أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَ لَوۡ شِئۡنَا لَاٰتَيۡنَا كُلَّ نَفۡسٍ هُدٰٮهَا وَلٰـكِنۡ حَقَّ الۡقَوۡلُ مِنِّىۡ لَاَمۡلَئَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الۡجِنَّةِ وَالنَّاسِ اَجۡمَعِيۡنَ‏ ۞

ترجمہ:

اور اگر ہم چاہتے تو ہر شخص کو ہدایت فرما دیتے ‘ لیکن میری طرف سے یہ بات برحق ہے کہ میں ضرور جہنم کو انسانوں اور جنات سے بھر دوں گا

تمام جنات اور انسانوں کو ہدایت یافتہ نہ بنانے کی توجیہ۔

اس کے بعد فرمایا : اور اگر ہم چاہتے تو ہر شخص کو ہدایت فرمادیتے لیکن میری طرف سے یہ بات برحق ہے کہ میں ضرور جہنم کو جنات اور انسانوں سے بھر دوں گا (السجدہ : ١٣)

اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اگر ہم ہر شخص کو جبراً ہدایت دینا چاہتے تو ہم ہر شخص کو نیک اور صالح بنادیتے ‘ اور دنیا میں کوئی شخص کافر اور فاسق نہ ہوتا ‘ لیکن ایسا کرنا ہماری حکمت کے خلاف تھا ‘ ہم نے جمادات ‘ نباتات ‘ حیوانات اور فرشتوں میں جبری اطاعت اور عبادت رکھی ہے ‘ اب ہم ایسی مخلوق بنانا چاہتے تھے جو اپنے اختیار اور ارادہ سے ہماری اطاعت اور عبادت کرے ‘ اس لیے ہم نے تمہیں اختیار اور ارادہ دیا ‘ اور دنیا میں ایمان اور کفر اور معصیت کی طرف بلانے کے لیے ابلیس اور اس کی ذریات کو پیدا کردیا اور انسان کو خیر اور شر کے دونوں راستے دکھا دیئے ‘ قرآن مجید میں ہے :

وھدینہ النجدین (البلد : ١٠) اور ہم نے انسان کو دونوں راستے دکھائیے۔

نیز فرمایا :

ونفس و ما سوھا فالھمھا فجورھا و تقوا ھا قد افلح من زکھا وقد خاب من دسھا (الشمس : ١٠۔ ٧)

نفس (انسان) اور اس کو درست بنانے کی قسم ! پھر نفس (انسان) کو بدی اور نیکی کی سمجھ عطا کردی جس نے نفس کو (گناہوں سے) پاک رکھا وہ کامیاب ہوگیا اور جس نے نفس کو گناہوں میں ملوث کردیا وہ ناکام ہوگیا 

سو جو شخص اپنے اختیار اور ارادہ سے نیکی کا راستہ منتخب کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے ن کی اعفال پیدا کر دے گا اور جو شخص اپنے اختیار اور ارادہ سے برائی کا راستہ منتخب کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے برے افعال پیدا کردے گا ‘ اور نیک افعال پر اس کو اچھی جزا ملے گی اور برے افعال پر اس کو سزا ملے گی۔

اور چونکہ اللہ تعالیٰ کو ازل میں علم تھا کہ زیادہ انسان اور زیادہ جنات کفر اور برے کاموں کو اختیار کریں گے اور اس کے نتیجہ میں جہنم انسانوں اور جنات سے بھر جائے گا اس لیے اس نے ازل میں ہی فرمادیا تھا میں ضرور جہنم کو جنات اور انسانوں سے بھر دوں گا۔ اور اللہ کا کلام واجب الصدق ہے اس کے خلاف ہونا محال ہے ‘ اس لیے انسانوں اور جنات کے زیادہ افراد کفر اور معصیت کو اختیار کریں گے اور ایسا اس وجہ سے نہیں ہوگا کہ ازل میں اللہ کا علم اس طرح تھا بلکہ ایسا اس لیے ہوگا کہ دنیا میں زیادہ افراد نے ایسا ہی کرنا تھا اس لیے اسی کے مطابق اللہ تعالیٰ کا علم تھا کیونکہ علم معلوم کے تابع ہوتا ہے معلوم علم کے تابع نہیں ہوتا۔

