أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قَالَ يٰۤاَيُّهَا الۡمَلَؤُا اَيُّكُمۡ يَاۡتِيۡنِىۡ بِعَرۡشِهَا قَبۡلَ اَنۡ يَّاۡتُوۡنِىۡ مُسۡلِمِيۡنَ ۞

ترجمہ:

سلیمان نے کہا اے سردارو تم میں کون ان کے اطاعت گزار ہو کر آنے سے پہلے اس کا تخت میرے پاس لاسکتا ہے ؟

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سلیمان نے کہا : اے سردارو ! تم میں سے کون ان کے اطاعت گزار ہو کر آنے سے پہلے اس کا تخت میرے پاس لاسکتا ہے ؟۔ ایک بہت بڑے جن نے کہا میں آپ کے مجلس برخاست کرنے سے پہلے اس تخت کو آپ کے پاس حاضر کردوں گا، اور میں اس پر ضرور قادذر اور امین ہوں۔ جس شخص کے پاس کتاب کا علم تھا اس نے کہا میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے اس تخت کو آپ کے پاس حاضر کر دوں گا سو جب سلیمان نے اس تخت کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا تو کہا یہ میرے رب کے فضل سے ہے تاکہ وہ میرا عملظاہر کرے کہ آیا میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری، اور جو شکر کرتا ہے تو وہ اپنے فائدہ ہی کے لئے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا رب بےپرواہ بزرگ ہے۔ (النمل : ٤٠-٣٨)

بلقیس کا حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت میں روانہ ہونا 

علامہ سید محمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :

اس آیت سے پہلے ایک عبارت مقدر ہے، یعنی بلقیس کا سفیر واپس بلقیس کے پاس گیا اور بتایا کہ حضرت سلیمان نے اس پر حملہ کرنے کی قسم کھالی ہے، تب بلقیس نے اطاعت شعاری کی نیت سے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہونے کی تیاری کی اور اس کو یقین ہوگیا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اللہ کے نبی ہیں اور وہ ان سے جنگ کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ روایت ہے کہ اس نے شہر سے نکلتے وقت اپنے تخت کو محفوظ کردیا، اس کے ہاں سات کمرے تھے ہر کمرے کے پیچھے ایک کمرہ تھا۔ اس نے ساتویں کمرے میں تخت کو بند کردیا اور کمرے میں قفل ڈال دیا، بلکہ ساتوں کمروں میں تالے لگائے اور اس کی حفاظت کے لئے چوکیدار مقرر کردیئے، پھر اپنے خدام اور متعبین کے ساتھ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرف روانہ ہوئی، اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرف پیغام بھیجا کہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہو رہی ہوں تاکہ آپ کے احکام کو سمجھوں اور جس دین کی آپ مجھے دعوت دے رہے ہیں اس میں غور کروں۔

تخت بلقیس منگوانے کی وجوہات 

عبداللہ بن شداد نے کہا جب بلقیس حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ملک سے ایک فرسخ (تین شرعی میل جو ساڑھے چار انگریزی میل کے برابر ہیں) کے فاصلہ پر رہ گئی تو حضرت سلیمان نے اپنے اہل دربار سے کہا : اے سردارو ! تم میں سے کون ان کے اطاعت گزار ہو کر آنے سے پہلے اس کا تخت میرے پاس لاسکتا ہے ؟

حضرت سلیمان علیہ اسللام بلقیس کے پہنچنے سے پہلے جو اس کا تخت منگوانا چاہتے تھے اس سے آپ کا مقصود کیا تھا، اس میں اختلاف ہے۔ حضرت ابن عباس اور ابن زید سے روایت ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) بلقیس کو یہ دکھانا چاہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو عجیب و غریب اور حیرت انگیز کاموں پر قدرت عطا کی ہے تاکہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی یہ قدرت ان کی نبوت پر دلالت کرے اور یہ جو فرمایا کہ ان کے پہنچنے سے پہلے وہ تخت لایا جائے تاکہ اس سے خلاف عادت کام پر اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت ظاہر ہو اور ان کی نبوت پر دلیل قائم ہو اور بلقیس جب یہاں پہنچے تو پہنچتے ہی پہلی ساعت میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر مطلع ہوجائے۔

امام ابن جریر طبری نے کہا کہ آپ نے تخت اس لئے منگوایا کہ آپ ہد ہد کی خبر کے صدق کی آزمائش اور امتحان لیں کیونکہ اس نے کہا تھا کہ اس کا تخت عظیم ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ آپ نے وہ تخت اس لئے منگوایا تھا کہ آپ اس تخت میں کچھ تغیر اور تبدل کردیں پھر بلقیس کی عقل کا امحتان لیں کہ وہ اپنے تخت کو پہچانتی ہے یا نہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ آپ نے حربی کے مال پر اس کی رضا کے بغیر قبضہ کرنا چاہا تھا اور آپ یہ اقدام اللہ تعالیٰ کی وحی سے کر رہے تھے اور یہ آپ کی خصوصیات میں سے تھا، ورنہ شرائع سابقہ میں تو مال غنیتم کو بھ لینا حلال نہ تھا اور یہ تو مال غنیمت بھی نہ تھا، جو بات دل کو زیادہ لگتی ہے وہ یہی ہے کہ آپ بلقیس کو اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اپنا معجزہ دکھانے کے لئے اور اس میں تغیر اور تبدل کر کے اس کا امحتان لینے کے لئے اس کے پہنچنے سے پہلے اس کا تخت منگوا رہے تھے۔ (روح المعانی جز 19 ص 300-301 مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 27 النمل آیت نمبر 38