أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَوَلَمۡ يَسِيۡرُوۡا فِى الۡاَرۡضِ فَيَنۡظُرُوۡا كَيۡفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ‌ؕ كَانُوۡۤا اَشَدَّ مِنۡهُمۡ قُوَّةً وَّاَثَارُوا الۡاَرۡضَ وَعَمَرُوۡهَاۤ اَكۡثَرَ مِمَّا عَمَرُوۡهَا وَجَآءَتۡهُمۡ رُسُلُهُمۡ بِالۡبَيِّنٰتِ‌ ؕ فَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيَظۡلِمَهُمۡ وَلٰـكِنۡ كَانُوۡۤا اَنۡفُسَهُمۡ يَظۡلِمُوۡنَ ۞

ترجمہ:

کیا انہوں نے زمین میں سفر نہیں کیا ‘ پس وہ اپنے سے پہلے لوگوں کا انجام دیکھ لیتے جو ان سے زیادہ قوت والے تھے اور انہوں نے زمین میں ہل چلایا اور اس کو آباد کیا ‘ اور انہوں نے زمین کو ان سے زیادہ آباد کیا تھا ‘ ان کے پاس رسول واضح دلائل لے کر آئے تھے ‘ تو اللہ کی یہ شان نہ تھی کہ ان پر ظلم کرتا لیکن وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے

انبیاء کا انکار کرنے والے کفر کے مرتکب ہوئے اور عذاب دوزخ کے مستحق ہوئے 

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کیا انہوں نے زمین میں سفر نہیں کیا ‘ پس وہ اپنے سے پہلے لوگوں کا انجام دیکھ لیتے جو ان سے زیادہ قوت والے تھے ‘ انہوں نے زمین میں ہل چلایا اور اس کو آباد کیا اور انہوں نے زمین کو ان سے زیادہ آباد کیا تھا ‘ ان کے پاس رسول واضح دلائل لے کر آئے تھے تو اللہ تعالیٰ کی یہ شان نہ تھی کہ ان پر ظلم کرتا لیکن وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے (الروم : ٩)

یعنی کیا اہل مکہ نے اپنی آنکھوں سے سفر کے دوران ان لوگوں کے آثار کو نہ دیکھا جو زمین میں ہل چلاتے تھے اور اہل مکہ سے زیادہ بلند عمارتیں بناتے تھے ‘ رسول ان کے پاس معجزات لے کر آئے اور احکام شرعیہ لے کر آئے انہوں نے ان رسولوں کو نہیں مانا اور ان کے احکام کا انکار کیا ‘ اور اللہ نے ایسا نہیں کیا کہ بغیر کسی رسول کو بھیجے اور بغیر دلائل قائم کیے اور ان کے کسی گناہ کے بغیر ان قوموں کو عذاب بھیج کر ہلاک کردیتا جس کو بہ ظاہر ظلم کہا جاتا (کیونکہ حقیقت میں اگر وہ اس طرح کرتا بھی تو یہ اس کا ظلم نہ ہوتا کیونکہ وہ ہر چیز کا مالک ہے اور سب اس کے مملوم ہیں) لیکن وہ لوگ شرک او نافرمانی کر کے خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔

القرآن – سورۃ نمبر 30 الروم آیت نمبر 9