أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَلَمَّاۤ اَتٰٮهَا نُوۡدِىَ مِنۡ شَاطِیٴِ الۡوَادِ الۡاَيۡمَنِ فِى الۡبُقۡعَةِ الۡمُبٰرَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ اَنۡ يّٰمُوۡسٰٓى اِنِّىۡۤ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الۡعٰلَمِيۡنَ ۞

ترجمہ:

پھر جب موسیٰ آگ کے پاس پہنچے تو انہیں اس وادی کے دائیں کنارے پر برکت والی زمین کے ٹکڑے سے ایک درخت سے نداء کی گئی کہ اے موسیٰ ! بیشک میں ہی اللہ رب العلمین ہوں

ان آیتوں کی تفصیل کے ساتھ تفسیر (طٰہٰ : ۱۰) اور (النمل : ٩) میں گزر چکی ہے ‘

مختصر یہ کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جو اللہ تعالیٰ کا کلام سنا اس میں ہمارے دو مذہب ہیں :

(١) امام ابو منصورماتریدی اور ائمہ مادراء النہر (دریاء آمو کے پار رہنے والے علماء یعنی وسط ایشے کی ریاستوں مثلاً ازبکستان ‘ تاشقند ‘ ترکمانستان ‘ آذربائی جان اور قازقستان وغیرہ کے اکابرعلمائ) کا مذہب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام قدیم اس کی ذاب کے ساتھ قائم ہے وہ نہیں سنائی دیا ‘ اور جو سنائی دیا ‘ اور جو سنائی دیا وہ آوازاء اور حروف تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے درخت میں پیدا کردیا تھا اور اسی آواز اور حروف کو حضرت موسیٰ نے سنا تھا۔

٠٢) امام ابو الحسن اشعری کا مذہب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام قدیم حرف اور آواز نہیں ہے اور اس کا سنائی دینا ممکن ہے جس طرح اللہ تعالیٰ جسم اور عرض نہیں ہے اور اس کا دکھائی دینا ممکن ہے پس جب وہ بغیر کسی رنگ کے دکھائی دے سکتا ہے تو بغیر آواز کے اس کا کلام سنا بھی جاسکتا ہے ‘ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کا کلام ‘ اللہ تعالیٰ سے سنا تھا ‘ درخت سے نہیں سنا تھا ‘ اہل سنت کی دلیل یہ ہے کہ انی انا اللہ رب العلمین کا محل اگر درخت ہو تو لازم آئے گا کہ درخت نے یہ کہا ہو کہ وہ اللہ ہے۔ 

امام رازی نے فرمایا ایک روایت میں ہے کہ ابلیس نے حضرت موسیٰ سے پوچھا آپ نے یہ کیسے جان لیا کہ یہ اللہ کا کلام ہے ؟ تو حضرت موسیٰ نے فرمایا میں نے یہ کلام اپنے جسم کے تمام اجزاء اور اعضاء سے سنا تھا۔ (تفسیر کبیرج ٨ ص ٣٩٥‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ٥١٤١ ھ)

علامہ ابوعبداللہ قرطبی مالکی متوفی ٨٦٦ ھ فرماتے ہیں کہ اس پر اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور اپنے برگزیدہ فرشتوں کو اپنے کلام کے سننے کے ساتھ خاص کرلیا ہے۔ استاذ ابواسحاق نے کہا ہے کہ اہل حق کا اس پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ میں ایک ایسی صفت پیدا کردی تھی جس سے انہوں نے اللہ تعالیٰ کا کلام سن لیا اور اس کا ادراک کرلیا ‘ اور ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق اختلاف ہے کہ آپ نے شب معراج اللہ تعالیٰ کا کلام سنا ہے یا نہیں ؟ اور آیا جبریل نے اللہ تعالیٰ کا کلام سنا ہے اس کے متعلق دو قول ہیں اور اس کے ثبوت کا ایک طریقہ تواتر سے نقل ہونا ہے اور یہ مقصود ہے۔

