضرت جبرئیل اور میکائیل کے ساتھ جنت میں اڑتا ہوں، اور جہاد چاہتا ہوں اتر جاتا ہوں، اور جنت کے پھلوں سے جو چاہتا ہوں کھاتا ہوں، حضرت اسماء نے کہا اللہ تعالیٰ نے حضرت جعفر کو جو خیر عطا کی ہے وہ ان کو مبارک ہو، لیکن مجھے خوف ہے کہ لوگ اس خبر میں میری تصدیق نہیں کریں گے، تو یا رسول اللہ ! آپ منبر پر چڑھ کر لوگوں کو یہ خبر سنا دیجیے سو آپ منبر پر چڑھے اور آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کرنے کے بعد فرمایا : اے لوگو ! جعفر بن ابی طالب جبریل اور میکائل کے ساتھ گزرے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دو ہاتھوں کے بدلے میں ان کو دو پر عطا فرمائے، جن کے ساتھ وہ جنت میں جہاں چاہتے ہیں اڑتے ہیں، انہوں نے مجھے سلام کیا اور یہ بتایا کہ ان کا معاملہ کس طرح ہوا جب ان کا مشرکوں سے مقابلہ ہوا تھا، اس دن کے بعد سے مسلمانوں میں یہ مشہور ہوگیا اور ان کا نام جعفر طیار پڑگیا کہ وہ جنت میں اڑنے والے ہیں۔

(المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٦٩٣٢ مطبوعہ مکتبتہ المعارف ریاض، ١٤١٥ ھ المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٦٩٢٦ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤٢٠ ھ حافظ الہیثمی نے کہا اس حیدث کی سند حسن ہے، مجمع الزوائد ج ٩ ص 275-276)

شیخ اکبر قدس سرہ نے کہا کہ ہمارے رسول سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اعلان نبوت سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شریعت پر عمل کرتے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت اور رسالت عطا فرمائی اور آپ نے اسلام کی تبلیغ فرمائی اس طرح جب ولی کامل شریعت محمدیہ پر عمل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے سینہ کو کھول دیتا ہے اور اس کے دل میں قرآن کے معانی اور اس کے اسرار کو القاء کرتا ہے اور اس کی زبان سے وہی بات جاری فرماتا ہے جو حق اور صواب ہوتی ہے پھر اللہ تعالیٰ اس سے مخلوق کی ہدایت کا کام لیتا ہے جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منصب رسالت عطا کیا گیا تھا۔ (روح البیان ج ٦ ص 354 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤٢١ ھ)

شیخ اکبر قدس سرہ کے اس کلام کا محمل یہ ہے کہ مسلمان کو جن احکام شرعیہ کا علم ہے جب وہ ان پر عمل کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان کے سینہ میں انوار معرفت ڈال دیتا ہے اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے :

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے ان احکام شرعیہ پر عمل کیا جن کا اس کو علم تھا تو اللہ اس کو ان علوم کا وارث کردیتا ہے جن کو وہ نہیں جانتا۔

(حلیۃ الاولیاء رقم الحدیث : ١٤٣٢٠ ھ ج ١٠ ص ١٣ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٨ ھ اتحاف السادۃ المتقین ج ١ ص ٤٠٣، کشف الخفاء ج ٢ ص ٣٦٥ رقم الحدیث : ٢٥٤٢ )

القرآن – سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 50