أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قَالُوا اطَّيَّرۡنَا بِكَ وَبِمَنۡ مَّعَكَ‌ ؕ قَالَ طٰٓئِرُكُمۡ عِنۡدَ اللّٰهِ‌ بَلۡ اَنۡـتُمۡ قَوۡمٌ تُفۡتَـنُوۡنَ‏ ۞

ترجمہ:

انہوں نے کہا ہم آپ کو اور آپ کے اصحاب کو بدشگون (منحوس) خیال کرتے ہیں ‘ صالح نے کہا تمہاری بدشگونی (نحوست) اللہ کے ہاں ہے بلکہ تم فتنہ میں مبتلا ہو

نحوست اور بدشگونی کی تحقیق 

کافروں نے کہا ہم آپ کو اور آپ کے اصحاب کو بدشگون (منحوس) خیال کرتے ہیں۔ (النمل : ٤٧ )

بدشگونی سے مراد نحوست ہے۔ کسی انسان کی عقل کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ وہ کسی چیز سے بدشگونی لے اور اس کو منحوس سمجھے۔ بعض لوگ گمان کرتے ہیں کہ گائے کا ڈکرانا اور کوے کا کائیں کائیں کرنا نحوست ہے اور بعض الو کو منحوس کہتے ہیں یہ سب جہالت کی باتیں ہیں۔ عرب بھی بدشگونی کے قائل تھے وہ کوئی کام کرنے سے پہلے پرندے کو اڑاتے اگر وہ ان کی دائیں طرف اڑجاتا تو وہ اس کام کو مبارک سمجھتے اور اگر وہ پرندہ ان کی بائیں طرف اڑ جاتا تو وہ اس کام کو منحوس یعنی نا مبارک اور بےبرکت سمجھتے۔

قطن بن قبیصہ اپنے والد (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا رمل (لکیریں کھینچ کر غیب کا حال معلوم معلوم کرنا) اور بد شگونی لینا اور فال نکالنے کے لیے پرندے کو اڑانا شیطانی اعمال سے ہیں۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٩٠٧)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین بار فرمایا بدشگونی لینا شرک ہے اور ہم میں سے اکثر لوگ اس میں مبتلا ہیں سوا ان کے جن کو اللہ محفوظ رکھے لیکن بدشگونی لینا توکل کو ختم کردیتا ہے۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣١٠‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٦١٤‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٥٣٨)

حضرت بریدہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی چیز سے بدشگونی نہیں لیتے تھے ‘ آپ کسی شخص کو عامل بنا کر بھیجتے تو اس کا نام پوچھتے اگر اس کا نام آپ کو اچھا لگتا تو آپ کے چہرے پر خوشی کے آثار ظاہر ہوتے اور اگر آپ کو اس کا نام پسند نہ آتا تو آپ کے چہرے پر ناگواری کے آثارظاہر ہوتے۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٩٢٠ )

حضرت ام کرز (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پرندوں کو ان کے گھونسلوں میں رہنے دو ۔ (مسنداحمد رقم الحدیث : ٢٧٠١٩‘ دارلحدیث قاہرہ ‘ المستدرک ج ٤ ص ٢٣٨‘ مسند الحمیدی رقم الحدیث : ٣٤٧) یعنی پرندوں کو اڑا کر ان سے شگون نہ لو ‘ طیرکا معنی ہے اڑنا ‘ اور چونکہ پرندوں کو اڑاکر لوگ شگون لیتے تھے اس لیے بدشگونی کو تطیرکہتے ہیں۔

اس کے بعد فرمایا : صالح نے کہا تمہاری بدشگونی (نحوست) اللہ کے ہاں ہے۔

حضرت صالح کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جس شر اور مصیبت کو تم نحوست قرار دے رہے ہو وہ تمہاری تقدیر میں پہلے سے لکھی ہوئی ہے ‘ اور تمہاری تقدیر میں وہ مصیبتت تمہاری بد اعمالیوں کی وجہ سے لکھی گئی ہے ‘ خلاصہ یہ ہے کہ تم جس چیز کو بدشگونی اور مصیبت کہہ رہے ہو وہ تمہاری اپنی بداعمالیوں کا نتیجہ ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 27 النمل آیت نمبر 47