نیز علامہ قرطبی لکھتے ہیں عبد اللہ بن سعد بن کلاب نے یہ کہا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے کلام قدیم کو ان آوزوں سے سنا جن کو اللہ تعالیٰ نے بعض اجسام میں پیدا کردیا تھا۔ ابوالمعالی نے کہا یہ قول مردود ہے ‘ بلکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بطور خلاف عادت اللہ تعالیٰ کا کلام سنا ‘ اور یہ ان کے ساتھ مخصوص ہے ‘ اگر یہ بات نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کے حضرت موسیٰ کے ساتھ ہم کلام ہونے کا کوئی معنی نہیں ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو اپنا کلام عزیز سنایا اور ان میں یہ علم پیدا کردیا کہ انہوں نے جو سنا ہے وہ اللہ کا کلام ہے ‘ اور جس نے ان کو نداء کی اور ان سے کلام کیا وہ اللہ رب الٰعلمین ہے اور بعض روایات میں ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا میں نے اپنے رب کا کلام اپنے تمام اعضاء اور اجزاء سے سنا ہے اور میں نے اس کلام کو کسی ایک جہت سے نہیں سنا۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ٣١ ص ٠٦٢۔ ٩٥٢ د ‘ دارالفکر : ٥١٤١ ھ ‘ جز ٣١ ص ٢٥٢۔ ١٥٢‘ دارالکتاب العربی بیروت ‘ ٠٢٤١ ھ)

علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ٠٧٢١ ھ لکھتے ہیں : بعض احادیث ان پر دلالت کرتی ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کلام لفظی سنا تھا ‘ ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کلام کو درخت کے اندر بلا اتحاد اور حلول کے پیدا کردیا تھا۔ ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کلام کو اسی طرح ہوا میں پیدا کردیا تھا ‘ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کلام کو اپنی دائیں جانب سے سنا تھا یا تمام جہات سے سنا تھا۔ (روح المعانی جز ٠٢ ص ٠١١‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ٥١٤١ ھ)

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کلیم اللہ کہنے کی خصوصیت 

علامہ آلوسی حنفی لکھتے ہیں :

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جو خصوصیت کے ساتھ کلیم اللہ کہا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے کلام ازلی کو بغیر حرف اور آواز کے سنا ‘ اور اگر یہ کہا جائے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے کلام کو آواز اور حرف کے واسطہ سے سنا تو پھر خصوصیت کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کے کلام کو فرشتہ یا کتاب کی وساطت کے بغیر سنا ‘ اور اگر یہ کہا جائے کہ انہوں نے یہ کلام اللہ تعالیٰ کی تجلی کے بعد سنا ‘ تو پھر حضرت موسیٰ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ تجلی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے علاوہ اور کسی نبی کے لیے واقع نہیں ہوئی۔ باقی رہا یہ کہ پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ کیسے علم ہوا کہ یہ اللہ کا کلام ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں علم بدیہی پیدا کردیا تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے یا ان کو معجزہ سے معلوم ہوگیا تھا کہ یہ اللہ کا کلام ہے اور معجزہ یہ تھا کہ انہوں نے ایک ہرے بھرے درخت سے آگ نکلتی دیکھی اور یہ امر خلاف عادت ہے اور اسی درخت سے بغیر کسی بولنے والے کے آواز آرہی تھی اور یہ بھی امر خلاف عادت اور معجزہ ہے۔ (روح المعانی جز ٠٢ ص ١١١‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ٨١٤١ ھ)

ہر چند کہ ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اللہ تعالیٰ کے کلام ازلی کو بغیر حرف اور آواز کے سنا ہے اور فرشتہ اور کتاب کے واسطے بغیر بھی سنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی تھلی میں بھی سنا ہے ‘ اس کے باوجود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو خصوصیت کے ساتھ کلیم اللہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس دنیا میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا ظہور ہمارے نبی سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے ہوا ہے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کا کلام آپ سے پہلے سنا ہے۔ تاہم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا کلیم اللہ ہونا اور ان کے باقی تمام کمالات ان کو ہمارے نبی سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وسیلہ ہی حاصل ہوئے ہیں۔

امام ابوالحسن علی بن احمد الواحدی المتوفی ٨٦٤ ھ ‘ اور امام ابومحمد الحسین بن مسعود البغوی المتوفی ٦١٥ ھ لکھتے ہیں :

