أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَ يَوۡمَ نَحۡشُرُ مِنۡ كُلِّ اُمَّةٍ فَوۡجًا مِّمَّنۡ يُّكَذِّبُ بِاٰيٰتِنَا فَهُمۡ يُوۡزَعُوۡنَ ۞

ترجمہ:

اور جس دن ہم ہر امت میں سے لوگوں کے ایک گروہ کو کو الگ کرلیں گے جو ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے تھے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور جس دن ہم ہر امت میں سے لوگوں کے ایک گروہ کو جمو کریں گے اور ان لوگوں کو الگ کرلیں گے جو ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے تھے۔ حتیٰ کہ جب وہ آجائے گے تو ( اللہ) فرمائے گا کیا تم نے میری آیتون کو جھٹلایا تھا حالانکہ تم نے اپنے علم سے ان کو احاطہ نہیں کیا تھا اگر یہ بات نہیں تو پھر تم کیا کرتے رہے تھے ؟۔ اور ان کے ظلم کرنے کی وجہ سے ان پر قول ( عذاب) واقع ہوچکا ‘ سو اب وہ کچھ نہیں بولیں گے۔ (النمل : ۸۵۔ ۸۳)

حشر کے دن کفار کے کفر و شرک پر زجروتوبیخ 

اس آیت میں ہے ویوم نحشر من کل امۃ فوجا۔ حشر کا معنی ہے جمع کرنا ‘ او اس آیت میں اس سے مراد ہے بس لوگوں کو محشر میں جمع کرنے کے بعد کفار کو عذاب کے لیے جمع کرنا ‘ امت لوگوں کی اس جماعت کو کہتے ہیں ‘ جس کی طرف کسی رسول کو بھیجا جائے ‘ پھر امت کی دو قسمیں ہیں ‘ امت دعوت اور امت اجابے ‘ امت دعوت اس کو کہتے ہیں جس جماعت کو اللہ کا رسول ‘ اللہ کا پیغام پہنچاتا ہے ‘ اور امت اجابت اس جماعت کو کہتے ہیں جو رسول کے لیے دئیے ہوئے پیغام کو قبول کرلے اور رسول پر ایمان لے آئے ‘ اور فوج اس جماعت کو کہتے ہیں جو تیزی سے کسی طرف پیش قدمی کر رہی ہو۔

اس آیت کا معنی ہے : اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے قوم کو وہ وقت باد دلائیے جب ہم تمام انبیاء کی امتوں میں سے ان گروہوں کو جمع کریں گے جو ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے تھے بوزعون کا معنی ہے ان کو جمع کیا جائے گا ‘ یا ان کو روک لیا جائے گا ‘ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فوج سے مراد اس گروہ کے رئیس ہوں ‘ یعنی ہر امت کے لوگوں میں سے ان کے رئیسوں اور سرداروں کو روک لیا جائے گا حتیٰ کی عوام آ کر ان سے مل جائیں مثلاََ فرعون ‘ نمرود اور ابی بن خلف کو روک لیا جائے گا حتی ٰکہ ان کے متبعین آ کر ان کے ساتھ مل جائیں ‘ پھر ان سب کو ہانک کر دوزخ کی طرف لے جایا جائے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 27 النمل آیت نمبر 83