جنات اور انسانوں سے دوزخ کو بھرنے کے متعلق احادیث 

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن حضرت آدم کے سامنے تین چیزوں کے متعلق عذر پیش فرمائے گا (١) اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اے آدم ! اگر میں نے جھوٹوں پر لعنت نہ فرمائی ہوتی اور وعدہ خلافی اور جھوٹ سے بغض نہ رکھا ہوتا ‘ اور اس پر عذاب کی وعید نہ سنائی ہوتی تو آج میں تمہاری تمام اولاد پر اس عذاب کی شدت سے رحم فرما دیتا جو میں نے ان کے لیے تیار کر رکھا ہے لیکن میرا یہ قول برحق ہوچکا ہے کہ اگر میرے رسولوں کی تکذیب کی گئی اور میری نافرمانی کی گئی تو میں جنات اور انسانوں سے جہنم کو بھر دوں گا ‘(٢) اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے آدم ! یقین رکھو میں تمہاری اولاد میں سے کسی ایک کو بھی دوزخ میں داخل نہیں کروں گا اور نہ کسی ایک کو دوزخ کا عذاب دوں گا مگر اس شخص کو جس کے متعلق مجھے یہعلم ہو کہ اگر میں نے اس کو دنیا میں بھیج دیا تو وہ پہلے سے زیادہ برے حال کی طرف لوٹ جائے گا اور نہ رجوع کے گا اور نہ توبہ کرے گا ‘(٣) اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اے آدم ! میں نے تم کو اپنے اور تمہاری اولاد کے درمیان حکم بنادیا ہے ‘ تم میزان کے پاس کھڑے ہو جائو اور دیکھو ان کے اعمال سے کون سا پلڑا بلند ہوتا ہے ‘ اگر ان کی خیر ان کے شر کے اوپر ایک ذرہ کی مقدار بھی بھاری ہوگئی تو ان کے لیے جنت ہوگی حتی کہ تمہیں یقین ہوجائے گا کہ میں ان میں سے صرف ظالم شخص کو ہی دوزخ میں داخل کروں گا۔ (جمع الجوامع رقم الحدیث : ٢٨٦١١‘ کنزالعمال رقم الحدیث : ٣٩٥٥٨‘ اتحاف السادۃ المتقین ج ١٠ ص ٥٥٩‘ المعجم الصغیر رقم الحدیث : ٨٥٥‘ مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٨٣٧٨‘ کنزالعمال رقم الحدیث : ٣٩٥٥٨‘ اتحاف السادۃ المتقین ج ١٠ ص ٥٥٩‘ المعجم الصغیر رقم الحدیث : ٨٥٥‘ مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٨٣٧٨‘ اس حدیث کی سند میں الفضل بن عیسیٰ الرقاشی کذاب ہے (الھیشمی)

اللہ تعالیٰ جس طرح جنت کو کمزوروں سے بھر دے گا اسی طرح دوزخ کو جبابرہ سے بھر دے گا ‘ حدیث میں ہے :

حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جنت اور دوزخ نے ایک دوسرے پر فخر کیا ‘ دوزخ نے کہا اے میرے رب ! میرے اندر جبا برہ ‘ متکبرین ‘ بادشاہ اور سردار داخل ہوں گے ‘ اور جنت نے کہا میرے اندر کمزور ‘ فقراء اور مساکین داخل ہوں گے ‘ تب اللہ تعالیٰ دوزخ سے فرمائے گا : تم میرا عذاب ہو میں جس کو چاہوں گا تم سے عذاب دوں گا ‘ اور جنت سے فرمائے گا : تم میری رحمت ہو اور میری رحمت اور میری رحمت ہر چیز پر محیط ہے ‘ اور تم میں سے ہر ایک کے لیے پر ہونا اور بھرنا ہے ‘ پھر دوزخ میں دوزخ کے لائق لوگ ڈال دیئے جائیں گے ‘ پھر دوزخ کہے گی کیا کچھ اور بھی ہیں ؟ اس میں اور لوگ ڈال دیئے جائیں گے وہ پھر کہے گی کیا کچھ اور بھی ہیں ؟ حتی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ آکر اس میں اپنا قدم داخل کردے گا تو پھر دوزخ کہے گی بس ! بس ! اور دوزخ کا بعض حصہ بعض سے مل جائے گا اور رہی جنت تو اس میں اتنی جگہ باقی رہ جائے گی جتنی اللہ تعالیٰ چاہے گا ‘ پھر اس کے لیے اللہ تعالیٰ جتنی مخلوق چاہے گا پیدا فرما دے گا۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٠ ٤٨٥‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٨٤٦‘ مسند احمد ج ٣ ص ١٣)

دوزخ میں اللہ کے قدم ڈالنے کی توجیہ 

علامہ بدر الدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی ٨٥٥ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

اس حدیث میں یہ ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ دوزخ میں اپنا قدم رکھ دے گا ‘ اللہ تعالیٰ کے قدم کے سلسلہ میں علماء کے دو مذہب ہیں :