بعض روایات میں ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب سے کلام کرلیا تو کوئی شخص ان کی طرف دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا ‘ کیونکہ ان کے چہرے کو نور نے ڈھانپ رکھا تھا ‘ اس لیے انہوں نے زندگی بھر اپنے چہرے پر نقاب ڈالے رکھی ‘ ایک دن ان کی زوجہ نے کہا جب سے آپ نے اپنے رب سے کلام کیا ہے میں نے آپ کا چہرہ نہیں دیکھا ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے چہرے سے نقاب ہٹائی تو ان کے چہرے سے سورج کی طرح شعاعین نکل رہی تھیں ‘ انہوں نے فوراً اپنے چہرے پر اپنے ہاتھ رکھ لیے اور اللہ کے لیے سجدہ میں گرگئیں اور کہا آپ اللہ سے دعا کریں کہ اللہ مجھے جنت میں بھی آپ کی زوجہ بنائے ‘ آپ نے فرمایا یہ تم کو حاصل ہوجائے گا بہ شرطی کہ تم میرے بعد کسی اور سے نکاح نہ کرو ‘ کیونکہ جنت میں عورت اپنے آخری شوہر کے پاس رہتی ہے۔ (الوسیط ج ٢ ص ٥٠٤‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ٥١٤١ ھ ‘ معالم التنز یل ج ٢ ص ٢٣٢۔ ١٣٢‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ٠٢٤١ ھ)

علامہ علی بن محمد خازن متوفی ٥٢٧ ھ ‘ علامہ اسماعیل حقی متوفی ٧٣١١ ھ ‘ علامہ سلیمان جمل متوفی ٤٠٢١ ھ اور علامہ احمد بن محمد صادی مالکی متوفی ٣٢٢١ ھ نے بھی روایت کا ذکر کیا ہے نیز علامہ سیوطی نے بھی اختصار کے ساتھ اس روایت کا ذکر کیا ہے۔ (تفسیر الخازن ج ٢ ص ٨٣١‘ روح البیان ج ٣ ص ٦٠٣‘ حاشیۃ الجمل علی الجلالین ج ٢ ص ٩٨١‘ حاشیۃ الصادی ج ٢ ص ٨٠٧‘ الدرالمنثورج ٣ ص ٢٩٤)

حافظ ابن عساکر متوفی ١٧٥ ھ عبدالراحمان بن معاویہ ابولحدیث سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے چہرے پر رب العٰلمین کے نور کی چالیس دن تک یہ کیفیت تھی کہ جو بھی آپ کی طرف دیکھتا تھا وہ مرجاتا تھا۔ (تاریخ دمشق الکبیرج ٤٦ ص ٢٤‘ ١٤‘ داراحیاء التراث العربی بیروت)

وہب بن منبہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کے بعد تین دن تک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے چہرے پر نور نظر آتا رہا اور جب سے آپ نے اپنے رب سے کلام کیا تھا ‘ آپ نے اپنی بیوی کو ہاتھ نہیں لگایا۔ (تاریخ دمشق الکبیرج ٤٦ ص ٧٨‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٢٤١ ھ)

شبِ معراج ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونا 

علامہ قرطبی نے ذکر کیا ہے کہ اس میں اختلاف ہے کہ شبِ معراج اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کلام کیا ہے یا نہیں ؟ میں کہتا ہوں کہ جو احادیث صحیحہ تواتر کے درجہ کو پہنچی ہوئی ہیں ان میں یہ تصریح ہے کہ …….

