أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَاِذَا رَكِبُوۡا فِى الۡفُلۡكِ دَعَوُا اللّٰهَ مُخۡلِصِيۡنَ لَـهُ الدِّيۡنَ ۚ فَلَمَّا نَجّٰٮهُمۡ اِلَى الۡبَـرِّ اِذَا هُمۡ يُشۡرِكُوۡنَۙ ۞

ترجمہ:

سو جب وہ کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو وہ اخلاص کے ساتھ اللہ کو پکارتے ہیں ‘ پھر جب وہ انہیں (سمندر سے) بچا کر خشکی کی طرف لے آتا ہے تو وہ اسی وقت شرک کرنے لگتے ہیں

اخلاص کا معنی اور مومن اور کافر کے اخلاص کا فرق 

اس کے بعد فرمایا : سو جب وہ کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو وہ اخلاص کے ساتھ اللہ کو پکارتے ہیں ‘ پھر جب وہ انہیں سمندر سے بچا کر خشکی کی طرف لے آتا ہے تو وہ اسی وقت شرک کرنے لگتے ہیں (العنکبوت : ٦٥)

اخلاص کا معنی ہے دل کو اللہ کے ماسوا ہر چیز سے خالی کرلیا جائے اور اللہ کے سوا کسی چیز پر انسان کا اعتماد نہ ہو اور اس کے سوا اور کسی چیز کی طرف توجہ نہ ہو اور ذہن میں اس کے سوا اور کسی کا قصد نہ ہو ‘ اور انسان کا یہ اعتقاد ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی نفع اور ضرر پر قادر نہیں ہے ‘ اور جب انسان پر کوئی افتاد پڑے یا کوئی مصیبت آئے تو اس نجات کے لئے وہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی طرف نظر نہ کرے ‘ اور جب وہ اس کی عبادت کرے تو صرف اسی کے حکم پر عمل کرنا اس کا مقصود ہو اور اس کی رضا مندی کا حصول اس کا مطلب ہو تو وہ اپنی عبادت میں اور اپنی دعا میں اور اپنی فریاد اور پکار میں مخلص ہوگا۔

اب سوال یہ ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب کافر کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو وہ اخلاص کے ساتھ اللہ کو پکارتے ہیں جب کافر کا اللہ پر ایمان ہی نہیں ہے تو اس کے اخلاص کا کیسے وجود ہوگا ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں ان کے اخلاص سے مراد یہ ہے کہ جب ان کو کوئی حاجت پیش آتی ہے یا ان پر کوئی بلا نازل ہوتی ہے تو اس سے نجات کے لئی وہ گڑ گڑا کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں اور اللہ عزوجل کے سوا اور کسی سے نجات کی آس نہیں لگاتے اور یہ عزم مصمم کرتے ہیں کہ آئندہ وہ شرک نہیں کریں گے اور اللہ کے سوا اور کسی کی عبادت نہیں کریں گے ‘ پھر جب ان کی کشتی سمندروں اور دریائوں کے طوفان سے نجات پا کر ساحل پر آلگتی ہے تو ان پر پھر غفلت طاری ہوجاتی ہے ‘ اور وہ پھر شرک کرنے لگتے ہیں جیسا کہ اس آیت میں فرمایا ہے :

اور انسان کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اپنے رب کی طرف رجوع کرتا ہوا اس کو پکارتا ہے ‘ پھر جب اللہ اپنے پاس سے اس کو نعمت عطا فرما دیتا ہے تو وہ بھول جاتا ہے کہ وہ اس سے پہلے اس سے دعا کرتا تھا اور وہ اللہ تعالیٰ کے شریک بنا لیتا ہے تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستہ سے گم راہ کرے ‘ آپ کہیئے کہ تم اپنے کفر سے چند روز فائدہ اٹھا لو (انجام کار) تم یقیناً دوزخ والوں میں سے ہو گے (الزمر : ٨)

مومن کے اخلاص اور کافر کے اخلاص میں یہ فرق ہے کہ مومن کا اخلاص اللہ کی تائید سے موئد ہوتا ہے وہ مصائب کے نازل ہونے سے پہلے راحت کے ایام میں بھی اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے صرف اسی سے دعا کرتا ہے ‘ اور آخرت میں سے جنت کو طلب کرتا ہے ‘ سو مومن کا اخلاص سختی اور آرام میں مصیبت اور راحت میں مختلف نہیں ہوتا وہ ہرحال میں اسی کی طرح رجوع کرتا ہے اور اسی کو یاد کرتا ہے ‘ اور کافر کا اخلاص طبعی ہوتا ہے وہ صرف مصائب میں ‘ جب اس کو اور کوئی نجات کی صورت نظر نہیں آتی تو ہر طرف سے مایوس ہو کر صرف اسی کو پکارتا ہے اور اسی کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے اور جب اللہ اس کو اس مصیبت سے نجات دے دیتا ہے تو وہ اسی وقت اپنے شرک کی طرف لوٹ جاتا ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 29 العنكبوت آیت نمبر 65