(١) جمہور متقدمین اور متکلمین کی ایک جماعت کا مذہب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قدم ہے اور مخلوق میں اس کی کوئی مثال نہیں ہے ‘ ہمارا اس کے قدم ہونے پر ایمان ہے لیکن اس کی کیا کیفیت ہے اور اس سے مراد ہے اس کا اسی کو علم ہے۔

(٢) جمہور متکلمین نے ملحدین کے اعتراضات کو دور کرنے کے لیے قدم کے معنی میں تاویل کی ہے اور ان کی تاویلات حسب ذیل ہے :

(١) قدم سے مراد متقدم ہے یعنی جن کو اللہ تعالیٰ پہلے عذاب دے چکا تھا ان کو پھر دوزخ میں ڈال دے گا۔

(ب) اس سے مراد ہے مخلوق کا قدم ‘ یعنی کسی مخلوق کا قدمدوزخ میں ڈال دے گا۔

(ج) قدم نام کی کوئی مخلوق ہے اس کو اللہ تعالیٰ دوزخ میں ڈال دے گا۔

(د) قدم کسی جگہ کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ اس جگہ کو دوزخ میں ڈال دے گا۔

(ہ) قدم سے مراد وہ ہیں جو کفر اور عناد میں مقدم اور پیش رو ہیں۔

(و) قدم رکھنا ڈانٹ ڈپٹ اور توہین سے کنایہ ہے ‘ جیسے کہتے ہیں فلاں چیز میرے قدموں کے نیچے ہے یا فلاں چیز کو میں نے اپنے قدموں تلے روند ڈالا۔ ( یہ توجیہ سب سے عمدہ ہے)

(ز) قدم اسنن کے اعضاء میں آخری عضو ہے ‘ سو اس سے مراد ہے اہل عذاب میں سے آخری لوگوں کو دوزخ میں ڈال دیا۔

نیز اس حدیث میں ہے کہ جب جنت میں جگہ بچی ہوگی تو اللہ تعالیٰ اس جگہ کو بھرنے کے لیے ایک نئی مخلوق کو پیدا کر دے گا ‘ اور اس مخلوق کو جنت کی فاضل جگہ میں رکھے گا ‘ اس میں یہ دلیل ہے کہ ثواب اور جنت کا ملنا ‘ اعمال پر موقوف نہیں ہے ‘ کیونکہ وہ لوگ اسی وقت پیدا کیے جائیں گے اور جنت میں داخل کردیئے جائیں گے اور ان کو بغیر کسی عمل کے جنت دی جائے گی اور ان کو محض اللہ عزوجل کی رحم اور اس کے فضل سے جنت دی جائے گی ‘ اسی طرح نابالغ بچوں اور مجنونوں کو بغیر کسی عمل کے جنت میں داخل کیا جائے گا ‘ اور اس حدیث میں یہ دلیل بھی ہے کہ جنت دی جائے گی ‘ اسی طرح نابالغ بچوں اور مجنونوں کو بغیر کسی عمل کے جنت میں داخل کیا جائے گا ‘ اور اس حدیث میں یہ دلیل بھی ہے کہ جنت بہت وسیع ہے ‘ کیونکہ ایک شخص کو جنت میں دنیا کی دس گناجگہ دی جائے گی پھر بھی جنت میں جگہ باقی ہوگی تو اس کے لیے اور مخلوق پیدا کی جائے گی۔(عمدۃ القاری ج ١٩ ص ٢٦٩‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)

حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی شافعی متوفی ٨٥٢ ھ نے بھی مختلف شارحین سے قدم کی توجیہ میں مذکم الصدر اقوال نقل کیے ہیں ‘ نیز انہوں نے ایک یہ جواب بھی لکھا ہے کہ حضرت ابو موسیٰ (رض) روایت کرتے ہیں کہ ہر مسلمان کو یہود اور نصاریٰ میں سے ایک شخص دیا جائے اور اس سے کہا جائے گا یہ تمہارا دوزخ سے فدیہ ہے ‘ اور علماء نے کہا ہے کہ اس سے مراد وہی قدم ہے جس کو اللہ تعالیٰ دوزخ میں ڈال دے گا ‘ ایک توجیہ یہ بھی کی گئی ہے کہ اس سے مراد ابلیس کا قدم ہے۔ کیونکہ بعض روایات میں میں ہے کہ پھر جبار اس میں اپنا قدم ڈال دے گا ‘ اور ابلیس جبار اور متکبر ہے۔ لیکن یہ بعید تو جیہ ہے۔ (فتح الباری ج ٩ ص ٥٧٤‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ٠ ١٤٢ ھ)

اللہ کے قدم ڈالنے کی زیادہ تفسیر انشاء اللہ ہم سورة ق : ٣٠ میں بیان کریں گے۔

القرآن – سورۃ نمبر 32 السجدة آیت نمبر 13