پھر نبی سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ساتویں آسمان سے اوپر وہاں تک گئے جس کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے ‘ حتیٰ کہا آپ سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے اور الجبار رب العزۃ آپ کے قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوا پھر آپ اپنے رب سے دو کمانوں کی مقدار قریب ہوئے بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب ہوئے ‘ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف جو وحی کی اس میں یہ وحی کی کہ آپ کی امت پر ہر دن اور رات میں پچاس نمازیں فرض ہیں ‘ پھر آپ نیچے اتر کر حضرت موسیٰ کے پاس پہنچے۔ حضرت موسیٰ نے آپ کو روک کر پوچھا کہ آپ کے رب نے آپ سے کیا عہد لیا ہے ؟ آپ نے فرمایا میرے رب نے مجھ سے دن اور راب میں پچاس نمازوں کا عہد لیا ہے ‘ حضرت موسیٰ نے کہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی واپس جائیے اور اپنی اور اپنی امت کی طرف سے کمی کی درخواست کیجیے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جبریل کی طرف دیکھا گویا ان سے مشورہ طلب کر رہے ہیں ‘ حضرت جبریل نے اشارہ کیا ہاں اگر آپ چاہتے ہیں تو جائیں ‘ آپ پھر الجبار کی طرف گئے اور اپنے مقام پر کھڑے ہو کر عرض کیا ‘ اے رب ! ہم سے کچھ کمی کیجیے۔ کیونکہ میری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی ‘ اللہ تعالیٰ نے دس نمازیں کم کردیں ‘ آپ پھر حضرت موسیٰ کی طرف لوٹے انہوں نے پھر آپ کو روک لیا ‘ پھر حضرت موسیٰ آپ کو آپ کے رب کی طرف بھیجتے رہے ‘ حتٰی کہ پانچ نمازیں رہ گئیں۔ حضرت موسیٰ نے پانچ نمازوں پر آپ کو پھر روک لیا ‘ اور کہا اے محمد ! میں اپنی قوم بنی اسرائیل کا اس سے کم پر تجربہ کرچکا ہوں وہ ان نمازوں کو پڑھنے سے کمزور پڑگئے اور ان کو ترک دیا ‘ آپ کی امت تو ان کے جسموں ‘ ان کے دلوں ‘ ان کے بدنوں ‘ ان کی آنکھوں اور ان کے کانوں سے زیادہ کمزور ہے ‘ آپ واپس جائیے اور اپنے رب سے اس میں بھی کمی کرائیے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بار جبریل کی طرف متوجہ ہو کر مشورہ لیتے تھے اور جبریل اس کو ناپسند نہیں کرتے تھے ‘ وہ آپ کو پانچویں بار بھی لے گئے۔ آپ نے عرض کیا اے میرے رب ! میری امت کے اجسام ‘ ان کے قلوب ‘ ان کے کان اور ان کے بدن کمزور ہیں سو ہم سے کچھ کمی کیجیے الجبار نے کہا : یا محمد ! آپ نے عرض کیا لبیک وسعد یک ‘ فرمایا میرے قول میں تبدیلی نہیں ہوتی ‘ میں نے آپ پر جس طرح لوح محفوظ میں فرض کیا ہے ‘ سو ہر نیکی کا اجر دس گنا ہوگا پس لوح محفوظ میں یہ پچاس نمازیں ہیں اور آپ پر پانچ نمازیں ہیں ‘ پھر آپ حضرت موسیٰ کے پاس آئے انہوں نے پوچھا کیا ہوا ؟ آپ نے فرمایا ہم سے تخفیف کردی گئی اور ہم کو ہر نیکی کا اجر دس گنا دیا۔ حضرت موسیٰ نے کہا میں اس سے کم پر بنی اسرائیل کا تجربہ کرچکا ہوں انہوں نے ان نمازوں ترک کردیا تھا ‘ آپ واپس جائیے اور اپنے رب سے کم کرائیے ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے موسیٰ ! اللہ کی قسم ! اب مجھے بار بار اپنے رب کے پاس جانے سے حیا آتی ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧١٥٧‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦١ سنن النسائی رقم الحدیث : ٩٤٤‘ ٨٤٤‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٩٩٣١‘ مسند احمد ض ٣ ص ٩٤١۔ ٨٤١‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٤٤٤٢١‘ دارالحدیث قاہرہ : ٦١٤١ ھ ‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٣٣٥٢١‘ عالم الکتب بیروت ‘ ٩١٤١ ح الفتح الربانی ج ٠٢ ص ١٥٢۔ ٨٤٢‘ داراحیاء التراث العربی بیروت)

حضرت موسیٰ کے اللہ سے ہم کلام ہونے کی بناء پر ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اللہ سے ہم کلام ہونے کا انکار۔

اس حدیث کی شرح میں علامہ علی بن خلف بن عندالمالک ابن بطال اندلسی متوفی ٩٤٤ ھ لکھتے ہیں :

شفاعت کی طویل حدیث میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ قول مذکور ہے لیکن تم لوگ حضرت موسیٰ کے پاس جاؤ وہ ایسے بندے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے تورات عطا کی اور ان سے کلام فرمایا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٠١٥٧) اور اس میں یہ دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) میں سے صرف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام فرمایا ‘ اس کے برخلاف اشاعرہ نے حضرت ابن عباس اور حضرت ابن مسعود (رض) سے یہ روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی کلام فرمایا ہے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

فاوحی الی عبدہ ما اوحی ط۔ (النجم : ٠١) سو وحی فرمائی اپنے عبدمکرم کی طرف جو وحی فرمائی۔ 

حضرت عائشہ (رض) نے اس استدلال کو رد کردیا ہے اور کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ پر بہتان ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

یموسی انی اصطفیتک علی الناس برسلتی وبکلامی۔ ( الاعراف : ٤٤١) اے موسیٰ ! میں نے اپنی رسالت ( اپنے پیغام) اور اپنے کلام سے تم کو لوگوں پر فضیلت دی ہے۔

اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ و تعالیٰ نے اپنے کلام سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تمام انسانوں پر فضیلت دی ہے۔ (شرح صحیح البخاری لا بن بطال ج ٠١ ص ٠١٥۔ ٩٠٥‘ مطبوعہ مکتبۃ الرشید ریاض ‘ ٠٢٤١ ھ)

حضرت اُم المومنین سیدہ عائشہ (رض) کے انکار کی بحث عنقریب قاضی عیاض اور علامہ نودی وغیر ہم کی عبارات میں آرہی ہے ‘ اور علامہ ابن بطال کا الاعراف : ٤٤١ سے یہ استدلال کرنا صحیح نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام کرکے ان کو تمام انسانوں پر فضیلت دی۔

انکار مذکور کے رد پر دلائل 

قاضی عبداللہ بن عمر بیضاوی شافعی متوفی ٥٨٦ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

میں نے اپنی رسالت اور اپنے کلام سے آپ کو ان لوگوں پر فضیلت دی ہے جو آپ کے زمانہ میں موجود ہیں اور ہارون ہرچند کہ نبی ہیں لیکن ان کو آپ کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے اور ان سے کلام نہیں کیا گیا اور نہ وہ صاحب شرع ہیں۔ (تفسیر البیضدی مع عنایۃ القاضی ج ٤ ص ٧٦٣‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ٧١٤١ ھ)

علامہ شہاب الدین خفاجی حنفی متوفی ٩٦٠١ ھ اس عبارت کی شرح میں لکھتے ہیں :

قاضی بیضادی نے جو یہ کہا ہے کہ حضرت موسیٰ کو ان کے زمانہ کے لوگوں پر کلام کی وجہ سے فضیلت دی ہے ‘ یہ اس لیے کہا ہے کہ رسالت اور بلاواسطہ ہم کلام ہونے کی فضیلت تو ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں بھی متحقق ہے سو اگر یہ قید نہ لگائی جائے تو لازم آئے گا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی افضل ہوں حالانکہ آپ ہی افضل علی الاطلاق ہیں۔ (عنایۃ القاضی ج ٤ ص ٧٦٣‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ٧١٤١ ھ)

علامہ علی بن محمد خازن شافعی متوفی ٥٢٧ ھ لکھتے ہیں :

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تمام انسانوں پر فضیلت دی ہے کیونکہ ان کو رسالت کے لیے بھی چن لیا ہے اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی رسالت کے لیے چن لیا ہے۔ امام رازی نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ حضرت موسیٰ کی تمام انسانوں پر فضیلت ہے کہ ان کو رسالت کے لیے چن لیا ہے اور ان کو بلاواسطہ اپنا کلام سنایا ہے۔ حضرت موسیٰ کے سوا اور کسی انسان میں یہ دونوں چیزیں جمع نہیں ہیں۔ (تفسیر کبیرج ٥ ص ٩٥٣‘ داراحیاء التراث العرابی بیروت ‘ ٥١٤١ ھ)

امام رازی کا یہ جواب صحیح نہیں ہے کیونکہ سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے رسالت کے لیے چن لیا ہے اور شبِ معراج آپ سے بلاواسطہ کلام بھی فرمایا ہے اور آپ پر اور آپ کی امت پر نمازوں کو فرض فرمایا اور یا محمد کہہ کر آپ سے خطاب فرمایا ‘ اور اسکی دلیل یہ آیت ہے :

فاوحی الی عبدہ ما اوحی۔ (النحم : ٠١) پس اللہ نے اپنے عبدمکرم کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائی۔

اور آپ کو اس بلند مقام تک لے گیا جہاں آپ نے قلموں کے چلنے کی آواز سنی اور یہ چیزیں اس پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور دیگر انبیاء (علیہم السلام) پر بہت زیادہ شرف اور فضیلت عطا فرمائی ہے ‘ اس لیے اصل سوال کا صرف یہ جواب صحیح ہے کہ ‘ یموسی انی اصطفیتک علی الناس برسلتی وبکلامی۔ ( الاعراف : ٤٤١) کا معنی یہ ہے کہ اے موسیٰ ! میں نے تم کو اپنی پیغمبری سے اور اپنی ہم کلامی سے تمہارے زمانہ کے تمام لوگوں پر فضیلت دی ہے ‘ کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں ان سے زیادہ بلند منصب والا اور ان سے زیادہ اشرف اور افضل اور کوئی انسان نہیں تھا ‘ وہ صاحب شریعت ظاہرہ تھے اور ان کو تورات عطا کی ‘ اور یہ اس کی دلیل ہے کہ ان کو ان کے زمانہ کے تمام لوگوں پر فضیلت دی ہے جس طرح ان کی قوم کو ان کے زمانہ کے تمام لوگوں پر فضیلت دی اور فرمایا : یبنی اسراء یل اذکرو انعمتی التی انعمت علیکم وانی فضلتکم علی العلمین۔ (البقرۃ : ٧٤١) اے نبی اسرائیل میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام کی اور میں نے تم کو (تمہارے زمانہ کے) تمام لوگوں پر فضیلت دی۔ (تفسیر خازن ج ٢ ص ٨٣١‘ مطبوعہ دارالکتب العربیہ پشاور)

علامہ ابوالبرکات احمد بن محمد حنفی متوفی ٠١٧ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

اے موسیٰ ! میں نے تم کو تمہارے زمانہ کے لوگوں پر اپنی رسالت سے تم کو تورات دے کر اور تم سے کلام کرکے فضیلت دی ہے۔ (مدارک التنزل علی ھامش الخازن ج ٢ ص ٧٣١‘ دارالکتب العربیہ پشاور)

علامہ ابوالحیان محمد بن یوسف اندلسی متوفی ٤٥٧ ھ لکھتے ہیں :

ہرچند کہ اس آیت میں علی الناس ( تمام لوگوں پر) لفظ عام ہے لیکن اس کا معنی خصوص ہے یعنی میں نے تم کو اپنی رسالت اور اپنے کلام سے تمہارے زمانہ کے لوگوں پر فضیلت دی ہے ‘ کیونکہ ان سے پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم سے جنت میں کلام فرمایا اور ان کے بعد شبِ معراج ہمارے نبی سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کلام فرمایا۔ (البحرالمحیط ج ٥ ص ٩٦١‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ٢١٤١ ھ)

علامہ ابوالسعود محمد بن محمد مصطفیٰ حنفی متوفی ٢٨٩ ھ لکھتے ہیں :

اس آیت کا معنی ہے میں نے آپ کو آپ کے معاصرین پر اپنی رسالت اور اپنے کلام سے فضیلت دی ہے کیونکہ ہرچند کہ حضرت ہارون نبی تھے ‘ لیکن ان کو آپ کی اتباع کا حکم دیا گیا تھا اور ان سے کلام نہیں فرمایا تھا اور نہ وہ صاحب شرع تھے۔ (تفسیر ابوالسعودج ٣ ص ٧٤‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ٩١٤١ ھ)

علامہ جلال الدین سیوطی متوفی ١١٩ ھ ‘ علامہ اسماعیل حقی متوفی ٧٣١١ ھ ‘ علامہ سیلمان جمل متوفی ٤٠٢١ ھ ‘ علامہ صادی مالکی متوفی ٣٢٢١ ھ ‘ علامہ محمد بن علی محمد شوکانی متوفی ٠٥٢١ ھ ‘ علامہ سید محمود آلوسی متوفی ٠٧٢١ ھ ‘ سب نے یہی لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ کو ان کے زمانہ کے لوگوں پر یا ان کے معاصرین پر اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت اور اپنے کلام سے فضیلت دی ہے۔ (تفسیر الجلالین ص ٨٦١‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ روح البیان ٣ ص ٦٠٣‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٢٤١ ھ ‘ حاشیۃ الجمل علی الجلالین ج ٢ ص ٨٨١‘ قدیمی کتب خانہ کراچی ‘ حاشیۃ الصادی علی الجلالین ج ٢ ص ٨٠٧‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٢٤١ ھ جتح القدیر ج ٢ ص ٦٤٣‘ دارالوفاء بیروت ‘ ٨١٤١ ھ ‘ روح المعانی جز ٩ ص ٢٨‘ دارالفکر بیروت ‘ ٧ ا ٤١ ھ)

حافظ عمر بن اسماعیل بن کثیر متوفی ٤٧٧ ھ لکھتے ہیں :

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو خطاب کرکے فرمایا کہ اس نے ان کو ان کے زمانہ کے لوگوں پر اپنی رشالت اور اپنے کام سے فضیلت دی ہے ‘ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اولاد آدم اور تمام اولین اور آخرین کے سردار ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس مرتبہ کے ساتھ مختص کیا کہ آپ کو خاتم الانیباء والمرسلین بنایا اور قیامت تک آپ کی شریعت کو باقی رکھا اور آپ کے پیروکار تمام انبیاء اور رسولوں کے پیروکاروں سے زیادہ ہیں اور آپ کے بعد شرف اور فضیلت میں حضرت ابراہیم الخلیل (علیہ السلام) ہیں پھر حضرت موسیٰ بن عمران کلیم الرحمان (علیہ السلام) ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٢ ص ٨٧٢‘ دارالفکر بیروت ‘ ٩١٤١ ھ)

علامہ ابن بطال نے اس کا رد کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کلام کیا ہے ‘ اور اس پر الاعراف : ٤٤١ سے یہ دلیل قائم کی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ سے کلام کرکے ان کو تمام انسانوں پر فضیلت دی ہے اور ہم نے دلائل سے واضح کردیا ہے کہ حضرت موسیٰ سے کلام کرکے اللہ تعالیٰ نے ان کو صرف اپنے زمانے کے انسانوں پر فضیلت دی ہے نہ کہ تمام انسانوں پر ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی شبِ معراج کلام فرمایا ہے۔ اب ہم اس کے ثبوت میں مزید دلائل پیش کر رہے ہیں۔

ہمارے نبی سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے پر دلائل 

علامہ ابو الفضل عیاض بن موسی مالکی اندلسی لکھتے ہیں :

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس کی قائل تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج اللہ تعالی کو نہیں دیکھا اور اس پر انہوں نے اس آیت سے استدلال کیا: 

وماکان لبشر ان یکلمہ اللہ الا وحیا او من ورای حجاب اویرسل رسولا فیوحی باذنہ ما یشاء ط انہ علی حکیم۔ (الشوریٰ : ١٥) کسی بشر کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ بغیر وحی کے اللہ سے کلام کرے یا پردے کے اوٹ سے یا اللہ چاہے وہ وحی کرے ‘ بیشک اللہ بہت بلند ہے ‘ حکمت والا ہے۔

اور بعض مشائخ نے اسی آیت سے اس پر استدلال کیا ہے کہ ہمارے نبی سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کو بےحجاب دیکھا اور اس سے بلاواسطہ اور بلا کسی فرشتے کے واسطے کے کلام کیا ہے۔ انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونا تین قسم پر ہے۔

(١) پردے کی اوٹ سے جیسے حضرت موسیٰ نے کلام کیا۔

(٢) فرشتہ سے بذریعہ وحی جس طرح اکثر انبیاء (علیہم السلام) سے کلام کیا۔

(٣) بذریعہ وحی ‘ یعنی دل میں کوئی بات ڈال کر۔

اب کلام کرنے کی تین صورتوں میں سے صرف ایک صورت باقی بچی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ سے بالمشاہدہ کلام کیا جائے۔ (اکمال المعلم بفوائد مسلم ج ١ ص ١٣٥‘ مطبوعہ دارالوفاء بیروت ‘ ٩١٤١ ھ)

قاضی عیاض کی اس دلیل پر یہ اعتراض ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ سے ان تین صورتوں کے علاوہ کلام کرنے کی نفی کی گئی ہے اور قاضی عیاض نے جو صورت ذکر کی ہے ‘ وہ ان تین صورتوں کے علاوہ ہے ‘ اور اس کا یہ جواب ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کا یہ عام قاعدہ ہے اور ہمارے نبی سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ کی خصوصیت کی بناء پر بےحجاب کلام فرمایا۔

علامہ ابوالعباس احمد بن ابراہیم مالکی قرطبی متوفی ٦٥٦ ھ لکھتے ہیں :

اس میں اختلاف ہے کہ شبِ معراج نبی سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ سے بلا واسطہ کلام کیا ہے یا نہیں۔ حضرت ابن مسعود ‘ حضرت ابن عباس جعفر بن محمد ‘ ابوالحسن اشعری اور متکلمین کی ایک جماعت کا یہ مذہب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بلاواسطہ آپ سے کلام کیا ہے ‘ اور ایک جماعت نے اس کی نفی کی ہے۔ (المفہم ج ١ ص ٣٠٤‘ دارابن کثیر بیروت ‘ ٧١٤١ ھ)

علامہ یحییٰ بن شرف نوادی شافعی متوفی ٦٧٦ ھ لکھتے ہیں :

حضرت عائشہ (رض) نے الشوریٰ : ٥١ سے ثابت کیا ہے کہ شبِ معراج آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا ‘ اس کے حسب ذیل جوابات ہیں :

(١) دیکھنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ نے دیکھتے وقت کلام کیا ہو۔ پس ہوسکتا ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کے دیکھے بغیر کلام کیا ہو۔

(٢) یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کی صرف تین صورتیں ہیں ‘ پردے کی اوٹ سے ‘ فرشتے کے ذریعے اور وحی سے ہوسکتا ہے کہ عام مخصوص البعض ہو اور آپ اس قاعدہ سے مستثنیٰ ہوں۔

(٣) بعض علماء نے کہا ہے کہ وحی سے مراد اللہ تعالیٰ کا کلام بلاواسطہ ہے۔

( صحیح مسلم بشرح النوادی ج ١ ص ٤٨٩۔ ٣٨٩‘ مکتبہ نزارمصطفی بیروت ‘ ٧١٤١ ھ)

درخت سے آنے والی آواز کی مختلف عبارات اور مقصود کا واحد ہونا 

اس آیت میں فرمایا ہے :

انی انا اللہ رب العلمین۔ (القصص : ٠٣) بیشک میں ہی اللہ رب العالمین ہوں۔

اور طٰہٰ : ٤١ میں فرمایا :

انی انا اللہ لا الہ الا انا فا عبدنی بیشک میں ہی اللہ ہوں ‘ میرے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں سو تم میری عبادت کرو۔

اور النمل : ٩ میں فرمایا ہے :

انہ انا اللہ العزیزالحکیم۔ بیشک بات یہ ہے کہ میں ہی اللہ ہوں ‘ بہت غالب ‘ بہت حکمت والا۔

ہر چند کہ یہ مختلف عبارت ہیں لیکن ان سب سے مقصود ایک ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی توحید کو ثابت کرنا۔

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دو معجزے 

اور یہ ( بھی آواز آئی) کہ آپ اپنا عصا ڈال دیں ‘ پھر جب موسیٰ نے اس کو سانپ کی طرح لہراتے ہوئے دیکھا تو وہ پیٹھ پھیر کر چل دئیے ‘ اور واپس مڑ کر نہ دیکھا (ہم نے کہا) اے موسیٰ آگے بڑھیے اور خوف زدہ نہ ہوں ‘ بیشک آپ مامون رہنے والوں میں سے ہیں۔ (القصص : ١٣)

وہب بن منبہ نے کہا حضرت موسیٰ سے کہا گیا کہ آپ جہاں تھے ‘ وہیں لوٹ آئیں۔ حضرت موسیٰ واپس آئے اور اپنے جبہ کے پلو کو اپنے ہاتھ پر لپیٹ لیا ‘ فرشتہ نے کہا یہ بتائیے اگر اللہ تعالیٰ آپ کو نقصان پہنچانا چاہے تو کیا یہ کپڑا لپیٹنا آپ کو بچا سکتا ہے۔ حضرت موسیٰ نے کہا نہیں ! لیکن میں کمزور ہوں ‘ پھر انہوں نے اپنا ہاتھ کھول کر اس کو سانپ کے منہ میں ڈال دیا تو وہ پھر دوبارہ عصا بن گیا۔ (الجامع لا حکام القرآن جز ٣١ ص ٢٥٢‘ دارالکتاب العربی ‘ ٠٢٤١ ھ)

القرآن – سورۃ نمبر 28 القصص آیت نمبر 30